find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Nikah-E-Mutah kya Hai islam me?

Nikah mutah kya hai Musalmano ke bich?
Islam me Nikah-E-Mutah kya hai?
निकाह मुताह क्या है इसलाम में?
Sawal: Muta kia hai or shariyat is bare Me kya kehti hai kia is ka tehreer Mai jawab mil sakta hai?
جواب تحریری
عہ بھی انہی چیزوں میں سے ہے، جنہیں اسلام نے اصلاحِ معاشرہ کی خاطر ابدی طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عہد ِ رسالت میں شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت ِعملی کے تحت عہد نبوی میں نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا،لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ شرعی نکاح ہی کو حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
اب جس طرح کسی مسلمان کا شراب کی حرمت سے پہلے تک کے عہد ِرسالت میں صحابہ کرام کے شراب پینے کے واقعات کو دلیل بنا کر شراب کو حلال قرار دینا جائز نہیں،اسی طرح کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ حرمت ِ متعہ سے پہلے پیش آنے والے عہد ِنبوی کے واقعات کو دلیل بناتے ہوئے اب بھی نکاحِ متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔

نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے، جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔  اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رائج کیا گیا، جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
شرعی نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے، جو کہ نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا، نیز نکاحِ شرعی میں اہم جزو دوام و استمرار ہے، جو کہ متعہ میں نہیں پایا جاتا۔ نکاحِ شرعی کا اہم فائدہ محبت و مودّت اور سکون ہے، جو کہ نکاحِ متعہ میں ناپید ہے۔نکاحِ شرعی میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے، لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاحِ متعہ میں ایک سے زائد خاوندوں کا تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے۔  ایک عورت کے لیے نکاحِ متعہ کے ذریعے ایک ہی دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ ایک عورت جب نکاحِ متعہ کے ذریعے کئی مردوں سے تعلق رکھتی ہے، تو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟  ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں،  پر امن شہری نہیں بن پاتے۔ نکاحِ متعہ میں ولی (باپ ،بھائی) کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے، ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی پھیلتی ہے۔
شیخ الاسلام، ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَالنِّکَاحُ الْمَبِیْحُ ہُوَ النِّکَاحُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ الْمُسْلِمِینَ، وَہُوَ النِّکَاحُ الَّذِي جَعَلَ اللّٰہُ فِیہِ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ۔
’’جائز نکاح وہی ہے، جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے۔یہی وہ نکاح ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے زوجین میں مودّت و رحمت کا باعث بنایا ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 92/32، 93)

نکاحِ متعہ کی بے شمار قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی بدکاری کی راہ اختیار کر لیتی ہیں، جیسا کہ :
شیعہ کے شیخ الطائفہ،ابو جعفر، محمد بن حسن، طوسی (م : 460ھ) نے لکھا ہے :
وَلَیْسَ عَلَی الرَّجُلِ أَنْ یَّسْأَلَہَا ؛ ہَلْ لَّہَا زَوْجٌ أَمْ لَا ۔
’’نکاحِ متعہ کرنے والے مرد کے لیے عورت سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کا کوئی خاوند ہے یا نہیں۔‘‘(النہایۃ، ص : 490)
ان قباحتوں کے باوجود نکاحِ متعہ شیعہ مذہب کا بنیادی جزو ہے، جیسا کہ :n شیعہ فقیہ، محمد بن حسن،  الحر العاملی (م : 1104ھ) نے لکھا ہے :
إِنَّ إِبَاحَۃَ الْمُتْعَۃِ مِنْ ضَرُورِیَّاتِ مَذْہَبِ الْإِمَامِیَّۃِ ۔
’’نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامی شیعوں کی مذہبی ضرورت ہے۔‘‘
(وسائل الشیعۃ : 245/7)

نکاحِ متعہ اور اجماعِ امت
امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں نکاحِ متعہ تاقیامت حرام ہو چکا ہے، جیسا کہ :
امام ابو عُبَیْد، قاسم بن سلام رحمہ اللہ (224-150ھ) فرماتے ہیں :
فَالْمُسْلِمُونَ الْیَوْمَ مُجْمِعُونَ عَلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ : إِنَّ مُتْعَۃَ النِّسَائِ قَدْ نُسِخَتْ بِالتَّحْرِیمِ، ثُمَّ نَسَخَہَا الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ ۔۔۔، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہٗ کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہٗ رَجَعَ عَنْہُ ۔
’’آج مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں سے نکاحِ متعہ کو منسوخ کر کے حرام کر دیا گیا ہے۔کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔کوئی ایک بھی ایسے صحابی معلوم نہیں ہوئے، جو نکاحِ متعہ کی رخصت دیتے ہوں، سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہ اس کے جواز پر ان کا مشہور فتویٰ تھا۔  پھر ہم تک یہ بات بھی پہنچ گئی کہ (حق معلوم ہونے پر)  انہوں نے اپنے اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔ ‘‘(الناسخ والمنسوخ، ص : 80)
محمد وقاص شیرازی فیصل آباد

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS