find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Duniya bhar ke Musalman Arafa ka roja kis Din Rakhe?

Puri Duniya ke Musalman arafa ka roza kis din rakhenge?
Sawal: Duniya bhar ke Musalman  arafa ke dina ka roza kis Din rakhenge? apne Mulk ke qamari Calender ke mutabik 9 Zulhijja ko ya  hajj ke dauran Hajaj kiram ke waquf arafat ke din? Tafseel se jawab den.
"سـلسـلہ اســلامی سـوال و جـواب"

    ```سوال نمبر :: 105```
_دنیا بھر کے مسلمان، یومِ عرفہ کا روزہ کس دن رکھیں؟ اپنے ملک کے قمری کیلنڈر کے حساب سے 9 ذی الحجہ کو یا حج کے دوران حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے دن؟؟؟ تفصیل سے جواب دیں!_

*جــــــــواب۔۔!!*
        الحمدلله..!
9 ذوالحج یعنی عرفہ کا ایک روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا سبب::-_-

📚 ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ سے عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: گزرے ہوئے ایک سال اور آنے والے ایک سال (کے گناہوں) کا کفارہ بن جاتا ہے۔
_(صحیح مسلم،كتاب الصيام، 1162)_

*لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں نے اس فضیلت والے روزے کو بھی اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا اور لوگ روزہ رکھنے میں اختلاف کا شکار ہو گئے*

  اس اختلاف کا سبب دراصل رویت ہلال کی رو سے اور مختلف ممالک میں قمری تاریخ کے مختلف ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اختلاف کا کوئی واضح ثبوت کم و بیش نصف صدی پہلے تک نہیں ملتا البتہ اب کچھ سالوں سے یہ اختلاف ابھر کر سامنے آ رہا ہے، حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جس ملک میں جب 9 ذی الحجہ ہوگی، وہ یومِ عرفہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کو اسی دن یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا ہوگا،

اس کی دلیل میں صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے:

📚  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ.
_(صحیح بخاری ، کتاب الصوم-1909)_
"چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے 30 دن پورے کر لو،"*

*اس حدیث سے چاند دیکھنے کی اور قمری تاریخ کی اہمیت دیکھی جا سکتی ہے۔*

_اگر برصغیر، جاپان و کوریا کے مسلمان، بغیر چاند دیکھے، سعودی عرب کے مطابق رمضان کے روزے شروع کر دیں اور عید بھی منا لیں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟؟؟_

📚 صحیح مسلم میں ایک حدیث یوں ہے کہ
ملک شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سمیت باقی لوگوں نے جمعہ کی رات چاند دیکھ کر روزہ رکھا، اور مدینہ منورہ کے لوگوں نے اس کے اگلے دن ہفتہ کی شام کو چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم تو تیس روزے پورے رکھیں گے یا پھر چاند دیکھ کر عید کر لیں گے،
حضرت کریب کہنے لگے، کہ کیا معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟
تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ نہیں،
نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے،
_(صحیح مسلم ، کتاب الصیام-1087)_

اس حدیث میں فقہائے مدینہ نے اہلِ شام کے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی خبر کو بنیاد بنا کر اہلِ مدینہ کو یہ فتویٰ نہیں دیا کہ تم ایک روزہ قضا کرو کیونکہ شام میں چاند ہو چکا تھا۔ بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کی رویت (چاند) ان کے لیے اور ہماری رویت ہمارے لیے ہے اور (نبی ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے،
*01- 📚 پہلا اعتراض::*

*دوسری طرف کچھ لوگوں کا اختلاف ہے کہ موجودہ تیز تر وسائل نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے، لہٰذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام، عرفات میں وقوف کرتے ہیں*

_*جواب:*_

اس عقلی دلیل پر چند اشکالات وارد ہوتے ہیں:

*بعض ممالک ایسے بھی ہیں جب سعودیہ میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی، اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے وقت روزہ رکھیں تو گویا وہ لوگ رات کا روزہ رکھیں گے؟؟؟*

*اور کچھ ایسے ممالک بھی ہونگے جہاں سعودیہ سے بھی پہلے چاند نظر آ جاتا، تو کیا وہ لوگ 10 ذوالحجہ یعنی عید کے دن عرفہ کا روزہ رکھیں گے؟؟؟*

*_دوسری اہم بات یہ کہ :_*
*اگر چاند کا مختلف ہونا معتبر نہیں ہے تو ہر چیز میں نہیں ہونا چاہئے۔ سورج کے اوقات میں بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے،*
*مثلاً، افطار و سحری کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کے اوقات ہوں۔*
*نمازوں کے اوقات بھی وہی ہونا چاہیے جو مکہ مدینہ کی نمازوں کے اوقات ہوں۔*
_اگر یہ ممکن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ: چاند کا مختلف ہونا نمازوں اور افطار و سحر کے معاملے میں تو معتبر ہے لیکن رمضان کے روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے میں معتبر نہیں؟؟؟_
تو کیا یہ بات غلط نہیں؟؟

*02- 📚 دوسرا اعتراض::*

*کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ کا وقوف عرفات یعنی جگہ سے متعین ہے،*

_جواب:_*
یہاں پر وہ غلطی کرتے ہیں وقف عرفات کا تعین کس سے ہوتا ہے؟
لازمی سی بات ہے اس کا تعین بھی چاند دیکھ کر کیا جاتا ہے چاند دیکھنے کے بعد 9 دن حجاج کرام عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ باقی تمام ماہ میں اپنے ملک کے چاند کا اعتبار کیا جاتا ہے مگر صرف اس دن کے لئے سعودی عرب کے چاند کا اعتبار پھر تو آپ کو قربانی بھی اسی دن کرنی چاہیے جس دن حجاج قربانی کرتے ہیں کیونکہ 10 ذی الحجہ کو یوم النحر ہوتا ہے،
*پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دن بعد ہم دوبارہ سعودی عرب کے چاند کو چھوڑ کر اپنے چاند کا اعتبار کر لیتے ہیں جبکہ اگر 9 کو وقف  عرفات کا دن کا تعلق مقام سے ہے تو پھر یوم النحر یعنی قربانی کے دن 10 ذوالحجہ کا تعلق بھی مقام سے ہی ہے جب وہاں حجاج خاص مقام پر قربانی کرتے ہیں۔*

_________&___________
📚 جب سعودیہ کے مفتی شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالٰی سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
     _چاند كا مطلع مختلف ہونے كي صورت ميں جب يوم عرفہ مختلف ہو جائے تو كيا ہم اپنےعلاقے كي رؤيت كےمطابق روزہ ركھيں يا كہ حرمين كي رؤيت كا اعتبار كيا جائےگا؟_

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
*يہ اہل علم كے اختلاف پر مبني ہے كہ: آيا سارى دنيا ميں چاند ايك ہي ہے كہ مطلع مختلف ہونے كي بنا پر چاند بھي مختلف ہے؟*

*صحيح يہي ہے كہ: مطلع مختلف ہونےكي بنا پر چاند بھي مختلف ہيں، مثلا جب مكہ مكرمہ ميں چاند ديكھا گيا تو اس كےمطابق يہاں نو تاريخ ہو گي، اور كسي دوسرے ملك ميں مكہ سے ايك دن قبل چاند نظر آيا تو ان كے ہاں دسواں دن يوم عرفہ ہوگا، لھذا ان كےليے اس دن روزہ ركھنا جائز نہيں كيونكہ يہ عيد كا دن ہے، اور اسي طرح فرض كريں كہ رؤيت مكہ سے ليٹ ہو اور اور مكہ مكرمہ ميں نو تاريخ ہو تو ان كے ہاں چاند كي آٹھ تاريخ ہوگي تو وہ اپنے ہاں نو تاريخ كےمطابق روزہ ركھيں گے جو كہ مكہ كے حساب سے دس تاريخ بنے گي، راجح قول يہي ہے*

اس ليے كہ رسول كريم ﷺ كا فرمان ہے:
*(جب چاند ديكھو تو روزہ ركھو اور جب اسے ديكھو تو عيد كرو)

اور وہ لوگ جن كے ہاں چاند نظر نہيں آيا انہوں نےچاند نہيں ديكھا، اور جيسا كہ سب لوگ بالاجماع طلوع فجر اور غروب شمس ميں ہر علاقے كے لوگ اسي علاقے كا اعتبار كرتے ہيں، تو اسي طرح مہينہ كي توقيت بھي يومى توقيت كےطرح ہي ہوگي،
_(ديكھيں: مجموع الفتاوي ( 20)_

_______&___________

📚 شیخ حافظ ابو یحییٰ نورپوری صاحب لکھتے ہیں کہ!!
      _*یوم عرفہ سے مراد 9 ذوالحجۃ ہی ہے،*_
کہ اگر حاجیوں کا عرفات میں ٹھہرنے کا دورانیہ ہی روزے کا وقت قرار دیا جائے تو ان بے چارے مسلمانوں کا کیا بنے گا جو ان ملکوں کے باسی ہیں، جہاں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے؟ وہ تو محروم ہو گئے روزہ رکھنے اور دو سالوں کے گناہ معاف کرانے سے!

*حالانکہ اسلام کے احکامات ہمہ گیر بھی ہیں اور عالم گیر بھی۔ امریکہ جیسے ممالک جن میں حاجیوں کے وقوف ِ عرفات کے وقت رات ہوتی ہے، یومِ عرفہ کا روزہ تو ان کے لیے بھی مشروع ہے، یومِ عرفہ سے مراد حاجیوں کا وقوف ِ عرفات لینا اس لحاظ سے بالکل غیر منطقی ہے۔*
دراصل نو ذو الحجہ کے روزے کو یومِ عرفہ کا روزہ اس ماحول کے مدنظر کہہ دیا گیا، جس میں یہ بات چیت ہوئی تھی،
کیوں کہ مدینہ میں یومِ عرفہ نو ذو الحجہ ہی کو ہوتا ہے۔
اس کو اگر تطبیقی انداز سے سمجھنا چاہیں تو یہ

📚 فرمانِ رسول دیکھ لیں:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ قِبْلَةٌ.
*''مشرق و مغرب کے درمیان تمہارا قبلہ ہے۔"*
_(سنن الترمذی : 342، وسندہ حسن)_

*اگر کوئی پاکستانی یا ہندوستانی مسلمان اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو مدنظر رکھ کر اپنے قبلے کا تعین کرنے لگے تو یقینا وہ غیر قبلہ کو قبلہ بنا بیٹھے گا، کیوں کہ پاکستانی و ہندوستانی مسلمانوں کا قبلہ مشرق و مغرب نہیں، بل کہ شمال و جنوب کی درمیانی سمت میں ہے۔*

اس حدیث میں دراصل یہ بات سمجھائی گئی کہ قبلہ رخ ہونے میں اگر تھوڑی بہت کجی ہو بھی جائے تو وہ مضر نہیں، کیوں کہ قبلے والی پوری سمت ہی قبلہ شمار ہو گی۔
اب یہ سمت اہل مدینہ کے حساب سے مشرق و مغرب کے درمیان بنتی تھی، اس لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے گئے، لیکن ان ظاہری الفاظ کو دلیل بنا کر پوری دنیا میں ہر جگہ قبلے کی سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح اگر یومِ عرفہ کے الفاظ کے محل ورود پر غور کیے بغیر محض ظاہری الفاظ کا تتبع کیا جائے تو یہ صراحتا خطا پر مبنی ہو گا۔

________&_________
یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے::-_-​*

سعودی عرب طائف کے مشہور بلاگر اور شیخ مقبول احمد سلفی لکھتے ہیں:
 یوم عرفہ سے مراد ذو الحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس بات کو مختلف طریقے سے استدلال کر کے بتلاؤں گا.

*(1)قرآن سے استدلال :*
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے : وَالْفَجْرِ. وَلَيَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(الفجر:1-3)
*ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی۔*
یہاں محل شاہد وتر کا لفظ ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے وتر سے مراد عرفے کا دن ہے اور یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے، وہ طاق ہے یہ جفت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اس بابت بہت سارے اقوال ہیں جو تفاسیر میں دیکھے جاسکتے ہیں ،

📚 اس بابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ وہ اس طرح ہے ۔ 
عن ابنِ عباسٍ أنه قالَ : الوترُ يومُ عرفةَ والشفعُ يومُ الذبحِ
(فتح الباري لابن حجر:421/6 )
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وتر سے مراد عرفہ کا دن اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے ۔ 
*برصغیر ہند و پاک میں عرفہ کا دن اپنے حساب سے نو ذوالحجہ کا ہوگا تبھی قرآن کے لفظ وتر (طاق) کا صحیح اطلاق ہوگا ورنہ سعودی کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھنے پر ہندوپاک میں عموما آٹھ تاریخ ہوگی اور یہ جفت ہے طاق نہیں ہے اس لئے جن کا مطلع سعودی سے مختلف ہے انہیں لازمی طور پر یوم عرفہ کے لئے اپنے علاقے کی نویں تاریخ کا اعتبار کرنا ہوگا۔*

*(2)حدیث سے استدلال :*
مذکورہ بالاحدیث جس میں عرفہ کے روزے کا ذکر ہے اس میں وارد الفاظ "صیام یوم عرفہ" سے ہی دلیل ملتی ہے کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے۔ ذرا غور کریں، اس حدیث میں آگے کے الفاظ ہیں صیام یوم عاشوراء، یہاں یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں بصراحت مذکور ہے..
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
أمرَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بِصَومِ عاشوراءُ ، يومُ العاشِرِ
(صحيح الترمذي:755)
*ترجمہ: رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔*

جس طرح صیام یوم عاشوراء سے محرم کی دسویں تاریخ مراد ہے اسی طرح صیام یوم عرفہ سے ذوالحجہ کی نویں تاریخ مراد ہے۔ اس بات کو اس حدیث سے تقویت ملتی ہے جس میں نبی ﷺ کے متعلق نویں ذوالحجہ کے روزہ کا احتمال ہے۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: *رسول ﷲ ﷺ ذوالحجہ کے (پہلے) نو دن، عاشورہ محرم، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔`*

*(3)لغوی استدلال :*
_*لغت کی کتابوں میں یوم عرفہ تلاش کریں تو عام طور سے ہر جگہ ذوالحجہ کی نویں تاریخ ملے گی یعنی یوم عرفہ سے مراد اہل لغت کے یہاں بھی ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے بطور مثال دیکھیں : القاموس الفقهي، معجم لغة الفقهاء وغیرہ*_

*(4)عربی گرامر سے استدلال :*
_*یوم عرفہ میں یوم کا لفظ زمان پر اطلاق ہوتا ہے یعنی یہ زمانہ ہے اس لئے یوم عرفہ سے ہرگز ہرگز میدان عرفات مراد نہیں ہوگا بلکہ کوئی زمانہ ہی مراد ہوگا اور وہ ہے ذوالحجہ کی نویں تاریخ ۔*_

*(5)وجہ تسمیہ سے استدلال:*
_*یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ کے متعلق کئی اقوال ملتے ہیں ،ابن قدامہ صیام یوم عرفہ کی حدیث کے تحت یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ سے متعلق لکھتے ہیں :*_
فأما يوم عرفة : فهو اليوم التاسع من ذي الحجة ، سمي بذلك ، لأن الوقوف بعرفة فيه . وقيل : سمي يوم عرفة ، لأن إبراهيم عليه السلام أري في المنام ليلة التروية أنه يؤمر بذبح ابنه ، فأصبح يومه يتروى ، هل هذا من الله أو حلم ؟ فسمي يوم التروية ، فلما كانت الليلة الثانية رآه أيضا فأصبح يوم عرفة ، فعرف أنه من الله ، فسمي يوم عرفة(المغني : 4/ 442 )
ترجمہ: *یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن وقوف عرفہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے یوم عرفہ اس لئے نام پڑا کہ ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دئے جا رہے ہیں پس پورے دن غور و فکر کرتے رہے کہ یہ واقعی اللہ کا حکم ہے یا پھر کوئی خواب ہے؟ اس لئے اس دن کا نام ترویہ پڑا پھر دوسری رات بھی یہی خواب آپ کو دکھایا گیا اور جب عرفہ کی صبح ہوئی تو جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے اس کا حکم ہی ہے پس اس وجہ سے یوم عرفہ پڑ گیا۔*
اس قول میں شروع میں ہی اصل اور اہم بات بتلا دی گئی کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نویں تاریخ ہے۔ گویا یوم عرفہ ،وقوف عرفہ یا خواب کی معرفت کی نسبت پہ اس کانام پڑا تاہم مراد نویں تاریخ ہی ہے ،ٹھیک اسی طرح جیسے یوم النحر قربانی کی نسبت سے موسوم ہے اور مراد دسویں تاریخ ہے۔ 

*(6)عقلی اور منطقی استدلال:*
_*اسلام ایک ہمہ گیر دین رحمت ہے، اس کے احکام آفاقی ہیں، اس دین رحمت کے زیر سایہ ہر کسی کو اپنے اپنے علاقہ میں رہ کر بہ آسانی دین پر عمل کرنے کی سہولت ابتداء سے ہی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی کیونکہ یہ فطری نظام ہے، ہمارا خالق ہمارے حالات و کیفیات سے مکمل باخبر ہے اس کے عین مطابق ہمیں دینی تعلیمات کا مکلف بنایا ہے۔ اسلام نے کسی کو روزہ اور نماز کی انجام دہی میں مکہ مکرمہ کی تاریخ اور وقت معلوم کرنے کی زحمت نہیں دی ہے ۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی ﷺ نے لوگوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، نبی ﷺ کو مسلمانوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا بھی معلوم رہا ہوگا پھر بھی اس وقت عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کی تعلیم دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ جو مسلمان جس طرح اپنے علاقے کے اعتبار سے رمضان، ایام بیض اور عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں اسی طرح اپنے علاقہ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا یعنی نو ذوالحجہ کا بھی روزہ رکھیں۔ وقوف عرفات پہ تمام دنیا والوں کو روزہ رکھنےکا حکم اسلام دیتا تو ساتھ ہی پوری دنیا کے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع کا نظام بھی دیا ہوتا جبکہ ٹیکنالوجی کی آمد سے قبل کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے مسلمانوں کو وقوف عرفات کی اطلاع دی جاسکے۔ آج بھی دنیا کے سارے کونے میں یہ خبر نہیں پہنچ پاتی ہوگی کیونکہ بہت سارے علاقوں میں رابطوں کی سہولت نہیں اور بہت سارے مقامات پر رہنے والوں کو دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی مثلا قید خانہ۔*
 
*(7)مناسک حج سے استدلال:*
_*حج کے اعمال بھی تواریخ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذوالحجہ کو منی میں قیام، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کو وقوف عرفات، یوم النحریعنی دس ذوالحجہ کو رمی، حلق/تقصیر، قربانی، طواف افاٖضہ، سعی جیسے اعمال، ایام تشریق میں رمی جمرات اور منی میں قیام۔ یہ سارے حج کے اعمال تاریخ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ کوئی یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کو عرفات میں وقوف کرے تو اس کا وقوف ہوگا ہی نہیں، کوئی یوم عرفہ (نو ذوالحجہ) کو حج کی قربانی کر دے یا طواف افاضہ کر لے، حج کی سعی کر لے تو یہ اعمال مقبول نہیں ہوں گے یعنی حج ہی نہیں ہوگا۔ گویا مناسک حج بھی تاریخ سے مربوط ہونے کے سبب لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یوم عرفہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کو ہی کہا جاتا ہے۔*_

* یوم عرفہ اور عرفات میں فرق::-_-*

لفظ عرفہ کا بسا اوقات استعمال وادی کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : 
عرفةُ كلُّها مَوقفٌ ووقفتُ ههنا
(صحيح مسلم:1218)
*ترجمہ: میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور سارا عرفہ جائے وقوف ہے ۔*

*لیکن عرفات کا اطلاق صرف وادی پر ہوتا ہے، قرآن میں عرفات کا لفظ آیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:*
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرۃ: 198)
*ترجمہ: جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔*
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ، الحجُّ عَرفاتٌ
(صحيح الترمذي:2975)
ترجمہ: *حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں : رأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، بعَرفاتٍ واقِفًا (مسند أحمد) اس کی سند کو مسند کے محقق احمد شاکر نے صحیح کہا ہے (4/173)
ترجمہ: *میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔*
*غرض جہاں کہیں بھی عرفات کا لفظ آیا ہے ان جگہوں پر کہیں بھی یوم عرفات نہیں آیا ہے کیونکہ عرفات وادی کا نام ہے جبکہ عرفہ کبھی وادی پر بولاجاتا ہے تو کبھی دن پر اور جب عرفہ پر یوم کا لفظ داخل ہوجائے تو صرف اور صرف تاریخ پر اطلاق ہوگا یعنی نویں ذوالحجہ۔ یوم عرفہ کہنے سے وقوف عرفہ یا میدان عرفات کبھی بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یوم کا لفظ دن کے لئے استعمال ہوتا ہےجبکہ وقوف عرفہ عمل اور میدان عرفات وادی ہے۔ اور اگر عرفات پر یوم کا لفظ بھی لگا دیا جائے تو پھر بھی وہی دن مراد ہوگا جو یوم عرفہ سے مراد ہے یعنی نو ذوالحجہ۔ جیسے منی کے ساتھ ایام منی کا لفظ ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ایام تشریق کے تین دن ہیں۔

  خلاصہ کلام...*
*عرفہ کے دن کے روزے سے متعلق جو اشکالات اور اعتراضات ہیں. خلاصہ یہ ہے کہ یوم عرفہ سے مراد ذوالحجہ کی نو تاریخ ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ذوالحجہ کی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے لہٰذا جس ملک میں جب ذوالحجہ کی نو تاریخ ہو اس دن یوم عرفہ کا روزہ رکھیں ۔*

________&_________

*👈🌷🌹 عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب::-_-*

*پہلا اشکال*
 جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفہ کے دن ہی سارے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں ۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔

*پہلی وجہ :*
قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔

*دوسری وجہ :*
 مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا ایام تشریق حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی ایام تشریق سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔

*تیسری وجہ:*
اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذی الحجہ کو رکھاجائے گا ۔

*چوتھی وجہ :*
 اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتا۔

*پانچویں وجہ :*
 اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔

*چھٹی وجہ :*
وقوف عرفہ کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔

*ساتویں وجہ :*
سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفہ کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ. (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔

*دوسرا اشکال*
قائلین وقوف عرفہ کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفہ کے وقوف پہ ہی یہ روزہ رکھا جائے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفہ پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفہ کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن پھر اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں،

*تیسرا اشکال*
بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفہ پہ روزہ رکھنے کے قائلین اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

*چوتھا اشکال*
 ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے لوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفہ کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا اور وقوف عرفہ سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے ۔ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے قمری نظام سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ معلوم ہوتا رہے گا۔

*👈🌷🌹 قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ*

(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے، اس صورت میں وقوف عرفہ ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں؟ عید کے دن روزہ منع ہے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: *نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔*
*تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتا ہے۔ روزہ کے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کروا کر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کر دینا بڑی ناانصافی ہے ۔*

*(2)جب ان سے کہا جائے کہ آج سے سو سال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے (اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں) تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔ اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھا سوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کا اور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔

*ایک اہم نکتہ*

 نیوزی لینڈ اور سعودی میں گیارہ گھنٹے کا فرق ہے، جب سعودی میں نو ذی الحجہ کا سورج نکلتا ہے تو نیوزی لینڈ میں آٹھ ذی الحجہ کا سورج غروب ہوتا ہے۔ تو کیا نیوزی لینڈ والے رات کو روزہ رکھیں گے؟ اور اگر رات گزار کر روزہ رکھیں تو ان کے یہاں تو ذی الحجہ کی نو تاریخ ہوگی مگر سعودی میں دس تاریخ یعنی عید کا دن ہوگا، تو کیا نیوزی لینڈ والے عید کے دن روزہ رکھیں گے جو کہ ممنوع ہے۔ عرفہ کا روزہ سمجھنے کے لئے یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔ 
*خلاصہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے ذی الحجہ کی نو تاریخ کو رکھا جائے گا،*

____________&_____________

  *اس تمام تفصیل کے بعد سمجھ آئی کہ عرفہ کا روزہ ہر ملک اور علاقہ اپنے چاند نظر آنے پر ہی 9 ذوالحجہ کو ہی رکھے گا*

اللہ پاک کمی کوتاہی معاف فرمائیں اور حق بات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین..!!

_(((واللہ تعالٰی اعلم باالصواب)))_

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS