find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Deeni Mashail. Show all posts
Showing posts with label Deeni Mashail. Show all posts

Mani Aur Maji kya hai? Mani ya Maji khariz ho jane se Ghusal wazib hai ya nahi? Napaki aur Ghusl ke Masail.

Mard ya Aurat Napak Kaise Ho jate hai?

Mani aur Maji me fark kya hai?
Inke khariz hone se Jism aur Kapdo ki taharat ka kya hukm hai?
Kya mani khariz Hone se Sirf Ghusal karna hoga ya kapde bhi tabdil karna jaruri hai?
Kya Maji khariz hone se bhi Ghusal farj hota hai?

#NAPAKI KE masail, #ghusl ki dua, #ghusl ki dua after sex, #ghusl ki dua after periods, #how to perform ghusl, #ghusl ki duwa in english, #ghusl steps, #ghusl ke faraiz, #how to do ghusl after period, #ghusl janabat ki dua, #ghusl after sex for female dua, #ghusl after periods in islam, #ghusl after delivery,
Mani aur Maji kya hai? Mani nikalne se kya Napak Ho jayenge?

“سلسلہ سوال و جواب -37″
سوال_منی، اور مذی میں کیا فرق ہے؟
انکے خارج ہونے سے جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟ کیا منی خارج ہونے سے صرف غسل کرنا پڑے گا یا کپڑے بھی تبدیل کرنا ضروری ہیں؟نیز کیا مذی خارج ہونے سے بھی غسل فرض ہو جاتا ہے..؟

جواب۔۔!!

الحمدللہ۔۔

تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں، کیونکہ ہمارے ہاں پاکیزگی اور طہارت بہت اہمیت کی حامل ہے، جب تک ہم ٹھیک سے طہارت نہیں حاصل کر لیتے ہماری عبادات بھی درست نہیں ہوتیں، چونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے ہم اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے  مختلف سوالوں کی شکل دیتے ہیں، جو اکثر اوقات مرد و خواتین شرم کی وجہ سے کسی سے پوچھ نہیں پاتے.

#سوال_1
منی اور مذی کسے کہتے ہیں۔۔؟

جواب_

منی
وہ گھاڑھا مادہ جو میاں بیوی کے جماع کے دوران یا احتلام کے وقت مرد و خواتین کی شرمگاہ سے نکلتا ہے، اسے منی کہتے ہیں،

مذی
وہ پتلا لیس دار مادہ جو میاں بیوی کے بوس و کنار کے وقت یا رومانوی قصے کہانیاں اور جنسی ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے مرد و خواتین کی شرمگاہ  سے نکلتا ہے،
اسے مذی کہتے ہیں،
_______&&&&&________

#سوال_2
ہمیں کس طرح پتا چلے گا کہ خارج ہونے والی چیز منی ہے۔۔۔۔؟ اور مرد و خواتین کی منی کی علامات کیا ہیں۔۔؟؟

جواب_
مرد كا مادہ منويہ گاڑھا اور سفيد ہوتا ہے، ليكن عورت كى منى پتلى اور زرد رنگ كى ہوتى ہے.

اس كى دليل درج ذیل احادیث ہیں،

ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں وہی دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا اس پر بھی غسل فرض ہو جائے گا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب عورت ايسا خواب ميں ديكھے تو وہ غسل كرے ”
ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: ـ مجھے اس سے شرم آ گئى ـ اور ميں نے عرض كيا،
كيا ايسا ہوتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو پھر مشابہت كس طرح ہوتى ہے ؟ بلا شبہ مرد كا مادہ گاڑھا اور سفيد، اور عورت كا مادہ پتلا اور زرد ہوتا ہے، دونوں ميں سے جو بھى اوپر ہو جائے، يا سبقت لے جائے اس كى مشابہت ہو جاتى ہے ”
(ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ- ﻛﺘﺎﺏ اﻟﺤﻴﺾ – ﺑﺎﺏ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﻐﺴﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺑﺨﺮﻭﺝ اﻟﻤﻨﻲ ﻣﻨﻬﺎ، حدیث _311)
(سلسلہ احادیث الصحیحہ، حدیث _453)

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم:
” مرد كا مادہ منويہ گاڑھا سفيد ہوتا ہے، اور عورت كا پانى پتلا زرد ہوتا ہے ”
يہ منى كى صفت كے بيان ميں عظيم دليل ہے، تندرستى اور عام حالات ميں منى كى حالت اور صفت يہى ہے.

علماء كرام كا كہنا ہے: تندرستى اور صحت كى حالت ميں مرد كى منى گاڑھى سفيد ہوتى ہے اور اچھل اچھل كر خارج ہوتى ہے، اور اس كے خارج ہوتے وقت لذت آتى ہے، اور جب منى خارج ہو چكے تو خارج ہونے كے بعد فتور اور ٹھراؤ پيدا ہوتا اور اس كى بو تقريبا كھجور كے شگوفہ اور گوندھے ہوئے آٹے كى بو كى طرح ہوتى ہے…

( بعض اوقات كسى سبب كے باعث منى كى رنگت تبديل ہو جاتى ہے مثلا ) بيمار ہو تو اس كى پانى پتلى زرد ہو گى، يا پھر منى والى جگہ ميں استرخاء( يعنى ڈھيلا پن ) پيدا ہو جائے تو بغير لذت اور شہوت ہى خارج ہونا شروع ہو جاتى ہے، يا پھر جماع كثرت سے كيا جائے تو منى سرخ ہو كر گوشت كے پانى كى طرح ہو جاتى ہے، اور بعض اوقات تو تازہ خون ہى خارج ہوتا ہے…

*پھر منى  كے تين خواص ہيں جس سے منى با اعتماد شمار ہوتی ہيں یعنی یہ یقین کیا جاتا یے کہ یہ واقع ہی منی خارج ہوئی، ان علامتوں سے آپ منی کہ پہچان کر سکتے ہیں*

#پہلا خاصہ:
شہوت سے خارج ہونا، اور بعد ميں فتور یعنی ڈھیلا پن،سستی پيدا ہو جانا

#دوسرا خاصہ:
اس كى بو كھجور كے شگوفہ كى طرح ہوتى ہے جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے.

#تيسرا خاصہ:
اچھل كر خارج ہونا.

ان تين علامتوں ميں سے كسى ايک علامت كا پايا جانا منى ہونے كے ليے كافى ہے،
تينوں كا بيک وقت پايا جانا شرط نہيں،
اور اگر ان تينوں ميں سے كوئى بھى نہ ہو تو پھر وہ منى نہيں ہو گى، اور ظن غالب كا ہونا بھى منى كے ثبوت كے ليے كافى نہيں،
يہ سب باتیں  تو مرد كى منى كے متعلقہ تھیں،

رہا عورت كى منى كا مسئلہ تو وہ پتلى زرد ہوتى ہے.

اور بعض اوقات اس كى قوت و طاقت بڑھ جانے كى بنا پر سفيد بھى ہو جاتى ہے، اس كے دو خاصے ہيں، اگر ان ميں سے كوئى ايك بھى ہو تو وہ منى شمار ہو گى:

#پہلا:
اس كى بو مرد كى منى جيسى ہو گی (یعنی کجھور کے شگوفے یا گندھے آٹے کی بو جیسی ہو گی،)
#دوسرا:
خارج ہوتے وقت لذت آئے، اور بعد ميں فتور (ڈھیلا پن) پيدا ہو.

ديكھيں:
(شرح مسلم للنووى ( 3 ج/ 222 ص)

*یہ تو تھیں مرد و عورت کی منی کی علامات، کہ ان علامتوں سے ہم یہ پہچان سکتے ہیں کہ نکلنے والا مادہ  منی ہی تھا یا کچھ اور ؟

________&&&________________

#سوال_3
*اگر منی خارج ہو جائے تو پھر جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہو گا..؟

جواب_
اگر منی خارج ہو جائے، وہ خواب میں احتلام کی صورت میں خارج ہو یا بیوی سے ہمبستری کے ذریعے یا مشت زنی وغیرہ کے ذریعے کوئی خارج کرے تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا،

اسی طرح اگر احتلام کے بعد کپڑوں پر منی کی نشان نظر آئیں تو غسل فرض ہو گا ، اگرچہ اسے احتلام یاد نا بھی ہو،

لیکن اگر خواب میں احتلام دیکھا مگر کپڑوں پر منی کے نشانات نظر نہیں آئے تو پھر غسل واجب نہیں ہو گا،

جیسا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو (کپڑوں پر)  تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے،
آپ نے فرمایا: ”وہ غسل کرے“
اور اس شخص کے بارے میں ( پوچھا گیا ) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا: ”اس پر غسل نہیں“
ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!
کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے؟
آپ نے فرمایا: عورتیں بھی ( شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
(سنن ترمذی، حدیث _113) صحیح
(سنن ابو داؤد،حدیث _236)حسن

*اور کپڑوں پر جس جگہ منی لگی ہو اگر وہ خشک ہے تو اسکو کھرچ لینا کافی ہے، اگر گیلی ہے تو کپڑے کو اس جگہ سے دھو لینا کافی ہے،سارے کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں*

جیساکہ،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارے میں پوچھا گیا جو کپڑے کو لگ جائے۔
تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان ( یعنی کپڑے کو دھونے سے ) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔
(صحیح بخاری،حدیث _230)

اور ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ،
ام المؤمنین  عائشہ رضی الله عنہا کے ہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے ( اوڑھنے کے لیے ) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔
وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا،
ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا،
تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا:
اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟
اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، اگرچہ دھویا نہ جائے،
(سنن ترمذی،حدیث _116)
(سنن ابن ماجہ، حدیث _538)
(صحیح مسلم،کتاب الطہارہ، حدیث _288)

ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ،

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے كپڑوں سے اذخر كے تنكوں كے ساتھ (گیلی) منى كو پونچھ ديا كرتے تھے، اور پھر اسى لباس ميں نماز ادا كرتے، اور اپنے كپڑوں سے خشك منى كو كھرچ كے نماز ادا كرتے تھے ”
(مسند احمد، ج6/ص243)
(صحيح ابن خزيمہ،حدیث _288)
(علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے
ارواء الغليل ( 1 / 197 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے)

*ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منی لگے کپڑے کو تبدیل کرنا یا دھونا واجب نہیں، اگر خشک اور موٹی تہہ ہو تو خرچ کر صاف کر دے پھر اسی میں نماز پڑھ سکتا اور اگر گیلی ہو تو کسی چیز سے صاف کر دے یا کھرچنے کے قابل نا ہو تو پھر وہاں سے اتنا حصہ دھو لے جہاں منی لگی ہو ، اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے،اکثر مرد و خواتین صحبت یا احتلام کے بعد کپڑے تبدیل کرنا فرض سمجھتے ہیں ،جب کہ کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں،*

________________&&&&&____________

#سوال_4
*مذی کی پہچان کیا ہے؟*

جواب:
مذى سفيد رنگ كا ليس دار مادہ ہوتا ہے، جو میاں بیوی کے گلے لگنے ،یا بوس و کنار کرنے سے یا  جماع كى سوچ يا اردہ كے وقت خارج ہوتا ہے،
یا بعض اوقات رومانوی قصے کہانیاں پڑھنے اور فحش ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے خارج ہوتا ہے،
یہ اچھل کر خارج نہیں ہوتا ہے،اور نہ ہى نكلنے كے بعد فتور پيدا ہوتا ہے، يعنى جسم ڈھيلا نہيں پڑتا.
اور مرد و عورت دونوں سے ہى مذى خارج ہوتى ہے، ليكن مردوں كى بنسبت عورتوں ميں زيادہ یہ مسئلہ ہوتا ہے.۔.!
(ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 213 )

__________&&&__________

#سوال_5
*اگر مذی خارج ہو جائے تو جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟*

جواب_
مذى خارج ہونے سے شرمگاہ کو دھو کر صرف وضو ہى كرنا ہو گا، اس سے غسل فرض نہیں ہوتا،
اس كى دليل على رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے،

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ،
مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ) تھیں۔ اس لیے میں نے(شرم کی وجہ سے) ایک شخص ( مقداد بن اسود اپنے شاگرد ) سے کہا کہ وہ آپ ﷺ  سے اس مذی کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے پر شرمگاہ کو دھو لو اور وضو کرو،
(صحیح بخاری، حدیث _269)

*یعنی مذی خارج ہونے سے غسل کرنا واجب نہیں ، بلکہ صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے،*

ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ” المغنى ” ميں علماء كرام كا اجماع نقل كيا ہے كہ مذى خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.
(ديكھيں:
(المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 1 / 168 )

