find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Qurbani ke Kitne din hai Quran-o-Hadees se 3 ya 4?

Qurbani Kitne din kiya jata hai Quran-o-Hadees se.
Qurbani ke Kitne din hai 3 ya 4?
Sawal: Qurbani karne ke Kitne Din hai? Kuchh char din kahte hai aur kuchh tin din? Qurbani ke liye afzal Din kaun sa hai?
سوال_قربانی کرنے کے کتنے دن ہیں؟ کچھ لوگ چار دن کہتے ہیں اور کچھ تین دن؟ نیز قربانی کے لیے افضل دن کونسا ہے؟
جواب.!!
الحمدللہ...!

قربانی کے دن تین ہیں یا چار اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک قول اور کچھ دوسرے آثار سے تین دن قربانی کا ذکر ملتا ہے،

*مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث، صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صالحین کے صحیح اقوال اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے قول سے بھی قربانی کے چار دن ثابت ہیں, جس میں ایک دن دس ذوالحجہ کا اور تین دن ایام تشریق کے ہیں، لہذا جانور ذبح کرنے کے لیے قربانی کے چار دن سنت سے ثابت ہیں.

دلائل ملاحظہ فرمائیں!!

*ایام تشریق دس ذوالحجۃ کے علاوہ تین دن ہیں(یعنی 12,11 اور 13 ذوالحجۃ کے تین دن ایام تشریق کہلاتے ہیں*

پہلی حدیث

📚عن أَنسٍ ، قَالَ: نَهَى ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌عَنْ صَوْم سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنَ السَّنَةِ: ثَلَاثَةَ أَيَّامِ التَّشْرِيق ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ ، وَيَوْم الْأَضْحَى ، وَيَوْمَ الْجُمُعَة ، مُخْتَصَّةً مِنَ الْأَيَّام
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  سال میں چھ دن روزہ ركھنے سے منع فرمایا:  تین دن ایامِ تشریق كے،  ایک عیدالفطر كا دن، ایک عیدالاضحی كا دن اور خاص كیا ہوا جمعہ كا دن
(صحيح الجامع ،حدیث نمبر-6961)
 (أخرجه الطيالسي في المسند_2219)
(سلسلہ الصحیحہ،حدیث نمبر-2398)

*یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے علاوہ تین دن ایام تشریق ہیں،*

دوسری حدیث

📚[عن أنس بن مالك:] نهى رسولُ اللهِ ﷺ عن صومِ أيامِ التشريقِ الثلاثةِ بعد يومِ النحرِ
الطحاوي (٣٢١ هـ)، شرح معاني الآثار
2ج/ ص245 •  صحيح)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحر(دس ذوالحجہ )  کے بعد ایام تشریق کے تین دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے،

*اس صحیح حدیث ثابت ہوا کہ ایام تشریق سے مراد دس ذوالحجہ کے بعد والے تین دن یعنی گیارہ،بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہیں*

تیسری حدیث

📚نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب"
عرفہ کا دن، قربانی کا دن،اور ایام تشریق کے ایام ہماری عید ہیں اور یہ کهانے پینے کے ایام ہیں
(سنن ابو داود،حدیث نمبر-2419) صحیح
(سنن نسائي،حدیث نمبر-3007)
(سنن ترمذي،حدیث نمبر-773) صحیح
و قال الترمذی: حديث حسن صحيح)

*ان تمام احادیث  میں عید کے دن کو ایام تشریق سے الگ کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایام تشریق عید کے بعد سے تیرہ تاریخ تک ہے، یعنی اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ ایام تشریق کے دن عید کے دنوں کے علاوہ ہیں، اور گیارہ اور بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن ایام تشریق کہلاتے ہیں*

_________&__________

*ایام تشریق کے دن قربانی کے دن ہیں ذکر کرنے سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں*

📙چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
“وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس”
”ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔

📙مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
”اس قول ‘یعنی وجہ تسمیہ’ کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔
(ایام قربانی: ص 22)

________&_______

*دس ذوالحجۃ کا ایک دن اور ایام تشریق کے تین دن قربانی کے دن ہیں*

دلائل کے لیے یہ احادیث پڑھیں!!!

پہلی حدیث

📚[عن جبير بن مطعم:] كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وارفعوا عن عُرَنَةَ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارا میدانِ عرفات وقوف کی جگہ ہے، البتہ تم وادیٔ عرنہ سے ہٹ کر رہو، اسی طرح سارامزدلفہ جائے وقوف ہے اور تم وادیٔ محسر سے دور رہو اورمنیٰ کے تمام راستے قربانی کی جگہ ہیں،
اور تشریق کے تمام ایام قربانی کے دن ہیں،
(مسند احمد-حدیث نمںر-16751)
(صحیح ابن حبان ،حدیث نمبر-3854)
(صحيح الجامع ،حدیث نمبر-4537)صحيح
(الهيثمي (٨٠٧ هـ) مجمع الزوائد 27ص/4ج  •  رجاله ثقات)
(السيوطي (ت ٩١١)، الجامع الصغير ٦٣١٣ • صحيح )
(البوصيري (ت ٨٤٠)، إتحاف الخيرة المهرة ٣‏/٢١١ • له شاهد)
(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، فتح الباري (لابن حجر ١٠‏/١١ • في إسناده انقطاع ، ووصله الدارقطني ورجاله ثقات)
(ابن الملقن (ت ٧٥٠)، تحفة المحتاج ٢‏/٥٣٤ • صحيح أو حسن)

دوسری جگہ یہ حدیث اس طرح سے ہے

📚 عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  قَالَ: ((کُلُّ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ۔))
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں
(مسند احمد،حدیث نمبر-16752)
( السلسلة الصحيحة_٬2476)
[سنن الدارقطنی،_4756)
(سنن الکبری للبیھقي،_10226)
(ابن القطان (ت ٦٢٨)، الوهم والإيهام ٤‏/٥٥٩ • حسن)
(شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج سنن الدارقطني ٤٧٥٦ • صحيح لغيره)

تیسری حدیث

📚عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔
دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم ،  اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔”
( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
(مسند احمد حدیث نمبر-16751)

علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔
( سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621,
حدیث نمبر-2476)

*واضح رہے کہ اوپر ذکر کردہ احادیث کی سند میں محدثین کرام کا اختلاف ہے بعض نے صحیح کہا تو بعض نے ضعیف کہا ہے،ہمارے علم کے مطابق شواہد سے تقویت پا کر یہ روایات حسن درجے کی ہیں جیسا کہ اوپر محدثین کرام کی تخریج نقل کی گئی ہے*
(واللہ اعلم )

*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث میں واضح ہے کہ ایام تشریق، گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہیں،اور  یوم النحر یعنی دس ذوالحجہ اور  ایام تشریق کے تین دن،یہ سب قربانی کے دن ہیں،لہذا قربانی کے چار دن ہوئے*

___________&__________

*قربانی کے چار دن ہیں اس بارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال*

📚مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
”عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں
(السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے

📚خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
”امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)
(نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔

📚صحابی رسول جبیر بن مطعم:
”امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔”
(شرح مسلم: 13؍ 111)

📚صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
”عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)

__________&_______

*قربانی کے ایام بارے تابعین کرام کے اقوال*

📙امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ”امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔”
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛)
وسندہ صحیح
( سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)

📙امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
”حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔”
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89)
(سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)

📙امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
”خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔
”(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)

📙 ان کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ )
(شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ )
(زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛)
( المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ )
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)

__________&__________

*چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ کا موقف*

📙امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔

📙امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
‘جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔”
(الام للشافعی: 2؍ 244)

📙امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
”عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)

📙امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔

__________&_________

*چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین و محققین*

📙امام ابن المنذر رحمہ اللہ(م 319ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔
”( الاقناع لابن المنذر: ص 376)

📙امام بیہقی رحمہ اللہ(م 458ھ) نے کہا:
”سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔”
(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)

📙امام ابو الحسن رحمہ اللہ اور الواحدی رحمہ اللہ (م 468ھ)نے کہا :
”قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔
”(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)

📙امام نووی رحمہ اللہ(م676ھ) نے کہا:
”قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔
(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)

📙 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(م 728ھ) نے کہا:
”قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔”
(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)

📙امام ابن قیم رحمہ اللہ (م751ھ) نے کہا:
”اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔”
( زاد المعاد: 2؍ 319)

📙امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
”اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔”( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)

📙امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔”
( نیل الاوطار:5؍149)

_______&___________

📚 سعودی مفتی فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ  قربانی کے دنوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے،
جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں:
یوم العید یعنی عید کا دن دس ذوالحجۃ، اور پجر ذوالحجۃ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔
اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔

میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا  امام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
(رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)،
وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد)

اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:

’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا  ہے،
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں،
(رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے یعنی قربانی کو محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟

مزید لکھتے ہیں کہ!!

"قربانی کا وقت  يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ....

ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے "
انتہى مختصرا

(کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية)

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام احادیث ،صحابہ کرام ،تابعین کرام، محدثین کرام اور ائمہ کرام کے اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں*

___&___________________

*قربانی کے لیے افضل دن*

یوں تو ان چاروں دن میں قربانی کرنا جائز  ہے لیکن یاد رہے قربانی کے لیے افضل دن یوم النحر یعنی دس ذوالحجہ ہی ہے اور پھر اس سے اگلا دن یعنی گیارہ ذوالحجہ کیونکہ یہ اللہ کے ہاں عظیم دن ہیں

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (دس ذوالحجہ) ہے پھر یوم القر (گیارہ ذوالحجہ ) ہے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1765) صحیح
(السيوطي الجامع الصغير 1174 •صحيح) (الألباني إرواء الغليل_7ج/ص19 إسناده رجاله كلهم ثقاتا لألباني)
(صحيح الجامع،حدیث نمبر_ 1064 • صحيح)
(ابن خزيمة,حدیث نمبر_2917)

*اور اس لیے بھی کہ،*

📚رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ:
«مَا مِنْ أَيَّامٍ العَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ العَشْرِ»
’’ دوسرے دنوں کی نیکی ان دس دنوں کی نیکی سے زیادہ اللہ کو محبوب نہیں۔
(سنن الترمذي_757)
تو جب یوم نحر یعنی دسویں ذوالحج کو قربانی کی جائے گی تو وہ ذوالحجہ کے ان دس دنوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اللہ کو زیادہ محبوب ہوگی۔

📚شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال کیا گیا تو انکا جواب تھا...

قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.
ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے،
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنى قربانى كا گوشت كھائے.

مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).
زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.( ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 )

(Islamqa.info_ سوال نمبر-36651)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📚قربانی کے مسائل کے بارے مزید پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب
*الفرقان اسلامک میسج سروس*

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS