find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Aadhe Shaban ke Mutalluq Mangharat Riwayat aur uska Jayeza.

Aadhe Shaban ke Mutalluq Zaeef Hadees.

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيـــــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه
نصف شعبان /ضعیف اور من گھڑت روایات
Taken From
محترم شیخ جرجیس انصاری، میسز اے انصاری
-حدثنا راشد بن سعيد بن راشد الرملي حدثنا الوليد عن ابن لهيعة عن الضحاك بن ايمن عن الضحاك بن عبد الرحمن بن عرزب عن ابي موسى الاشعري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك او مشاحن".
(رواه ابن ماجة في سننه:كتاب إقامة الصلاة1/455 برقم 1390,وابن أبي عاصم في السنة ص 223 برقم 510, واللالكائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة برقم 763من طريق ابن لهيعة عن الزبيربن سليم عن الضحاك بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي موسى به-
وقال الألباني رحمه الله: "وهذا اسناد ضعيف من أجل ابن لهيعة وعبد الرحمن وهو ابن عزوب والد الضحاك مجهول,وأسقطه ابن ماجة في رواية له عن ابن لهيعة" انظرسلسلة الصحيحة3/136 تحت رقم 1144)-
"حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"اللہ تعالى پندرہویں شب مطلع ہوتے ہیں اوراپنی ساری مخلوق ماسوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کی مغفرت فرماتے ہیں-
جبکہ یہی حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے- دیکھئے: صحیح ابن حبان:کتاب الحظروالإباحة ,باب ماجاء فی التباغض والتحاسد والتنابز 12/ 184 برقم5656,وابن ابي عاصم في السنة ص 224 برقم 512,والطبراني في المعجم الكبير20/108-109 برقم 215, حلیۃ الأولیاء 5/191-
علامہ البانی رحمہ اللہ نے "السنة" ص 224میں فرمایا:"حدیث صحیح,ورجاله موثوقون,لکنه منقطع بین مکحول ومالک بن یخامرولولا ذلک لکان الإسنادحسنا,ولکنه صحیح بشواهدہ المتقدمة"
یہ حدیث صحیح ہے - اسکے رواۃ توثیق شدہ ہیں ,لیکن اسمیں مکحول اورمالک بن یخامرکے درمیان سند میں انقطاع ہے- ورنہ سند حسن ہوتی - لیکن یہ دوسرے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے" علامہ البانی نے ایسا ہی کلام سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 3/135میں بھی ذکرکیا ہے-
اس حدیث کواگرصحیح لغیرہ بھی مان لیا جائے لیکن اسمیں پندرہویں شب کی فضیلت دوسری راتوں کے مقابلے میں بالکل ثابت نہیں ہوتی ہے- اسلئے کہ صحیحین کی حدیث کے مطابق ایسا بلکہ اس سے زیادہ فضیلت ہر رات کی توبہ واستغفارکوحاصل ہے- چنانچہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخريقول:من يدعوني فأستجيب له,من يسألني فأعطيه ,من يستغفرني فأغفرله "-
(اخرجه البخاري في صحيحه :كتاب التهجد 3/29 برقم 1145,ومسلم في صحيحه :كتاب صلاة المسافرين 1/125 برقم 758)-
همارے رب تبارک وتعالى ہرشب کی آخری تہائی میں نچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں ,اورفرماتے ہیں :"کون میرے دربارمیں دعا گوہےکہ میں اسکی قبولیت کا پروانہ لکھوں,کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں ,کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسکی مغفرت کروں" –
پس رب کریم کا نزول ,اپنی مخلوقات پرمطلع ہونا اورانکی مغفرت کسی معینہ رات پرہی موقوف نہیں - بلکہ یہ ہر شب ہوتا ہے توپھر پندرہویں شب کی فضیلت میں اس حدیث کوپیش کرنا کسی خصوصی فضیلت کا باعث نہیں.-
۞ حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا عبد الرزاق انبانا ابن ابي سبرة عن إبراهيم بن محمد عن معاوية بن عبد الله بن جعفر عن ابيه عن علي بن ابي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا يومها فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول:"الا من مستغفر لي فاغفر له الا مسترزق فارزقه الا مبتلى فاعافيه"الا كذا الا كذا حتى يطلع الفجر.
(رواه ابن ماجة في سننه: كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 1388 وقال البوصيرى في زوائدابن ماجة 2/10
:"هذا إسناد فيه ابن أبي سبرة واسمه أبوبكربن عبدالله بن محمد بن أبي سبرة وقال أحمد وابن معين: يضع الحديث وقال ابن حجرفي التقريب 2/397: رموه بالوضع وقال الألباني : ضعيف جدا أوموضوع انظر ضعيف ابن ماجة ص 103 برقم 294)-
"سيدنا على بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتواس رات کا قیا م کرو اوراس دن روزہ رکھو,اسلئے کہ اللہ غروب آفتاب کےساتھ ہی سماء دنیا پرنزول فرماتے ہیں- اورکہتے ہیں :کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسکی مغفرت کروں؟ کوئی رزق کا متلاشی ہے کہ میں اسے نوازوں ,کوئی مصیبت کا مارا ہے کہ میں اسے عافیت بخشوں,کیا کوئی ایسا ہے کیا کوئی ایسا ہے- حتى کہ طلوع فجرکا وقت ہوجاتا ہے-
امام بوصیری نے اس حدیث کی سند میں موجود راوی ابن ابی سبرہ پرشدید کلام کیا ہے اوراسے روایتیں گھڑنے والا قراردیا ہے- اسی لئے علامہ البانی نے اسکی سند کوضعیف جدا یا موضوع کہا ہے-
تواسطرح کی روایات سے فضائل و مسائل ثابت نہیں ہوتے ہیں لہذا لوگوں کوفوراَ اس طرح کے اہتمام اورمیلوں سے پرہیز کرنا چاہئیے.
۞ (رجب شهرالله وشعبان شهري ورمضان شهرأمتي)-
"رجب اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے"-
اسے ابوبکرالنقاش نے روایت کیا ہے جیسا کہ ابن حجرنے کہا ہےاورنقاش مذکور حدیثیں گھڑنے والا دجال تھا جیسا کہ حافظ ابوالفضل محمد بن ناصر نے اپنے "امالى" میں کہا ہے جبکہ ابن دحیہ نے مذکورہ حدیث کوموضوع حدیث یعنی من گھڑت حدیث قراردیا ہے جبکہ ابن الجوزی نے بھی اسے الموضوعات 2/205- 206,امام صنعانی نے الموضوعات ص 61 اورامام سیوطی نے اللآلی المصنوعۃ فی الآحادیث الموضوعة 2/114 میں اسے موضوع قراردیا ہے-
۞ ایک اورحدیث حضرت على رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جسکے الفاظ یوں ہیں:
( يا على ! من صلى مأة ركعة في ليلة النصف من شعبان ,يقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب و"قل هوالله أحد" عشرمرات ,قال النبي صلى الله عليه وسلم :يا على ما من عبد يصلي هذه الصلوات إلا قضى الله عزوجل له كل حاجة طلبها تلك الليلة ....) الحديث
"اے على !جوشخص شعبان کی پندرہویں شب سورکعت نمازپڑھے ,ہررکعا ت میں سورہ فاتحہ اورقل هو اللہ احد دس مرتبہ پڑھے - نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے على! جوبھی بندہ ان نمازوں کوپڑھے گا- اللہ اس شب اسکی مانگی ہوئی ہرضرورت پوری کردیتا ہے"-
اس کوابن الجوزی نے تین طرق سے اپنی کتاب الموضوعات میں ذکرکیا ہے جسے صرف جھوٹی حدیثوں کے لئے ہی ترتیب دیا ہے تاکہ امت ان احادیث موضوعہ کوپہچان کر ان سے بچ سکے-
حدیث علی کے لئے دیکھئے (الموضوعات 2/127-128-129)
اورفرمایا کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں ہمیں بالکل بھی شک نہیں ہے- اسکی تینوں سندوں میں اکثر رواة مجاہیل ہیں اورکچھ توانتہائی درجہ کے ضعیف بھی ہیں- جبکہ یہ حدیث ناممکن بھی ہے کیوں کہ ہم نے کتنوں کو یہ نمازپڑھتے ہوئے دیکھا ہے رات چھوٹی ہونے کی وجہ سے ان کی فجر بھی چھوٹ جاتی ہے- اورصبح انتہائی کسلمندی کی حالت میں کرتے ہیں ,اس جیسی حدیثوں کونماز رغائب کے ساتھ ائمہ مساجد نے عوام الناس کوجمع کرنے اوراپنی لیڈری چمکانے کے لئے بطور جال استعمال کیا ہے - اور نام نہاد واعظین قصہ خواں حضرات اسے لے کرمجالس کوگرماتے رہتے ہیں حالانکہ یہ حق سے کوسوں دورہیں..
(دیکھئے الموضوعات 2/129)-
امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف" المنارالمنیف ص 98 زیر نمبر175میں فرمایا ہے "اورانہی من گھڑت احادیث میں شعبان کی پندرہویں رات کی نماز سے متعلق احادیث بھی ہیں- اورپھرمذکورہ بالا حدیث کوبھی ذکرکیا - اورآخرمیں فرمایا:
(والعجب ممن شم رائحة العلم بالسنن أن يغتربمثل هذا الهذيان ويصليها) تعجب تواس سے ہے جس نے علوم سنت کی بو سونگھی ہے پھر اسطرح کے ہذیان سے دھوکہ کھاتا ہے اوراسطرح کی نماز پڑھتا ہے-
جبکہ امام سیوطی نے بھی اسے اللآلی المصنوعۃ 2/57-58-59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پرمن گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے - اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی الفوائد المجموعۃ ص 51-52 میں اسے ذکرکرنے کے بعد موضوع کہا ہے.
۞ اسی طرح ایک اورحدیث
(من صلى ليلة النصف من شعبان ثنتى عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة "قل هوالله أحد"ثلاثين مرة,لم يخرج حتى يرى مقعده من الجنة....)
" جس نے شعبان کی پندرہویں کوبارہ رکعت نمازپڑھی اورہررکعت میں تیس مرتبہ قل ھواللہ احد پڑھا وہ نہیں نکلے گا یہاں تک کہ جنت میں اپنے مقام کودیکھ لے" -
اسے بھی علامہ ابن الجوزی نے جھوٹ کی گھٹری الموضوعات 2/129 میں ذکرکرنے کے بعد فرمایا ہے- :"ھذا موضوع ایضا" یہ بھی من گھڑت ہے- اوراس میں مجہول راویوں کی جماعت ہے- اورابن القیم نے بھی اسے المنارالمنیف ص 99 زیرنمبر177,اورسیوطی نے اللآلی المصنوعۃ 2/59 میں ذکرکرنے کے بعد اس پروضع کا حکم لگایا ہے-
۞ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ: أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ.
(رواه احمد في مسنده 6/238,والترمذي في سننه:أبواب الصيام 2/121-122 برقم 739,وابن ماجة في سننه :كتاب إقامة الصلاة 1/444 برقم 915)-
وضعفه البخاري والترمذي وابن الجوزي والدارقطني والألباني وابن باز رحمهم الله جميعا انظرسنن الترمذي 2/122والعلل المتناهية 2/66 وضعيف ابن ماجة 103-104 والتحذيرمن البدع لابن بازص 28)-
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تومیں آپ کی تلاش میں نکلی آپ صلى اللہ علیہ وسلم بقیع میں تشریف فرماتھے- آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تم ڈرتی تھی کہ اللہ اوراسکے رسول تم پرظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے گمان گذرا کہ آپ اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہیں, توآپ نے فرمایا :" بے شک اللہ تبارک وتعالى پندرہویں شعبان کی شب کونچلے آسمان پرنزول فرماتے ہیں اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں- اس حدیث کوامام بخاری,امام ترمذی,امام دارقطنی,امام ابن جوزی,علامہ البانی اورشیخ ابن باز رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے-
تواس طرح کی روایت پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کیلئے کیسےمفید ہوسکتی ہے-
نصف شعبان شب براءت/لیلۃ المبارکہ؟
شعبان سے متعلق احادیث کا جائزہ لینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ماہ میں کسی خاص عبادت ,میلہ ,عرس یا شب بیداری اورحلوہ پوری کا کوئی ذکرنہیں ہے- اورجن احادیث میں پندرہویں شب کے قیام اورخاص نمازوں کا ذکرہے وہ سب کی سب انتہائی ضعیف بلکہ موضوع یعنی من گھڑت ہیں توضعیف اورمن گھڑت روایات پر دین کی عمارت استوار کرنا درست نہیں ,جب کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس مکمل دین ,قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ کی شکل میں موجود ہے اوراس سے اعراض کسی طرح بھی درست نہیں ,لہذا ضعیف اورموضوع روایات اورخواب وحکایات پرمبنی دین اسلام کے مزاج سے قطعى میل نہیں کھاتا لہذا اس طرح کی خرافات سے قطعی پرہیز امت کی کامیابی کا رازہے- یہ حضرات شب براءت منانے کے لئے ایک قرآنی آیت کا بھی سہارا لیتے ہیں,لیکن انکا اس آیت سے استدلال قطعی طورپر اصول قرآن اورشریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ۔
۞ انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ:
سُئِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ فَقَالَ ‏”‏ شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ
”اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "رمضان کی تعظیم میں شعبان کا روزہ“
(سنن ترمذی:۶۶۳ ، شرح معانی الآثار: ۸۳/۲ ، شرح السنۃ للبغوی : ۶۲۹/۶)
ضعیف: امام ترمذی نے اس روایت کو "غریب” قرار دیا ہے ، اس کی سند میں صدقہ بن موسی محدثین کے نزدیک غیر قوی ہیں۔
٭ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ضعفه الجمهور” (مجمع الزوائد: ۲۸۶/۵)
٭ امام منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف کی طرف اشارہ کیا ہے (الترغیب:۷۹/۱)
٭علامہ ابن الجوزی نے "غیر صحیح "قرار دیا ہے (العلل المتناھیۃ:۹۱۴)
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل: ۳۹۷/۳)
٭نیز یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسلم کے اندر روایت کردہ مرفوع و صحیح حدیث کی معارض بھی ہے جس میں ہے:
"رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا روزہ ہے” (فتح الباری:۲۵۲/۴)
۞ ”جب پندرہویں شعبان کی رات ہو تو رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے پر آسمان دنیا پر تشریف لاتا ہے، اور کہتا ہے : ہے کوئی معافی مانگنے والا جسے میں بخش دوں! ہے کوئی روزی مانگنے والا جسے میں روزی دوں! ہےکوئی بیمار جسے میں اچھا کر دوں ! ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا! یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوجاتا ہے۔“
(ابن ماجہ ، اقامۃ الصلاۃ: رقم 1388 ، عن علی رضہ اللہ عنہ)
حدیث موضوع (من گھڑت حدیث): یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے:
٭ اس کا راوی (ابو بکر بن عبد اللہ بن محمد ) ابن ابی سبرۃ "کذاب ” اور "وضاع” ہے۔ ( تقریب التہذیب : ۷۹۷۳)
٭ امام احمد اور یحیٰ بن معین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ : "یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا.” (میزان الاعتدال 503/4 ، تقریب: رقم 8030)
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (سلسلہ الضعیفہ: 2132)
تنبیہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس مفہوم کی دیگر موضوع و مردود روایات بھی مروی ہیں۔
دیکھئے الموضوعات لابن الجوزی (۱۲۷/۲) میزان الاعتدال (۱۲۰/۳) واللآلی المصنوعة (۶۰/۲)
اللہ تعالیٰ صرف پندرہ شعبان نہیں بلکہ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے
صحیح حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
” ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔ “
(صحیح بخاری: ۱۱۴۵)
۞ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔“
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
موضوع (من گھڑت): یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
۞ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔“
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
موضوع (من گھڑت): یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
۞ شَعْبَانُ شَهْرِي ، وَرَمَضَانُ شَهْرُ اللَّهِ ، وَشَعْبَانُ الْمُطَهِّرُ ، وَرَمَضَانُ الْمُكَفِّرُ
” شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے، شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کیلئے) کفارہ کا مہینہ ہے“
(المقاصد الحسنۃ للسخاوی: ۵۹۵، مختصر تاریخ دمشق: ۸۴/۶)
سخت ضعیف: یہ روایت دو طریقوں سے مروی ہے:
۱: دیلمی نے بطریق: "حسن بن یحیی الخشنی عن الوزاعی عن یحیی بن ابی کثیر عن عائشہ” مرفوعاً روایت کیا ہے (المقاصد الحسنۃ للسخاوی: ۵۹۵ )
۲:ابن عساکر نے بطریق: "جعفر بن محمد بن خالد عن ہشام بن خالد بسندہ عن عائشہ” روایت کیا ہے۔ (مختصر تاریخ دمشق: ۸۴/۶)
٭ پہلی سند کا دارومدار حسن بن یحیی الخشنی پر ہے جن کو علماء حدیث نے غیر ثقہ اور متروک قراردیاہے۔(دیکھئے: الجرح والتعدیل/۱: ۲: ۴۴ ،المیزان :۵۲۵/۱ ، الضعفاء للدارقطنی:۱۹۰)
٭دوسری سند کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ (سلسلةالضعیفة: ۳۷۴۶ ، ضعیف الجامع : ۳۴۱۱)
۞ رَجَبٌ شَهْرُ اللَّهِ ، وَشَعْبَانُ شَهْرِي ، وَرَمَضَانُ شَهْرُ أُمَّتِي.
” رجب اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔”
(مسند دیلمی : ۳۰۹۵)
موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ ؛ 
۱: اس کی سند میں ابو بکر بن حسن النقاش متہم بالکذب ہیں ۔(لسان المیزان: رقم:۴۴۱)
۲:اور کسائی مجہول ہے۔
٭حافظ عراقی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ: "یہ مرسلات حسن میں سے ہونے کی بنا پر سخت ضعیف حدیث ہے۔”
٭ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔ (ضعیف الجامع: رقم ۳۰۹۴)
٭علامہ شوکانی ، امام ابن الجوزی اور علامہ سیوطی نے اسے موضوع قرار دیا ہے (الفوائد المجموعۃ: ص ۱۰۰،الموضوعات:۲۰۵/۲،الآلی المصنوعۃ : ۱۱۴/۲)
۞ شَهْرِ رَجَبٍ عَلَى الشُّهُورِ كَفَضْلِ الْقُرْآنِ عَلَى سَائِرِ الْكَلامِ، وَفَضْلُ شَهْرِ شَعْبَانَ عَلَى الشُّهُورِ كَفَضْلِي عَلَى سَائِرِ الأَنْبِيَاءِ.
”رجب کے مہینہ کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی قرآن کی فضیلت تمام کلام پہ اور شعبان کے مہینہ کی وہی فضیلت ہے جیسی میری تمام انبیاء پر“
(المقاصد الحسنۃ: ۷۴۰)
موضوع (من گھڑت): یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ؛ 
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کو موضوع (جھوٹی اور من گھڑت) قراردیتے ہوئے رقمطراز ہیں: "اس کے تمام رواۃ بجز سقطی کے ثقات ہیں کیونکہ وہ حدیثیں گھڑنے میں معروف تھا” (تبیین العجب: ص ۱۴)
مزیددیکھئے:کشف الخفاء للعجلونی:۸۵/۲-تمییزالطیب من الخبیث:۹۱۹-الأسرار المرفوعة :۲۵۴)
۞ رجب کی پہلی رات دعا رد نہیں ہوتی
رجب کی پہلی رات کی دعا سے متعلق ایک حدیث رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے کہ:
خَمْسُ لَيَالٍ لا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدَّعْوَةُ : أَوَلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، وَلَيْلَةُ الْجُمُعَةِ ، وَلَيْلَةُ الْفِطْرِ ، وَلَيْلَةُ النَّحْرِ .
” پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جس میں دعا رد نہیں کی جاتی؛ ۱: رجب کی پہلی رات ۲: پندرہ شعبان ۳: جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ۴: عید الفطر کی رات ۵: عید الاضحیٰ کی رات۔“
(کفن کی واپسی :ص ۶ بحوالہ تاریخ دمشق لابن عساکر: ج۱۰ص ۴۰۸)
موضوع (من گھڑت): یہ روایت من گھڑت ہے، کیونکہ؛
۱: اس کا راوی ابو سعید بندار بن عمر الرویاني ”کذاب“ ہے، جیسا کہ؛
تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے یہ قول نقل کیا ہے: ”لا تسمع منه ، فإنه كذاب.“ (یعنی عبد العزیز النخشبی کہتے ہیں کہ) بندار سے روایت نہ سنو یہ جھوٹا ہے۔
۲: اس کاراوی ابراہیم بن ابی یحییٰ اگر”الاسلمی“ ہےتوجمہور کے نزدیک ”ضعیف ومتروک“ ہے۔
۳: اس روایت کا راوی ابو قعنب بھی مجہول ہے۔
۴: نیز ابو قعنب کا سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے سماع بھی مطلوب ہے۔
۵: اس روایت میں اور بھی علت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
۞ پندرہ شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے
۞ مغرب کے بعد چھ رکعات نوافل بارہ سال کی عبادت کے برابر ہے ۔
۞ قائلین کہتے ہیں کہ اس رات کے متعلق قرآن میں آیا ہے:
{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَفِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ}
( سورة الدخان:3-4)

"بے شک ہم نے قرآن کوایک با برکت شب میں نازل کیا ہے- اورہم ہی ڈرانے والے ہیں ,اسی شب میں ہر اہم فیصلہ لیا جاتا ہے"-
اور کہتے ہیں اس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب براءت یعنى پندرہویں شعبان کی رات ہے- لہذا وہ طرح طرح کے میلے، عرس اورحلوہ پوری کا بندوبست کرتے ہیں,جب کہ ان لوگوں کا اس آیت سے استدلال اصول قرآن اورفرامین نبوی کے سراسر خلاف ہے- کیوں کہ اللہ تعالى نے خود ہی قرآن کریم میں لیلۃ مبارکہ کی تحدید فرمادی کہ وہ کس ماہ اورکس شب کوکہتے ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے:
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ }
(سورة البقرة : 185)
"ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا"
توپتہ چلا کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے با برکت مہینہ میں ہوا ہے نہ کہ شعبان کے ماہ میں ,جیسا کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں ,اورپھر مزید تحدید سورۃ القدرنازل فرما کر کردی ارشادہے:
{إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِلَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍتَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر}
( سورة القدر:1-5)
"بے شک ہم نے ہی اس قرآن کوشب قدرمیں نازل کیا ہے- اورآپ کوکیا معلوم کہ شب قدرکیا ہے- شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہترہے - اس شب میں فرشتے اورخاص کرجبرئیل اللہ کے حکم سے سلامتی کا پیغام لے کراترتے ہیں اورایسا طلوع فجرتک ہوتا ہے" -
اس سورۃ مبارکہ سے پتہ چلا کہ لیلۃ مبارکہ لیلۃ القدرہے جونزول قرآن کی شب ہے اوریہ رمضان میں ہے- لہذا اس بابرکت شب یعنی شب قدرکواسکا اصل مقام دیا جانا چاہئے اوراسی شب کی تلاش وجستجو رمضان کے آخری عشرے میں کرنا مطلوب ہے نہ کہ پندرہویں شعبان کی شب کی تلاش۔
لہذا مسلمانوں کو قرآن اورنبوی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہئے اوراللہ کے دین پراللہ کی منشاء کے مطابق رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ طریقہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے نہ کہ اپنے خود ساختہ طریقوں کی روشنی میں ,کیوں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت واحترام اوران کے مقام نبوت کے منصب کے بھی خلاف ہے اوراسکی خلاف ورزی انسان کوفتنہ وابتلاء میں مبتلا کرتی ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے:
{ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ}
(سورة النور: 63)
" ان لوگوں کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی سے باز آنا چاہئے ورنہ وہ فتنہ اوردردناک عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے"-
جب کہ ایسے میلے,عرس اورحلوہ پوری کی محفلیں اللہ کے دربارمیں قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں,کیوں کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھورد)
(رواه مسلم في صحيحه : كتاب الأقضية 3/ 1343-1344 برقم 1718)
"جس شخص نے ایسا عمل کیا جوہمارے حکم کے مطابق نہیں ہےتووہ عمل رد کردیا جاتا ہے"-
نیزفرمایا:
(من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منه فهورد)
( رواہ البخاری فی صحیحہ :کتاب الصلح 5/301 برقم 2697,ومسلم فی صحیحہ :کتاب الأقضیۃ 3/1343 برقم 1718)-
"جس نے ہمارے دین میں ایسا اضافہ کیا جواس دین کا حصہ نہیں ہے تووہ اضافہ مردود ہے"-
نصوص سابقہ سے ثابت ہوا کہ پندرہویں شعبان کی شب کے قیام اور اس دن کے صیام اور اس دن کے صیام کی خصوصیت نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دین میں سے نہیں ہے اورنہ ہی اس شب میں میلہ عرس اور اس طرح کی دوسری محدثات اورفضولیات اورغیرشرعی اختلاط کی گنجائش ہے –
اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کو بدعات ، خرافات اور ضعیف و من گھڑت احادیث سے محفوظ فرمائے ۔۔۔آمین
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــلاَمُ عَلَيــْـكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS