Kya Har aeib wala Janwar Qurbani ke liye rukawat hai?
Khassi Ja war ki qurbani Shariyat ki najar me.
kya Khassi ki qurbani Jayez hai?
خصی جانور کی قربانی شریعت کی نظر میں
تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظه الله
کیا ہر عیب قربانی کے لیے رکاوٹ ہے؟
قربانی ایک شرعی عمل ہے، جس کے لیے شریعت کی مکمل ہدایات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ عیوب بھی بیان کر دیے ہیں، جو قربانی کی قبولیت کے لیے رکاوٹ ہیں۔ہر عیب قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔اگر ہر عیب یا نقص قربانی کی قبولیت میں مانع ہو تا تو مطلق طور پر کہہ دیا جاتا کہ کسی قسم کا کوئی عیب بھی ہوا تو قربانی قبول نہیں ہو گی، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی خصوصی رحمت ہے کہ چند موٹے موٹے عیوب کے سوا باقی کسی عیب کو قربانی کے لیے رکاوٹ قرار نہیں دیا گیا۔
قربانی کے عیوب :
قربانی کے جانور کا دوندا ہونا ضروری ہے۔
(صحیح مسلم : ١٩٦٣)
دوندا ہونے کے ساتھ ساتھ جانور کا درجِ ذیل عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے:
1۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَرْبَعٌ لاَّ تَجُوزُ فِي الْـأَضَاحِي؛ اَلْعَوْرَاءُ بَیِّنٌ عَوَرُہَا، وَالْمَرِیضَۃُ بَیِّنٌ مَّرَضُہَا، وَالْعَرْجَاءُ بَیِّنٌ ظَلَعُہَا، وَالْکَبِیرُ الَّتِي لَا تُنْقِي .
”چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں:
(١)ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو۔
(٢)ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو۔ (٣)ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو۔(٤)ایسا شکستہ و لاغر جانور جس کی ہڈیوں سے گودا ختم ہو چکا ہو۔”
(مسند الإمام أحمد : ٤ /٨٤ ، سنن أبي داو،د : ٢٨٠٢، سنن الترمذي : ١٤٩٧، سنن النسائي : ٤٣٧٤، سنن ابن ماجہ : ٣١٤، وسندہ، صحیحٌ)
2۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قربانی کے) جانور کی آنکھیں اور کان بغور دیکھنے کا حکم فرمایا۔
(سنن التّرمذي : ١٥٠٣، سنن النسائي : ٤٣٨١، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٣، وسندہ، حسنٌ)
3۔ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے کہ :
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کٹے ہوئے کان اور ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔”
(سنن أبي داو،د : ٢٨٠٥، سنن التّرمذي : ١٥٠٣، سنن النسائي : ٤٣٨٢، سنن ابن ماجہ : ٣١٤٥، وسندہ، حسنٌ)
قربانی کے جانور کے عیوب کے حوالے سے یہ مکمل تعلیمات ہیں۔مندرجہ بالا عیوب کے سوا کوئی بھی عیب ایسا نہیں،جسے شرعی طور پر قربانی کے لیے رکاوٹ قرار دیا جا سکے۔ کیونکہ اگر ایسا کوئی اور عیب بھی ہوتا تو اسے بھی بیان کر دیا جاتا یا پھر قربانی کے جانور کے لیے مطلق طور پر ہر عیب سے پاک ہونا ضروری قرار دیا جاتا۔
خصی جانور کی قربانی :
قارئین کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے ہوئے قربانی کے عیوب ملاحظہ فرما چکے ہیں۔جانور کا خصی ہونا ان عیوب میں شامل نہیں جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے عیب قرار دیا ہے، لہٰذا اسے قربانی میں عیب سمجھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی شریعت کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے اضافے کی مذموم کوشش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خصی جانور کی قربانی تمام محدثین وفقہا کے ہاں بالاجماع جائز ہے،جیسا کہ :
4۔ علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (٥٤١۔٦٢٠ ھ)بیان کرتے ہیں :
وَلَا نَعْلَمُ فِي ہٰذَا خِلَافًا .
”اس بارے میں کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔”(المغني : ٣/٤٧٦، ٩/٤٤٢)
5۔ امام اہل سنت،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
أَرْجُو أَن لَّا یَکُونَ بِہٖ بَأْسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راہویہ بروایۃ إسحاق بن منصور الکوسج : 368/2)
کیا صرف خصی ہونا ہی عیب ہے؟
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور بہت سی ایسی باتیں ہیں،جو عموماً جانور میں عیب سمجھی جاتی ہیں،لیکن وہ قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔مثلاً :
٭ جانور کا قد چھوٹا ہونا عیب سمجھا جاتا ہے،لیکن اسے قربانی کے لیے رکاوٹ کوئی بھی قرار نہیں دیتا۔وجہ صرف یہی ہے کہ شریعت نے قربانی کے عیوب میں اس عیب کو شمار نہیں کیا۔
٭ جانور کا رنگ بھدا ہونا بھی عیب خیال کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے جانور کی قیمت بھی کافی کم ہو جاتی ہے، لیکن اسے بھی قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں سمجھا جاتا۔وجہ صرف یہی ہے کہ شریعت نے اسے قربانی کے عیوب میں شامل نہیں کیا۔
٭ کیا مادہ جانور کا حاملہ نہ ہونا عیب نہیں ہے؟ لیکن ایسا مادہ جانور جو حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو،اسے بھی قربانی کیا جا سکتا ہے،کیونکہ اس جانور کا یہ عیب قربانی کے عیوب میں شمار نہیں کیا گیا۔
جب یہ اور اس جیسے دیگر عیوب اس لیے رکاوٹ نہیں بنتے کہ شریعت نے انہیں قربانی کے عیوب میں شمار نہیں کیا تو خصی ہونا
بھی شریعت کی نظر میں قربانی میں عیب نہیں۔پھر عیب قرار دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
No comments:
Post a Comment