Taraweeh Ke 20 Rakat Ka Dawah Karne Waalon Ki Haqeeqat
Taraweeh Ke 20 Rakat Ka Dawah Karne Waalon Ki Haqeeqat
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Saudi Arab Me 20 Rakat Taraweeh Ki Haqeeqat |
◆ تراویح کی بیس رکعات کی سنت کا دعویٰ کرنے والوں کی روایات قولہ سے شروع کر کے اس پر تبصرہ درج ذیل ہے۔
⇇ قولہ :
حدیث نمبر ➊
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 393/2]
تبصرہ : یہ حدیث موضوع من گھڑت ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ [394/2] میں یہ روایت ابراهيم بن عثمان عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس کی سند کے ساتھ ہے، اس کے راوی ابراہیم کے بارے میں :
☜◈ علامہ زیلعی حنفی (متوفی 762ھ) فرماتے ہیں :
قال أحمد منكر الحديث ”امام احمد نے کہا : یہ منکر احادیث بیان کرتا تھا“ [نصب الرايه : 53/1]
● علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے [نصب الرايه : 66/2] پر اس کی ایک حدیث کو ضعیف کہا۔
● اور [ص 67] پر بیہقی سے یہ قول کہ وهو ضعيف ”وہ ضعیف ہے“ نقل کیا ہے۔
● اور [ج 2 ص 153] پر ابوالفتح سلیم بن ایوب الرازی الفقیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ وهو متفق على ضعفه ”اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“
☜◈ امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كذبه شعبة و ضعفه أحمد وابن معين و البخاري و النسائي وغيرهم وأوردله ابن عدي هذا الحديث فى الكامل فى مناكيره
”اسے (ابراہیم بن عثمان) شعبہ نے كاذب (جھوٹا) کہا ہے اور احمد، ابن معین، بخاری اور نسائی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں اس حدیث کو اس شخص کی منکر روایات میں ذکر کیا ہے۔“
[عمدة القاري : 128/1]
☜◈ ابن ہمام حنفی نے [فتح القدير 333/1] ،
☜◈ اور عبدالحئی لکھنوی نے اپنے [فتاوي 354/1] میں اس حدیث پر جرح کی ہے۔
☜◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
وأما عشرون ركعه فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق
”اور جو بیس رکعات ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي : 166/1]
↰ ان کے علاوہ اور بھی دیوبندی علماء نے اس حدیث اور اس کے راوی پر جرحیں کی ہیں، مثلا دیکھئے : جناب محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی تبلیغی کی [اوجز المسالک 397/1] وغیرہ
↰ ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان پر محدثین کی شدید جروح کے لئے دیکھئے :
[میزان الاعتدال 47، 48/1] [تہذیب التہذیب 144، 145/1] وغیرہما۔
☜◈ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راوی پر شدید جرح کی اور کہا :
هذا حديث ضعيف جدا لا تقوم بن حجة ”یعنی یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ [الحاوي : 347/1]
↰ لہذا اسے کوئی تلقی بالقبول حاصل نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے علماء مثلا حافظ ذہبی، علامہ زیلعی، علامہ عینی، علامہ ابن ہمام رحمہم اللہ وغیرہم نے تو رد کر دیا ہے یعنی اس روایت کو تلقی بالرد حاصل ہے، لہذا ان پڑھ لوگوں کو دھوکا دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➋
یحیی بن سعید فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات۔۔۔
تبصرہ : یہ سند منقطع ہے۔
جناب نیموی (متوفی 1322ھ) کھتے ہیں :
قلت رجاله ثقات لكن يحي بن سعيد الأنصاري لم يدرك عمر
”میں کہتا ہوں کہ اس کے راوی سچے ہیں لیکن یحیی بن سعید الانصاری نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا۔“ [حاشيه آثار السنن ص 253 ح 780]
↰ ایسی منقطع اور بے سند روایات کو انتہائی اہم مسئلہ میں پیش کرنا آخر کون سے دین کی خدمت ہے ؟
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➌
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو۔۔۔ وہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔ [نسخه ابوداؤد]
تبصرہ : یہ بات سفید جھوٹ ہے،
ہمارے پاس سنن ابی داود کا جو نسخہ ہے اس میں یہ روایت بالکل نہیں ہے، ہمارے نسخے [136/2] پر جو روایت ہے اس میں
فكان يصلي لهم عشرين ليلة ”یعنی : وہ انہیں بیس راتیں پڑھاتے تھے۔“ الخ کے الفاظ ہیں۔
☜◈ امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہی حدیث امام داود سے نقل کی ہے اس میں بھی بیس راتیں کا لفظ ہے۔ [السنن الكبري 498/2]
اسی طرح مشکوۃ المصابیح، تحفہ الاشراف وغیرہما میں بھی یہی حدیث ابوداود سے بیس راتیں کے لفظ کے ساتھ منقول ہے۔
☜◈ حافظ زیلعی حنفی نے [ نصب الرایہ 126/2] میں ابوداود سے یہی حدیث عشرين ليلة ”یعنی بیس راتیں“ کے لفظ کے ساتھ نقل کی ہے،
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں، انصاف پسند کے لئے یہی کافی ہے، اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➍
یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں 23 رکعات پڑھتے تھے۔
تبصرہ : یہ روایت منقطع ہے جیسا کہ :
⇇◈ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری [127/11 طبع دار الفكر] میں تصریح کی ہے۔
⇇◈ جناب نیموی رحمہ اللہ نے کہا :
يزيد بن رومان لم يدرك عمر بن الخطاب رضي الله عنه
”یزید بن رومان نے عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا۔“ [آثار السنن، حاشيه : ص 253]
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➎
سیدنا سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ رمضان میں [20] رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔
تبصرہ : بیہقی [496/2] میں یہ الفاظ قطعا نہیں ہے کہ لوگ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس [20] رکعات پڑھتے تھے، لہذا یہ کاتب اشتہار کا عثمان رضی اللہ عنہ پر سفید جھوٹ ہے۔
دوسرے یہ کہ اس روایت کا ایک راوی علی بن الجعد تشیع کے ساتھ مجروح ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تنقیص کرتا تھا۔ [ديكهئے تهذيب التهذيب وغيره] اس کی روایات صحیح بخاری میں متابعات میں ہیں، اور جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ایسے مختلف فیہ راوی کی شاذ روایت مؤطا امام مالک کی صحیح روایت کے خلاف کیونکر پیش کی جا سکتی ہے ؟
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➏
سیدنا ابوعبدالرحمٰن اسلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں۔۔۔ الخ
تبصرہ : یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
➊ بیہقی [496/2] پر اس کا ایک راوی حماد بن شعیب ہے، جسے :
☜◈ امام ابن معین، امام نسائی، امام ابوزعہ وغیرہم نے ضعیف کہا۔
امام بخاری نے منكر الحديث۔۔ تركوا حديثه کہا دیکھئے : [لسان المیزان 348/2]
☜◈ اس پر نیموی دیوبندی کی جرح کے لئے دیکھئے: [حاشیہ آثار السنن ص 254]
➋ اس کا دوسرا راوی عطاء بن السائب مختلط ہے۔
☜◈ زیلعی حنفی نے کہا :
لكنه اختلط بآخره و جميع من روي عنه فى الاختلاط إلا شعبة وسفيان۔۔۔۔۔
”لیکن وہ آخر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، اور تمام جنہوں نے اس سے روایت کی ہے اختلاط کے بعد کی ہے سوائے شعبہ اور سفیان کے۔“
[نصب الرايه : 58/3]
لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ضعیف، منکر اور موضوع روایات چن چن کر اشتہار چھاپنا بہت ہی بری بات ہے، آخر ایک دن ہم سب نے مرنا بھی تو ہے ؟ تو اس دن کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے ؟
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➐
ابوالحسناء فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ۔۔۔
تبصرہ : یہ سند بھی ضعیف ہے،
ابوالحسنا ء مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب : 8053، ص 401 للحافظ ابن حجر]
☜◈ حافظ ذہبی نے کہا : لايعرف ، یعنی ”وہ معروف نہیں ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 515/4]
☜◈ نیموی دیوبندی نے بھی کہا : وهو لا يعرف [حاشيه آثار السنن : 255]
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➑
امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا بیس رکعات پڑھاؤ۔۔۔۔ [مسند زيد ص 139]
تبصرہ : کاتب اشتہار کا زیدی شیعوں کی من گھڑت مسند زید سے حوالہ پیش کرنا انتہائی تعجب خیز ہے،
① اس مسند کے راوی عمرو بن خالد الواسطی کو محدثین نے بالاتفاق کذاب اور جھوٹا قرار دیا ہے،
امام احمد، امام ابن معین وغیرہم نے کہا : كذاب [تهذيب التهذيب وغيره]
وہ زید بن علی سے موضوع روایات بیان کرتا ہے۔ [تهذيب، ميزان الاعتدال 257/3]
② اس کا دوسرا راوی عبدالعزیز بن اسحاق بن البقال بھی غالی شیعہ اور ضعیف تھا [ديكهئے لسان الميزان : 25/4 تاريخ بغداد : 458/1]
اس کتاب میں بہت سی موضوع روایات ہیں مثلا دیکھئے مسند زید ص 405 وغیرہ۔
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➒
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیس تراویح پڑھاتے تھے۔ [قيام الليل ص 91]
تبصرہ : یہ سند منقطع ہے۔
قیام اللیل للمروزی کے ہمارے نسخے میں صفحہ [200] پر یہ روایت :
بلاسند ”اعمش“ سے منقول ہے۔
عمدۃ القاری : [127/11] پر ”حفص بن غیاث عن الاعمش“ کے ساتھ اس کی سند مذکور ہے،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 32ھ یا 33ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے، جناب اعمش رحمہ اللہ 61ھ میں پیدا ہوئے اور مشہور ثقہ مدلس تھے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے،
لہٰذا اس قسم کی منقطع روایت ڈوبتے والے تنکوں کا سہارا لینے کے مترادف ہے، اس کی سند میں حفص بن غیاث بھی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔
——————
⇇ قولہ :
حدیث ➓
عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتے پایا۔ [ابن ابي شيبه : 393/2]
تبصرہ :
① یہ نہ قرآن ہے اور نہ حدیث اور نہ اجماع اور نہ عمل خلفائے راشدین اور نہ عمل صحابہ،
② دوسرے یہ کہ اس کا ترجمہ میں ”ہی“ کا لفظ غلط ہے،
③ تیسرے یہ کہ نامعلوم لوگوں کا عمل کوئی شرعی حجت نہیں ہے،
④ چوتھے یہ کہ نامعلوم لوگوں کا عمل خلیفہ راشد کے حکم کے خلاف ہے،
⑤ پانچویں یہ کہ اہل مدینہ اکتالیس رکعات پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي : 166/1] کیا ان کا یہ عمل شرعی حجت ہے۔
◆ مسئلہ تراویح اور سعودی علما :
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''
فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212
سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''
فتاوٰی اللجنة الدائمة : 7؍194
اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
شیخ عبداللہ بن قعود ۔ شیخ عبداللہ بن غدیان ۔ شیخ عبدالرزاق عفیفی ۔ شیخ ابن باز
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''
مجالس شہر رمضان: ص19
◆ حرم شریف میں بیس رکعت تراویح کی حقیقت
اصل میں حرم عالمی جگہ ہے ،یہاں کسی زمانے میں چار مصلے ہواکرتے تھے ، آل سعود نے الحمد للہ ایک مصلی قائم کرکے فتنہ رفع کیا ۔ تراویح بھی لوگوں کے لئے باعث اختلاف تھا اس لئے مصلحتا بیس رکعت رکھی گئی ۔ اس کے لئے دو امام کا انتخاب کیا گیا تاکہ ایک امام دس پڑھا کر چلے جاتے ہیں وہ الگ سے اکیلےایک رکعت وتر پڑھتے ہیں جس سےگیارہ رکعت تراویح کی سنت پوری ہوجاتی ہے۔ یہی حال دوسرے امام کا بھی ہے ۔ اس طرح سے نہ صرف فتنہ ختم ہوگیابلکہ امام کو گیارہ گیارہ رکعت پڑھنے اور دور دراز سے لیٹ سیٹ آنے والوں کو جس قدر میسر ہو پڑھنے کا موقع مل گیا۔حرم کے علاوہ سعودی عرب کی اکثر مساجد میں صرف آٹھ رکعت تراویح ہوتی ہے کیونکہ عرب کے علماء کا یہی موقف اور فتوی ہے ۔
چنانچہ سعودی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے :
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''
(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
ترجمہ : اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
یہی فتوی شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین اور عرب کے دیگر مشائخ کا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سنت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے ۔ آمین
◆ حرمین اور بیس(20) رکعات تراویح ( از : ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ تعالیٰ )
بعض حضرات حرمین مکہ ومدینہ کا عمل پیش کرتے ہیں کہ وہاں تراویح بیس رکعات ہوتی ہے ۔
عرض ہے کہ :
↰اولا:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض حضرات رمضان میں حرمین کے ائمہ اوروہاں کے عمل کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ اسے مسلمہ دلیل کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں ، لیکن یہ حضرات غیر رمضان میں حرمین کے ائمہ کے عمل کو دلیل جاننا تو دلیل کنار انہیں مسلمان بھی ماننا گوارا نہیں کرتے بلکہ سرعام فتوی دیتے ہیں کہ ان کے پیچھے سرے سے نماز ہی جائز نہیں ۔
آخر یہ کیسی بولعجبی ہے کہ رمضان میں ایک سنت نماز میں ان ائمہ کا عمل دلیل و حجت قرار پائے اور غیر رمضان میں سنت تو درکنار ان کی طرف سے فرض نماز کی بھی کوئی حیثیت نہ رہے اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی ناجائز ٹہرے ۔
↰ثانیا:
تمام احناف اپنی کتب میں دلائل کی صرف چار قسمیں بیان کرتے ہیں ، قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس ۔
اب سوال یہ ہےکہ رمضان میں ایک چوتھی دلیل کا اضافہ کیسے ہوگیا؟ ظاہرہے کہ جب ان کے یہاں بھی یہ مسلم ہے کہ حرمین کا عمل کوئی دلیل نہیں ہے تو خواہ مخواہ محض رمضان میں اسے دلیل کی حیثیت سے پیش کرنا کہاں کی انصافی ہے ؟
↰ثالثا:
کتاب وسنت میں کہیں بھی اس بات کی ضمانت نہیں دی گئی ہے کہ حرمین میں جو عمل بھی ہوگا وہ حجت و دلیل قرار پائے گا ،بلکہ ایک وقت تھا کہ خود خانہ کعبہ میں بتوں کی پوجا ہوتھی تھی ، لیکن یہ قطعا اس بات کی دلیل نہیں بن سکی کی بتوں کی پوجا بھی جائز ہے ۔ نیز بعد میں ایک دور گذرا ہے کہ حرم میں چار مصلوں کی بدعت رائج تھی ، اسے بھی حرم کی وجہ سے سند نہ مل سکی بلکہ ایک وقت آیا کہ اس بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا والحمدللہ ۔
↰رابعا:
حرمین میں ابتداء میں جو عمل تھا وہ گیارہ رکعات ہی کا تھا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تراویح پڑھائی اس میں گیارہ رکعات ہی پڑھائی ، عہدفاروقی میں جب باضابطہ مسجد میں ایک جماعت سے تراویح اداکی گئی تو میں بھی گیارہ رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ لیکن بعد میں دوسری اعداد کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
↰خامسا:
حرمین میں بعد میں جو گیارہ سے زائد رکعات پڑھیں گئیں وہ عام نفل سمجھ کر پڑھی گئیں ان کے بارے میں کسی بھی ثقہ امام نے یہ فتوی نہیں دیا کہ یہی تعداد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
↰سادسا:
حرمین میں پورے ماہ صرف بیس رکعات ہی نہیں پڑھی جاتیں بلکہ آخری عشرہ میں مزید رکعات کا اضافہ ہوتا ہے جب کہ احناف اسے دلیل نہیں بناتے ۔
↰سابعا:
حرمین میں اوربہت سے اعمال ہوتے ہیں لیکن احناف انہیں دلیل نہیں جانتے بلکہ حرمین کی عین تراویح ہی سے متعلق احناف صرف اس کی رکعات کے لئے حرمین کا حوالہ دیتے ہیں لیکن حرمین کی تراویح میں جو رکعات کے علاوہ دیگر اوصاف ہیں ان کے لئے یہ حضرات حرمین کے عمل کو دلیل نہیں بناتے مثلا: حرمین کی تراویح میں رفع الیدین ، آمین بالجہر وغیرہ کا عمل ۔سوال یہ ہے کہ اگر رکعات، حرمین کی تراویح کا حصہ ہیں تو کیا یہ اوصاف حرمین کی تراویح کا حصہ نہیں ہیں؟
↰ثامنا:
حرمین میں اور بھی بہت سے اعمال ہیں جو احناف کے خلاف ہیں لیکن احناف کبھی بھی اپنے خلاف حرمین کے ان اعمال کو دلیل نہیں شمار کرتے ، ذیل میں حرمین میں ہونے والے بیس اعمال پیش خدمت ہیں جنہیں احناف درست نہیں سمجھتے۔
سب سے پہلے ہم ان اعمال کو گناتے ہیں جو حرمین کی تراویح ہی میں انجام دئے جاتے ہیں:
❶۔ یہاں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھنے کے بعد بھی رفع الیدین کیا جاتا ہے۔
❷۔ یہاں نماز میں آمین اونچی آواز سے کہی جاتی ہے۔
❸۔ یہاں قنوت میں رفع الیدین نہیں ہوتا ہے۔
❹۔ یہاں شبینہ یعنی ایک رکعت میں ختم قرآن کا عمل نہیں ہوتا۔
یہ وہ اعمال ہیں جو خاص حرمین کی تراویح کے ہیں ، اب اگر حرمین کی تراویح کی تعداد حجت ہے تو حرمین ہی تراویح میں ہونے والے یہ اعمال حجت کیوں نہیں ؟
مزید یہاں کے اور اعمال بھی دیکھیں ۔
❺۔ یہاں زبان سے روزہ کی نیت نہیں کی جاتی
❻۔ یہاں وقت کے حساب سے سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کی جاتی ہے جیساکہ حدیث ہے لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
❼۔ یہاں نمازیں اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہیں لیکن احناف اس کے خلاف کرتے ہیں۔
❽۔ یہاں نمازِ فجر سے قبل بھی ایک اذان کہی جاتی ہے احناف کا اس پر عمل نہیں ۔
❾۔ یہاں اذان سے قبل و بعد مروجّہ درود نہیں پڑھا جاتا۔
❿۔ یہاں تکبیر ،ا کہری کہی جاتی ہے ، احناف کا عمل اس کے خلاف ہے۔
⓫۔ یہاں نمازِ فجر اندھیرے میں ادا کی جاتی ہے جبکہ احناف اجالے میں فجر پڑھتے ہیں۔
⓬۔ یہاں عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت ہے جبکہ احناف اپنی عورتوں کو مسجد آنے سے روکتے ہیں
⓭۔ یہاں عصر کی نماز کسی چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے تو اس وقت اداکی جاتی ہے۔
⓮۔ یہاں نماز کی نیت زبان سے نہیں کی جاتی ، جبکہ احناف کے یہاں یہ بدعت پائی جاتی ہے۔
⓯۔ یہاں نماز مغرب سے قبل دو رکعت سنت پڑھتے ہیں ۔جبکہ احناف کے اس کے منکر ہیں ۔
⓰۔ یہاں فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعاء نہیں کی جاتی ۔جبکہ احناف اس پر شدت سے عمل کرتے ہیں۔
⓱۔ یہاں نمازِ عید کےخطبہ سے پہلے کوئی وعظ و نصیحت نہیں کی جاتی لیکن اس کے خلاف خطبہ عید سے قبل وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔
⓲۔ یہاں نماز عیدین میں کل بارہ تکبیرات کہی جاتی ہیں لیکن احناف نماز عیدین میں صرف چھ تکبیرات پڑھتے ہیں۔
⓳۔ یہاں مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف اسے غیردرست قرار دیتے ہیں ۔
⓴۔ یہاں جنازے میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف اس کے منکر ہیں ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمةاللہ
محمد اسحاق زاہد
ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ تعالیٰ
فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment