find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Qurbani ke Gaye (cow) me Kitne log Shamil ho sakte hai, Haram tarike se kamane walo ki Us hisse me Qurbani hogi ya nahi?

Gaye ki Qurbani me kitne log Shamil ho sakte hai?

Kya 7 logo ka aqeeqa Ek gaye me ho sakta hai , jaise Qurbani me Saat log sharik hote hai?

Kaise Janwar ki Qurbani jayez hai?

Qurbani ka tarika, Kin logo par Qurbani wazib hai?

Sawal: oont (Camel) aur Gaye ki Qurbani me Jyada se jyada Aur kam se kam kitne log Shamil ho sakte hai? Agar hissedaro me se koi Shakhs Be Namaji ya Mushrik ho, Aamdani (Income) haram ki ho, Hissedaro me se kisi ek shakhs ki Qurbani ke bajaye Sirf Gost ki niyat ho to kya uski wajah se baki logo ki Qurbani bhi jayez hogi?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-67"

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

Published Date- 31-7-2019

جواب..!!
الحمدللہ!!

*اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں ایک سے زائد لوگوں کا حصہ ڈالا جا سكتا ہے، ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا،اور ايک گائے ميں سات حصہ دار شريک ہو سكتے ہيں اور ایک اونٹ میں سات یا دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں.

صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايک اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريک ہونا ثابت ہے،

امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ايک اونٹ اور ايک گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى "
(صحيح مسلم حديث نمبر_1318 )

اور ابو داود كى روايت ميں ہے ،

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2807)

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:  گائے سات افراد كى جانب سے ہے، اور اونٹ سات افراد كى جانب سے "
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 2808 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ صحیح مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں، اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايك اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا، اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے، اور ہر ايك سات بكريوں كے قائم مقام ہے، حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايك گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفائت كر جائيگا " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے كفائت كرتى ہے، چاہے وہ ايك ہى گھر كے افراد ہوں، يا پھر مختلف گھروں كے، اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ايك گائے اور ايک اونٹ ميں سات افراد شريک ہونے كى اجازت دى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا " انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401 )

*گائے اور اونٹ میں سات سات لوگوں کے شریک ہونے کا اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، یعنی حاجی جو منی میں قربانی کرتے ہیں وہاں اونٹ ہو یا گائے سات سات لوگ ہی شریک ہو سکتے ہیں،لیکن عام جگہ پر جو قربانی کرتے ہم یہاں اونٹ کی قربانی میں دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں*

جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں ہے!

سیدنا ابن عباس سے رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ شریک ہوئے اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-905)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3131)
اس حدیث کو امام (ابنِ حبان_4007)نے ''صحیح'' اور امامِ حاکم نے ''امام بخاری کی شرط پر صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے،

لہذا_ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں
_______&________

*ایک سے زائد قربانیان کرنا جائز ہے اور اسی طرح بڑے جانور میں سات سے کم لوگ شریک ہو سکتے ہیں ،یعنی کوئی دو حصے رکھ لے یا تین رکھ لے مگر کوئی بھی سوا ،ڈیڑھ یا ڈھائی قربانی نہیں کر سکتا*

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا اسلام نے عید کے دن قربانی کرنے کی تعداد مقرر کی ہے؟ اور کی ہے تو یہ کتنی تعداد ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اسلام میں قربانی کی تعداد کیلئے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو  قربانیاں کیا کرتے تھے، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسری امت محمدیہ میں سے موحدین کی طرف سے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک، یا دو ، یا اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بکری ذبح کرتے تھے، اور پھر اسی سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے، اس کے بعد لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ  بنا لیا"، خلاصہ یہ ہے کہ: اگر کوئی انسان اپنے گھر میں اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کر دے تو اس طرح اس کا سنت پر عمل ہو جائے گا، اور اگر کوئی دو ، تین، چار،  یا گائے ، یا اونٹ کی قربانی کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی
(ماخوذ از ویب سائٹ شیخ ابن باز رحمہ اللہ:)
http://www.binbaz.org.sa/mat/11662

یعنی ایک بڑے جانور مثلا گائے، اونٹ میں سات قربانیاں ہوتی ہیں۔ سات افراد ایک ایک حصہ ڈال لیں یا پھر سات سے کم لوگ ہوں تو وہ قربانی کے اعتبار سے حصے اس طرح ڈالیں کہ ایک بندہ ایک حصہ، دو حصے یا تین حصے یا چار حصے یا پانچ حصے یا چھ حصے یا پھر پورا جانور یعنی چھ لوگ کر رہے ہیں تو ایک بندہ دو حصے ڈال لے اور باقی ایک ایک تاکہ کوئی حصہ ساتویں (1/7) سے کم نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ کوئی سوا، ڈیڑھ یا پونے دو قربانیاں نہیں کرے گا۔ جو بھی کرے مکمل ایک، دو یا اس سے زائد قربانیاں کرے۔ اسی طرح ایک بڑے جانور میں پانچ بندے حصہ ڈالیں تو ایک ایک تو سب کو مکمل قربانی آ جائے گی باقی دو سب پر تقسیم نہیں کی جائیں گی۔ ان دو کو کسی ایک کے ذمہ لگا دیں یا دو بندے دو دو کر لیں۔ اسی طرح ایک بڑے جانور کو دو بندے مل کر قربانی کریں تو ایک بندہ چار حصے کر لے ایک تین، ساڑھے تین تین نہیں کریں گے۔ المختصر یہ کہ جو بھی کرے مکمل قربانیاں کرے، ایک، دو یا زیادہ جتنی بھی،

________&_________

*گائے میں سات سے زیادہ اور اونٹ میں دس سے زائد حصے دار نہیں بن سکتے*

سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اپنی ویبسائٹ(islamqa) پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ،
کسی قربانی کرنے والے کیلیے ساتویں حصے سے کم حصہ جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی محض گوشت ہی حاصل کرنا چاہتا ہے قربانی  نہیں کرنا چاہتا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کہ جتنا مرضی حصہ لے لے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "أحكام الأضحية"  میں کہتے ہیں کہ:
"ایک بکری ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہوگی، اور اسی طرح گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ  بھی ایک بکری کی طرح ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہو گا۔۔۔

اور اگر [بکری کی] قربانی میں ایک سے زیادہ افراد مالک  ہوں تو پھر اس کی قربانی نہیں ہو گی، اونٹ اور گائے کی مشترکہ قربانی  میں سات سے زائد حصے دار شریک نہیں ہو سکتے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی عبادت  اور قرب الہی کا ذریعہ ہے چنانچہ اس عبادت کا طریقہ کار وہی ہو گا جو شریعت نے بتلایا ہے اس میں وقت، تعداد اور کیفیت ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا" ختم شد
("رسائل فقهية"_ص 58، 59)

*اور اگر کوئی قربانی کرنے والا شخص ساتویں حصے سے بھی کم حصہ ملائے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، تاہم اس کی وجہ سے دوسروں کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک گائے میں ساتواں حصہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ان میں سے کچھ قربانی کریں یا صرف گوشت حاصل کرنے کیلیے حصہ ڈال رہے ہوں*

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 )

 ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے...
پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى " انتہى.
(ديكھيں: المغنى ابن قدامہ_ 13 / 363 )

نوٹ_

*اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر کوئی بے نمازی،مشرک آدمی یا حرام کمائی والا شخص قربانی میں حصے دار ہے تو اسکی نیت یا اسکا عمل  باقیوں کی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو گا،کیونکہ سب کی اپنی اپنی نیت ہے جس نے جس نیت سے یا جس مال سے قربانی کی ہے اللہ اسکو جانتا ہے،کچھ علماء کا یہ فتویٰ دینا کہ بے نماز یا مشرک یا حرام مال والے حصے دار سے باقیوں کی قربانی بھی ضائع ہو جائے گی یہ بات بے معنی اور بے دلیل ہے اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو کوئی بھی اجتماعی عبادت قبول نا ہو،۔۔۔ لہذا دلیل کے بنا ہم اس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے،ہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہتر ہے کہ تمام لوگ موحد اور نمازی پرہیزی قربانی میں شریک ہوں ،کیونکہ مشرک/بے نماز کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور اس لیے بھی تا کہ بے نماز اور مشرک کی حوصلہ شکنی ہو اور انکو دعوت ملے کہ انکے  برے عمل کی وجہ سے کوئی انکو قربانی میں بھی شریک نہیں کر رہا۔۔*

(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

قربانی کے مسائل کے بارے مزید پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Bachho ke aqeeqa me Gaye (cow) aur Camel Zabah kar sakte hai, Saat Ladkiyo ke aqeeqe ke liye ek bara Janwar Zabah kar sakte hai?

Kya Baccho ke aqeeqe me koi bara janwar Gaye (Cow) Oont (camel) wagairah Zabah kar sakte hai?

Gaye aur Oont ki Qurbani me kitne Log Shamil ho sakte hai?

Qurbani ke janwar me baccho ke aqeeqe ka hissa rakhna kaisa hai?

Agar ek Shakhs ki saat betiyaan hai aur wah ek oont (jisme Saat log sharik ho sakte hai ) ka aqeeqe kiya ja sakta hai, usse kya sato betiyo ka aqeeqa hoga ya fir ek beti ka?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-30"

سوال_کیا بچوں کے عقیقہ میں بڑا جانور گائے یا اونٹ وغیرہ ذبح کر سکتے ہیں۔۔۔؟ اور قربانی کے جانور میں بچوں کے عقیقہ کا حصہ رکھنا کیسا ہے؟

Published Date:17-02-2018

جواب۔۔۔۔!
الحمدللہ۔۔۔۔!!

*بچوں کے عقیقہ میں بڑا جانور یعنی گائے اونٹ یا بھینس وغیرہ ذبح کرنا سنت سے ثابت نہیں،بلکہ سنت یہ ہے کہ لڑکا ہو تو دو جانیں یعنی دو بکریاں اور لڑکی ہو تو ایک جان یعنی ایک بکری عقیقہ کی مد میں ذبح کرنی چاہیے*

لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور
فَسَأَلُوهَا عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَأَخْبَرَتْهُمْ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ.

ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا ،
تو انہوں نے بیان کیا کہ ( ان کی پھوپھی ) ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1513)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3163)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_5310)

أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَقَالَ : " عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ، لَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا "

ام کرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں“

(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1516)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2834,2835)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_4220)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3162)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_5312)

 عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا کہ جب ایک شخص کے ہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ ". قَالَ دَاوُدُ : سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ عَنِ الْمُكَافَأَتَانِ، قَالَ : الشَّاتَانِ الْمُشَبَّهَتَانِ تُذْبَحَانِ جَمِيعًا.

جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کرے،
داود بن قیس کہتے ہیں:
میں نے زید بن اسلم سے «مكافئتان» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں،،

(سنن نسائی،حدیث نمبر_4212)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2842)

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں،
عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِكَبْشَيْنِ كَبْشَيْنِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ میں دو  دو دنبے ذبح کیے،
(سنن نسائی،حدیث نمبر_4238)

عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ اس (اپنے بھتیجے) کی طرف سے اونٹوں کا عقیقہ کریں تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا،
اللہ کی پناہ،
بلکہ وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (عقیقہ میں) دو بکریاں ایک جیسی کرو،
(سنن الکبری للبیہقی،کتاب الضحایا،
ج9/ص507_حدیث نمبر_19280)
(أرواء الغليل،ص4/390ج)

عطاء كہتے ہیں كہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا كے پاس كہا : اگر فلاں كی بیوی كے ہاں ولادت ہوگی، توہم اس كی طرف سے اونٹ نحر كریں گے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہاِ: نہیں بلکہ سنت یہ ہے كہ بچے كی طرف سے دوبكریاں اور بچی كی طرف سے ایک بكری ذبح كی جائے۔
(سلسلة الصحیحہ،حدیث نمبر_2720)

*ان تمام احادیث سے یہ بات صاف سمجھ آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقیقے میں بکری اور دنبے ذبح کرنے کا حکم دیا،اور حدیث میں  "شاة" کا لفظ بولا گیا اور "شاة" کا لفظ بھیڑ،بکری پر ہی بولا جاتا ہے، اگر اونٹ وغیرہ میں عقیقہ ہو سکتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا، اللہ کی پناہ نا مانگتی۔۔!! لہٰذا بچوں کے عقیقہ میں صرف بھیڑ ،بکری یا دنبہ کی نسل سے جانور ذبح کریں،اور خرگوش،مرغی، گائے،بیل یا اونٹ وغیرہ سے عقیقہ کرنا خلاف سنت عمل ہے،*

________&________

*قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا*

شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال کیا گیا کہ کیا قربانی کے جانور  میں عقیقہ کا حصہ رکھ سکتے ہیں؟

تو انکا جواب تھا کہ
عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے،

ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے ، اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے۔۔انتہی!
(ویب سائٹ اسلام سوال جواب_  نمبر-223916)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہی سوال پوچھا گیا تو  آپکا جواب تھا کہ،

"اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلیے کافی ہوتے ہیں، لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا؛ کیونکہ  عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے، لیکن  پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے؛ کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے ، لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔

اگر ہم یہ کہیں کہ : اونٹ  کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے ، لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا؟!  [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے  کیلیے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے  تو یہ کفایت نہیں کر ے گا،

لیکن کیا اگر اس طرح ساتوں بیٹیوں کا عقیقہ نہیں ہوا ، تو کیا ایک بیٹی کا عقیقہ ہو جائے گا ؟

یا ہم یہ کہیں کہ یہ عبادت شرعی طریقے پر نہیں کی گئی اس لیے یہ گوشت والا جانور شمار ہو گا اور ہر ایک کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے گا؟

دوسرا موقف زیادہ بہتر لگتا ہے،

یعنی کہ ہم کہیں گے کہ: اس طرح کسی ایک لڑکی کی طرف سے بھی عقیقہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کا طریقہ کار شرعی طریقے کے مطابق نہیں تھا، اس لیے اس شخص کو ہر بیٹی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا ہو گی، اور ذبح شدہ یہ اونٹ اس کی ملکیت ہی رہے گا اب وہ اسے جو چاہے کرے اس لیے وہ اس کا گوشت فروخت کر سکتا ہے؛ کیونکہ یہ بطور عقیقہ ذبح نہیں ہوا" انتہی
اس بنا پر  خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ کوایک جانور قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا کفایت نہیں کرے گا، اس لیے عقیقے کیلیے الگ بکری ذبح کریں یہ افضل ہے۔
(الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424) میں کہتے ہیں: 
"عقیقے میں بکری ذبح کرنا مکمل اونٹ ذبح کرنے سے بہتر  ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرتے ہوئے احادیث میں صرف بکری کا ذکر ہی ملتا ہے، ا س لیے عقیقے میں بکری ذبح کرنا ہی افضل ہو گا" انتہی

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ ڈالنا درست نہیں*

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
فرض ہے یا سنت؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-271)

بچے کیطرف سے عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا ضروری ہے یا پہلے اور بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے؟ نیز کیا بڑی عمر میں اپنا عقیقہ خود کر سکتے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-310)

قربانی کے حوالے سے باقی مسائل پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Aei Musalman Mardo, Tumhare Haque me Aise Hamsafar ache nahi.

Waisa Hamsafar jo Musalman mard aur Aurat ke haque me Acha nahi.

Waise Momin Mard aur Momina Aurat jinhe duniya ko aakhirat ki taiyaari me laga diye.

السَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

 : مسز انصاری

اے مسلمان مردوں ! تمہارا ہمسفر تمہارے حق میں وہ اچھا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

- جو تمہیں اللہ سے دور کردے
- جو تمہیں عبادات سے دور کر دے
- جو تمہیں غیرتِ ایمانی سے دور کر کے دیوث بنا دے
- جو تمہیں گناہوں سے نا روکے
- جو تمہیں اپنے تک محدود کر دے اور تم اللہ سے دور ہوجاو
- جو تمہیں حرام مال کمانے کی رغبت دلائے

☜بلکہ تمہارا ہمسفر تمہارے حق میں وہ اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

- جو تمہیں جنت کے راستے پر لے چلے
- جو تمہیں اللہ کے قریب کر دے
- جو تمہیں عبادات کی طرف بلائے
- جو تمہیں ہر اس کام سے روکے جن سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے
- معیشت کی فراوانی میں بھی وہ تمہارے ساتھ شکرگزاری کے ساتھ رہے اور جب تم تنگدست ہوجاو تو وہ ہر مشکل میں تمہارے ساتھ ہو ، جب جب تم ٹوٹنے لگو تو وہ تمہارے حوصلوں کو اپنی محبت اور چاہت سے جوڑ دے.

- جو حق حلال کی روکھی سوکھی کھا کر آسودہ ہو مگر حرام کے اعلی لوازمات کھا کر اسے تمہاری آخرت کی فکر دامنگیر ہوجائے اور اسے یہ لوازمات بے ذائقہ لگیں .

- جو تمہاری امانتوں میں خیانت کو موت متصور کرے۔

 اور اے مومنہ عورتوں ! تمہارا ہمسفر وہ اچھا نہیں ہے :

- جو تمہیں اللہ کے احکامات سے روکے
- جو تمہیں نا محرموں کے آگے بے حجاب کرنا پسند کرے
- جو تمہیں فحش گناہوں پر نا روکے
- جو تمہیں صرف دنیا دے اور آخرت سے غافل کر دے
- جو تمہیں قرآن اور رکوع و سجود سے دور کر دے
- جو تمہیں دنیا کی رنگا رنگی میں گُم کر دے

☜ بلکہ تمہارا ہمسفر تمہارے حق میں وہ اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

- جو تمہیں باحجاب کر دے
- جو لوگوں کی غلظ نظروں سے تمہاری حفاظت کرے
- جو تمہیں جنت کے راستے کا راہگزار بنائے
- جو تمہیں اللہ کے قریب کر دے
- جو دیوث نا ہو
- جو تمہیں ہر اس کام سے روک دے جو عورت کے تقدس کے منافی ہو
- جو تمہیں سینماوں کے بجائے دینی درسگاہوں کی طرف لے چلے
- جو تمہارے وجود کو ساری نگاہوں سے پوشیدہ رکھے

 اے ایمان والے بندوں اور اے ایمان والی بندیوں

اپنے ہمسفروں کو دیندار بنانے میں ان کی اعانت کرو ، مال وزر ہیرے جواہرات بینک بیلنس سے زیادہ خیر و برکت اور باعثِ نجات ذرائع مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے لیے ہوتے ہیں , اپنے گھروں کو اپنے بچوں کو اور اپنے ازواج کو دین کی رغبت دلاو۔

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۤءُ بَعْضٍۘ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗۗ اُولٰۤٮِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُۗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
[ التوبہ آية ۷۱ ]

مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں.
(١) وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں .
(٢) نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکٰو ۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں .
(٣) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا
حکمت والا ہے

Share:

Jab Ek Educated Ladki ne Deendar aur Dadhi wale ladke se Shadi karne se inkar kar di.

Jab ek Padhi likhi ladki ne Dadhi wale Deendar Ladke se Shadi karne se inkar kar di.


Ladkiyaan Dadhi wale ladke se shadi kyu nahi karti?

Aaj sabse Jyada Be hyayai kisse fail rahi hai?

Jab ek Modern ladki ne Parda karne wali ladki ka mazak banaya.

Aise Mard aur Aurat Ko Sharik e hayat nahi banaye jo aapke haque....

جب ایک تعلیم یافتہ لڑکی نے ایک داڑھی والے لڑکے سے شادى کرنے سے انکار کر دی۔

آج کی تحریر #مردوں کے نام

ایک زبردست تحریر

"اسکی یہ ڈیمانڈ ہے کہ تم داڑھی شیو کر لو تو پھر ہی وہ شادی کرے گی"، عمر کہ امی اسکے قریب آ بیٹھی تھیں۔

عمر کو یہ خبر سن کر دھچکا سا لگا۔ ساتھ ہی دل پر تکلیف کا ایک بھاری بوجھ آن گرا،

"کیا؟؟؟

یہ ارم نے کہا۔۔؟؟"، اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا۔

شادی کو صرف ایک ہفتہ رہ جانے پر منگیتر کی طرف سے ایسی بات سننا۔۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ اب دل میں جگہ بن چکی ہو، محبت سی محسوس ہونے لگی ہو۔۔ تکلیف کا عالم ناقابلِ بیاں تھا۔

"ہاں بیٹا، مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا، اس لیے خود اس سے ہی پوچھ کر آ رہی ہوں۔

میری مانو تو اسکی مان لو۔ کیا ہے اس میں۔ ایک داڑھی ہی کی تو بات ہے۔ آجکل تو لوگ دو ٹکے کی جاب کے لیے بھی داڑھی چھوڑ دیتے ہیں، تو تمہارا تو پوری زندگی کا سوال ہے بیٹا۔ اتنی اچھی لڑکی ہے، پڑھی لکھی، خوبصورت ، جوان، اچھا خاصا خاندان ہے، خود وہ ڈاکٹر ہے، اور کیا چاہیے۔۔ اب ضد نہ کرنا بیٹا"، سارہ صاحبہ بیٹے کو سمجھانے لگیں۔

پہلے منگیتر، اب ماں۔۔ اور کس کس کا مقابلہ کرنا پریگا ۔ عمر کا صدمے سے حلق گھُٹنے لگا تھا۔

"امی جان۔۔ جب اس نے مجھے پہلے قبول کیا تھا تو اس داڑھی کے ساتھ ہی کیا تھا۔ آج اگر ڈاکٹر بن کر اسکی سوچیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں"، دل غم سے چُور چُور تھا۔

* * * * *

"ایک طرف دل ہے، اور دوسری طرف ایمان۔۔
ایک جانب دنیا قدموں میں ہے، اور دوسری جانب اللہ۔۔

ایک رستہ دل پسند زندگی کی طرف جاتا ہے، اور ایک ہجر کی تنہائیوں کی طرف۔۔"، عمر سُنسان پارک میں بیٹھا خود سے مخاطب تھا۔

آج بہت بڑا امتحان لے لیا تھا اس سے اس کے رب نے۔ آج پتا چلنا تھا جو دین دین کے نعرے لگانے والا عمر تھا وہ واقعی دل سے ایمان لایا تھا یا رب سے محبت کے سارے دعوے کھوکھلے تھے۔

عمر کے زہین سے پرانی، خوبصورت یادیں گزرنے لگیں۔
وہ جب پہلی مرتبہ ارم کے گھر گئے تھے۔ جب رشتے کے لیے ہاں ہوئی تھی۔ دوستوں کی شادی کی خبر پر چھیڑ چھاڑ، ہنسی مزاق۔۔۔

عمر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔

"ایک داڑھی کی بات نہیں ہے۔۔
میری پوری آخرت کی بات ہے۔۔"، پلکوں پر کچھ قطرے نمودار ہوئے۔

"اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔"، قریبی مسجد سے اذان گونجنے لگی۔

"اللہ اکبر۔۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔۔
اف !! بےشک اللہ سب سے بڑا ہے، سب سے پہلے بھی ہے، اور سب خواہشات سے اوپر بھی ہے۔۔"،عمر دل ہی دل میں بےاختیار کہہ اٹھا۔

"آج مجھے بھی ایک بدر لڑنی ہے۔۔ ایک اُحد پر قربان ہونا ہے۔۔۔ پر میری دفعہ میدان میرا دل بنا ہے۔۔
ہر خواہش قربان ہے تُجھ پر میرے اللہ۔۔ اس دل پر آج میں خود چھُری چلا دوں گا۔۔"، دُکھ سے آواز رند گئی-

* تم کیا جانو کہ ادائے ابراہیمی کیا ہے
رب کی رضا کی خاطر خود کا دل دُکھا دینا -

* * * * * * *

(ایک سال بعد۔۔)

"آئیں نا پہلے کھانا کھا لیں پلیز۔۔"، آمنہ محبت سے اپنے شوہر سے گویا تھی۔

"ابھی ایک گھنٹے تک کچھ نہیں کر سکتا آمنہ، آج واقعی بہت کام ہے"، عمر نے لیپ ٹاپ تھوڑا اور قریب کرتے ہوا جواب دیا۔

"۔۔میں نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کھایا کہ آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔۔"، آمنہ نے کچھ دیر خاموشی سے پاس بیٹھنے کے بعد دھیمی سی آواز میں کہا۔

"کیا۔۔؟ ارے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔؟؟"، عمر نے سب کام چھوڑ کر اپنا رُخ پوری طرح اپنی بیوی کی جانب پھیر لیا۔

"۔۔اور اب بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔"، آمنہ نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے دُکھی سا منہ بنایا۔

"ہاہاہا۔۔ "، عمر اپنی ہنسی نہ روک سکا۔

"حیرت ہے میڈم کو تو ایک منٹ بھوک برداشت نہیں ہوا کرتی، آج تین گھنٹے کیسے گزار لیے؟؟"

آمنہ بھی مسکرا دی۔ "لگاؤں پھر کھانا؟"

"جی جناب، ملکۂِ عالہ بھوکی ہوں اور ہم خیال نہ کریں، ایسا ممکن ہے بھلا؟"، عمر شرارتاً اس سے گویا تھا۔ لیپ ٹاپ اب بند کر چکا تھا اور چارجر اتار کر واپس رکھ رہا تھا۔

آمنہ شرماتی آنکھوں سے ہنستے ہوئے کچن کی جانب چل دی۔

ارم کے ٹھکرا دینے کے معاملے کو ایک سال بِیت چکا تھا۔ عمر نے اپنی منگیتر اور سُنت کی داڑھی میں سے سنت کو چُنا تھا۔ اس فیصلے پر وہ دنیادار لوگوں کی نظر میں بےوقوف ترین ٹھہرا تھا، اپنوں، حتٰی کے والدین تک کے طعنے اور گالیاں سنی تھیں ، اور خاندان والوں کی باتیں الگ۔۔

خاندان والے کتنی باتیں بنائیں گے۔۔
داڑھی جب تک ہے کوئی اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔۔
تم نے تو ذلیل کر دیا ہے بوڑھے ماں باپ کو اپنی ضد کی خاطر۔۔* وغیرہ وغیرہ

ایسی باتیں پورا ایک سال اکیلا ہی سنتا رہا۔ جس کا جو دل میں آیا کہتا رہا۔ لیکن عمر کا فیصلہ ایک دن کے لیے بھی نہ بدلا۔ ہاں تکلیف تو بہت ہوتی تھی ایسے رویوں سے لیکن اللہ کا قرآن اور ذکر ایسی چیزیں تھیں جو اسکی ہمت بنی رہیں۔

سچ ہے نماز اور ذکر نہ ہو تو انسان تو پاگل ہی ہو جائے۔

اللہ نے ایسے صبر پر استقامت بھی پھر کمال کی عطا کر دی تھی۔

حقیقی بات ہے کہ وہ رب اپنی خاطر اُٹھے انسان کو کبھی مرنے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑ دیتا۔ لیکن اس لیول پر آنے کے لیے پہلا قدم خود اُٹھانا پڑتا ہے۔

ثبوت دینا پڑتا ہے کہ واقعی آپ کے لیے اللہ ہی سب سے زیادہ قیمتی ہے۔۔

اس کے بعد ڈرپوک سے ڈرپوک تریں انسان کا دل بھی پہاڑ کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسے وہ مضبوطی عطا کر دی جاتی ہے جو اس کے قدموں کو رب کے راستے پر جما دے ، اس طرح کہ پھر دنیا کی کتنی بھی سخت ہوائیں چلیں اسے گرا نہیں سکتیں، اس راستے سے ہٹا نہیں سکتیں۔۔

لیکن اس راہ پر صرف دکھ ، تکلیف اور محرومیاں ہی نہیں ملتیں بلکہ انسان وقتاً فوقتاً انعام سے بھی نوازا جاتا ہے۔۔ جیسے آج عمر کو نوازا گیا تھا۔

عرصے کے گھُپ اندھیروں اور طوفانوں کے بعد اسکی کشتی کو بھی کنارے لگا دیا گیا تھا۔

اسے آمنہ جیسی ایمان والی، محبت کرنے والی، شرم و حیا والی ایک پردہ دار، خوبصورت بیوی عطا کر دی گئی تھی۔
ارم کو اللہ کے لیے کھو دینے پر اس کو دنیا میں ہی جنت سی دے دی گئی تھی۔ عمر کو کبھی کبھی لگتا تھا جیسے اللہ نے اسکی ساری فِیلِنگز کو سمیٹ کر ایک انسان کا رُوپ دے دیا ہو، آمنہ کے نام سے۔ جیسے وہ حقیقتاً کوئی انسان نہیں تھی بلکہ عمر کی ضرورتوں کا جوابی عکس، اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک، اسکی روح کا سکون۔۔

جبکہ دوسری جانب، ارم ، اسے ٹھُکرا دینے پر آج بھی کنواری بیٹھی تھی۔

وہ شاید بھول گئی تھی کہ جسے ایک داڑھی سمجھ کر ٹھُکرا رہی تھی، وہ محض ایک داڑھی نہیں تھی، بلکہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔

اصل میں توہین اس نے عمر کی نہیں کی تھی بلکہ اللہ اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھی۔

اور یہ کوئی چھوٹا جُرم نہیں تھا۔ ارم کی طرح آج کتنے ہی نام نہاد مسلمان داڑھی، پردہ، ٹخنوں سے اوپر پائنچے اور دین کی دوسری کئی باتوں کے لیے کتنے آرام سے نفرت آمیز رویے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ان پر عمل کرنے والوں کا مزاق اُڑاتے رہتے ہیں۔۔

یہ سوچے بِنا کہ ان کا یہ سب کرنا انکو تباہی کے کس کس گڑھے میں پھینکتا جا رہا ہے، انھیں تباہ و برباد کرتا جا رہا ہے۔۔ زندگی سے سکون ایسے ہی نہیں چھِن گیا ایسے لوگوں کے !!

نبی کے صحابہ کے راستے پہ چل کے
دلوں کا سکوں ہم نے حاصل کیا ہے
لگا ہے نشہ جب سے جنت کا ہم کو
اُچاٹ اپنا جی اس جہاں سے ہوا ہے۔

Share:

Kya Toote hue bartan me khana pina Makrooh hai, toota bartan me khana nahi chahiye.

Kya toote hue bartan me khana khana makrooh hai?
Kya bartan Toot jane ke bad usme Khana nahi kha sakte hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-253"
سوال_کیا ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں؟

Published Date: 18-6-2019

جواب۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔!!

*لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے یا نا پسندیدہ ہے، لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے سے ٹوٹے ہوئے برتن کا استعمال کرنا ثابت ہے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ ، قَالَ عَاصِمٌ : رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جٖڑوا لیا ۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے ۔ اور اس میں، میں نے پانی بھی پیا ہے
(صحیح بخاری: حدیث نمبر،3109)

📚عاصم احول نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس دیکھا ہے وہ پھٹ گیا تھا،
تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا ۔ پھر حضرت عاصم نے بیان کیا کہ وہ عمدہ چوڑا پیالہ ہے،چمکدار لکڑی کا بنا ہوا،
بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اس پیالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا پلایا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابن سیرین نے کہا کہ اس پیالہ میں لوہے کا ایک حلقہ تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ چاندی یا سونے کا حلقہ جڑوا دیں لیکن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر، 5638)

*دراصل عوام الناس میں جو بات مشہور ہےکہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکرو ہے ،یا ناجائز ہے اسکی بنیاد یہ حدیث ہے*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر، 3722)

" ثلمة " سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو، کیونکہ اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہو گی،

📚 جیسا کہ (عون المعبود) شرح سنن أبي داود میں ہے کہ
قال الخطابي: إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصبب الماء وسال قطره على وجهه وثوبه، لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح. وقد قيل:
إنه مقعد الشيطان، فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء، فيكون شربه على غير نظافة، وذلك من فعل الشيطان وتسويله، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما یهو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه والله أعلم

*شرح کا مفہوم*

امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے اس لیے منع فرمایا کہ وہاں سے مشروب نکل کر چہرے اور کپڑوں پر گرے گا،جو اسکے لیے تکلیف اور اذیت کا سبب بنے گا،کیونکہ وہ ٹوٹی جگہ کہ وجہ سے پیالے کو ہونٹوں پر صحیح سے نہیں رکھتا،
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ شیطن کے بیٹھنے کی جگہ ہے،اور اسکا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے  برتن کی دھلائی اچھی طرح سے نہیں ہو پاتی اور اسکا پانی وغیرہ صاف نہیں رہتا،اور  وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی وصفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے،
_____&______

اور ہم کہتے ہیں کہ اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے مشروب پیتے وقت اسکو چوٹ بھی لگ سکتی ہے لہذا انہی چند وجوہات کی بنا پر شریعت نے ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگانے سے منع فرمایا ہے،

*حدیث کے مفہوم اور مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ " ثلمة " سے ٹوٹا ہوا برتن مراد نہیں ہے بلکہ اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ مراد ہے یعنی اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی نہ پیا جائے بلکہ یہ مراد ہے کہ برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی نہ پیا جائے*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Parda karne wali ladkiyaa Khud ko Samajhati kya hai, Dil ka Parda hi kafi hai.

Ye ladkiyaa khud ko Samajhti kya hai?
Kya yahi Nek aur Pakbaj hai, yahi Sharm o haya wali hai.

Parda to sirf dil ka hota hai, kya dimag ka bhi hota hai Parda?

ماڈرن: پردہ تو دل کا ہوتا ہے۔ انسان کی آنکھ میں حیا ہونی چاہیے۔ ایسے ہی یہ پردے کا بھوت سوار کیا ہوا ہے سب کے سر پر۔
بڑی دیکھی ہیں پردہ دار بھی پردے میں نہ جانے کیا کیا کرتی پھرتی ہیں۔ اور بڑی ماڈرن لڑکیاں دیکھی ہیں جو کسی کو اپنے پاس بھی نہیں بھٹکنے دیتیں۔

کیفے کی کرسیوں پر بیٹھی ایک لڑکی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کیوں کہ ابھی دروازے سے دو با پردہ لڑکیاں کیفے میں داخل ہوئیں تھیں۔ اور اسے اُن دونوں سے ہی بہت چڑ تھی۔

زیادہ ہی پاکباز بننے کا شوق ہے۔ بس دکھاوا لگتا تھا اسے۔ اُس نے یہ تبصرہ اپنے اِرد گرد کے لوگوں کو ہی نہیں سنایا تھا بلکہ اصل میں اُن دونوں کو ہی سنانا تھا۔

اُن دونوں میں سے ایک با پردہ لڑکی کے ماتھے پر کچھ بل پڑے۔ لیکن پھر مسکرائی اُسکی آنکھیں مسکرائی تھیں۔ وہ جو اپنے بیگ سے پیسے نکال رہی تھی وہیں سے پلٹی دوسری لڑکی نے اسکو جاتے دیکھا تو وہ بھی مسکرائی جانتی تھی وہ رکے گی تو ہرگز نہیں اور وہ چاہتی بھی نہیں تھی کہ وہ رکے۔

وہ چلتی چلتی اُس گروپ کے قریب آئی اور سلام لیا۔
اسلام علیکم و رحمتہ اللّٰهِ و برکاتہ۔
آپ نے ابھی ابھی کہا کہ پردے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ حیا تو آنکھوں میں ہونی چاہیئے۔
کیا آپ سے ایک سوال کہ سکتی ہوں؟

ماڈرن لڑکی ذرا گھبرائی لیکن پھر ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں جیسے اجازت دے دی۔

جب آپ کسی اسکول میں ایڈمشن لیتے ہیں تو کیا بس ہاتھ سے ایڈمشن فورم پر سائن کر لیتے ہیں یا کوئی یونیفارم بھی ہوتا ہے سلیبس اور تمام شرائط بھی؟ یا صرف دل سے نیت کر لی کہ ایڈمشن لینا ہے تو رولز فالو نہیں کرنے کیوں کہ دل سے تو آپ کی نیت کے لحاظ سے اُس اسکول کے سٹوڈنٹ ہیں؟ ایسا ہو سکتا ہے؟

ماڈرن: آف کورس! کیا بات کر رہی ہو۔ جہاں ایڈمشن لینا ہے تو ظاہر سی بات ہے ساری کنڈیشنز بھی تو فالو کرنی پڑتی ہیں۔

با پردہ لڑکی ہلکا سا مسکرائی پھر گویا ہوئی۔
تو کیا آپ نے اسلام ایسے ہی قبول کر لیا؟

دین کے بھی کچھ رولز ہیں۔ اور آپکو پتہ ہے یہ رولز کس نے بنائے ہیں؟

اسکی آواز میں عجیب سا جوش آگیا۔

یہ رولز اُس نے بنائے ہیں جس نے آپکو بنایا ہے۔
اب آپ کی آنکھ میں حیا ہو یا نہ ہو۔ دل کا پردہ ہو‘ یا پھیپھڑوں کا‘ یا گردے کا۔ رب کا حکم ہے کہ اپنے چہروں پر چادریں لٹکانی ہیں تو آپ کو لٹکانی ہی ہیں۔ اس لیے یہ بات تو آپ چھوڑ دیں کہ دل کا پردہ ہوتا ہے یا نہیں۔

اور رہی بات آپکی دوسری بات کی تو پردہ آپکی پارسائی ثابت کرنے کے لیے نہیں ہے‘ پردہ آپکو یہ بتاتا ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے۔ نہیں تو آپ دیکھ لیں کسی کرسچن کو یا ہندو لڑکی کو کیا کبھی کسی نے کہا کہ پردہ کرو؟
اللہ تعالیٰ نے جب پردے کی آیت نازل کی نا تو کہا کہ "تا کہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں."

تو پردہ یہ بتاتا نہیں کہ میں یا آپ کوئی نیک اور پرہیزگار ہو گئی ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ آپ يا میں اپنے رب کے حکم پر عمل کر رہیں ہیں۔ بیشک گناہ ہم سب سے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک اللّٰه کی ماننے والیاں ہیں اپنے نبی کی اُمتی ہیں پردہ اس بات کی گواہی ہے۔

اس لیے پردہ آپکو کرنا ہی ہے۔ ورنہ آپکی مرضی ہے آپ مسلمان ہیں یا نہیں یہ آپکو ڈیسائیڈ کرنا ہے۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔

پھر وہ پلٹی اور اطمینان سے چلتی ہوئی دوسری لڑکی کے پاس آئی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔ فرائیز کی پلیٹیں پکڑ کر وہ چلی گئیں لیکن پیچھے بیٹھی ہر لڑکی کو وہ مسلمان ہونے کا احساس دلا گئی۔

~انیحہ رفیق

Share:

Waise Kam (Deeds) Jiske karne se Hajj aur Umra ka Sawab milta hai.

Aeise aamal (Deeds) jinhe karne se hame Hajj aur Umra ka Sawab milta hai?

Sawal: Baraye meharbani Sahee Hadees se kuchh aeise aamal bataye jinke karne se hame Hajj aur Umra ka Sawab mil jate?

سوال- برائے مہربانی صحیح احادیث سے کچھ ایسے اعمال کے بارے بتائیں جنکے کرنے سے ہمیں حج و عمرہ کا ثواب مل جائے.؟

Published Date: 24-5-2022

جواب..!
الحمدللہ...!

*اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں جنہیں بیت اللہ کا سفرکرنے کی توفیق مل جاتی ہے وہ تو بڑے خوش نصیب لوگ ہیں، تاہم بعض ایسے بھی بندے جو رات و دن زیارت حرمین کی تمنا کرتے ہیں، روتے ہیں ، رب سے دعائیں کرتے ہیں ، تھوڑے بہت پیسے بھی جمع کرتے ہیں اور دیگر اسباب اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی نہیں چلتی جسے اللہ کے گھر سے بلاوا آتا ہے بس وہی اس کے گھر کا دیدار کرسکتا ہے ، پیسہ ہوتے ہوئے بھی رب کی مرضی کے سامنےآدمی بے بس ولاچار ہے، بہت سے لوگوں کو غربت و افلاس کی بناپر حج بیت اللہ اور زیارت مسجدنبوی نصیب نہیں ہو پاتی ۔بسا اوقات فقراء ومساکین احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں آج دولت دی ہوتی تو فلاں فلاں کی طرح ہم بھی حج کرتے، ہمیں بھی لوگ حاجی کہتے اور ہمارا بھی نام ہوتا۔ایسے بندوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حج شہرت وناموری کا ذریعہ نہیں ہے ، اگر مالدار بھی شہرت کی خاطر حج کرے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ غریب ہوتا اور اسے حج کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ عبادت میں شہرت و ناموری اعمال کی بربادی کا ذریعہ ہے اور جہنم میں لے جانے کا سبب بھی ہے ۔ہاں جو لوگ اللہ کی رضا کے لئے حج مبرور کرتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے محبوب بندے ہیں ، اسی طرح جو غریب و مسکین لوگ اللہ کی رضا کے لئے حج کرنا چاہتے ہیں مگر غربت و افلاس کے سبب ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی ایسے بندوں کو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونی چاہئے ، اللہ نے اپنے بندوں کو مایوسی سے منع کیا ہے ۔ اس احکم الحاکمین نے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ، حج کے معاملہ میں بھی اس نے سب کے ساتھ انصاف کیا ۔ اگر کسی کواللہ نے مالدار بنایاہے تو کل قیامت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تونے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔اور یہ بڑا کٹھن سوال ہوگا۔ جسے اللہ نے زیادہ مال نہیں دیا اس کے لئے آخرت میں آسانی ہی آسانی ہے کیونکہ مال کی آزمائش بہت سخت ہے۔مالداری اور غریبی دونوں میں رب کی حکمت پوشیدہ ہے۔*

*آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے حج و عمرہ میں سب کے ساتھ کیسے انصاف کیاچنانچہ اس نے اپنے محبوب پیغمبر محمدﷺ کے ذریعہ ہمیں ایسے اعمال کی خبر دی جو کرنے کے اعتبار سے معمولی ہیں مگر اجروثواب کے اعتبار سے میزان میں حج وعمرہ کے برابر ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں نیچے بعض وہ اعمال ذکر کئے جاتے ہیں جن کی انجام دہی سے غریب وامیرسب کو حج وعمرہ کے برابر ثواب ملتاہے*

*(1)فجرکی نمازکے بعد سے طلوع شمس تک مسجد ہی میں ٹھہرنا اور پھر دو رکعت نماز پڑھنا:*
📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔(صحيح الترمذي: 586)
ترجمہ :
جس نے جماعت سے فجرکی نماز پڑھی پھر اللہ کے ذکر میں مشغول رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا پھر دو رکعت نماز پڑھی ، تو اس کے لئے مکمل حج اور عمرے کے برابرثواب ہے،

یہی حدیث الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ اس طرح بھی وارد ہے،

📚من صلَّى صلاةَ الصبحِ في جماعةٍ ، ثم ثبت حتى يسبحَ للهِ سُبحةَ الضُّحى ، كان له كأجرِ حاجٍّ و معتمرٍ ، تامًّا له حجتُه و عمرتُه
(صحيح الترغيب:469)
ترجمہ: جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی اور (اسی جگہ) ٹھہرا رہا یہاں تک کہ اس نے چاشت کی نماز پڑھ لی تو اس کے لئے حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے کے برابر ثواب ہے یعنی مکمل حج اور مکمل عمرے کا ثواب ۔

*(2)جماعت سے نمازپڑھنے جانا اور نفل پڑھنےجانا:*
📚ابوامامہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :من مشي إلى صلاة مكتوبة في الجماعة فهى كحجة، ومن مشي إلى صلاة تطوعـ في رواية أبي داود ـ أي صلاة الضحى ـ فهي كعمرة تامة.
ترجمہ : جو آدمی جماعت سے فرض نمازپڑھنے نکلتاہے تو اس کاثواب حج کے برابرہے اورجو نفلی نماز کے لئے نکلتاہے ، ابوداؤد کی روایت میں ہے چاشت کی نماز کے لئے نکلتاہے تواسے مکمل عمرہ کا ثواب ملتاہے ۔
(الألباني صحيح الجامع 6556 •  حسن)
( أخرجه أبو داود (٥٥٨)، وأحمد (٢٢٣٠٤) بنحوه، والطبراني (٨/١٤٩) (٧٥٧٨) واللفظ له.

*(3)مسجدوں کے علمی مجالس میں شریک ہونا*
📚آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من غدا إلى المسجد لا يريد إلا أن يتعلم خيراً أو يُعَلِّمه، كان له كأجر حاج تاماً حجته۔
ترجمہ : جو مسجدکی طرف علم حاصل کرنے یاعلم سکھلانےکے لئے نکلتاہےتواسے مکمل حج کے برابر ثواب ملتا ہے،
(الهيثمي مجمع الزوائد ١‏/١٢٨  •  رجاله موثقون كلهم)(أخرجه ابن حبان في«المجروحين» ٢/١٥٦) (والطبراني _٨/١١١) (٧٤٧٣)،
(الألباني صحيح الترغيب 86 • حسن صحيح)

*(4)نمازکے بعد ذکرواذکار کرنا*
📚حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا :
جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: ذهب أهل الدثور بالدرجات العُلى والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ولهم فَضْلٌ من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون، قال: ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله: تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثاً وثلاثين.(صحیح البخاری: 843)
ترجمہ : کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ مال والے تو بلند مقام اورجنت لے گئے ۔ وہ ہماری ہی طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ۔ اور ان کے لئے مال کی وجہ سے فضیلت ہے ، مال سے حج کرتے ہیں، اور عمرہ کرتے ہیں، اور جہاد کرتے ہیں، اور صدقہ دیتے ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کے درجہ پا سکو اور کوئی تمہیں تمہارے بعد نہ پاسکے اورتم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے ۔ وہ یہ ہے کہ ہرنمازکے بعد تم تینتیس بار(33) سبحان اللہ تینتیس بار(33) الحمدللہ اورتینتیس بار(33) اللہ اکبرکہو۔

*(5) رمضان میں عمرہ کرنا :*
رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یعنی حج کی طرح ثواب ملتا ہے ۔
📚نبی ﷺ نے ایک انصاریہ عورت سے فرمایا تھا:
فإذا جاء رمضانُ فاعتمِري . فإنَّ عُمرةً فيه تعدِلُ حجَّةً (صحيح مسلم:1256)
ترجمہ: جب رمضان آئے تو تم عمرہ کرلینا کیونکہ اس (رمضان ) میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے ۔
دوسری صحیح روایات میں ذکر میں ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا نبی ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابرہے ۔
📚صحیح ابن خزیمہ اور ابوداؤد وغیرہ میں مروی ہے،
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے حج کا ارادہ کیا، ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا: مجھے بھی اپنے اونٹ پر رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ حج کرائیں، انہوں نے کہا: میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کراؤں، وہ کہنے لگی: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کراؤ، تو انہوں نے کہا: وہ اونٹ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، پھر وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میری بیوی آپ کو سلام کہتی ہے، اس نے آپ کے ساتھ حج کرنے کی مجھ سے خواہش کی ہے، اور کہا ہے: مجھے رسول اللہ  ﷺ  کے ساتھ حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کراؤں، اس نے کہا: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: وہ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا:  سنو اگر تم اسے اس اونٹ پر حج کرا دیتے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہوتا ۔
وإنَّها أمرَتْني أن أسألَك ما يعدِلُ حجَّةً معَكَ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أقرِئها السَّلامَ ورحمةَ اللَّهِ وبرَكاتِه وأخبِرْها أنَّها تعدِلُ حجَّةً معي يَعني عُمرةً في رَمضانَ
اس نے کہا: اس نے مجھے یہ بھی آپ سے دریافت کرنے کے لیے کہا ہے کہ کون سی چیز آپ  ﷺ  کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے؟ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  اسے سلام کہو اور بتاؤ کہ رمضان میں عمرہ کرلینا میرے ساتھ حج کرلینے کے برابر ہے ۔
(سنن ابن ماجہ _1990)  صحیح
تخریج دارالدعوہ: 
تفرد بہ أبو داود ( تحفة الأشراف: ٥٣٧٤)، وقد أخرجہ: (صحیح البخاری/العمرة ٤(١٧٨٢)، صحیح مسلم/الحج ٣٦ (٢٢١) بدون ذکر: " أن الحج في سبیل اللہ "۔  (حسن صحیح  )

*(6) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا :*
📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إني أشتهي الجهاد ولا أقدر عليه، قال: هل بقي من والديك أحد؟ قال: أمي، قال: قابل الله في برها، فإن فعلت فأنت حاج ومعتمر ومجاهد.
ترجمہ : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں جہاد کی خواہش رکھتاہوں مگر اس کی طاقت نہیں ۔ تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے والدین میں سے کوئی باحیات ہیں ؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میری ماں تو آپ نے بتایا کہ جاؤ ان کی خدمت کرو،تم حاجی ، معتمر اور مجاہد کہلاؤ گے ۔
(المنذري (ت ٦٥٦)، الترغيب والترهيب ٣‏/٢٩٢  •  إسناده جيد)
(العراقي (ت ٨٠٦)، تخريج الإحياء ٢‏/٢٧٠ • إسناده حسن)
(ابن عثيمين (ت ١٤٢١)، الضياء اللامع ٥٠١ • إسناده جيد)
📙بوصیری نے کہا کہ ابویعلی اور طبرانی نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیاہے۔(اتحاف الخیرہ:5/474) عراقی نے تخریج الاحیاء میں حسن اور منذری نے الترغیب والترہیب میں جید کہاہے۔

*(7) مسجد قبا میں نمازپڑھنا:*
جوشخص مسجد نبوی ﷺکی زیارت کرے،اس کے لئے مسنون ہے کہ وہ مسجد قبا کی بھی زیارت کرے اور اس میں بھی دورکعت نماز پڑھے کیونکہ نبی کریمﷺہر ہفتے قباکی زیارت کیا کرتے اور اس میں دو رکعت نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپﷺ نے ارشادفرمایاہے کہ جو شخص اپنے گھر وضو کرے اورخوب اچھے طریقے سےوضو کرے اورپھر مسجد قبامیں آکر نماز پڑھے تواسے عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
،📚حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
من تطَهَّرَ في بيتِهِ , ثمَّ أتى مسجدَ قباءٍ ، فصلَّى فيهِ صلاةً ، كانَ لَهُ كأجرِ عمرةٍ.
(سنن ابن ماجه:1412)
(الألباني صحيح الترغيب 1181 •  صحيح   )
ترجمہ: جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے پھر مسجدِ قبا آئے اور اس میں نماز ادا کرے، تو اس کو عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔

📚مختصر الفاظ کے ساتھ روایت اس طرح بھی آئی ہے ۔ الصَّلاةُ في مسجدِ قُباءَ كعُمرةٍ
(صحيح الترمذي:324)
ترجمہ: مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ کے برابر ہے ۔
*نوٹ:*
یہاں یہ بات یاد رہے کہ دوسرے ممالک سےصرف مسجد قبا کے لئے زیارت کرکے آنے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو مدینہ طیبہ میں رہتے ہوں یا سعودی عرب یا سعودی عرب سے باہر سے آنے والے مسجد نبوی کی زیارت پہ آئے ہوں۔
دور دراز سے سفر کر کے سپیشل مسجد قباء کی زیارت کیلئے آنا درست نہیں،
(اسکی مزید تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر-367)

*(8) حاجی کا سامان سفر تیار کرنا یا ان کے گھروالوں کی خبرگیری کرنا:*
📚نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من جهَّز غازيًا ، أو جهزحاجًّا ، أوخلَفه في أهلِه ، أوفطَّر صائمًا ؛ كان له مثلُ أجورِهم ، من غير أن ينقصَ من أجورِهم شيءٌ
(صحيح الترغيب:1078)
ترجمہ: جس نے مجاہد کا سامان سفر تیار کیا یا حاجی کا سامان سفر تیار کیا یا ان کے گھر والوں کی خبرگیری کی یا کسی روزے دار کو افطار کیا تو اس کے لئے ان ہی کے برابر اجر ہے اور ان کے یعنی غازی یا حاجی یا روزہ دار کے اجر میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی۔

_____&____

*حج و عمرہ کے برابر ثواب سے متعلق ضعیف و موضوع روایات*

قارئین کرام ! یہ بات جان لیں کہ ہم نے اوپر جو احادیث بیان کی ہیں وہ ساری صحیح ہیں، ان پر عمل کرسکتے ہیں اور اللہ تعالی سے حج وعمرہ کے برابر اجروثواب کی امید کرسکتے ہیں ، نیز یہ بات بھی جان لیں کہ حج وعمرہ کے برابر ثواب سے متعلق بہت ساری دیگر روایات بھی آئی ہیں جو یا تو ضعیف ہیں یا موضوع جنہیں ہم طوالت کے خوف سے یہاں ذکر نہیں کر رہے،
تاہم چنداحادیث کی طرف اشارے کئے دیتے ہیں،
مثلا جمعہ والی مسجد میں فرض پڑھنا حج مبرور اور نفل پڑھنا حج مقبول ہے، مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا حج کے برابر ہے، ماں کی قبر کی زیارت کرنا عمرہ کے برابرہے، رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف دوحج اور دوعمروں کے برابرہے، جس نے مسجد کو صاف کیا اسے چارسوحج کا ثواب ہے، جو صبح وشام سو مرتبہ تسبیح بیان کرے اسے سوحج کا ثواب ہے،جو اپنے بھائی کی مدد کرے اس کے لئے حج وعمرہ کا ثواب ہے، جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی گویا اس نے آدم علیہ السلام کے ساتھ پچاس دفعہ حج کیا، عرفہ کے دن جمعہ ہونا سترحج سے افضل ہے، پیدل والوں کے لئے ستر حج اور سوار کے لئے تیس حج کا ثواب ہے، اللہ کی راہ میں ایک لمحہ پچاس یا ستر حج سے افضل ہے، اہل بیت کی قبروں کی زیارت کا ثواب ستر حج کے برابرہے، والدین کے چہرے کی طرف نظر رحمت سے دیکھنا حج مقبول ومبرور کے برابرہے، سورہ حج کی تلاوت حاجیوں کی تعداد کے برابر ثواب ہے، مغرب کے بعد چار رکعت نماز ادا کرنا حج کے برابر ہے، جو حج کے راستے میں مرگیا اسے ہرسال حج کا ثواب ملتا ہے، جس نے سورہ یسین پڑھی اسے بیس حج کا ثواب ہے،جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی اسے حج مبرور اور عمرہ مقبول کا ثواب ہے ۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں بعض ضعیف اور بعض موضوع ہیں ۔
اے اللہ ! جنہیں تونے حج وعمرہ کی سعادت سے نوازا ان کی عبادتوں کو قبول فرما اور جنہیں حج وعمرہ کی سعادت نصیب نہیں ہوئی انہیں اس کے برابر اجروثواب سے نواز دے ۔آمین

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

( مآخذ: محدث فورم
از مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ )

________&__________

📚سوال- کسی خاص مسجد یا مقدس مقام کو متبرک سمجھنا یا وہاں نماز پڑھنے کیلئے دور دراز کا سفر کرنا کیسا ہے؟ اور کیا حج و عمرہ کیلئے جاتے ہوئے روضہ رسول، غار حرا، غار ثور وغیرہ کی زیارت کی نیت کر سکتے ہیں؟ نیز صحابہ کرام یا اولیائے کرام کی قبروں/مزاروں کی زیارت کیلئے جانا اور وہاں نوافل پڑھنا کیسا ہے؟

(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-367)

______&_________

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS