Kuchh Aeise jumle jo aam taur pe hamare bich Bole jate hai.
Chand Mashhoor jahilana jumle aur unke jawabat.jaise Namaje Bakshwane gaye they roje gale lag gaye....
Mohabbat aur Jung me sab kuchh Jayez hai.
Nau Sau (Nine hundreds) chuhe khakar Billi chali hajj karne.
Aaj ke Daur men Deen me tabdeeli waqt ki jarurat hai.
Aaj ka Jamana Bahut hi kharab aur gaddar hai.
چند مشہور جاھلانہ جملے اور ان کے جوابات*
جملہ:
نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے،
جواب: حدیث مبارکہ میں ہے؛
جس نے رسول اللہ ﷺ پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔
(اگر چہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔)
جملہ:
"محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے"
.
جواب:
بالکل غلط، بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود دین اسلام میں موجود ہیں،
جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں.
جملہ:
"نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی-
یعنی ساری زندگی گناہوں میں گزری اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
.
جواب: 100% غلط... !
بحیثیت مسلمان لاکھوں، کروڑوں چوہے کھا کر بھی اگر بلی حج کو جائے گی تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنے قریب پائے گی.
گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو؟
اگر سچی توبہ کرکے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے.
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔
[طه: 82]
(”بلی حج کو چلیں“ یہ کہنا شعائر اسلام کی توہین ہے اس لئے ایسا کوئی بھی جملہ جس سے اسلام و مسلمین کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نکلتا ہو، اُس سے گریز کریں۔)
جملہ:
آج کے دور کے مطابق دین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے
جواب۔ اللہ فرماتا ہے۔
```الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً```
“(1440 سال پہلے )
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا“
(المائدہ 3)
جملہ:
آخر اللہ کو ہماری یاد آ ہی گئی
جواب: اللہ فرماتا ہے.
َمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّاً
تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
[مريم : 64]
جملہ: کہاں رہتے ہو؟
اوو خدا کے پچھواڑے؟
جواب :
خدا کے لئے کچھ بھی غائب نہیں ہے
تو خود سوچیں اس کا پچھواڑا کیسے ہو سکتا ہے
مگر جملہ بولنے والے نے رب العزت کی کتنی بڑی توہین کر دی ہے
`جملہ:
زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے، زمانہ بڑا غدار ہے
جواب:
حدیث القدسی
ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے ۔ وہ زمانے (وقت) کو گالی دیتا ہے جب کہ زمانہ “میں “ ہوں ہر حکم میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن رات کو پلٹاتا ہوں
(متفق علیہ )
جملہ:
فلاں بہت منحوس ہے وغیرہ وغیرہ ۔
جواب:
بالکل غلط
یہ وہمی لوگوں کی باتیں ہیں ۔
اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں ہے ،
یہ محض توہم پرستی ہے۔
حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔
سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے۔
”تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور
جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،“
سورة النساء (4) آیات (79).
لہذا اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کون سے ایسے جملے بولتے رہتے ہیں اور وہ جملے کتنے بھاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں
اور ہماری آخرت تباہ ہو رہی ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہے
بولنے سے پہلے سوچیں پھر تولیں پھر بولیں اور جب بھی بولیں بامقصد بولیں
فضول بولنے سے خاموشی لاکھ درجے بہتر ہے
خود بھی شعوری طور پر بچیں اور دوسروں کی بھی اصلاح فرمائیں
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا
No comments:
Post a Comment