Kya Allah ke Nabi ke pas Ilm-E-Gaib tha?
wahabi Allah Ke Nabi ko Noor kyu nahi mante?wahabi yah kyu nahi mante hai ke Aap ﷺ ke pas Ilm-E-Gaib tha?
Ilm-E-Gaib ka masala Quran-o-Hadees se.
(سوم) 3- علم غیب کا مسئلہ :
☜ اہلِ حدیث یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد رسُول اللہﷺ کو وقتًا فوقتًا ایسی باتیں بتائیں جو غیب میں سے تھیں ، جنّت ، جہنّم ، زمین و آسمان، ماضی و مستقبل کی بہت سی خبریں جو آپ ﷺ نہیں جانتے تھے آپ ﷺ کو بتائی گئیں ، لیکن علم غیب اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہے ، لہٰذا اللہ کے ساتھ اس میں کسی کو شریک نہیں کیا جاسکتا ، اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا عقیدہ اور اسی کے ساتھ اُن کا فتویٰ بھی سُن لیں ،
امّاں عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : "جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ کے رسُول ﷺ یہ بتادیا کرتے تھے کہ آنے والے دن میں کیا چھُپا ہے تو اس نے اللہ پر نہایت سنگین جھوٹ باندھا کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : "کہو ، آسمان و زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے" {سورہ نمل : 65 : صحیح مسلم / کتاب الایمان : 259}
☜ یہی عقیدہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا تھا وہی اہلِ حدیث کا ہے ، اس عقیدہ کی بنیاد پر کوئی مسلمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے عقیدہ کی صحت پر اعتراض کرنے کی ہمّت کرسکتا ہے ؟ اگر نہیں تو اہلِ حدیث اسی عقیدہ کے سبب کس بنیاد پر مجرم قرار دیئے جاتے ہیں ؟ مزید غور طلب بات یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے عقیدہ کی تائید میں قرآن کریم کی آیت سے بھی استدلال کیا ہے ، لہٰذا اسے محض ذاتی رائے قرار دینا بھی غلط غلط ہوگا ،
4- توسل اور وسیلہ کا مسئلہ :
☜ ایک اعتراض اہلِ حدیث پر یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اہلِ حدیث نبی کریم ﷺ کو وسیلہ نہیں بناتے :
☜ اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ حدیث کے نزدیک اللہ سے تقرب کا واحد ذریعہ عقیدہ و عمل میں نبی کریم ﷺ کی اتباع ہے ، نبی کریمﷺ کی اتباع اللہ کی رِضا اور مغفرت کا واحد اور یقینی وسیلہ ہے ، جو آدمی نبی کریم ﷺ کی سُنّتوں کو نظر انداز کرکے من مانی طریقے ایجاد کرے اور اُن کو وسیلہ مان کر اللہ سے اُمید لگائے تو نہ صرف یہ عمل بے فائدہ ہے بلکہ بدعت اور آخرت میں اللہ کی سزا کا سبب ہے ،
☜ وسیلہ کے سلسلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھُم کا طرزِ عمل کیا تھا ؟
خلیفئہ راشد حضرت عُمر بن خطّاب رضی اللہ عنه ہی کے اسوہ کو دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ صحابہ رضی اللہ عنھُم نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی ذات کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے یا نہیں ،
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنه فرماتے ہیں :
"حضرت عُمر بن خطّاب رضی اللہ عنه کا معاملہ یہ تھا کے جب قحط ہوتا تو وہ عبّاس رضی اللہ عنه سے بارش کی دعاء کراتے ، اور یوں کہتے : اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی محمد رسُول اللہ ﷺ کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا ، اب ہم اپنے نبی ﷺ کے چچا حضرت عبّاس رضی اللہ عنه کا وسیلہ اختیار کررہے ہیں لہٰذا ہم پر بارش برسا دے ، چنانچہ بارش ہوجاتی ، {صحیح خاری / کتاب الجمعہ : 1010}
حضرت عُمر رضی اللہ عنه کے جملہ پر غور کریں کہ "اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی ﷺ کا وسیلہ اختیار کرتے تھے" یعنی نبی ﷺ کی دعاء کا وسیلہ نہ کہ آپ ﷺ کی ذات و شخصیت کا وسیلہ ، کیونکہ اگر نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی آپﷺ کی ذات کے وسیلہ سے دعاء کرنا صحیح ہوتا تو حضرت عُمر رضی اللہ عنه نبی کریم ﷺ کی ذات کو چھوڑ کر عبّاس رضی اللہ عنه کا انتخاب نہ کرتے ، جبکہ آپ ﷺ کی قبر کے پاس اب بھی جاسکتے تھے اور آپ ﷺ کی ذات کے وسیلہ سے دعاء کرسکتے تھے معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ آپ ﷺ کی ذات کا نہیں بلکہ آپ ﷺ کی دعاء کا وسیلہ تھا جو اب وفات کے بعد نہ رہا ، حقیقت یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنھُم کہ ہاں کسی کے نام یا ذات کے وسیلہ سے دعاء کرنے کا طریقہ تھا ہی نہیں بلکہ اس کے بجائے کسی نیک شخص سے دعاء کروانے کا طریقہ تھا ، لہٰذا حضرت عُمر رضی اللہ عنه نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا سے دعاء کروائی ،
☜ یہاں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کی قبر پر جاکر آپﷺ سے دعاء کی درخواست کا طریقہ بھی صحابہ رضی اللہ عنھُم کے ہاں نہیں تھا ورنہ حضرت عُمر رضی اللہ اس موقع پر ضرور ایسا کرتے ، بس اہلِ حدیث اسی طریقہ پر عامل ہیں جو حضرت عُمر رضی اللہ عنه سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ حاضرین سے دعاء کروائی جائے ، لیکن اس کے برعکس ان کا نام لے کر ان کی ذات کا وسیلہ سے دعاء کروانا ایک ایسا عمل ہے جو نہ کتاب و سُنّت سے ثابت ہے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنھُم کے عمل سے .
وآخرو دعوانا ان الحمد لله رب العالمين :
No comments:
Post a Comment