*يہاں ايک چيز پر متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ مذى نجس اور پليد ہے اس ليے بدن كو جہاں لگے اسے دھونا ہو گا،جیسا کہ اوپر والی حدیث میں یہ بات ذکر ہوئی، ليكن لباس كو جہاں لگے تو اسے پاک كرنے كے ليے شريعت مطہرہ نے مشقت دور كرتے ہوئے تخفيف كى ہے كہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ آپ ايک چلو پانى لے كر مذى لگنے والى جگہ پر چھڑک ديں تو وہ كپڑا پاک ہو جائيگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذى لگے ہوئے كپڑے كو پاک كرنے كى كيفيت بيان فرمائی ہے،*

سھل بن حنيف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
مجھے بہت زيادہ مذى آتى اور ميں كثرت سے غسل كيا كرتا تھا، چنانچہ ميں نے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كو اس سے وضوء كرنا كافى ہے ”
ميں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے لباس ميں جہاں لگى ہوئى ہو اسے كيا كروں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ چلو بھر پانى لے كر جہاں لگى ہو اس پر چھڑك دو ”
(سنن ترمذی،حدیث _115)
(سنن ابو داؤد،حدیث _210)
(سنن ابن ماجہ،حدیث _506)

تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
اس حدیث سے يہ ستدلال كيا جاتا ہے كہ اگر كپڑے كو مذى لگ جائے تو اس پر پانى چھڑكنا كافى ہے، اور دھونا واجب نہيں.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( ص1 / 373ج )

*اگر کوئی کپڑا بھی دھونا چاہے تو دھو لے اسکی مرضی ہے*

*اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن و حدیث کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

کیا مرد و خواتین کیلئے جنابت کی حالت میں غسل کے بنا سونا،کھانا پینا یا روزہ رکھنا جائز ہے؟ نیز کیا غسل جنابت سے پہلے عورت کھانا وغیرہ بنا سکتی اور بچے کو دودھ پلا سکتی؟
((دیکھیں سلسلہ -55))

کیا بے وضو، حائضہ اور جنبی کیلئے قرآن مجید کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ -94))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Auratein Qabristaan (Graveyard) Ja Sakti hai? Can Women's Visite Graveyard?

Kya Auratein Qabristaan me Ja sakti hai?

Sawal: kya Auratein Qabristaan (Graveyard) Ja sakti hai? Quran O Hadees ki Raushani me Jawab de.
Qabristan me Dakhil hone ki Dua.

Nek aur Bad Maiyyat jab Qabristan ke taraf jata hai to kya kahta hai?

Qabristan par Mela aur Urs Lagane ke bare me Islam ka hukm?

Hamara Ghar Kab Qabristan Ban jata hai?

Kya Auratein Qabristan Ja Sakti hai?

Qabristan jane se Mana Karne wale Hadees Ka Jayeza?

Kya Auraton ke Yaha aane jane se Fitna nahi hai, Masjid me Jane ka Hukm?

Masjid me Auraton ko rokne wale Nabi ki yah Hadees Jarur Sune.

Masjid aur Eidgaah me Auraton ke jane ke bare me Islam kya kahta hai?

Kya Aurat Ghar me Aeitkaaf ke liye Baith Sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-85"
سوال_کیا عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیں؟

Published Date:19-8-2018

جواب:
الحمدللہ:

*مسلمانوں کے ہاں عورتوں کے قبرستان جانے پر بڑی بحث ہوتی ہے کچھ لوگ تو اس کو حرام کہتے ہیں اور کچھ مکروہ، جب کے اگر ہم صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی طرف دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز ہے ,البتہ بکثرت جانا منع ہے*

*پہلے پہل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں سب کو قبرستان جانے سے منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اجازت دے دی،*

دلائل ملاحظہ فرمائیں:

 صحیح مسلم
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: نبی کریم ﷺ کا اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگنے کے بیان میں،
حدیث نمبر: 2260
انٹرنیشنل حدیث نمبر-977
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ وَابْنِ نُمَيْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي سِنَانٍ وَهُوَ ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا وَنَهَيْتُکُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَأَمْسِکُوا مَا بَدَا لَکُمْ وَنَهَيْتُکُمْ عَنْ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَائٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ کُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْکِرًا قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ
ترجمہ:
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن مثنی، محمد بن فضیل، ابوسنان، ضراربن مرہ، محارب بن دثار، ابن بریدہ، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں زیارت قبور منع کیا تھا ان کی زیارت کرو اور میں نے تمہیں قربانیوں کا گوشت تین دنوں سے زیادہ روکنے سے منع فرمایا تھا پس جب تک چاہو رکھ سکتے ہو میں نے تم کو مشکیزہ کے علاوہ دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا مگر اب تمام برتنوں سے پیو ہاں نشہ لانے والی چیزیں نہ پیا کرو۔

(مسند احمد،حدیث نمبر-22958)

سنن ابوداؤد
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: قبروں کی زیارت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3235
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، ‏‏‏‏‏‏فَزُورُوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً.
ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے ۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧)، والأضاحي ٥ (١٩٧٧)، والأشربة ٦ (١٩٩٩)، سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤)، الأضاحي ٣٦ (٤٤٤١)، الأشربة ٤٠ (٥٦٥٤، ٥٦٥٥، ٥٦٥٦، ٥٥٥٧)، (تحفة الأشراف: ٢٠٠١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح  )

سنن ابن ماجہ
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: زیارت قبور
حدیث نمبر: 1569
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمُ الْآخِرَةَ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لیے کہ یہ تم کو آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦)، سنن ابی داود/الجنائز ٨١ (٣٢٣٤)، سنن النسائی/الجنائز ١٠١ (٢٠٣٦)، (تحفة الأشراف: ١٣٤٣٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٧/٤٤١) (صحیح  )

*ان احادیث میں جو قبروں کی زیارت کی اجازت دی جا رہی ہے اس اجازت میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں*

سنن ابوداؤد
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: قبروں کی زیارت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3234
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيَسَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي تَعَالَى عَلَى أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَأْذَنْتُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَذِنَ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَزُورُوا الْقُبُورَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ بِالْمَوْتِ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں  رسول اللہ  ﷺ  اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رو پڑے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو  (بھی)  رلا دیا، پھر آپ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی مغفرت طلب کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی، تو تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے ۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦)، سنن النسائی/الجنائز ١٠١ (٢٠٣٦)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٨ (١٥٧٢)، (تحفة الأشراف: ١٣٤٣٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٤٤١) (صحیح  )

جامع ترمذی
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: قبروں کی زیارت کی اجازت

حدیث نمبر: 1054
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
ترجمہ:

بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے   ١ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
١- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، 
٢- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں،  ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔  

تخریج دارالدعوہ:  صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧) (بزیادة فی السیاق)  ( تحفة الأشراف: ١٩٣٢) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الأضاحی ٥ (٩٧٧) سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨) سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤) والأضاحی ٣٥ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥) مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧) من غیر ہذا الوجہ۔  

وضاحت:  ١ ؎: اس میں قبروں کی زیارت کا استحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اور تاکید ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانہ جاہلیت کے اثر سے وہاں کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں پھر جب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدہ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دے دی گئی بلکہ اس کی تاکید کی گئی تاکہ موت کا تصور انسان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچا بسا رہے۔  

قال الشيخ الألباني:
صحيح الأحكام (178 و 188)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1054

*اوپر ہم نے مرد و خواتین کے قبرستان جانے کی اجازت میں مشترک دلائل پیش کیے، اب ہم خواتین کیلئے قبرستان جانے کے خاص دلائل پیش کرتے ہیں*

پہلی دلیل

صحیح بخاری
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: باب: قبروں کی زیارت کرنا۔
حدیث نمبر: 1283
حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ إِلَيْكَ عَنِّي فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهَا:‏‏‏‏ إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَمْ أَعْرِفْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى.
ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ  ﷺ  کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم  ﷺ  تھے، تو اب وہ  (گھبرا کر)  نبی کریم  ﷺ  کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔  (معاف فرمائیے)  تو آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے  (اب کیا ہوتا ہے) ۔

اگر خواتین کیلے قبرستان جانا منع ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عورت کو صبر کرنے کے ساتھ ساتھ آئیندہ قبرستان جانے سے بھی منع کرتے، جبکہ آپ اس عورت کو زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا،

دوسری دلیل

 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قبرستان گئیں اور پھر واپس گھر آکر انہوں نے رسول اللہ ﷺسے قبرستان جا کر کرنے کی دعاء پوچھی تو آپ ﷺ نے انہیں یہ دعاء سکھائی:
السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُون
َ (صحيح مسلم : حدیث نمبر_974)

اگر خواتین کا قبرستان جانا منع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا انکو نا سکھلاتے بلکہ منع کر دیتے،

تیسری دلیل

عن عبدالله بن أبي مليكة:]
أنَّ عائشةَ رضي اللهُ عنها أقبلتْ ذاتَ يومٍ من المقابرِ، فقلتُ لها: يا أمَّ المؤمنينَ ! من أينَ أقبلتِ؟ قالت: من قبرِ أخي عبدِ الرحمنِ بنِ أبي بكرٍ، فقلتُ لها: أليسَ كان رسولُ اللهِ ﷺ نهى عن زيارةِ القبورِ؟ قالت: نعم، كان نهى ثم أَمَرَ بزيارتِها
عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے کہ : "عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن قبرستان سے آرہی تھیں، تو میں نے اُن سے عرض کیا:

ام المؤمنین! آپ کہاں سے آرہی ہیں؟

تو انہوں نے کہا: اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر سے۔

میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے سے منع نہیں فرمایا؟

تو انہوں نے فرمایا: ہاں! منع کیا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا تھا"

(الألباني/ أحكام الجنائز،230 إسناده صحيح رجاله ثقات )
( الألباني /، إرواء الغليل،234ص /ج3 •صحيح)

*یہ حدیث صحیح الاسناد ہے،*
اسکے تمام راوی ثقہ ہیں،
حافظ عراقی کہتے ہیں کہ:
"ابن ابی دنیا نے اپنی کتاب "القبور"میں اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے"
اس حدیث کو  مستدرک حاکم (1392) نے
اور انہی کی سند سے بیہقی (7207) نے
دیکھیں: "تخريج أحاديث الإحياء" (ص 1872)
اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "الإرواء" (3/233) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور ابن ماجہ  نے مختصراً اسے روایت کیا ہے، اس میں لفظ یوں ہیں:

سنن ابن ماجہ
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: زیارت قبور
حدیث نمبر: 1570
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رَوْحٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِسْطَامُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا التَّيَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ رَخَّصَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے۔  
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٦٢٦٦، ومصباح الزجاجة: ٥٦٢) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الأحکام: ١٨١) ۔
اسے بوصیری نے "الزوائد" (2/42) میں صحیح کہا ہے۔

*لیکن یاد رہے یہ اجازت کبھی کبھار کے لیے ہے، بکثرت قبرستان جانے سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع کیا ہے بلکہ اس عمل پر لعنت فرمائی ہے*

جامع ترمذی
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا ممنوع ہے
حدیث نمبر: 1055
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،  أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ أَنَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كُرِهَ زِيَارَةُ الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّةِ صَبْرِهِنَّ وَكَثْرَةِ جَزَعِهِنَّ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
  ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
  ٢- اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں، 
٣- بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرم  ﷺ  کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔ جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں،  ٤- بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبر اور کثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے۔  
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٦) (تحفة الأشراف: ١٤٩٨٠) مسند احمد (٢/٣٣٧، ٣٥٦) (حسن)  
قال الشيخ الألباني: 
حسن، ابن ماجة (1576)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1056

*ان دلائل سے نتیجہ یہ نکلا کہ عورتیں کبھی کبھار قبروں پر جاسکتی ہیں،اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ قبروں کی زیارت ہو یا کوئی بھی ایسا نیک عمل جسکے لیے شریعت اسلامیہ نے کوئی وقت یا دن مقرر نہیں کیا ہے اسکے لیے کسی بھی دن یا وقت کو خاص کر لینا بھی بدعت ہے،لہذا عید کے ایام کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا یا محرم الحرام کے پہلے دس دنوں کو خاص کرنا دونوں ہی بدعت ہیں ۔ اسی طرح بن سنور کر، رنگ رنگیلے لباس اور بے پردگی  کی حالت میں قبرستان جانا کہ گویا مقابلہ حسن میں شرکت ہو رہی ہے یہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہے،ان تمام رسم و رواج اور تہواروں سے بچتے ہوئے، باپردہ ہو کر کبھی کبھار خواتین قبرستان جا سکتی ہیں،*

(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.servic
e2/

Share:

Modern Kahlane ke liye Kisi Musalman ka kutta Palna kaisa hai?

Kutta Palna kaisa hai Kisi Musalman ke liye?
Islam me kutta (Dog) Palne ki ijaajat.
Billi (Cat) Palne ke bare me Sharai hukm?
Agar kutta Touch kar jaye to kya kare?

Ghar me Tasweer lagane se rahmat ke farishte dakhil nahi hote.

Kya Koi Musalman Kutta rakh sakta hai? Kharida ho ya Jungali.

Agar Kutta Kisi Saman me moonh dal de to kaise Pak kare?

Janwar ko pani pilane ke badle Tawaif jannat me gayi.

*(شوقیہ کتا رکھنے والے کی نیکیاں روزانہ کم ہوتی رہتی ہیں)*

أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا ، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ. قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ۔

نبی کریم ﷺ کے صحابی سیدنا سفیان بن زھیر رضي الله عنه نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ
جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے ۔
میں نے پوچھا، کیا آپ نے رسول الله ﷺ سے یہ سنا ہے؟
انہوں نے کہا، ہاں ہاں ! اس مسجد کے رب کی قسم ! (بالکل میں نے آپ سے یہ سنا ہے)

*(بخاری حدیث 2323)*
۔

Share:

Sharab (Alcohol) ya kisi aur haram chij ko Dawa ke liye istemal Jayez hai, Homepathic dawa khana ya use bechne ka Sharai Hukm.

Aise Dawao ke bare me kya Hukm hai jisme Sharab (Alcohol) mila hota hai?
Kya Dawa ki dukan (Medical Store) pe kam karna Jayez hai? Aesi dawao ke bare me kya hukm hai jisme Sharab milayi jati hai , kya Homeopath ki dawa kha sakte hai?
Sawal: kya Sharab ya kisi Aur Haram chij ko Dawa ke taur par istemal kar sakte hai? Haram Chijo se Dawa banana aur use bechne ka Sharai Hukm kya hai? Jaise Alcohol mile Homeopathic wagairah Dawa. Kuchh log falij/Laqwa wagairah ki bimari ke ilaaj ke liye kabooter ka Khoon istemal karna.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-274"
سوال : کیا شراب یا کسی اور حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ اور حرام چیزوں سے ادویات بنانے اور انکو بیچنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جیسے الکوحل ملے ہومیوپیتھک وغیرہ کے قطرے..؟ نیز کچھ لوگ فالج/لقوہ وغیرہ کی مرض کے لیے کبوتر کا خون بغرض شفاء لگاتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

Published Date: 25-8-2019

جواب :
الحمدللہ:

*اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کی ہے اور اس نے ہی ہر بیماری کو پیدا کیا ہے اور اسی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل کیا ہے*

📚نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً
(صحيح البخاري: حدیث نمبر-5678)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔

*یہاں علاج سے مراد حلال اور پاک چیزوں سے علاج ہے،دنیا میں علاج کے ہزاروں طریقے موجود ہیں ، ایک مسلمان کے لئے علاج کے سلسلے میں اسلامی اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،اور علاج کی بابت اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو چیز حرام ہو اس سے علاج نہیں کر سکتے ہیں*

📚 نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ لم يجعلْ شفاءَكم فيما حرَّم عليكُم
( السلسلة الصحيحة: 4/175)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس چیز میں شفا نہیں رکھی جس کو تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے ۔ 

*یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے شراب حرام ہونے کی بنا پر ایک صحابی کو اس سے دوا بنانا منع فرما دیا*
 
حدیث میں آتا ہے کہ

📚أنَّ طارقَ ابنَ سويدٍ الجُعَفيَّ سأل النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الخمرِ ؟ فنهاه ، أو كره أن يصنعَها . فقال : إنما أصنعها للدواءِ . فقال: إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ
.(صحيح مسلم: 1984)
ترجمہ: حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب(بنانے) کےمتعلق سوال کیا،آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا،انھوں نےکہا:میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دوا نہیں ہے،بلکہ خود بیماری ہے۔

*اس حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ جو چیز حرام ہے اس سے دوا نہیں بنا سکتے ، نہ ہی اس حرام چیز کو بطور علاج استعمال کرسکتے ہیں*

📚ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ
(صحيح الجامع:1662)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں پیدا کیا ہے پس تم لوگ علاج کرو اور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ 

📚بلکہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ جو حرام چیزوں سے علاج کرتا ہے اللہ تعالی اسے شفا نصیب نہیں فرمائے گا۔ 
من تداوى بحرامٍ لم يجعلِ اللهُ له فيه شفاءً
(السلسلة الصحيحة:2881)
ترجمہ: جس نے حرام نے علاج کیا اللہ اس کو شفا نہیں دے گا۔ 

*علاج کے سلسلے میں اسلام کا ایک دوسرا اصول یہ ہے کہ پاک چیزوں سے علاج کرنا ہے اور ناپاک وخبیث چیزوں سے بچنا ہے*

📚عن أبي هريرةَ قالَ :
نهى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلم، عنِ الدَّواءِ الخبيثِ
(صحيح أبي داود:3870)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دواؤں کے استعمال سے منع فرمایا ہے،

*حرام چیزوں کو بطور ادویات استعمال کرنے سے ممانعت کی حکمت*

📚اس بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حرام چیزوں کے ذریعے علاج عقلی اور شرعی ہر دو اعتبار سے قبیح ہے:

شرعی اعتبار سے اس لیے کہ ہم پہلے اس بارے میں احادیث  وغیرہ ذکر کر چکے ہیں، جبکہ عقل کے اعتبار سے اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس چیز کو حرام اسی لیے کیا ہے کہ وہ چیز خبیث ہے، اللہ تعالی نے اس امت کو سزا دینے کیلیے کوئی بھی اچھی چیز حرام نہیں کی ، جیسے کہ بنی اسرائیل کو سزا دینے کیلیے کچھ چیزیں ان پر حرام کی گئیں تھیں،

📚جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں [بطورِ سزا ] حرام کر دیں جو ان کیلیے حلال قرار دی گئیں تھیں۔[النساء: 160]

لہذا اس امت کیلیے کوئی بھی چیز حرام کی گئی ہے تو اس کی وجہ اس چیز کا خبیث ہونا ہے۔

نیز اللہ تعالی نے ان چیزوں کو حرام قرار دے کر اس امت کو مزید تحفظ اور  بچاؤ فراہم کیا ہے؛ اس لیے یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے کہ بیماریوں اور امراض سے شفا حرام چیزوں میں تلاش کی جائیں؛ کیونکہ اگرچہ حرام چیز بیماری کے خاتمے کیلیے مؤثر ہو سکتی ہے لیکن اس کے مضر اثرات دل میں موجودہ بیماری سے بڑی بیماری پیدا کر دیں گے؛ اس لیے کہ اس میں خباثت انتہائی طاقتور ہوتی ہے، گویا کہ حرام چیز سے علاج کرنے والا قلبی بیماری کے عوض میں جسم کو تندرستی دینے کا سودا کرتا ہے۔

اسی طرح کسی چیز کو حرام قرار دینے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس چیز سے دور رہیں، اس سے بچنے کیلیے تمام وسائل بروئے کار لائیں، لیکن اگر حرام چیزوں سے دوا بنائی جائے گی تو اس سے ان حرام چیزوں کے بارے میں ترغیب ملے گی اور استعمال میں بھی آئیں گے جو کہ شرعی مقاصد سے عین متصادم بات ہے۔

اسی طرح : حرام چیز اس لیے حرام ہے کہ وہ بذات خود بیماری ہے جیسے کہ صاحب شریعت نے واضح لفظوں میں یہ بات بیان فرمائی ہے، اس لیے ان چیزوں کو بطور دوا بھی اپنانا جائز نہیں ۔

یہ بات بھی اس میں شامل کریں کہ: حرام چیز کا استعمال انسانی روح  اور طبیعت میں خباثت پیدا کر دیتا ہے؛ کیونکہ انسانی مزاج دوا کے مزاج کو بہت جلدی اور واضح انداز میں قبول کرتا ہے، اس لیے اگر حرام چیز کا مزاج خباثت سے بھر پور ہوا تو استعمال کنندہ کا مزاج بھی ویسا ہی ہو جائے گا!

اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ایسی غذائیں، مشروب اور لباس حرام قرار دئیے ہیں جو خبیث ہیں؛ کیونکہ اس سے انسانی نفس خباثت حاصل کرتا ہے۔" انتہی
("زاد المعاد"_4ج/ص141)

_________&__________

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ شراب یا کسی بھی دوسری حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنا جائز نہیں،لیکن شراب سے بنے ایسے کیمیکل وغیرہ جنہیں ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نشہ وغیرہ بھی نہیں ہوتا ، یا با امر مجبوری کسی دوسری حرام اشیاء کی اتنی معمولی مقدار استعمال کی جائے کہ انکی ماہیت تبدیل ہو جائے تو وہ ادویات استعمال کرنا جائز ہیں*

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ
"الکحل یا شراب کو کھانے پینے کے علاوہ دیگر استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟

مثلاً: انہیں گھر کے سامان، علاج، بطور ایندھن، صفائی، خوشبو، اور سرکہ وغیرہ بنانے کیلیے استعمال کیا جائے"

جواب:
جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو تو وہ شراب ہے، اور شراب چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ ، اسے الکحل کا نام  دیا جائے یا کوئی اور ہر حالت میں اسے انڈیل کر ضائع کر دینا واجب ہے، نیز اسے کسی بھی استعمال کیلیے رکھنا چاہے صفائی کیلیے ہو یا چیزوں کو پاک کرنے کیلیے یا بطور ایندھن استعمال  کیلیے یا خوشبو میں ڈالنے کیلیے یا اسے سرکہ بنانے کیلیے یا کسی بھی اور استعمال کیلیے  رکھنا حرام ہے۔

البتہ جس کی زیادہ مقدار بھی نشہ آور نہ ہو  تو وہ شراب کے زمرے میں نہیں آتی، اسے صفائی ستھرائی، خوشبو، علاج، اور زخموں کو صاف کرنے اور  دیگر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عبد الله بن قعود ۔۔۔ عبد الله بن غديان ۔۔۔عبد الرزاق عفیفی۔۔۔ عبد العزيز بن عبد الله بن باز " انتہی

("فتاوى اللجنة الدائمة"/22ج/ص106)

________&_________

سعودی فتاویٰ کمیٹی کی ویبسائٹ پر ایک اور سوال کے جواب میں شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اس طرح سے جواب دیتے ہیں،

سوال: ایسی ادویات کا کیا حکم ہے جس میں الکحل کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے؟

جواب:

اول:

ادویات کو الکحل  یعنی شراب  کیساتھ ملانا جائز نہیں ہے، کیونکہ  شراب کو بہا کر ضائع کر دینا ضروری ہے،

📚 چنانچہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے  ہیں:

"ہمارے پاس ایک یتیم بچے کی شراب تھی، اور جس وقت سورہ مائدہ کی آیت [شراب کی حرمت کے بارے میں]نازل ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، اور یہ بھی بتلایا کہ وہ کسی یتیم کی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے بھی انڈیل دو)" 

ترمذی: (1263) البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:
اگر دوا کو الکحل  میں ملا دیا گیا ہو، اور اس الکحل کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ دوا نشہ آور بن جائے تو یہ شراب ہے، جسے پینا حرام ہے، اور اگر الکحل کی مقدار بہت ہی تھوڑی ہے کہ اس سے  نشہ  نہ چڑھے تو پھر اس دوا کا استعمال  جائز ہے۔
چنانچہ

📚 "فتاوى اللجنة الدائمة" (22/110)
میں ہے کہ:
"نشہ آور الکحل  کو ادویات میں شامل کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ادویات میں الکحل کو شامل کر دیا گیا ہے ، اور زیادہ مقدار میں یہ ادویات استعمال کرنے سے  نشہ  آتا ہو تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور انہیں استعمال کرنا دونوں ناجائز ہیں، چاہے اس کی مقدار  تھوڑی ہو یا زیادہ، اور اگر بہت زیادہ مقدار میں  ان ادویات کے استعمال پر  بھی نشہ نہیں آتا تو ایسی ادویات  کا نسخہ لکھ کر دینا اور استعمال کرنا  جائز ہے۔" انتہی

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کچھ ادویات میں الکحل پایا جاتا ہے،  تو اگر اس دوا کے استعمال سے انسان کو نشہ چڑھے تو  اس دوا کا استعمال حرام ہوگا، اور اگر اس کا اثر واضح نہ ہو ، بلکہ الکحل کو دوا محفوظ بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ الکحل کا اس میں کوئی اثر نہیں ہے" انتہی
("لقاءات الباب المفتوح"_3/231)

______&______

*فارمیسی میں کام کرنے اور ایسی ادویات بنانے یا بیچنے کا حکم جن میں الکحل یا جیلاٹین (Gelatine) شامل ہوتی ہے.

📚حضرت عبداللہ بن عمر رضی تعالیٰ عنھما
بیان کرتے ہیں کہ

لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُبْتَاعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ  .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شراب کے پینے اور پلانے والے، اس کے بیچنے اور خریدنے والے، اس کے نچوڑنے اور نچوڑوانے والے، اسے لے جانے والے اور جس کے لیے لے جائی جائے سب پر اللہ کی لعنت ہو
(سنن ابو حدیث نمبر-3674)

*لہذا جس طرح شراب بنانا ،پینا حرام ہے اسی طرح شراب کو بیچنا بھی حرام ہے چاہے وہ شراب بطور جام استعمال کی جائے یا خالص شراب بطور دوا استعمال کی جائے*

سعودی فتاویٰ کمیٹی الاسلام سوال و جواب  پر اسی طرح کا ایک سوال کیا گیا،

سوال
میں دواخانے پر کام کرنے والا فارماسسٹ ہوں، میں اس وقت جرمنی میں مقیم ہوں اور جرمنی میں کام کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے کیلیے اپنی ڈگری کا مساوی سرٹیفکیٹ لینے کے مرحلے میں ہوں۔ میں اس ملک میں فارمیسی پر کام کرنے کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میں مجھے ایسی دوا بنانا یا فروخت کرنا پڑتی ہے جس میں سور سے ماخوذ جیلاٹین (Gelatine) یا الکحل شامل ہوتی ہے، واضح رہے کہ اگر جیلاٹین (Gelatine) کا متبادل موجود ہو تو میں یہ ادویات مسلمانوں کو فروخت نہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا،

متعلقہ جوابات

اول:

الکحل یا خنزیر سے حاصل شدہ جیلاٹین (Gelatine) پر مشتمل ادویات بنانے  کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ الکحل شراب ہے اور شراب تناول کرنا جائز نہیں ہے نہ ہی اس سے علاج کرنا جائز ہے، نیز شراب کو کھانے  یا کسی مشروب کے ساتھ ملانا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ شراب کو تلف کر دیا جائے۔

اسی طرح جو چیز خنزیر سے حاصل کی جائے تو وہ نجس ہے اس سے اجتناب لازمی ہے بلکہ جس چیز کو لگ جائے اسے پاک کرنا بھی ضروری ہے، اس لیے کسی دوائی، کھانے یا مشروب میں اسے شامل کرنا جائز نہیں ہے۔

دوم:

اگر کوئی ادارہ دوا میں الکحل یا حرام جیلاٹین شامل کر دیتا ہے تو وہی گناہ گار ہوں گے،

پھر اس کے بعد ملاوٹ شدہ دوا کو دیکھیں گے:

اگر اس میں شامل کی جانے والی حرام چیز معمولی مقدار میں ہے  کہ اس کی بہت زیادہ مقدار بھی استعمال کی جائے تو نشہ آور نہیں ہوتی ، یا اتنی معمولی مقدار ہے کہ وہ دوا میں تحلیل ہو گئی ہے اور اس کا اپنا کوئی وجود باقی نہیں رہا کہ اس کا ذائقہ، رنگ اور بو کچھ بھی باقی نہ ہو تو پھر اسے استعمال کرنا اور اس سے علاج کرنا جائز ہے۔

📚جیسے کہ فتاوى اللجنة الدائمة (22/ 297) میں ہے کہ:
"بازار میں کچھ ادویات  یا ٹافیاں پائی جاتی ہیں جن میں انتہائی معمولی مقدار میں الکحل شامل ہے، تو کیا انہیں کھانا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص انہیں پیٹ بھر کر بھی کھا لے تو کبھی بھی نشے کی حد تک نہیں پہنچے گا۔

جواب: اگر ٹافی یا ادویات میں الکحل کی مقدار انتہائی معمولی ہو کہ ان کی بہت زیادہ مقدار کھانے پر بھی نشہ نہیں آتا تو پھر انہیں کھانا یا فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس میں الکحل کا ذائقے ، رنگت، یا بو میں سے کسی پر کوئی بھی اثر رونما نہیں ہوگا، اس لیے الکحل اس میں اپنا وجود کھو چکی ہے اور طاہر و مباح شے میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن ایک مسلمان کو چاہیے کہ ایسی کوئی چیز خود مت بنائے اور نہ ہی مسلمانوں کے کھانے میں اسے شامل کرے اور نہ ہی ایسا کھانا بنانے کیلیے تعاون کرے" انتہی

سوم:

ایسی ادویات فروخت کرنا جائز ہے جن میں الکحل یا حرام جیلاٹین انتہائی معمولی مقدار میں  موجود ہو یا اپنی اصلی ماہیت کھو چکی ہو۔

چنانچہ جن ادویات میں الکحل انتہائی معمولی مقدار میں  ہے ان کے جائز ہونے کے متعلق متعدد فقہی اکادمیوں ، فتوی کمیٹیوں اور عالم اسلام کے متعدد دار الافتاء کی جانب سے فتاوی صادر ہو چکے ہیں، اور سب  کے سب اس بات کو افضل  اور مستحب قرار دیتے ہیں کہ الکحل کو ادویات سے دور رکھا جائے تا کہ کسی قسم کا شبہ ہی پیدا نہ ہو۔

📚چنانچہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ماتحت اسلامی فقہ اکیڈمی کے اعلامیہ نمبر: 23 (11/3)  جو کہ عالمی انسٹیٹیوٹ برائے اسلامی فکر (IIIT) واشنگٹن کے سوالات کے متعلق ہے، اس میں ہے کہ:
"بارہواں سوال:

بہت سی ایسی ادویات ہیں جن میں الکحل کی مختلف مقدار پائی جاتی ہے جو کہ ایک فیصد سے لیکر 25 فیصد کے درمیان ہوتی ہے، ان ادویات میں سے اکثر ایسی دوائیاں ہیں جو کہ زکام، گلہ بند ہونے، اور کھانسی جیسی عام و معروف بیماریوں  کیلیے استعمال ہوتی ہیں، نیز ان بیماریوں کیلیے موجود ادویات میں 95 فیصد ادویات میں الکحل پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے الکحل سے خالی ادویات کی تلاش بہت مشکل ہو جاتی ہے، تو ایسی ادویات کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب:
  اگر الکحل سے پاک ادویات مسلمان کیلیے میسر نہ ہوں تو پھر الکحل ملی ہوئی ادویات مسلمان استعمال کر سکتا ہے، بشرطیکہ کہ کوئی اس پیشے کا ماہر طبیب اس کیلیے یہ دوا تجویز کرے" انتہی
("مجلۃ المجمع" شمارہ نمبر:  3، جلد نمبر:   3، صفحہ:  1087)

📚اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے تحت فقہی اکیڈمی  کے اعلامیہ میں ہے کہ:

"ایسی ادویات کو استعمال کرنا جائز ہے جن میں الکحل اتنی معمولی مقدار میں ہو جو اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے، نیز الکحل ایسی صورت میں دوا میں شامل کی جائے جب دوا کی تیاری کے مراحل کیلیے کوئی دوسرا متبادل میسر نہ ہو، لیکن یہ شرط ہے کہ کوئی عادل طبیب اس دوا کو  بطور نسخہ تجویز کرے" انتہی

("قرارات المجمع الفقهي الإسلامي بمكة المكرمة" صفحہ: 341)

چہارم:

اگر کوئی ایسی دوا یا لوشن پائی جائے جس کی زیادہ مقدار استعمال کرنے پر نشہ ہونے لگے، یا اس دوائی میں خنزیر  کی چربی اس انداز سے شامل ہو کہ وہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہو، تو ایسی صورت میں وہ دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے فروخت کرنا جائز ہے۔

خلاصہ کلام:

یہ ہے کہ دوا خانے اور فارمیسی میں کام کرنا اصلاً جائز ہے، نیز عام طور پر ادویات مباح چیزوں سے  بنائی جاتی ہیں ۔

اگر کسی ایسی دوا کا علم ہو کہ اس کا استعمال حرام ہے تو پھر اسے فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، تاہم آپ فارمیسی میں اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں لیکن حرام چیز فروخت کرنے سے اجتناب کریں گے،
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

https://islamqa.info/ar/answers/271192/

_______&_________

سوال:
میں ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج کو اپنانے کا حکم جاننا چاہتا ہوں، یہ معلوم ہو  کہ اس طریقہ علاج میں جن قطروں کو استعمال کیا جاتا ہے، انکی حفاظت کیلئے الکحل شامل کیا جاتا ہے، تو کیا ان دواؤں کا استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

ہومیو پیتھی کیلئے استعمال ہونی والی ادویہ کے مرکبات کے بارے میں انکی اصل ماہیت کی طرف دیکھا جائے گا، اور پھر ہر ایک کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ ہوگا۔ مثلا

1- زہریلے مادوں کے شامل ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ: 

"کچھ علمائے کرام  نے زہریلا مادہ  تناول کرنے سے منع کیا ہے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، نقصان دہ ہو یا فائدے کی توقع ہو ہر صورت میں منع قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنا جائز قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے اس کیلئے کچھ شرائط و ضوابط  بیان کیے ہیں، جائز قرار دینے والے علمائے کرام کے ہاں اس زہریلے مادے کے اثرات کو دیکھا جائے گا کہ مریض کے بدن کیلئے کس حد تک سود مند ہے، افادے کی مقدار جاننے کیلئے متعدد تجربات کئے  جائیں، تا کہ زہریلے مادے کے نتائج کے متعلق  دل بالکل مطمئن ہو، اور یہ بھی  کہ اس  زہریلے مادے کا اثر لاحق بیماری کے اثرات سے زیادہ نہ ہو۔

📚چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جن ادویات میں زہریلا مادہ پایا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر اسے کھانے کی وجہ سے موت یا دماغی توازن  خراب ہونے کا خدشہ ہو تو زہریلا مادہ  کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر ظنِ غالب یہ ہو کہ  اس سے نقصان نہیں ہوگا، بلکہ فائدہ کی امید ہو،  تو اس بنا پر زہریلا مادہ تناول کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے بڑی بیماری ٹل جائے گی،  یہی صورت حال دیگر ادویات کی ہے۔

تا ہم یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ زہریلا مادہ نگلنا ناجائزقرار دیا جائے ؛ کیونکہ یہ اپنے آپ کو موت کے دہانے پر ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن صحیح بات پہلا موقف ہی ہے، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جن کے مضر اثرات کا خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود  ان کو  بڑی بیماری سے بچنے کیلئے تناول کیا جاتا ہے، اور یہ مباح ہے" انتہی مختصراً
"المغنی" (1/447)

2- ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں:

[1] کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟

[2] کیا الکحل کو دوائی وغیرہ  یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟

پہلی چیز: جمہور اہل علم شراب  [الکحل] کو حسی طور پر نجس  کہتے ہیں،  جبکہ بعض  دیگر علمائے کرام  شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔

دوسری چیز: الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی  تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی،  یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔

اور اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل  کے مطابق حکم ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم

https://islamqa.info/ur/answers/111004/

____&_____________

آخر پر سوال میں پوچھا گیا ہے کہ فالج کی بیماری میں کبوتر کا خون بطور علاج لگانا کیسا ہے ؟

📚قرآن میں خون سے متعلق ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خون حرام ہے ۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: 3)
ترجمہ:
اور تمہارے اوپر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے،

یہاں خون سے بہنے والا خون مراد ہے جیساکہ دوسری آیت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے،

📚قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ(الانعام :ا45)

ترجمہ: کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے،

ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لئے کسی قسم کا بہنے والا خون حلال نہیں ہے اس لئے کبوتر کے خون سے فالج کی بیماری کا علاج کرنا جائز نہیں ہے،

کیونکہ اوپر ہم نے پڑھا ہے کی اللہ تعالیٰ نے حرام اشیاء میں شفا نہیں رکھی، اور نا ہی حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے،

حالانکہ کبوتر کا گوشت اپنی جگہ کھانا حلال ہے مگر اس کا بہتا ہوا خون حلال نہ ہونے کی وجہ سے اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے خواہ علاج کا طریقہ کھانے یا پینے یا ملنے (لگانے) جیسا ہو۔
ہاں مچھلی کا خون ، کلیجی اور دل کا خون اور حلال جانور کو اسلامی طریقہ پر ذبح کرنے کے بعد اس کے اندرون جسم میں لگا ہوا خون حلال ہے۔۔۔۔۔۔!

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS