find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label islam me ilm ki ahm. Show all posts
Showing posts with label islam me ilm ki ahm. Show all posts

Ilm-E-Gaib Kya Hai?

الجواب۔۔

علم غیب کیا ہے؟​

عزیز دوستوں!۔
عرصہ دراز سے لوگ اس مسئلے میں اختلافات کا شکار ہیں کہ عالم الغیب (یعنی غیب جاننے والا) کون ہے؟؟؟۔۔۔ جبکہ مسلمانوں کا یہ متفق علیہ عقیدہ ہے کہ غیب کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے علاوہ محمد رسول اﷲ بھی غیب کاعلم جانتے ہیں۔

یہ اختلاف قرآن وحدیث سے دور رہنے اور آباؤ اجداد کی اندھی پیروی کا نتیجہ ہے میں چاہتا ہوں کہ قرآن وحدیث سے اس مسئلہ کو بیان کروں اور حق کو باطل سے جدا کردوں۔

عالم الغیب میں دوالفاظ استعمال ہوئے ہیں پہلا عالم اور دوسرا غیب، عالم جاننے والے کو کہتے ہیں اور غیب کے معنی چھپی ہوئی چیز اور وہ چیز جو آئندہ ہونے والی ہے ۔اب اگر کسی شخص میں یہ صفت ہوکہ وہ بغیر کسی دوسرے کی مدد کے یعنی اسے کوئی نہ بتائے اور وہ خود صرف اپنے علم سے یہ جان لے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے یا اس کے پاس ایسا علم ہوکہ چھپی ہوئی چیزیں اس کے سامنے بغیر کسی کی مدد کے ظاہر ہوجائیں تو ایسا شخص عالم الغیب کہلائے گا اب ہم ایسا شخص مخلوق میںاگر تلاش کریں تو شاید ایسا شخص ہمیں کوئی بھی نہ ملے گا جو یہ کہے کہ میرے پاس ایک ایسا علم ہے ایک ایسی قوت ہے کہ مجھے کوئی نہیں بتاتااور میں جانتا ہوں جوکچھ چھپا ہوا ہے اور جو کچھ ظاہر ہے اور میں جانتا ہوں جوکچھ ہوچکا ہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ دعویٰ تو صرف اﷲسبحانہ وتعالیٰ کاہے لہٰذا یہ ثابت ہوجائے گا کہ اﷲ تعالیٰ ہی دراصل عالم الغیب ہے اﷲتعالیٰ نے اپنے عالم الغیب ہونے کی قرآن مجید میں کئی جگہ دلیلیں فرمائی ہیں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف میں ہی عالم الغیب ہوں میرے علاوہ کوئی بھی غیب نہیں جانتا ۔

اﷲتعالیٰ نے اپنے عالم الغیب ہونے کی دلیلیں قرآن میں بہت سی جگہ ارشاد فرمائی ہیں :
وَلِلَّهِ غَيۡبُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ فَٱعۡبُدۡهُ وَتَوَڪَّلۡ عَلَيۡهِ‌ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُونَ
اور اﷲ ہی کے لئے ہے غیب آسمانوں کا اور زمین کا اور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تمام معاملات سو اسی کی عبادت کرواور بھروسہ رکھو اسی پر اور نہیں ہے تیرا رب کچھ بے خبر ان کاموں سے جو تم کرتے ہو۔ (ھود١٢٣)

قُل لَّا يَعۡلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ ٱلۡغَيۡبَ إِلَّا ٱللَّهُ‌ۚ وَمَا يَشۡعُرُونَ أَيَّانَ يُبۡعَثُونَ
اے نبی ! ان سے کہو نہیں جانتا جو بھی ہے آسمانوں میں اور زمین میں ،غیب کو سوائے اﷲکے اور نہیں جانتے وہ تو یہ بھی کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (النمل:٦٥)

وَلِلَّهِ غَيۡبُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ‌ۚ وَمَآ أَمۡرُ ٱلسَّاعَةِ إِلَّا كَلَمۡحِ ٱلۡبَصَرِ أَوۡ هُوَ أَقۡرَبُ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ ڪُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬
اور اﷲ ہی کے لیے خاص ہے پوشیدہ حقائق کا علم (جو ہیں )آسمانوں اور زمین میں اور نہیں ہے قیامت کا معاملہ مگر مانند آنکھ جھپکنے کہ بلکہ وہ اس سے بھی جلد تر ہے ۔بے شک اﷲہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ (النحل:٧٧)

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ۬ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ۬ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ۬ مُّبِينٍ۬
اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی نہیں جانتا انہیں کوئی سوائے اس کے اور وہ تو جانتا ہے اسے بھی جو خشکی میں ہے اور جو سمندر میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتہ مگر وہ اس کے علم میں ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کے تاریک پردوں میں ایسا ہے اور نہیں کوئی تر اور نہ خشک (چیز)مگر وہ روشن کتاب میں (درج) ہے۔ (الانعام :٥٩)

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ‌ۖ عَـٰلِمُ ٱلۡغَيۡبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِ‌ۖ هُوَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ ٱلرَّحِيمُ
وہ اﷲ ہی ہے نہیں کوئی معبود سوائے اس کے جاننے والا غائب وحاضر کا بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ (الحشر:٢٢)

عزیز دوستوں!۔
ان تمام آیتوں کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲہی کے خاص ہے اس کے علاوہ کسی کے پاس یہ علم نہیں کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کو جان لے ۔

عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔
١: عورت کے پیٹ میں کیا ہے ۔
٢: کل کیا ہوگا۔
٣: بارش کب ہوگی۔
٤: جاندار کس سرزمین پرمرے گا ۔
٥: قیامت کب آئے گی۔
(صحیح البخاری جلد سوم صفحہ ٧٦٢/ح٢٢١٦)

اس حدیث اور قرآنی آیات سے ثابت ہوتاہے کہ علم غیب خاص صفت الٰہی ہے اﷲتعالیٰ اپنی صفات وربوبیت کسی کو بھی عطا نہیں فرماتاﷲتعالیٰ ہی ازل سے ابد تک کے تمام حالات کو جانتا ہے اور وہی اس کائنات کے نظام کو اپنے علم اور تدبیر سے چلارہاہے ، اس کام میں اس کوئی ایک بھی اس کاشریک نہیں اور اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ۔

دوستوں!۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غیب کا علم جانتے تھے ؟اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک جتنے بھی انبیاء آئے ان میں سے کسی نے غیب دانی کا دعویٰ نہیں کیا نہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی غیب کا دعویٰ کیا ۔اﷲتعالیٰ غیب جانتا ہے اسے کسی کے بتانے ،کسی کے وسیلے اور کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔بالفرض اگر اﷲ تعالیٰ ہمارے نبی کو یہ قوت یہ صفت عطا فرمادیتا کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو بھی وہ اختیار ملنے کے بعد غیب جاننے لگے توپھر آپ کو بھی کسی فرشتے کی ضرورت نہ رہتی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس صفت الٰہی (یعنی غیب دانی سے تمام حالات جاننے لگتے اور جیسے اﷲتعالیٰ جانتا ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی ہے کون ایمان لائے گا اور کون ایمان نہیں لائے گا آپ بھی جانتے اور اتنی تکالیف نہ برداشت کرتے صرف ان لوگوں کو تبلیغ کرتے جو ایمان لانے والے ہوتے ابوجہل ،ابولہب اور ابو طالب کو سمجھانے کی کوشش نہ کرتے کیونکہ آپ کو پہلے ہی سے پتہ ہوتا کہ یہ لوگ ایمان نہیںلائیں گے مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کچھ بھی پتہ نہیں چلتا تھا اس وقت تک جب تک اﷲتعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے مطلع نہ فرمادیتا قرآن میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے آپ کی معلومات کے لئے کچھ عرض کردیتا ہوں ۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالکل وحی کے تابع تھے ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی کا نزول کچھ عرصہ کے لئے بند ہوگیا تو آپ خاموشی کے ساتھ اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے لوگ آپ پر طنز کرتے اور کہتے تھے کہ لگتا ہے کہ شاید آپ کے رب نے آپ کو چھوڑدیاہے اگر آپ علم غیب جانتے ہوتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آئندہ حالات کا پتہ ہوتا اور آپ کی یہ کیفیت نہ ہوتی لیکن چونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے اس لئے خاموش رہتے اور لوگوں کے طعنے برداشت کرتے پھر کچھ عرصہ بعد اﷲتعالیٰ کی رحمت جو ش میں آئی اور سورۃ الضحیٰ نازل فرمائی ۔ (صحیح البخاری جلد دوم،کتاب التفسیرص ١٠٧٢/ح٢٠٥٦)

اسی طرح ایک اور واقعہ ام المؤمنین سیدہ طاہرہ مطاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ہے کہ ایک سفر کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا پر کچھ لوگوں نے تہمت لگائی لوگ آپ کی برائیاں کرنے لگے اس دوران بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بہت پریشان رہتے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم چونکہ صادق اور امین تھے آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولاتھا اس لئے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ اپنے معاملے کو اﷲ تعالیٰ پر چھوڑدیا ادھر سیدہ طاہرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲعنہا بھی تہمت کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھیں کیونکہ عورتیں باتیں بناتی ،طعنے دیتی تھیں ،پھرکچھ عرصہ بعد اﷲتعالیٰ ہی نے اس مسئلہ کو حل کیا اور سورالنور میں سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا کی پاکی بیان کردی ،اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غیب جانتے تو پہلے ہی دن اس مسئلے کو حل فرمادیتے ،اتنے دن پریشان نہیں ہوتے۔ (صحیح البخاری جلد دوم ، ص٧٢٨/ح١٢٩٩)۔

ایک اور سفر میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کا ہار گم ہوگیا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کا حکم دیا، صحابہ کرام نے کافی تلاش کیا مگر ہار نہیں ملا آخر کار آپ نے وہاں سے کوچ کرنے کا حکم فرمایا ،جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا اونٹ کھڑا ہوا تو وہ ہار اس کے نیچے سے نکلا ،اب اگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غیب جانتے تو انہیں پتہ ہونا چاہئے تھا کہ ہار اونٹ کے نیچے ہے ،پھر تلاش کرنے کا حکم نہ دیتے اور اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان جلد اول صفحہ ٢٩٧ باب تیمم)

ان واقعات سے کچھ لوگ غلط تاویل کرتے ہیں اور جب انہیں یہ واقعات سنائے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو اﷲ کے رسول کی مصلحت تھی، ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ یہ واقعات مصلحت کیونکر ہوسکتے ہیں آپ اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سوچیں کہ اگر ایک عام آدمی کی بیوی پر الزام لگا ہو تو وہ کس قدر پریشان ہوگا اور اس مسئلے کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا پھر اﷲ کے رسول کو اگر غیب کا علم ہوتا تو کون سی مصلحت کے تحت اتنے دن خاموش اور پریشان رہے ،حقیقت یہی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا ،جب اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حقیقت پرمطلع فرمایا تو آپ کو خبر ہوئی۔

جو لوگ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہتے ہیں وہ لوگ ان کوکافر اور گستاخ رسول کہتے ہیں اس سبب سے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے بلکہ انہیں اﷲ تعالیٰ مطلع فرماتا ہے، جہاں اس عقیدے کی وجہ سے صحیح العقیدہ لوگ ان کے طنز اور طعنوں کی زد میں آتے ہیں وہیں بڑی بڑی ہستیاں بھی ان طعنوں کا شکار ہوتی ہیں مثلاً سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بھی یہی عقیدہ تھا جو ہمارا عقیدہ ہے:

سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جو یہ کہے کہ اﷲ کے رسول غیب جانتے تھے وہ شخص جھوٹا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (صحیح البخاری جلد سوم ،ص٩٦٢/ح٢٢١٥)

اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اﷲکے رسول غیب نہیں جانتے تھے مگر ان نفس پرستوں کی یہ حالت ہے کہ اپنے باطل عقیدے کے گھمنڈ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی تکذیب کردی کہ اس حدیث کے بیان کرنے میں ان سے غلطی ہوگئی یعنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے تو غلطی ہوسکتی ہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریک حیات تھیں اور آپ سے بے شمار مسائل لوگوں نے سیکھے مگر ان حضرات سے غلطی نہیں ہوسکتی(نعوذ باﷲ) اسے ہی کہتے ہیں ہٹ دھرمی ۔خود ہی اپنی تعریف اشعار کے ذریعے کرتے ہیں۔۔۔

اندھا کیا شوق ہے کنواں ہو یا کھائی
کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے محبت کے سامنے​

خیر بقول ان حضرات کے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے تو حدیث بیان کرنے میں غلطی ہوگئی مگر اﷲ تعالیٰ تو غلطیوں سے پاک ہے لوگ اپنے نبی کے درجات میں غلو نہ کرنے لگیں، اس لئے اﷲتعالیٰ نے اس مسئلے کو قرآن میں واضح کردیا ہے جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت اور قرآن سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے وہ تو قرآن کے احکامات کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور جن کے دل ٹیڑھے ہیں وہ قرآن کی بھی غلط تاویلیں کرنے سے باز نہیں آتے ،اﷲتعالیٰ نے ہمارے نبی سے قرآن کریم کے ذریعے یہ اعلان کروایا قرآن میں (ارشاد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم )ہے:

قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمۡ عِندِى خَزَآٮِٕنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمۡ إِنِّى مَلَكٌ‌ۖ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ‌ۚ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى ٱلۡأَعۡمَىٰ وَٱلۡبَصِيرُ‌ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
اے نبی آپ لوگوں سے کہہ دیں ! نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس اﷲکے خزانے ہیں اور نہ جانتا ہوں میں غیب اور نہ کہتا ہوں میں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو وحی کیا جاتا ہے میری طرف پوچھو (ان سے)کیا برابر ہوسکتاہے اندھا اور آنکھوں والا؟کیا تم غور نہیں کرتے ؟ (الانعام:٥٠)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ وہ غیب نہیں جانتے اور یہ گمراہ گروہ اہل حدیث کوجھوٹا ثابت کرنے کی ضد میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ اہل حدیث کی تکذیب کرنے کے ساتھ ساتھ (نعوذ باﷲ) حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی تکذیب کریتے ہیں کیونکہ نبی خود تو یہ کہیں کہ میں غیب نہیں جانتا اور یہ عقل کے اندھے یہ کہیں کہ وہ غیب جانتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ معاذ اﷲ اﷲتعالیٰ کے قول کی بھی تکذیب کردیتے ہیں کیونکہ اﷲتعالیٰ یہ اعلان اپنے نبی سے بذریعہ قرآن کروارہا ہے اور قرآن اﷲتعالیٰ کا کلام ہے اور یہ لوگ اس کو مانتے نہیں تقلید کا پٹہ انہیں کچھ سوچنے سمجھنے ہی نہیں دیتا۔۔۔

سورۃ الانعام کی اس آیت میں جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے غیب جاننے کی نفی فرمائی ہے وہاں ان کے ان دلائل کا رد فرماکر ان کا جواب دیا ہے جن دلائل کو سامنے رکھ کر یہ لوگ نبی کریم کو عالم الغیب ثابت کرتے ہیں ۔

مثلاً یہ لوگ احادیث سے وہ واقعات نقل کرکے لکھتے ہیں جن واقعات میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی آئندہ آنے والے واقعہ کی خبر دی ہو اور کہتے ہیں کہ ان سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے اس عقیدے اور اس سوچ کی تردید فرمادی اور آیت کے پہلے حصے میں فرما دیا کہ غیب میں نہیں جانتا میرے پاس ایسا کوئی علم نہیں ہے کوئی ایسی صفت عطا نہیں کی گئی ہے جس سے میں یہ واقعات جان لوں ۔اب اگر کوئی پوچھے کہ اے اﷲ کے رسول اگر آپ غیب نہیں جانتے تو پھر مستقبل کی پیش گوئیاں کیسے فرمادیتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے نکلی ہوئی بات بھی بالکل سچ ہوتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ غیب بھی نہیں جانتے اور آئندہ ہونے والے واقعات بھی بتادیتے ہیں۔۔۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آیت میں دونوں باتوں کی وضاحت فرمادی فرمایا (ولااعلم الغیب) میں غیب نہیں جانتا ،توپھر اﷲکے رسول کو غیب کی باتوں کا پتہ کس طرح چلتا تھا ۔فرمایا:(ان اتبع الا ما یوحی الیّ)میں تو اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔میں اپنی طرف سے کچھ نہیں بتا سکتا جو بات میرا رب وحی کرتا ہے میں تم لوگوں کو بتا دیتا ہوں اور جو بات میرا رب نہیں بتاتا وہ بات میں تمہیں بھی نہیں بتاسکتا ہوں۔۔۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی بات اس وقت تک نہیں پتہ چلتی تھی جب تک اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ بتا نہ دے ۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر سب نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا جس کے پاس قربانی کاجانور نہیں ہے وہ عمرہ کرکے احرام کھول لے اور حج کا احرام بعد میں باندھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس قربانی کا جانور تھا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ مجھے اب معلوم ہوا ہے اگر وہ پہلے سے معلوم ہوجاتا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لاتا اور میں بھی اپنا احرام کھول ڈالتا۔ (صحیح البخاری جلد سوم ص ٨٩٧/ح٢٠٧٥)۔۔۔

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی آنے سے پہلے کسی چیز کی خبر نہیں ہوتی تھی۔اﷲتعالیٰ تو علیم وخبیر ہے وہ جانتا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ لوگ اس آیت کی غلط تاویل نہ کرکے یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اعلان اﷲتعالیٰ نے اپنے رسول سے کسی مصلحت کے تحت کروایا ہے یہ حضور کی انکساری ہے ۔حقیقت کچھ اور ہے ،اﷲتعالیٰ نے نبی کے غیب نہ جاننے کو ایک دوسری آیت میں مزید واضح فرمادیا اور ایک مرتبہ پھر اعلان کروادیا۔۔۔

قُل لَّآ أَمۡلِكُ لِنَفۡسِى نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ‌ۚ وَلَوۡ كُنتُ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ لَٱسۡتَڪۡثَرۡتُ مِنَ ٱلۡخَيۡرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ‌ۚ إِنۡ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ۬ وَبَشِيرٌ۬ لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے !کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا مگر یہ چاہے اﷲ۔اور اگر ہوتا مجھے غیب کا علم تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اورنہ پہنچتا مجھے کہیں کوئی نقصان ۔نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں۔ (سورۃ اعراف:١٨٨)۔۔۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا کہ میں اﷲکے حکم کے بغیر اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتا اور میں غیب نہیں جانتا اگر میں غیب جانتا اور مجھ میں ایسی قوت وصفت موجود ہوتی میں آئندہ ہونے والے حالات کو جان لیتا تو میں اپنے لیے بہت ساری بھلائیاں جمع کرلیتا اور برائی مجھے کبھی نہ پہنچتی ۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ پتہ چل جائے کہ کچھ دیر بعد اس کے ساتھ حادثہ ہونے والا ہے تو وہ اس سے بچاؤ کی تدبیر نکال لے اور یہی علم غیب ہے مگر یہ علم اﷲتعالیٰ نے کسی نبی کو کسی ولی کو کسی بھی مخلوق کو عطا نہیں کیا ۔اﷲکے رسول کو تو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کل کیا ہوگا بجز اس کے کہ اﷲتعالیٰ انہیں خبر دے دے ۔حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے کہ جوشخص یہ کہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کو کل کی ہونے والی بات کی خبر ہے وہ شخص جھوٹا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان جلد اول صفحہ ٢٩٧)

کیونکہ یہ علم کہ کل کیا ہوگا غیب کی پانچ کنجیوں میں سے ایک ہے جو صرف اﷲ کے لئے خاص ہیں۔جہاں احادیث میں اس بات کی دلیلیں موجود ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے وہاں اﷲ تعالیٰ نے برابر قرآن میں بھی وضاحتیں پیش کی ہیں اﷲ تعالیٰ نے ایک اور جگہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اعلان کروادیا:

قُلۡ مَا كُنتُ بِدۡعً۬ا مِّنَ ٱلرُّسُلِ وَمَآ أَدۡرِى مَا يُفۡعَلُ بِى وَلَا بِكُمۡ‌ۖ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ وَمَآ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ۬ مُّبِينٌ۬
اے نبی ! ان سے کہئے نہیں میں کوئی نرالا رسول اور مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ ، اور نہ (وہ جو کیاجائے گا )تمہارے ساتھ ؟نہیں پیروی کرتا مگر اس وحی کو جو بھیجی جاتی ہے میری طرف اورنہیں ہوں میں مگر صاف صاف خبردار کرنے والا۔ (الاحقاف:٩)

اس آیت میں بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ میں کوئی نئی قسم کا رسول نہیں ہوں مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ آئندہ کیا کیا جائے گا اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ آئندہ تمہارے ساتھ کیاکیا جائے گا۔اور آخر میں ایک مرتبہ پھر رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ علم غیب میں نہیں جانتابلکہ میں تو بس وحی کی پیروی کرتاہوں ۔اور اﷲتعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں اپنے الفاظ میں اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ میرے نبی غیب نہیں جانتے بلکہ میں ان کو غیب کو خبریں وحی کرتا ہوں ۔

عَـٰلِمُ ٱلۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلَىٰ غَيۡبِهِۦۤ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ٱرۡتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ۬ فَإِنَّهُ ۥ يَسۡلُكُ مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ رَصَدً۬ا لِّيَعۡلَمَ أَن قَدۡ أَبۡلَغُواْ رِسَـٰلَـٰتِ رَبِّہِمۡ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيۡہِمۡ وَأَحۡصَىٰ كُلَّ شَىۡءٍ عَدَدَۢا
وہ عالم الغیب ہے پس نہیں مطلع فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ۔سوائے اس رسول کے جسے پسند کرلیا ہواس نے تو صورت حال یہ ہے کہ لگادیتا ہے وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان ۔تاکہ وہ جان لے کہ درحقیقت انہوں نے پہنچا دئیے ہیں پیغامات اپنے رب کے اور وہ پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے ان کے ماحول کا اور شمار کررکھا ہے اس نے ایک ایک چیز کو گن کر۔ (سورۃ الجن:٢٦تا٢٨)

مَّا كَانَ ٱللَّهُ لِيَذَرَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ عَلَىٰ مَآ أَنتُمۡ عَلَيۡهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ ٱلۡخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِ‌ۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطۡلِعَكُمۡ عَلَى ٱلۡغَيۡبِ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَجۡتَبِى مِن رُّسُلِهِۦ مَن يَشَآءُ‌ۖ فَـَٔامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ‌ۚ وَإِن تُؤۡمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمۡ أَجۡرٌ عَظِيمٌ۬
نہیں اﷲ کے چھوڑدے مومنوں کو اس حالت میں کہ ہو تم جس میں حتیٰ کہ الگ نہ کردے ناپاک کو پاک سے اور نہیں ہے اﷲکہ مطلع کرے تم کو غیب پر لیکن اﷲ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے (غیب کی باتیں بتانے کیلئے)لہٰذا ایمان رکھو تم اﷲپر اس کے رسولوں پر اور اگر تم ایمان پر قائم رہے اورتقویٰ اختیار کیا تو تمہارے لئے اجر عظیم ہے۔ (سورۃ آل عمران :١٧٩)

عزیز دوستوں!۔
ان آیتوں سے دوباتیں پتہ چلتی ہیں ایک تو یہ کہ نبی غیب نہیں جانتے بلکہ انہیں اﷲ تعالیٰ بتاتا ہے اور دوسری بات اس آیت میں یہ چلتی ہے کہ اﷲتعالیٰ سوائے نبیوں کے اور لوگوں پر غیب ظاہر نہیں کرتا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے والی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا تھا (حالانکہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے )اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوا تو عمر ہوں گے۔ (صحیح البخاری جلد دوئم)۔۔۔

اس حدیث میں اﷲ کے رسول الہام کے بارے میں بھی اگر فرماگئے ہیں تو وہ بھی صرف حضرت عمر رضی اﷲعنہ کیلئے اور اس میں بھی اگر کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی لازمی نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو الہام ہولیکن اگر ہوا تو صرف عمر رضی اﷲ عنہ کو ہوگا۔

لیکن کیاکہنے ہیں ان لوگوں کے عقیدے کے الہام توبہت دور کی بات ہے یہاں تو ایسے ولی پڑے ہیں جو سیدھا عرش اعظم تک دیکھتے ہیں یعنی نبی تو وحی کے محتاج ہیں مگر یہ ولی نیچے تحت الثری ٰ تک دیکھتے ہیں (نعوذ باﷲ)اﷲتعالیٰ انہیںوہ عقل عطا فرمادے جس سے یہ صحیح دین کو سمجھ سکیں۔

قیامت کے علم کا بیان

یہ بدعقیدہ لوگ جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو قیامت کا علم تھا لیکن انہوں نے بتایا نہیں ہے حالانکہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ۔

وَمَا هُوَ عَلَى ٱلۡغَيۡبِ بِضَنِينٍ۬
اور نہیں ہے یہ (رسول )غیب کی باتیں بتانے میں ذرا بھی بخیل۔ (سورۃ التکویر:٢٤)

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر وہ بات امت کو بتائی جس سے امت کو فائدہ پہنچے اگر آپ کو قیامت کا علم ہوتا تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم ضرور اپنی امت کو بتاتے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم توخود یہ فرمارہے ہیں کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جو صرف اﷲجانتا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ان پانچ باتوں میں ایک بات یہی ہے کہ صرف اﷲ جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی (بخاری ومسلم)

اس طرح کتب احادیث کی مشہور روایت ہے کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام انسانی صورت میں آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کے گھٹنوں سے کھٹنے ملا کر بیٹھ گئے اور صحابہ کرام بھی تشریف رکھتے تھے جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوالات شروع کئے آپ جوابات دیتے گئے لیکن جب انہوں نے یہ سوال کیاکہ قیامت کب آئے گی تو آپ نے جواب دیا کہ میں تم سے زیادہ نہیں جانتا ہوں ۔پھر جبرائیل علیہ السلام نے سوال کیا کہ اچھا اس کی کچھ نشانیاں بتادیجئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آثار قیامت کی نشانیاں بتادیں ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان ج١ص٧٧)

قیامت کا علم خاص ہے اور اسے اﷲ تعالیٰ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا وہی جانتا ہے کہ یہ کب آئے گی اﷲتعالیٰ نے کچھ نشانیاں قیامت کے بارے میں ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتائی تھیں وہی ہمارے نبی نے ہمیں بتادیں کفار میں سے بھی اکثر لوگ قیامت کے بارے میں سوال کرتے تھے تو اﷲتعالیٰ نے قرآنی آیات کے ذریعہ منع فرمادیا۔

عطائی علم غیب کیا ہے؟

جب ان لوگوں سے ان آیتوں اور احادیث کا ردّ نہ ہوسکا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول علم غیب نہیں جانتے تھے تو انہوں نے علم غیب کی عجیب وغریب تقسیم کردی اور ذاتی اور عطائی کے چکر میں بھولے بھالے لوگوں کو ڈال دیا کہ ذاتی علم غیب تو صرف اﷲ کو ہے مگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطائی علم غیب ہے لہٰذا وہ بھی عالم الغیب ٹھہرے۔

حالانکہ عالم الغیب ہونا اﷲتعالیٰ کی صفت ہے اور اﷲتعالیٰ یہ صفت کسی مخلوق کو عطا نہیں کرتا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس وقت عطائی عالم الغیب تصور کیاجاتاہے کہ بالفرض اگر اﷲتعالیٰ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوخاص اپنی یہ قوت وصفت جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا بالکل اسی طرح یہ قوت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطافرمادیتا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ قوت وصفت ملنے کے بعد کسی کی مدد کے جس طرح اﷲتعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اس طرح جاننے لگتے تو پھر یہ عقیدہ بنایا جاسکتا تھا کہ اﷲتعالیٰ بھی عالم الغیب ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی عالم الغیب ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے اور رسول کو یہ قوت یہ علم اﷲنے عطا کیا ہے لہٰذا رسول کا علم عطائی ہے۔۔۔

لیکن کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی صفت اپنی قوت علم غیب جاننے کی نبی میں منتقل کردی اور نبی بھی عطا کی گئی قوت کے بعد علم غیب جاننے لگے ہوں۔

قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم علم غیب نہیں جانتے تھے اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں غیب جاننے کی قدرت نہیں عطا کی بلکہ غیب کی خبریں وقتا فوقتا جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے بتائیں (یعنی آپ نہیں جانتے تھے غیب کی خبریں آپ کو اﷲنے بتائیں )۔ اب اگر بتائی ہوئی غیب کی باتوں پر ہم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطائی عالم الغیب کہیں تو عقیدہ بھی خراب ہوجائے گا اور اس کا نتیجہ بھی صحیح نہیں نکلے گا۔۔۔۔

مثلاً اگر بتائی ہوئی باتوں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم عطائی عالم الغیب کہلائے گا تو غیب کی خبریں اﷲ تعالیٰ نے صرف ہمارے نبی کو نہیں بتائیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام لے کر جتنے بھی نبی اور رسول تشریف لائے سب عطائی عالم الغیب کہلائیں گے اس کے علاوہ ہمارے نبی پر اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے وحی کرتاتھا اس سب سے پہلے اﷲتعالیٰ غیب کی خبریں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بتاتا تھا لہٰذا حضرت جبرائیل بھی عطائی عالم الغیب کہلائیں گے پھر حضرت جبرائیل وہ خبریں وحی کرتے تھے ہمارے نبی کے قلب پر اس خبر کو سننے کے بعدلوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول عطائی عالم الغیب کہلائے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ رسول نے اس غیب کی خبر کا کیا کیا اگر رسول اس خبرکو اپنے تک ہی رکھتے تب بھی ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ رسول کو تو اﷲتعالیٰ نے غیب کی خبر بتائی ہیں رسول، اﷲ کی عطا سے غیب کی باتیں جانتے ہیں ہم نہیں جانتے لہٰذا رسول عطائی عالم الغیب ہیں لیکن میرے بھائیو! رسول اﷲنے وہ غیب کی باتیں اپنے تک محدود نہیں رکھیں بلکہ پوری امت کو سنادیں دراصل غیب کی باتیں تھیں ہی امت کے لیے نبی تو مبعوث ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ غیب کی باتیں اﷲانہیں بتائے اور وہ امت کو تاکہ امت ان غیب کی باتوں پر ایمان لاکر اپنے رب کی فرمانبردار بنے اب نبی کی عطا سے پوری امت غیب جانتی ہے لہٰذا پوری امت عطائی عالم الغیب ٹھہرے گی یقینا اس عقیدے کے تحت ایسا ہی ہوگا نبی اﷲکی عطا سے عطائی عالم الغیب اور امت نبی کی عطا سے عطائی عالم الغیب یہ بات صحیح ہے کہ عام امتی کو اتنا علم نہیں ہے جتنا علم ہمارے بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہے لیکن تھوڑا ہی سہی نبی کی عطا سے ہے تو بہت ساری باتیں ہم اور آپ جانتے ہیں جو غیب ہیں مثلاً جنت ،دوزخ ،فرشتے ،روح ،قیامت ،دجال ،ابلیس ،اوربہت ساعی باتیں جانتے ہیں جو غیب کی ہیں اورنبی نے عطا فرمائی ہیں پھر ایک دوسرے کو کیوں نہیں عطائی غیب داں کہتے ؟

حقیقت یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کل علم بھی رسول کو وحی کے ذریعے بتا دیتے تو پھر بھی اس علم پر وہ نبی اپنا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں غیب جانتا ہوں کسی بھی قسم کا ،اور نہ کسی نبی نے غیب کا دعویٰ کیا یہ محض کم عقل لوگوں کی سوچ ہے جو خود بھی گمراہ ہوئے اور نہ جانے کتنے لوگوں کو گمراہ کیا

بیشک ہمارے نبی کو اﷲتعالیٰ نے تمام انبیاء سے زیادہ علم عطا فرمایا مگر غیب دان نبی نہیں تھے بلکہ اﷲہے اﷲان پر غیب ظاہر فرماتا ہے اور وہ لوگوں تک اس بات کی تبلیغ کردیتے تھے ۔جب بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کہا جائے گااس طرح کہا جائے گا کہ نبی غیب نہیں جانتے تھے اﷲانہیں غیب کی باتیں بتاتاتھا یہی بات قرآن میں لکھی ہے یہی حدیث میں لکھی ہے یہی صحابہ کرام کا عقیدہ تھا یہی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کا عقیدہ تھا اور یہی کود محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کا عقیدہ تھا جس کا اظہار سورۃ الانعام کی آیت نمبر ٥٠ میں کیا ہے ۔

تین گروہوں سے اظہار برات

ہم تین گروہوں کے غلط طرز عمل سے اعلان بیزاری کرتے ہیں :​

اہل تحریف:
وہ جنہوں نے کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صریح نصوص میں اﷲ اور رسول کی مراد کے خلاف تبدیل کرکے انہیں اپنی جانب سے غلط معانی پہنانے کی کوشش کی۔

اہل تعطیل:
وہ لوگ جنہوں نے ان مدلولات کا معطل قرار دے کر'اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرادکے برخلاف انہیں ناکارہ ثابت کیا ۔

اہل غلو:
وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان نصوص کو تشبیہ انسانی پر محمول کیا یا ان صفات الٰہیہ کے مدلول کی بتکلف کیفیات بیان کیں۔

کتاب اﷲ اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں کوئی تعارض نہیں​

اور ہمیں یقینی علم ہے کہ جو کچھ کتاب اﷲ اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں وارد ہوا ہے وہ مبنی برحق ہے اور ا س میں کسی قسم کا قطعی تعارض واختلاف نہیں ہے ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے :

افلا تدبرون القرآن ، ولو کان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا ( نسائی:٨٢)۔۔۔
کیا یہ قرآن میں غور نہیں کرتے اگر یہ اﷲکے سوا کسی دوسرے کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے ۔

یوں بھی خبروں میں باہمی تعارض واختلاف ہونا ایک حصہ دوسرے حصے کی تکذیب کا باعث ہوتا ہے جبکہ اﷲ ورسول سے منقول اخبار میں ایسا قطعا ناممکن ہے۔

جو شخص کتاب اﷲ یا سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم یا دونوں میں تعارض یااختلاف کا مدعی ہو تو یہ اس کی دلی بے راہ روی اور بدنیتی کی علامت ہے ۔اسے چاہیے کہ اﷲرب العزت کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہوئے اپنی کج روی سے نجات حاصل کرے اور جو شخص اس وہم کا شکار ہے کہ کتاب وسنت میں کہیں تعارض ہے تو یہ بات اس کے قلت علم یا اس کے غور وفکروتدبر میں تقصیر کے باعث ہے ۔ایسے شخص کو علمی جستجو کے ساتھ ساتھ مسلسل غوروفکر کرنا چاہیے تاکہ حق اس پر آشکارہ ہوجائے ۔اگر سعی مسلسل کے باوجود حق تک رسائی نہ ہو تو اسے کسی اہل علم کے سپرد کرکے اور اپنے توہمات سے رک جائے اور پختہ صاحب علم کی مانند یوں کہے :

ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ۬ مِّنۡ عِندِ رَبِّنَا‌ۗ
خوب سمجھ لیجئے !کتاب وسنت میں اور نہ ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف وتعارض نہیں ہے۔ ( آل عمران:٧)۔۔۔

عزیز دوستوں!۔
اﷲتعالیٰ ہمیں اپنے امام اعظم پیر ومرشد اعلیٰ حضرت لائق اتباع نبی آخر الزماں کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور میرے وہ بھائی جو کم علمی کی وجہ سے تقلید کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ قرآن وحدیث سے دور ہیں اﷲتعالیٰ انہیں قرآن وحدیث صحیح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

حدیث؛ ابوھریرہ رضہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں کتاب اللہ اور میری سنت چھوڈ کر جا رہا ہوں ان پر جب تک عمل کروگے کبھی گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں چیزیں کبھی جدا نہی ہو سکتیی یہانتک کہ ایک ساتھ میرے پاس حوض پر آئینگی (موطا امام مالک و مستدرک الحاکم)

ان قرآنی آیات کا مفہوم بھی بیان کردیں؟

[qh]قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۔(اعراف 188)

قُل لاَّ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلاَ تَتَفَكَّرُونَ (انعام 50)

وَلاَ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلاَ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللّهُ خَيْرًا اللّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ (ھود 31)

إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (فاطر 38)[/qh]

واللہ اعلم۔۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS