Mehar ki rakam kitni honi chahiye?
Kya Ladki apni marji se jo chahe Wah rakam wasul kar sakti hai Mehar me.Haq Mehar Ladki kitna maang sakti hai aur Ladke ko kitna dena padega?
Kya Aeisi rakam mukarrar kiya ja sakta hai jisse ladka aasani se nahi de sake lekin ladki apni marji se moti rakam ki wasul kare?
Kya Faut hone ke bad Haq Mehar ada kiya ja sakta hai?
“سلسلہ سوال و جواب -338”
سوال-حق مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور حق مہر کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار کتنی ہے؟
نیز مسنون حق مہر کی وضاحت کر دیں؟
اور جو شخص حق مہر ادا کیے بغیر فوت ہو جائے تو اسکے لیے حکم ہے؟
Published Date: 05-06-2020
جواب:
الحمدللہ..!
*وقت نکاح عورت کے لیے حق مہر مقرر کرنا ضروری ہے اور اس کی ادائیگی واجب ہے، دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے جو صرف اور صرف بیوی پورا مہر حاصل کرے گی جو کہ اس کے لیے حلال ہے لیکن کچھ ممالک میں یہ معروف ہے کہ مہر میں بیوی کا کوئي حق نہیں،یہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے*
*عورت کو مہر دینا واجب ہے اور اس کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ ذيل میں ذکر کیے جائیں گے ان شاءاللہ*
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فَمَا استَمتَعتُم بِهِ مِنهُنَّ فَـٔاتوهُنَّ أُجورَهُنَّ فَريضَةً
“جن عورتوں سے تم(نکاح کے بعد) فائدہ اٹھاؤ،انہیں ان کا مقرر کردہ حق مہر ادا کرو۔”
(سورہ نساء،آئیت - 24)
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً…
“عورتوں کو ان کے حق مہر راضی خوشی ادا کرو۔”
(سورہ نساء آئیت نمبر-4)
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ نحلہ سے مہر مراد ہے ۔
حافظ ابن کثيررحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین کی کلام میں کہتے ہيں:
مرد پر واجب ہے کہ وہ واجبی طور پر بیوی کو مہر ادا کرے اور یہ اسے راضی و خوشی دینا چاہیے ۔
وَاِنۡ اَرَدتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّكَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّاٰتَيۡتُمۡ اِحۡدٰٮهُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡهُ شَيۡــئًا ؕ اَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا ۞
وَ كَيۡفَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ وَقَدۡ اَفۡضٰى بَعۡضُكُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ وَّاَخَذۡنَ مِنۡكُمۡ مِّيۡثَاقًا غَلِيۡظًا ۞
ترجمہ:
اور اگر تم کسی بیوی کی جگہ اور بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح گناہ کر کے لو گے
اور تم اسے کیسے لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے صحبت کرچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔
(القرآن – سورۃ 4 النساء
آیت ،21٫20)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
یعنی جب تم کسی بیوی کو چھوڑنا چاہو اور اس کے بدلے میں کسی اور عورت سےشادی کرنا چاہو تو پہلی کو دیے گئے مہر میں سے کچھ بھی واپس نہ لو چاہے وہ کتنا بڑا خزانہ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ مہر تو اس ٹکڑے کے بدلے میں ہے ( یعنی جس کی وجہ سے اس سے ہم بستری جائز ہوئي ہے ) اور اسی لیے اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے :
تم اسے کس طرح لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل ( ہم بستری کر ) چکے ہو اور میثاق غلیظ عہد و پیمان اور عقد ہے،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ
أَعْطِهَا شَيْئًا ، قَالَ: مَا عِنْدِي شَيْءٌ، قَالَ: أَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ
اسے کچھ دو تو انہوں نے عرض کیا:میرے پاس کچھ نہیں ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”تیری زرہ کہاں ہے؟
(سنن۔ابوداود:حدیث ،2125)
ان آیات و حدیث کے پیش نظر حق مہر ضروری ہے،اس کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار مقرر نہیں ہے।
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نکاح کے خواہش مند سے فرمایا تھا کہ جاؤ کچھ تلاش کرکے لاؤ خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو اسے تلاش بسیار کے باجود کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟
اس نے عرض کیا ہاں مجھے قرآن کی فلاں فلاں سورت یاد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمھیں قرآن کی ان سورتوں کے عوض اس عورت کامالک بنا دیا،
(صحیح بخاری النکاح:5087)
یعنی یہ سورتیں اپنی بیوی کو یاد کروا دینا، یہی تمہارا حق مہر ہے،
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو) انکی آزادی کو ہی ان کا مہر بنا دیا تھا
(صحیح بخاری حدیث :5086)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، پوچھا: اسے کتنا مہر دیا ہے؟ جواب دیا: گٹھلی ( نواۃ، 15 گرام سونا تقریباً ) کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو،
(سنن ابوداود حدیث :2109)
*اسی طرح زیادہ سے زیادہ حق مہر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:*
وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا
“تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی بطور مہر دیا تو اس سے طلاق کے وقت کچھ واپس نہ لو۔”
(سورہ نساء آئیت -20)
شاہ حبشہ حضرت نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزار درہم مہر دیا تھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تھا.
(سنن ابوداؤد حدیث :2107)
حدیث صحیح
*شرعی حق مہر کی تعین لوگوں کی طرف سے خود ساختہ ہے بلکہ یہ حسب توفیق ہونا چاہیے،*
ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں ،
سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صَدَاقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: ثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٌّ ، فَقُلْتُ: وَمَا نَشٌّ ؟ قَالَتْ: نِصْفُ أُوقِيَّةٍ.
میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( کی ازواج مطہرات ) کے مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا ، میں نے کہا: نش کیا ہے؟ فرمایا: آدھا اوقیہ(500 درھم تقریباً)
(سنن ابو داؤد حدیث -2105)
(صحیح مسلم ،حدیث -1426)
*اس مقدار کو مسنون قرار دیا جاسکتا ہے ،البتہ وہ حق مہر جو آسانی سے ادا کر دیا جائے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر و برکت کا باعث قرار دیا ہے*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”
خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ ”
بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو، (یعنی جس میں حق مہر وہ ہو جسے ادا کرنا انتہائی آسان ہو)
(سنن ابوداؤد حدیث :2117)
حدیث صحیح
*اور یاد رہے مہر صرف لڑکی کا حق ہے اس کے والد یا کسی اور کے لیے اس میں سے کچھ لینا جائز نہيں لیکن اگر لڑکی خود ہی راضي خوشی دے دے تو اس میں کوئي حرج والی بات نہیں.
ابو صالح کہتےہیں کہ مرد جب اپنی لڑکی کی شادی کرتا تو اس کی مہر خود لے لیتا تھا تواللہ تعالی نے اس سے روک دیا اور یہ آیت نازل فرمائي :
اور عورتوں کو ان کے مہر راضي خوشی ادا کرو ۔
تفسیر ابن کثیر ۔
*اسی طرح مرد کیلئے عورت کو حق مہر دینا واجب یے ،ہاں عورت اگر اپنی خوشی سے حق مہر معاف کر دے تو جائز ہے.
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَىءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيـًٔا مَريـًٔا
“اگر وہ خوشی سے کچھ حق مہر تمھیں چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔”
(سورہ نساء آئیت -4)
*کچھ لوگ ایسے ہی ہیں کہ اگر عورت حق مہر معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا حرام ہے۔راجح یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہوجاتا ہے اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا تو اس کی متروکہ جائیداد سے حق مہر کی رقم منہا کر کے بقیہ رقم کو تقسیم کیا جائےگا، ہم لوگ اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا شکار ہیں، شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں لیکن حق مہر کے وقت شرعی حق مہر کی رٹ لگادی جاتی ہے جس کی مقدار سوا بتیس روپے ہے، شریعت میں اس قسم کے شرعی حق مہر کا کوئی وجود نہیں ہے.
_______________&__________
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
No comments:
Post a Comment