Khatna kya hai? Aur Khatna kaise hota hai?
What is Khatna and What is Circumcision Penis?
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
📚 ختنہ کا لُغوی اور اصطلاح مفہوم : 📚
ختنہ (Circumcision)کا لغوی معنی ''قلفہ'' یعنی عضو تناسل کے اگلے حصہ کی جلد، جس کو انگلش (Prepuce)میں کہتے ہیں، کاٹ کر علیحدہ کرنا ہے۔ عام اصطلا ح میں یہ لفظ جلدکے اس حصے کے لیے بولا جاتا ہے جو حشفہ (Glans Penis)کے نچلے حصہ میں سمٹی ہوئی ہوتی ہے،جسے وہاں سے کاٹ کر جسم سے جدا کیا جاتا ہے۔ ختنہ ایک معمولی عمل جراحی ہے، کسی آلہ یا معدنی سلائی کی مدد سے حشفہ کے اوپر کی تمام جلد کو آگے کی جانب سمیٹ کر استرے سے کاٹ دیا جاتا ہے، خون روکنے اور جلد زخم بھرنے کے لیے کوئی دوا، پاؤڈر یا مرہم لگا کر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یہ زخم عموماً ایک ہفتہ میں مندمل ہوجاتا ہے۔برصغیر ہندوستان و پاکستان کے اکثر مقامات پر یہ خدمت حجام، عام جراح یا ہسپتال کا عمل انجام دیتا ہے۔
شریعت میں ختنہ یا ختان اس عمل جراحی کے علاوہ اعضائے پوشیدہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے او راس کے متعلق ہمیں سنت نبویؐ میں واضح طور پرمرتب شدہ احکامات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
''إذا التقی الختانان فقد وجب الغسل'' 1
''جب (مرد او رعورت کے )ختنے مل جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔''
ایک اور روایت میں ہے:
''إذا التقی الختانان و غابت الحشفة فقد وجب الغسل أنزل أولم ینزل'' 2
یعنی ''جب (مرد عورت کے) ختنے اس طرح مل جائیں کہ حشفہ غائب ہوجائے تو غسل واجب ہوگیا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔''
امام بخاریرحمة اللہ نے بھی اپنی صحیح میں ایک باب اس ضمن میں مقرر فرمایا ہے:
''إذا التقی الختانان'' یعنی ''جب (مرد عورت کے)ختنے مل جائیں'' 3
برصغیر ہندوستان و پاکستان میں عموماً ختنہ کو کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور بعض عیسائیوں میں بھی ختنہ کروانے کا رواج ہے۔ عصر حاضر میں اکثر غیر مسلم قومیں بھی اس کے طبی فوائد کے پیش نظر ختنہ کرواتی ہیں۔
ختنہ کب کروانا واجب ہے؟
اکثر اسلامی ممالک میں ختنہ پیدائش کےبعد سات سے لے کر تیرہ سال تک مختلف عمروں میں کیا جاتا ہے مکة المکرمہ میں، جہاں رسم ختنہ کو ''طہار'' کہا جاتا ہے، بچوں کا ختنہ تین سے سات سال کی عمر میں ہوجاتا ہے۔بعض کے نزدیک ولادت کے بعد ساتویں دن ختنہ کروانا مستحب اور زیادہ افضل ہے۔ ان کی دلیل حضرت جابر ؓ کی یہ روایت ہے:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن والحسن و ختنھما لسبعة أیام''
یعنی ''رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین ؓ کے عقیقے اور ان کے ختنے (پیدائش کے بعد) ساتویں دن کئے۔''
(( رواہ البیہقی ))
لیکن امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
''ختنوں کے باب میں یہودیوں کی عادت ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز کردیتے ہیں۔ اس باب میں اُن کی مخالفت کرنی او راگلے دانت نکلنے تک تاخیر کرنی مستحب ہے۔''
(( احیاء العلوم للغزالی ج1 ص243، مترجم محمد احسن صدیقی نانوتوی طبع اوّل اس دارالاشاعت کراچی))
ختنہ کتنی عمر میں کروانا واجب ہے؟ اس سلسلہ میں اہل علم حضرات میں سے ایک کثیر تعداد اس طرف گئی ہے کہ ختنہ اس وقت واجب ہے جب بچہ سن بلوغ سے مشرف ہو۔ کیونکہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے احکامات اور احکام شرعیہ سے واقف اور شرعاً اس کا مکلف ہوتا ہے۔ اگر بچہ سن بلوغ میں داخل ہوتے وقت ختنہ شدہ ہوتو اس کی عبادات، اسلامی طور طریقہ اور شرع حنیف کے مطابق صحیح ہوں گی۔ ولی کے حق میں افضل ہے کہ ختنہ کا آپریشن بچہ کی پیدائش کے بعد ساتویں دن یا شروع کے ایام میں ہی کروا دے تاکہ جب اس میں عقل آئے اور فہم امور کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ بھلے بُرے کی تمیز کرنے کے مرحلہ میں داخل ہو تو اپنے آپ کو ختنہ شدہ پائے۔
📚 ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچے: 📚
اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض نومولود قدرتی طور پر پیدائش کے وقت بغیر قلفہ یا نصف قلفہ یا بہت قلیل قلفہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان بچوں کا حشفہ مکمل کھلا ہوا ہو تو ایسی صورت میں ان کے ختنہ کی حاجت نہیں ہوتی ہے، لیکن جن بچوں کا قلفہ نصف حشفہ سے کچھ کم یا نصف یا نصف سے بھی کچھ اوپر تک ہوتا ہے ایسے بچوں کی ختنہ ضرور کروانا چاہیے کیونکہ حشفہ پر قلفہ کی موجودگی سے غلیظ رہنے کا احتمال ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ''جو بچے اس طرح یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں ان کی ختنہ چاند کرتا ہے۔'' علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اسے لوگوں کا واہمہ اور خرافات قرار دیا ہے۔
(( المعاد لامام ابن القیم ج1 ص35 مطبعة السنة المحمدیة ))
قدرتی طور پر مختون پیدا ہونے والے بچوں کی یہ صفت ان کے کسی جسمانی عیب یا ان کی کسی خصوصیت یا بزرگی کی علامت نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض لاعلم لوگوں کا خیال ہے، یہ محض ایک امر ِرب اور مشیت الٰہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم بچے بھی ایسی کیفیت میں پیدا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
📚 ختنہ کی دعوت اور مروجہ رسومات: 📚
ہندوستان و پاکستان میں عام طور پر غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے
(( تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مضمون ''اسلام اور حقوق اطفال''دوسری قسط ماہنامہ
''میثاق'' لاہور صفحہ 73 جلد30 عدد2،1 مجریہ ماہ جنوری و فروری 1981ء ملاحظہ فرمائیں۔))
البتہ ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
جس کے یہاں بچہ ہوا ہے، اس شخص کے حق میں مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے اس بچے کی طرف سے اگر لڑکا ہے تو دو، اور لڑکی ہے تو ایک بکری ذبح کرے، اور افضل یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن یہ جانور ذبح کیا جائے، اور اسی دن ختنہ بھی کر دیا جائے، اور اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا گیا ہے، یا ختنہ نہ کیا گیا ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کو عقیقے کی دعوت دینا جائز ہے۔
📚 اسلام میں ختنہ کی مشروعیت: 📚
احادیث میں جہاں فطرتi کے خصائل کا بیان ہے، وہاں ختنہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی مشروعیت پربہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''الفطرة خمس أو خمس من الفطرة الختان والاستحداد ونتف الإبط و تقلیم الأطفار و قص الشارب''
''فطرت پانچ چیزیں ہیں یاپانچ چیزیں فطرت کے تقاضوں سے ہیں۔ یعنی ختنہ کروانا، موئے زیر ناف صاف کرنا، بغل کے بال اکھارنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا۔''
((صحیح البخاری کتاب اللباس و صحیح مسلم))
2۔عمار بن یاسرؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من الفطرة: المضمضة والاستنشاق وقص الشارب والسواك و تقلیم الأظفار و نتف الإبط والاستحداد والاختتان'' 5
یعنی ''(یہ چیزیں) فطرت میں سے ہیں، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کرنا، مسواک کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھارنا، موئے زیر ناف صاف کرنا او رختنہ کروانا۔''
(( مسند احمد ))
منقول
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
Khatna karana Jaruri hai. Yah baat science ne saabit kar diya hai jo Islam ne 1400 saal pahle hi bata diya tha, Hmare NAbi ne 1400 Saal pahle hi iska hukm di, Khatna Musalamano ke liye Sunnat hai.
ReplyDelete