Tik Tok Ka Istemal Islam Ki Najar me.
Tik Tok, Vigo Video, Likee, Sharechat Istemal ke Nuksan.
Kafir Jante Hai ke Musalmano se Ham Kabhi Sidhe Zeet nahi sakte isliye usne Fahasi Failane Ki Sazish shuru kiya hai take isse Musalmanon ko Aasani se Shikast diya ja sake.
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-184"
سوال_ سوشل میڈیا پر مشہور ٹک ٹاک ایپ ( tik tok app) کا استعمال شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟
Published Date: 7-1-2019
جواب:
الحمدللہ:
ٹک ٹاک اور میوزیکلی (Tik Tok and Musically) سمیت بے شمار ایسی ایپس ہیں جو موجودہ وقت میں لوگوں کے لیے خصوصاً امت مسلمہ کے افراد کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں، جتنی سختی اسلام نے عورت کے پردے اور بے حیائی پر کی ہے شائید ہی کسی اور معاشرتی برائی پر کی ہو، اسکی اصل وجہ یہی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا سبب بے حیائی اور بغیرتی ہے، شریعت نے جتنا امت مسلمہ کو اس بے حیائی سے بچنے کا حکم دیا ہے، اتنا ہی کفار نے اپنی سازشوں سے آئے روز امت مسلمہ کو اس بے حیائی کی دلدل میں دھنسانے کی کوشش کی ہے، جسکی بنادی وجہ یہ ہے کہ انہیں انکے باپ دادا نے یہ سبق پڑھایا ہے کہ مسلمانوں کو قوت بازو سے شکست نہیں دی جا سکتی، صرف ایک ہی طریقہ ہے امت مسلمہ کو کمزور کرنے کا جس سے ان پر قابو پایہ جا سکتا ہے اور وہ ہے بے حیائی، بغیرتی، فحاشی عریانی عام کر دی جائے، اور آج آپ دیکھ لیں جہاں باقی میڈیا نے اپنے اپنے اثرات چھوڑے ہیں وہاں "ٹک ٹاک" نے بہت سی شریف زادیوں کو "کنجریوں کی نقل کرنے" کا مہذب پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے، کچھ عرصہ قبل خواتین کو ہوس کی نگاہ سے دیکھنے والے مردوں پر اعتراض کرنے والی خواتین آج "ٹک ٹاک" کے ذریعے ہزاروں مردوں کو اپنی ادائیں دکھا کر خوش کر رہی ہیں۔
*انا للّٰہ وانا الیہ راجعون*
*ٹک ٹاک ایک آدھ نہیں بلکہ بہت سی خرابیوں کی ایسی خطرناک راہ ہے جس کی منزل جہنم کے گڑھے کے علاوہ کچھ نہیں*
ذیل میں ٹک ٹاک (tik tok) سے متعلقہ کچھ خرابیوں کا ذکر ہم قرآن و آحادیث کی روشنی میں کرتے ہیں ان شاءاللہ.....!!!
*پہلی خرابی موسیقی:*
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ ، وَالْحَرِيرَ ، وَالْخَمْرَ ، وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ ، فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا ، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً ، وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
ترجمہ: میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لئے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لئے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ ﷻ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا، پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لئے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔
(صحيح بخارى: 5590 )
(سنن الكبری، 10/373، حدیث نمبر: 20988)
(علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ میں صحيح قرار ديا ہے)
*اتنی سخت وعید ہونے کے باوجود ٹک ٹاک (tik tok) اور واٹس ایپ اسٹیٹس (whatsapp status) کے ذریعہ نوجوانان ملت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کر کے اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ اے کاش کے وہ صحابہ کے آثار سے اثر لیتے اور موسیقی سے اجتناب کرتے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل دیکھیں کہ وہ کیسے موسیقی سے دور بھاگتے تھے:
عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا ، قَالَ : فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ ، وَقَالَ لِي : يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَا ، قَالَ : فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ ، وَقَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا
ترجمہ: نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 4924۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
*دوسری خرابی علانیہ گناہ:*
ٹک ٹاک (tik tok) اور میوزیکلی (musical۔ly) جیسے ایپس کے استعمال میں لوگ علانیہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی ( گناہ کا ) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-6069)
دیکھیں !
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ
تر میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے۔*
اللہ اکبر!
کتنی سخت وعید ہے۔ اسی لئے ہمارے اسلاف بھی علانیہ گناہ کو بہت عظیم گردانتے تھے۔
🌹چنانچہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يُقَالُ: إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لاَ يُعَذِّبُ الْعَامَّةِ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ۔ وَلَكِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْكَرُ جِهَاراً اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ كُلُّهُمْ
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ اللہ ﷻ خاص لوگوں کے گناہ کے سبب عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا مگر جب گناہ علانیہ کئے جائیں گے تو سب کے سب عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔
(مؤطا امام مالک ت الاعظمی: 5/1443، حدیث نمبر: 3636)
🌹اس کی تائید نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوُا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ
ترجمہ: اللہ ﷻ خاص لوگوں کے عمل (گناہ) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ ﷻ عام و خاص سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
(مسند احمد ط الرسالۃ: 29/258، حدیث نمبر: 17720۔ مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو حسن لغیرہ کہا ہے)
*تیسری بڑی خرابی گناہوں کی تبلیغ:*
ان ایپس کے ذریعہ لوگ دوسروں کو گناہوں کی دعوت دیتے ہیں۔ فلمی ڈائیلاگ پر ایکٹنگ کر کے انہیں فلم بینی پر ابھارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق
اللہ ﷻ نے کتنی سخت وعید سنائی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
(سورۃ النور: 19)
چوتھی بڑی خرابی بے پردگی:
ان ایپلیکیشنز کے ذریعہ عورتیں خوب بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بن سنور کر ویڈیو بناتی ہیں اور اس کو نشر کر کے لوگوں کو دعوت عامہ دیتی ہیں۔ یاد رکھیں عورت کا اپنے فوٹوز اور ویڈیوز بنانا اور اس کو لوگوں کے مابین نشر کرنا تبرج اور اظہار زینت ہے۔
اور اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
(سورۃ الاحزاب: 33)
پیاری بہنو!
ذرا عبرت کے ناخن لو!
صحابیات کی زندگی کا مطالعہ کرو کہ وہ کیسے پردہ کیا کرتی تھیں،
ام سلمہ (رض) نے فرمایا :
( لَمَّا نَزَلَتْ : (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ) خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وْسِہِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَکْسِیَۃِ )
” جب یہ (پردہ والی) آیت ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ“ نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوے ہوں۔ “
(سنن أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالیٰ : ( یدنین علیھن من جلا بیبھن : 4101، قال الألباني صحیح )
پردہ اور چادر کے بغیر نماز کے لیے بھی نہیں نکلتیں تھیں،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب باپردہ عورتوں کو مسجد سے نکلتے دیکھا تو مردوں ساتھ گھلنے ملنے کی وجہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لیے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں، تمہارے لیے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے ،
(راوی حدیث کہتے ہیں )
پھر تو ایسا ہو گیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے ( دوپٹے وغیرہ ) دیوار میں پھنس جاتے تھے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-5272)
اور ایک تم ہو کہ بن سنور کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی پھرتی ہو؟؟
یہ بے پردگی صرف عورتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مرد حضرات بھی اس بے پردگی میں پیش پیش رہتے ہیں۔
اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں۔
(سورۃ النور: 30)
اللہ ﷻ نے تو مرد حضرات کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دے کر پردہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر کوئی بے پردہ لڑکی نظر آ جائے تو یہ اس کی طرف دیکھنے کو پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ٹوکنے پر یہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں لڑکی خود پردہ نہیں کر رہی ہے حالانکہ خود ان کو بھی نظر کا پردہ کرنے کا حکم بکلام الہی صادر ہو چکا ہے۔ اور نبی ﷺ نے بھی یہی حکم فرمایا تھا،
چنانچہ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظَرِ الْفُجَاءَةِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي
ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا تو آپ (ﷺ) نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2159)
اور انس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تعلیم دی ہے، فرمایا:
إِذَا مَرَّتْ بِكَ امْرَأَةٌ، فَغَمِّضْ عَيْنَيْكَ حَتَّى تُجَاوِزَكَ
ترجمہ: جب تمہارے سامنے سے کوئی عورت گزرے تو اس کے گزرنے تک تم اپنی آنکھیں بند رکھو۔
(کتاب الورع لابن ابی الدنیا ط دار السلفیۃ، صفحہ نمبر: 66، حدیث نمبر: 72، کتاب کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)
اتنے واضح فرامین ہونے کے باوجود مرد حضرات عورتوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور انکے نشیب و فراز کا جائزہ لیتے ہیں۔ گویا کہ وہ اپنے گناہ کو ہلکا سمجھتے ہیں،
حدیث میں آتا ہے کہ!
اللہ کے رسولۖ نے اپنے زمانے میں مسجد میں عورتوں کے داخل ہونے کے لیے الگ دروازہ مقرر کر دیا تھا۔ حضرت ابن عمر رض اتنی شرم والے تھے ، اتنے حیا والے تھے کہ آپ وفات تک اُس دروازے سے مسجد نبوی ۖمیں کبھی بھی داخل نا ہوئے۔''
(سنن ابی داود' کتاب الصلاة' باب فی اعتزال النساء فی المساجد عن الرجال)
اللہ پاک ہمیں بھی ایسی شرم اور حیا عطا فرما دیں، آمین ..!!
*پانچویں بہت بڑی خرابی وقت کا ضیاع*
ٹک ٹاک (tik tok) اور میوزیکلی (musical۔ly) جیسے ایپس گناہوں کی دلدل کے ساتھ ساتھ وقت کی بربادی اور فضولیات کا مرکز بھی ہیں
موجودہ وقت میں آئے روز نئی نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں۔ لوگوں میں ان ایجادات کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ ہر عام و خاص اور عالم و جاہل ان ایجادات سے فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ خصوصا موبائل اور انٹرنیٹ نے آج لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ لوگ بھی ان کے غلام ہو چکے ہیں۔ اور ان کی یہ دیوانگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر ہر گوشہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ کسی کی پیدائش ہو تو سوشل میڈیا، کسی کی وفات ہو تو سوشل میڈیا، کوئی بیمار ہو تو سوشل میڈیا اور کسی کی شادی ہو تو سوشل میڈیا۔ غرض یہ کہ زندگی میں جب بھی کوئی حادثہ یا واقعہ انسان کو پیش آتا ہے تو وہ سوشل میڈیا کا رخ کرتا ہے، صرف نظر اس کے کہ وہ حادثہ یا واقعہ خوشگوار ہے یا ناخوشگوار۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی زندگی میں ہونے والے حادثات و واقعات سے اعزاء و اقارب سے زیادہ سوشل میڈیا کے افراد واقف ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی انسان نئی نئی ایجادات کے ذریعہ ترقی کر رہا ہے یا پھر وہ ترقی کے نام پر تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ کیونکہ کبھی انسان ایسی چیزیں بھی بناتا ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ جیسے کہ آج کل کتنے سارے ایپس (Apps) ہیں جن میں صرف وقت کا ضیاع ہے۔ ان ایپس میں سے ٹک ٹاک (Tik Tok) اور میوزیکلی (musical.ly) بھی ہیں۔ جو لوگ Tik Tok اور اس جیسی ایپلیکیشنز کے متعلق جانتے ہیں ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ یہ ایپلیکیشنز فحاشی اور ضیاع وقت کا اڈہ ہیں۔ ان ایپس (Apps) میں فلمی ڈائیلاگ پر ایکٹنگ (acting) کی جاتی ہے، گانے گائے اور سنیں جاتے ہیں اور بے پردگی عام ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ یہ ایپس سراپا شر ہیں، ان میں خیر کا ذرا سا بھی پہلو نہیں ہے۔
لیکن لوگوں میں ان ایپلیکیشنز (applications) کی دیوانگی دیکھنے کے قابل ہے خصوصا نوجوانان ملت اپنے اکثر اوقات کو ان ایپلیکیشنز میں ہی ضائع کرتے ہیں۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جس ”وقت“ اور ”جوانی“ کی شریعت اسلامیہ نے اتنی اہمیت بتلائی ہے اسکو یہ نوجوانان ملت بے دریغ لایعنی اور فضولیات میں صرف کر رہے ہیں۔ یہی نہیں نوجوان لڑکیاں بھی ”لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں“ کا پرفریب نعرہ لگاتے ہوئے ان فحش کاریوں کے دلدل میں کود پڑی ہیں۔
شریعت اسلامیہ ہمیں لایعنی کاموں سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتی ہے اور لایعنی کاموں سے اجتناب کو انسان کے اسلام کا حسن قرار دیتی ہے۔
چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
ترجمہ: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2317)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3976۔ )
علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور کاموں کو ترک کر دے اور اپنے آپکو صرف ان باتوں اور کاموں میں مشغول رکھے جن کا کوئی فائدہ ہو، جو توجہ کے قابل ہوں اور جن کا کوئی مقصد و مطلب ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب انسان فضولیات سے اجتناب کرتا ہے صرف بامقصد اور فائدے مند چیزوں میں مشغول رہتا ہے تو وہ اپنے اسلام کے حسن اور خوبی کو کمال کے درجہ تک لے جاتا ہے اور جس کا اسلام بہتر ہو جائے اس کا کیا کہنا۔
🌹 نبی ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلَامَهُ، فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِمِثْلِهَا
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا کہ اس نے کیا ہے)۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 42)
گویا کہ اگر انسان اپنے آپ کو فضولیات سے محفوظ رکھتا ہے تو وہ فضائل کا حقدار بن جاتا ہے۔
🌹اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں نفع بخش چیزوں کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کی وصیت فرمائی ہے، فرمایا:
احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ
ترجمہ: جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس کی حریص بنو۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2664)
*لہذا ہمیں ایسی چیزوں کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے لئے فائدے کا باعث ہوں۔آج لوگ اپنے خالی اوقات کو اور اپنی صحت کو غنیمت نہیں سمجھتے بلکہ ان کو معاصی میں استعمال کرتے ہیں،*
حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔
(مستدرک حاکم ط دار الکتب العلمیۃ: 4/341، حدیث نمبر: 7846۔ )
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔
(صحيح الترغيب والترهيب ط مکتبۃ المعارف: 3/311، حدیث نمبر: 3355)
*یہ حدیث بہت جامع ہے۔ اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان چیزوں کے متعلق تنبیہ فرمائی ہے جن کے بارے میں اکثر لوگ غفلت کے شکار رہتے ہیں۔ لہذا ہمیں نبی ﷺ کی اس تنبیہ پر دھیان دیتے ہوئے اپنی جوانی، صحت، مالداری، فراغت اور حیات کو غنیمت جان کر انہیں شریعت کی بجا آوری میں استعمال کرنا چاہئے۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی ہے لہذا جب تک موقع ہے حکم الہی اور حکم رسول کی بجا آوری کرتا رہے۔
لیکن ان نعمتوں کی اہمیت کے باوجود لوگ انکی قدر نہیں کرتے۔
نبی ﷺ نے فرمان ہے:
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ، وَالْفَرَاغُ
ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6412)
*آج ہم سوچتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں، جیسا چاہیں عمل کریں، جوابدہی کا احساس ہمارے اندر سے ختم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گناہ کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں ہچکچاتے۔
اللہ ﷻ نے ہمیں متنبہ کرتے ھوئے فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
ترجمہ: کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے؟
(سورۃ المؤمنون: 115)
*اس آیت کریمہ میں اللہ ﷻ نے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اپنے مرضی کے مالک ہو، چاہے جیسا عمل کر سکتے ہو تو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ ہے عبادت، لہذا اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرو۔ لایعنی کاموں اور فضولیات میں پڑ کر شریعت کی مخالفت کرکے تم بچ نہیں سکو گے بلکہ تم سے ایک ایک چیز کا حساب ہوگا۔
نبی ﷺ نے بھی اسی بات کو بیان کیا ہے:
لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ
ترجمہ: آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2416۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے)
*اس حدیث میں ہے کہ بروز قیامت لوگوں سے ان کی مکمل زندگی کے متعلق سوال کیا جائے گا جس میں جوانی بھی شامل تھی لیکن اس کے باوجود نبی ﷺ نے اس کو الگ سے ذکر کیا ہے جو جوانی کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جوانی پا کر انسان اس کو بے دریغ غلط کاریوں میں استعمال کرتا ہے اور ان غلط کاریوں میں اپنے مال کا کثیر حصہ خرچ کرتا ہے۔ لہذا اس سے قیامت کے دن سوال ہوگا کہ تمہارے پاس جوانی تھی، تمہارے پاس مال تھا تم نے اس کو کہاں صرف کیا۔*
تصور کریں!
اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم بروز قیامت اللہ کے سامنے جوابدہی کی استطاعت رکھتے ہیں؟
کیا ہم اپنی جوانی اور مال کا صحیح استعمال کر رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی جوانی اور مال گانے سننے اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہے ہیں؟
کیا ہم نے آخرت کی تیاری کر لی یے؟
یاد رکھیں! آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔ آپ ٹک ٹاک ایپلیکیشن (tik tok app) میں وڈیوز اپلوڈ (upload) کرنے میں مصروف ہوں یا اس میں موجود فحش کاریوں کو دیکھنے میں، واٹس ایپ (whatsapp) میں گانے، فلمی ڈائیلاگ اور رومانس بھرے اسٹیٹس (status) لگانے میں مشغول ہوں یا یوٹیوب (youtube) اور دیگر ویب سائٹس (websites) میں فحش چیزیں پھیلانے میں، یا پھر موبائل میں گانے سننے اور فلمیں (خواہ وہ فحش فلمیں ہوں یا اسکے علاوہ) میں آپکا وقت صرف ہو رہا ہو۔ غرض یہ کہ آپ کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے۔
فرمان الہی ہے:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
ترجمہ: (انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔
(سورۃ ق: 18)
مزید فرمایا:
وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ﴿10﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ﴿11﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: تم پر محافظ بزرگ (فرشتے) لکھنے والے مقرر ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔
(سورۃ الانفطار: 10-12)
اور یہ ریکارڈ برائے ریکارڈ نہیں ہے بلکہ قیامت کے دن یہ ریکارڈ ہمارے سامنے پیش کئے جائیں گے:
🌹وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ
ترجمہ: اور نامہ اعمال سامنے رکھ دئے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے۔
(سورۃ الکہف: 49)
لہذا اپنے ریکارڈ کو بہتر بنائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی قیامت کے دن ان لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں:
🌹يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا
ترجمہ: ہائے ہماری خرابی یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے۔
(سورۃ الکہف: 49)
پھر وہاں کوئی راہ فرار نہ ہوگی۔ وہاں آپ کے اعضاء خود آپ کے خلاف گواہی دیں گے:
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ترجمہ: ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے۔
(سورۃ یس: 65)
اس لئے جو وقت میسر ہے اس کو غنیمت سمجھیں اور اپنی زندگی اسلامی زندگی بنائیں کیونکہ وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تیز رفتار ہوتا ہے اور کبھی لوٹ کر نہیں آتا
*خلاصہ سلسلہ*
یہ ٹک ٹاک (tik tok)، میوزیکلی (musical۔ly) اور اس جیسی تمام ایپلیکیشنز نہ صرف وقت کا ضیاع ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ یہ ایپلیکیشنز ہمیں جہنم کے راستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ لہذا ان سے بچیں، اللہ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کو غنیمت جانیں اور وقت کی اہمیت کو سمجھیں، اسکو ضائع نہ کریں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِضَاعَة الْوَقْت أَشد من الْمَوْت لِأَن إِضَاعَة الْوَقْت تقطعك عَن الله وَالدَّار الْآخِرَة وَالْمَوْت يقطعك عَن الدُّنْيَا وَأَهْلهَا الدُّنْيَا
ترجمہ: وقت کا ضیاع موت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ وقت کا ضیاع آپ کو اللہ اور آخرت سے کاٹ دیتا ہے جبکہ موت آپ کو صرف دنیا اور اہل دنیا سے کاٹتی ہے۔
(الفوائد لابن القیم ط دار الکتب العلمیۃ: 13)
*ساتھ ساتھ اپنے اندر جوابدہی کا احساس پیدا کریں کیونکہ جوابدہی کا احساس آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔*
🌹جبریل علیہ السلام نے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا تھا، جس میں ہمارے لئے بہترین نصیحت ہے:
يَا مُحَمَّدُ، عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، وَأَحْبِبْ مَنْ أَحْبَبْتَ فَإِنَّكَ مَفَارِقُهُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَجْزِيٌّ بِهِ
ترجمہ: اے محمد (ﷺ)! آپ جتنا چاہیں زندہ رہیں، موت آ کر رہے گی، آپ جس سے چاہیں محبت کریں، ایک دن آپ کو اس سے جدا ہونا ہے اور آپ جو چاہیں عمل کریں بلاشبہ آپ کو اس کا بدلہ ملے گا۔
(مستدرک حاکم، 4/360،
حدیث نمبر: 7921۔)
( معجم الاوسط للطبرانی ط دار الحرمین: 4/306، حدیث نمبر: 4278۔)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے جبکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے)
اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تحسین کی ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ط مکتبۃ المعارف: 2/483، حدیث نمبر: 831)
لہذا میری تمام نوجوانوں سے گزارش ہے کہ خدارا وقت ضائع نا کریں، آپ امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ ہیں، آئیں مل کر ہم کفار کی ان سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں، اور بے ہودہ فضولیات کو چھوڑ کر محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل کریں اور امت کی فلاح کا بیڑہ اٹھائیں،
اللہ پاک مجھ سمیت تمام دوستوں کو ہدایت سے نوازیں آمین یا رب العالمین 😢
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
Taken From Al Furqan
No comments:
Post a Comment