Tahajjud Aur Taraweeh ke Ek Hone Ke 10 Dalayel
Kya Tahajjud Aur Tarawweh ek Hi Hai, Tahajjud Aur Taraweeh Ke Namaz Me Kya Farq Hai
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 تہجد اورتراویح کے ایک ہونے سے متعلق دس دلائل: ⤵⤵⤵
🌟 ➊ پہلی دلیل:
صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث میں سائل نے رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجددونوں کو ایک ہی نماز مان کردونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔
🌟 ➋ دوسری دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیری تراویح اور تہجدکے ایک ہی نماز ہونے کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّمأنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
دونوں نمازوں کا الگ الگ نماز ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے۔[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 23]۔
🌟 ➌ تیسری دلیل:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الخَامِسَةِ، حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الفَلَاحُ، قَالَ: «السُّحُورُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی ۔ ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابوذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن تراویح کو اتنی دیرتک پڑھا تھا کہ صحابہ کو ڈر تھا کہ کہیں سحری کا موقع ملے ہی نہ ۔ظاہر ہے کہ جب سحری کا وقت نہ ملنے کا خوف تھا تو تہجد کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اگرتراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کواتنی تاخیر نہ کرتے کہ سحری کا وقت بھی مشکل سے ملے۔
نیز صحابہ کرام یہ نہ کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ملے بلکہ یوں کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں تہجد ہی کا وقت نہ ملے ۔
مزید یہ کہ یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس رات تراویح کے بعد تہجد کے لئے کوئی موقع تھا ہی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات تہجدنہیں پڑھی۔اگر تراویح اور تہجد دونوں ا لگ الگ نمازیں ہوتی ں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بھی تہجد خود پڑھتے اور صحابہ کو بھی اس کا موقع دیتے ۔
🌟 ➍ چوتھی دلیل:
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»
قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 333 رقم470 ]۔
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھی تھی جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے۔اور وتر کی نمازتہجد کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔
اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدو باروترپڑھی ہے اوریہ ناممکن ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔
🌟➎ پانچویں دلیل:
جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح اور صریح حدیث آگے آرہی ہےجس میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتراویح آٹھ رکعات اور وترہی پڑھی ہیں ،اور رکعات کی یہی تعداد اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ حدیث میں بھی بیان کی ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نمازہے۔
🌟 ➏ چھٹی دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو جب تراویح کی نمازجماعت سے پڑھائی تھی تو تین دن پڑھانے کے بعد آپ نے جماعت سے تراویح پڑھانا چھوڑدیا تھا اورابن حبان کی روایت کے مطابق اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
كرهت أن يكتب عليكم الوتر
میں نے اس بات کوناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردی جائے[صحيح ابن خزيمة 2/ 138]
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز ہی کو وتر کہا ہےاور وتریہ تہجد کی نماز ہی کےساتھ ہے،یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
🌟 ➐ ساتویں دلیل:
خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے کیونکہ عام طور سے لوگ اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے تھے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ رات کے اخیر حصہ میں پڑھنا اسے بہترسمجھتے تھے اس لئے آپ جماعت سے تراویح نہ پڑھ کر بعد میں رات کے اخیرحصہ میں تنہا پڑھتے تھے۔
اور اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے تھے:
والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله
اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحيح البخاري 3/ 45 رقم 2010]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے،اگر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نظر میں تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہوتی تو آپ تراویح بھی مسجد میں لوگوں کے ساتھ پڑھتے اور رات کے آخری حصہ میں تہجد بھی پڑھتے۔نیز آپ تراویح کی نمازکو رات کے آخری حصہ میں پڑھنے کو افضل نہ بتلاتے ۔بلکہ اس فضیلت کو تہجد کی نماز ہی کے لئے خاص سمجھتے ۔
حنفیوں کے انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يؤيده فِعْل عمرَ رضي الله تعالى عنه، فإنَّه كان يصلِّي التراويحَ في بيته في آخِر الليل، مع أنه كان أَمَرَهم أن يؤدُّوهَا بالجماعةِ في المسجد، ومع ذلك لم يكن يدخُل فيها. وذلك لأنه كان يَعْلم أَنَّ عملَ النبيِّ صلى الله عليه وسلّمكان بأدائها في آخِر الليل، ثُمَّ نَبَّهَهُم عليه قال: «إنَّ الصلاةَ التي تقومون بها في أول الليل مفضولةٌ عمَّا لو كُنتم تقيمونَها في آخِر اللَّيل». فجعلَ الصلاةَ واحدةً
اورتراویح اورتہجد کے ایک ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فعل سے بھی ہوتی ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھرمیں رات کے اخیر میں تراویح پڑھتے تھے،جبکہ آپ نے لوگوں کو مسجد میں جماعت سے پڑھنے کا حکم دیا تھااس کے باوجود بھی آپ ان کے ساتھ شامل نہ ہوتے تھے ،اورایسااس وجہ سے کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو رات کے آخری حصہ میں پڑھتے تھے۔پھرآپ نے لوگوں کو اس پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:”جس نماز (تراویح ) کو تم لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے ہوئے وہ فضیلت میں کمترہے بنسبت اس کے کہ اگر تم اسے رات کے آخری حصہ میں پڑھو“۔چنانچہ یہاں پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز قراردیا[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]
🌟 ➑ آٹھویں دلیل:
محدثین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو رمضان کے قیام یعنی تروایح اور تہجد دونوں طرح کے عناوین اور ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین کی نظر میں تراویح اور تہجد ایک ہی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں تراویح اور تہجد ہی کی رکعات کا ذکر ہے۔
چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں” کتاب صلاۃ التراویح “میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اس پر ”فضل من قام رمضان“ یعنی تراویح پڑھنے کی فضیلت کا باب قائم کیا ہے ۔دیکھئے: صحیح بخاری : کتاب صلاۃ التراویح :باب فضل من قام رمضان ،حدیث نمبر2013۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ”باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان“ یعنی رمضان میں تراویح کی رکعات کی تعداد کے بیان میں ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: كتاب الصلاة(جماع أبواب صلاة التطوع، وقيام شهر رمضان):باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان،حدیث نمبر 4285۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر محمدبن الحسن نے مؤطا محمد میں ”باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل“یعنی رمضان میں تراویح پڑھنے اوراس کی فضیلت کے بیان کےتحت ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:موطأ محمد بن الحسن الشيباني:ابواب الصلاة:باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل،حدیث نمبر239۔
حنفیوں کے عبدالحی لکھنوی نے مؤطا محمد کے اس باب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
قوله :(قیام )شهر رمضان ويسمى التراويح
یعنی ماہ رمضان کے قیام کا نام تراویح ہے۔[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]
حنفی حضرات کہتے کہ بعض محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں ذکرکیا ہے۔
عرض ہے کہ اس میں پریشان ہونی کی بات کیا ہے جب تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہیں تو اس حدیث کا ذکر تراویح کے بیان میں بھی ہوگا اورتہجد کےبیان میں بھی ہوگا۔
چنانچہ محدثین نے اگر تہجدکے بیان میں اسے ذکر کیا ہے تو تراویح کے بیان میں بھی اسے ذکر کیا ہے جیساکہ اوپر حوالے دئے گئے۔
🌟 ➒ نویں دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک موضوع اورمن گھڑت روایت نقل کی جاتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات تراویح پڑھی ۔
اس حدیث کو مردود ثابت کرتے ہوئے بہت سارے محدثین واہل علم نے اسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے خلاف قراردیا ہےمثلا:
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)[الحاوي للفتاوي 1/ 414]
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855)[عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861)[ فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔
ان تمام اہل علم کی الفاظ آگے آرہے ہیں دیکھئے: ص۔۔۔
محدثین اہل علم کی جانب سے بیس رکعات تراویح والی روایت کے خلاف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا پیش کیاجانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث تراویح سے متعلق ہے اور تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازہے۔
🌟 ➓ دسویں دلیل:
جو تراویح پڑھ لے اہل علم نے اسے تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے۔چنانچہ:
حنفیوں کے انورشاہ کشیمرمی حنفی لکھتے ہیں:
ثُمَّ إنَّ محمدَ بن نَصْر وَضَعَ عدَّة تراجِمَ في قيام الليل، وكتب أنَّ بعض السَّلَف ذهبوا إلى مَنْع التهجُّد لِمَن صلَّى التروايح
نیزمحمدبن نصرنے قیام اللیل کے بارے میں کئی ابواب قائم کئے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض سلف نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے جس نے تراوی پڑھ لی ہے[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
ان دلائل سے روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
اورتراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کا نظریہ دراصل صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل کرنے سے بچنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ متقدمین میں سے کسی ایک بھی عالم نے یہ نہیں کہا ہے کہ تراویح اورتہجد الگ الگ نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیر نے بھی صاف طور سے اعلان کیا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے ۔بلکہ حنفی لوگ تراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کے لئے جتنے بھی دلائل دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ تراویح اور تہجد کی الگ الگ صفات گناتے اور اسی کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
انورشاہ کشمیری حنفی اس بے بنیاد دلیل کا رد کرتے ہوئے اور تراویح اورتہجد کوایک ہی ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال عامَّة العلماء: إنَّ التراويحَ وصلاةَ اليل نوعانِ مختلفان. والمختار عندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما، كعدم المواظبة على التراويح، وأدائها بالجماعة، وأدائها في أول اللَّيل تارةً وإيصالها إلى السَّحَر أُخرى. بخلاف التهجُّد فإنه كان في آخِر الليل ولم تكن فيه الجماعة. وجَعْلُ اختلافِ الصفات دليلا على اختلاف نوعيهما ليس بجيِّدٍ عندي، بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد، ولا بِدْعَ في تسميتها باسمين عند تغايُرِ الوَصْفَين، فإنَّه لا حَجْر في التغاير الاسمي إذا اجتمعت عليه الأُمةُ. وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم أنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
عام طور سے (ہمارے حنفی )علماءنے کہا ہے کہ: تراویح اورتہجد دوالگ الگ نماز ہے،لیکن میرے نزدیک یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں گرچہ ان دونوں کی صفات الگ الگ ہیں ۔مثلا تراویح کی مواظبت ہوتی ہے،اسے جماعت کے ساتھ پڑھاجاتا ہے،اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھاجاتاہےاورکبھی کبھی سحرتک پڑھاجاتاہے۔لیکن اس کے برخلاف تہجد کو رات کے آخری حصہ میں پڑھا جاتاہے اس میں جماعت نہیں ہوتی ہے۔اور صفات کے الگ الگ ہونے کو ان دونوں نماز کے الگ الگ ہونے کی دلیل بنانامیرے نزدیک بہتر نہیں ہے ۔بلکہ تراویح اورتہجدیہ دونو ں ایک ہی نمازہیں جب اسے پہلے پڑھاجاتاہے تو اسے تراویح کانام دیا جاتاہے اور جب اسے تاخیرسے پڑھاجاتا ہے تو اسے تہجد کانام دیا جاتاہے۔اورصفات کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے دو نام سے موسوم کرنا بدعت کی بات نہیں ہے کیونکہ اتفاق امت سے مختلف نام رکھنےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔البتہ یہ دوالگ الگ نمازیں اسوقت ثابت ہوتی جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا کہ آپ نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے[فيض الباري على صحيح البخاري 2/ 567]
اس عبارت میں انورشاہ کشمیری نے یہ بات واضح کردی ہے کہ محض صفات کے الگ الگ ہونے سے نوعیت کی علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
نیز گذشتہ سطور میں ہم بھی واضح کرچکے ہیں کہ ظہر کی نماز حضر میں چار رکعات جماعت کے ساتھ فرض ہے۔
لیکن سفر میں قصر کرتے ہوئے صرف دو رکعات فرض ہے اور جماعت بھی ضروری نہیں ہے۔
اب دیکھئے ان دونوں کی صفات میں کتنافرق ہوگیا ۔
حضر کی ظہر مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور چار رکعات پڑھی جاتی ہے،لیکن سفر میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں نیز صرف دورکعت پڑھی جاتی ہے۔
لیکن صفات کی اس تبدیلی کو ہم اس بات کی دلیل نہیں بناسکتے کہ یہ حضرکی ظہر اورسفر کی ظہر یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔
الغرض یہ کہ بعض حالات میں اگر کسی نماز کی صفات بدل گئیں تو محض بعض حالات میں بدلی ہوئی صفات کی بناپر اسے الگ نماز نہیں کہا جاسکتا۔
تنبیہ:
یادرے کہ اس حدیث میں جو یہ ذکرہے:
يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو۔
تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارچار رکعات ایک سلام سے پڑھتے ،کیونکہ یہاں چار رکعات کے بعد سلام پھیرنے کی صراحت نہیں ہے،لہٰذا یہاں مطلب صرف یہ ہے کہ چار رکعات پڑھ کرٹہرتے تھے۔اور سلام ہر دورکعت پر ہی پھیرتے تھے جیساکہ خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے دوسری حدیث میں صراحت کردی ہے جو اس کے بعد آرہی ہے۔
رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد جو نماز بطور قیام پڑھی جاتی ہے، اسے عرف عام میں تراویح کہتے ہیں۔ راقم الحروف نے ”نور المصابیح فی مسئلۃ التراویح“ میں ثابت کر دیا ہے کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) سنت ہے۔
❀نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک (عام طور پر) گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ دیکھئے صحیح مسلم [ 254/1 ح 736]
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت سے) آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ دیکھئے [صحیح ابن خزیمہ 138/2 ح 1070 و صحیح ابن حبان الاحسان 62/4 ح 2401، 64/4 ح 2406]
↰ اس روایت کی سند حسن ہے۔
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (نماز پڑھانے والوں) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں نماز عشاء کے بعد) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ دیکھئے [موطأ امام مالک 114/1 ح 249 و السنن الکبریٰ للنسائی 113/3 ح 4687]
↰ اس روایت کی سند صحیح ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ دیکھئے [آثار السنن ح 775، دوسرانسخہ : 776]
↰ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کا اس پر عمل رہا ہے۔
🌍 غیر اہلحدیث علماء کا آٹھ تراویح کے حق میں مئوقف :⤵⤵⤵
اب اس مضمون میں حنفی و تقلیدی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی آٹھ رکعات تراویح سنت ہے۔
🌟 ➊ ابن ہمام حنفی (متوفی 861ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے .
[فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]
🌟 ➋ سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔
[حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]
🌟 ➌ ابن نجیم مصری (متوفی 970ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“
[البحرالرائق ج 2 ص 67]
👈 تنبیہ : ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ [12] رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ ”بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔“
🌟 ➍ ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014ھ) نے کہا :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“
[مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]
🌟 ➎ دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“
[حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
◈ نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]
🌟 ➏ دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“
[علم الفقه ص 198، حاشيه]
🌟 ➐ دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔⤵
👈 ① بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
👈 ② آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“
[مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]
🌟 ➑ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“
[براهين قاطعه ص 8]
◈ خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“
[براهين قاطعه ص 195]
🌟 ➒ انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“
[العرف الشذي ص 166 ج 1]
🌟 ➓ نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“
[مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]
🌟 ⓫ محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“
[معارف السنن ج 5 ص 543]
👈 تنبیہ ① یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطور الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کے اقوال کو عملاً حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بعض علماء نے بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ غلط دعویٰ کر رکھا ہے کہ
”مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا اور جماعت قائم کر دی“
↰ اس قسم کے بے دلیل دعووں کے رد کے لئے یہی کافی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [ديكهئے موطأ امام مالك 114/1 و سنده صحيح]
👈 تنبیہ ② امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور امام طحاوی کسی سے بھی بیس رکعات تراویح کا سنت ہونا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
حافظ زبیر علی زئی
فضیلةالشیخ ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 تہجد اورتراویح کے ایک ہونے سے متعلق دس دلائل: ⤵⤵⤵
🌟 ➊ پہلی دلیل:
صحیح بخاری کی پیش کردہ حدیث میں سائل نے رمضان کی نماز یعنی تراویح کے بارے میں سوال کیا تھا لیکن اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجددونوں کو ایک ہی نماز مان کردونوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔
🌟 ➋ دوسری دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیری تراویح اور تہجدکے ایک ہی نماز ہونے کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّمأنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
دونوں نمازوں کا الگ الگ نماز ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے۔[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 23]۔
🌟 ➌ تیسری دلیل:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الخَامِسَةِ، حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ»، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الفَلَاحُ، قَالَ: «السُّحُورُ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے آپ نے تئیسویں رات تک ہمارے ساتھ رات کی نماز نہیں پڑھی (یعنی تراویح) پھر تیئسویں رات کو ہمیں لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی پھر چوبیسویں رات کو نماز نہ پڑھائی لیکن پچیسویں رات کو آدھی رات تک نماز (تراویح) پڑھائی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آرزو تھی کہ آپ رات بھی ہمارے ساتھ نوافل پڑھتے آپ نے فرمایا جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز میں شریک رہا اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھ دیا گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستائیسویں رات تک نماز نہ پڑھائی ۔ ستائیسویں رات کو پھر کھڑے ہوئے اور ہمارے ساتھ اپنے گھر والوں اور عورتوں کو بھی بلایا یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ فلاح کا وقت نہ نکل جائے راوی کہتے ہیں میں نے ابوذر سے پوچھا فلاح کیا ہے تو انہوں نے فرمایا سحری امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے [سنن الترمذي: 3/ 160 رقم806 واسنادہ صحیح]۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے دن تراویح کو اتنی دیرتک پڑھا تھا کہ صحابہ کو ڈر تھا کہ کہیں سحری کا موقع ملے ہی نہ ۔ظاہر ہے کہ جب سحری کا وقت نہ ملنے کا خوف تھا تو تہجد کا وقت ملنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اگرتراویح اور تہجد دونوں الگ الگ نماز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کواتنی تاخیر نہ کرتے کہ سحری کا وقت بھی مشکل سے ملے۔
نیز صحابہ کرام یہ نہ کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ ملے بلکہ یوں کہتے کہ ہمیں یہ ڈرہوا کہ کہیں تہجد ہی کا وقت نہ ملے ۔
مزید یہ کہ یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس رات تراویح کے بعد تہجد کے لئے کوئی موقع تھا ہی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات تہجدنہیں پڑھی۔اگر تراویح اور تہجد دونوں ا لگ الگ نمازیں ہوتی ں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات بھی تہجد خود پڑھتے اور صحابہ کو بھی اس کا موقع دیتے ۔
🌟 ➍ چوتھی دلیل:
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ»
قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا :ایک رات میں دو وتر نہیں ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 333 رقم470 ]۔
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھی تھی جیساکہ آگے حدیث آرہی ہے۔اور وتر کی نمازتہجد کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہے۔
اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانیں تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےدو باروترپڑھی ہے اوریہ ناممکن ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔
🌟➎ پانچویں دلیل:
جابر رضی اللہ عنہ کی صحیح اور صریح حدیث آگے آرہی ہےجس میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتراویح آٹھ رکعات اور وترہی پڑھی ہیں ،اور رکعات کی یہی تعداد اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ حدیث میں بھی بیان کی ہےجو اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نمازہے۔
🌟 ➏ چھٹی دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو جب تراویح کی نمازجماعت سے پڑھائی تھی تو تین دن پڑھانے کے بعد آپ نے جماعت سے تراویح پڑھانا چھوڑدیا تھا اورابن حبان کی روایت کے مطابق اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
كرهت أن يكتب عليكم الوتر
میں نے اس بات کوناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض کردی جائے[صحيح ابن خزيمة 2/ 138]
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز ہی کو وتر کہا ہےاور وتریہ تہجد کی نماز ہی کےساتھ ہے،یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے۔
🌟 ➐ ساتویں دلیل:
خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھتے تھے کیونکہ عام طور سے لوگ اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے تھے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ رات کے اخیر حصہ میں پڑھنا اسے بہترسمجھتے تھے اس لئے آپ جماعت سے تراویح نہ پڑھ کر بعد میں رات کے اخیرحصہ میں تنہا پڑھتے تھے۔
اور اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے تھے:
والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون أوله
اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔[صحيح البخاري 3/ 45 رقم 2010]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے،اگر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نظر میں تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہوتی تو آپ تراویح بھی مسجد میں لوگوں کے ساتھ پڑھتے اور رات کے آخری حصہ میں تہجد بھی پڑھتے۔نیز آپ تراویح کی نمازکو رات کے آخری حصہ میں پڑھنے کو افضل نہ بتلاتے ۔بلکہ اس فضیلت کو تہجد کی نماز ہی کے لئے خاص سمجھتے ۔
حنفیوں کے انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يؤيده فِعْل عمرَ رضي الله تعالى عنه، فإنَّه كان يصلِّي التراويحَ في بيته في آخِر الليل، مع أنه كان أَمَرَهم أن يؤدُّوهَا بالجماعةِ في المسجد، ومع ذلك لم يكن يدخُل فيها. وذلك لأنه كان يَعْلم أَنَّ عملَ النبيِّ صلى الله عليه وسلّمكان بأدائها في آخِر الليل، ثُمَّ نَبَّهَهُم عليه قال: «إنَّ الصلاةَ التي تقومون بها في أول الليل مفضولةٌ عمَّا لو كُنتم تقيمونَها في آخِر اللَّيل». فجعلَ الصلاةَ واحدةً
اورتراویح اورتہجد کے ایک ہونے کی تائید عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فعل سے بھی ہوتی ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھرمیں رات کے اخیر میں تراویح پڑھتے تھے،جبکہ آپ نے لوگوں کو مسجد میں جماعت سے پڑھنے کا حکم دیا تھااس کے باوجود بھی آپ ان کے ساتھ شامل نہ ہوتے تھے ،اورایسااس وجہ سے کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو رات کے آخری حصہ میں پڑھتے تھے۔پھرآپ نے لوگوں کو اس پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:”جس نماز (تراویح ) کو تم لوگ رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھتے ہوئے وہ فضیلت میں کمترہے بنسبت اس کے کہ اگر تم اسے رات کے آخری حصہ میں پڑھو“۔چنانچہ یہاں پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجد کو ایک ہی نماز قراردیا[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]
🌟 ➑ آٹھویں دلیل:
محدثین نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو رمضان کے قیام یعنی تروایح اور تہجد دونوں طرح کے عناوین اور ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین کی نظر میں تراویح اور تہجد ایک ہی ہے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں تراویح اور تہجد ہی کی رکعات کا ذکر ہے۔
چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں” کتاب صلاۃ التراویح “میں اس حدیث کو درج کیا ہے اور اس پر ”فضل من قام رمضان“ یعنی تراویح پڑھنے کی فضیلت کا باب قائم کیا ہے ۔دیکھئے: صحیح بخاری : کتاب صلاۃ التراویح :باب فضل من قام رمضان ،حدیث نمبر2013۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ”باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان“ یعنی رمضان میں تراویح کی رکعات کی تعداد کے بیان میں ذکرکیا ہے ۔دیکھئے: كتاب الصلاة(جماع أبواب صلاة التطوع، وقيام شهر رمضان):باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان،حدیث نمبر 4285۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر محمدبن الحسن نے مؤطا محمد میں ”باب: قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل“یعنی رمضان میں تراویح پڑھنے اوراس کی فضیلت کے بیان کےتحت ذکر کیا ہے ۔دیکھئے:موطأ محمد بن الحسن الشيباني:ابواب الصلاة:باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل،حدیث نمبر239۔
حنفیوں کے عبدالحی لکھنوی نے مؤطا محمد کے اس باب کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
قوله :(قیام )شهر رمضان ويسمى التراويح
یعنی ماہ رمضان کے قیام کا نام تراویح ہے۔[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 351]
حنفی حضرات کہتے کہ بعض محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں ذکرکیا ہے۔
عرض ہے کہ اس میں پریشان ہونی کی بات کیا ہے جب تراویح اورتہجد دونوں ایک ہی نماز ہیں تو اس حدیث کا ذکر تراویح کے بیان میں بھی ہوگا اورتہجد کےبیان میں بھی ہوگا۔
چنانچہ محدثین نے اگر تہجدکے بیان میں اسے ذکر کیا ہے تو تراویح کے بیان میں بھی اسے ذکر کیا ہے جیساکہ اوپر حوالے دئے گئے۔
🌟 ➒ نویں دلیل:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک موضوع اورمن گھڑت روایت نقل کی جاتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات تراویح پڑھی ۔
اس حدیث کو مردود ثابت کرتے ہوئے بہت سارے محدثین واہل علم نے اسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے خلاف قراردیا ہےمثلا:
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 2/ 384]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) [فتح الباري لابن حجر: 4/ 254]۔
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى:911)[الحاوي للفتاوي 1/ 414]
حنفیوں کے امام زيلعي الحنفی رحمه الله (المتوفى762)[نصب الراية للزيلعي: 2/ 153]۔
حنفیوں کے علامه عينى الحنفی رحمه الله (المتوفى855)[عمدۃ القاری:ج١١ص١٨٢].
حنفیوں کے امام ابن الهمام الحنفی (المتوفى861)[ فتح القدير للكمال ابن الهمام:1/ 467]۔
ابوالطیب محمدبن عبدالقادر سندی حنفی [شرح الترمذی: ج١ ص٤٢٣]۔
ان تمام اہل علم کی الفاظ آگے آرہے ہیں دیکھئے: ص۔۔۔
محدثین اہل علم کی جانب سے بیس رکعات تراویح والی روایت کے خلاف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا پیش کیاجانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث تراویح سے متعلق ہے اور تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نمازہے۔
🌟 ➓ دسویں دلیل:
جو تراویح پڑھ لے اہل علم نے اسے تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے۔چنانچہ:
حنفیوں کے انورشاہ کشیمرمی حنفی لکھتے ہیں:
ثُمَّ إنَّ محمدَ بن نَصْر وَضَعَ عدَّة تراجِمَ في قيام الليل، وكتب أنَّ بعض السَّلَف ذهبوا إلى مَنْع التهجُّد لِمَن صلَّى التروايح
نیزمحمدبن نصرنے قیام اللیل کے بارے میں کئی ابواب قائم کئے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض سلف نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے جس نے تراوی پڑھ لی ہے[فيض البارى شرح صحيح البخارى 4/ 24]۔
یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
ان دلائل سے روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے۔
اورتراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کا نظریہ دراصل صحیح بخاری کی اس حدیث پر عمل کرنے سے بچنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ متقدمین میں سے کسی ایک بھی عالم نے یہ نہیں کہا ہے کہ تراویح اورتہجد الگ الگ نماز ہے۔
حنفیوں کے انورشاہ کشمیر نے بھی صاف طور سے اعلان کیا ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک ہی نماز ہے ۔بلکہ حنفی لوگ تراویح اور تہجد کے الگ الگ ہونے کے لئے جتنے بھی دلائل دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ تراویح اور تہجد کی الگ الگ صفات گناتے اور اسی کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ الگ الگ نمازیں ہیں ۔
انورشاہ کشمیری حنفی اس بے بنیاد دلیل کا رد کرتے ہوئے اور تراویح اورتہجد کوایک ہی ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال عامَّة العلماء: إنَّ التراويحَ وصلاةَ اليل نوعانِ مختلفان. والمختار عندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما، كعدم المواظبة على التراويح، وأدائها بالجماعة، وأدائها في أول اللَّيل تارةً وإيصالها إلى السَّحَر أُخرى. بخلاف التهجُّد فإنه كان في آخِر الليل ولم تكن فيه الجماعة. وجَعْلُ اختلافِ الصفات دليلا على اختلاف نوعيهما ليس بجيِّدٍ عندي، بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد، ولا بِدْعَ في تسميتها باسمين عند تغايُرِ الوَصْفَين، فإنَّه لا حَجْر في التغاير الاسمي إذا اجتمعت عليه الأُمةُ. وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم أنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.
عام طور سے (ہمارے حنفی )علماءنے کہا ہے کہ: تراویح اورتہجد دوالگ الگ نماز ہے،لیکن میرے نزدیک یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں گرچہ ان دونوں کی صفات الگ الگ ہیں ۔مثلا تراویح کی مواظبت ہوتی ہے،اسے جماعت کے ساتھ پڑھاجاتا ہے،اسے رات کے ابتدائی حصہ میں پڑھاجاتاہےاورکبھی کبھی سحرتک پڑھاجاتاہے۔لیکن اس کے برخلاف تہجد کو رات کے آخری حصہ میں پڑھا جاتاہے اس میں جماعت نہیں ہوتی ہے۔اور صفات کے الگ الگ ہونے کو ان دونوں نماز کے الگ الگ ہونے کی دلیل بنانامیرے نزدیک بہتر نہیں ہے ۔بلکہ تراویح اورتہجدیہ دونو ں ایک ہی نمازہیں جب اسے پہلے پڑھاجاتاہے تو اسے تراویح کانام دیا جاتاہے اور جب اسے تاخیرسے پڑھاجاتا ہے تو اسے تہجد کانام دیا جاتاہے۔اورصفات کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے دو نام سے موسوم کرنا بدعت کی بات نہیں ہے کیونکہ اتفاق امت سے مختلف نام رکھنےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔البتہ یہ دوالگ الگ نمازیں اسوقت ثابت ہوتی جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا کہ آپ نے تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھی ہے[فيض الباري على صحيح البخاري 2/ 567]
اس عبارت میں انورشاہ کشمیری نے یہ بات واضح کردی ہے کہ محض صفات کے الگ الگ ہونے سے نوعیت کی علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
نیز گذشتہ سطور میں ہم بھی واضح کرچکے ہیں کہ ظہر کی نماز حضر میں چار رکعات جماعت کے ساتھ فرض ہے۔
لیکن سفر میں قصر کرتے ہوئے صرف دو رکعات فرض ہے اور جماعت بھی ضروری نہیں ہے۔
اب دیکھئے ان دونوں کی صفات میں کتنافرق ہوگیا ۔
حضر کی ظہر مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور چار رکعات پڑھی جاتی ہے،لیکن سفر میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں نیز صرف دورکعت پڑھی جاتی ہے۔
لیکن صفات کی اس تبدیلی کو ہم اس بات کی دلیل نہیں بناسکتے کہ یہ حضرکی ظہر اورسفر کی ظہر یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔
الغرض یہ کہ بعض حالات میں اگر کسی نماز کی صفات بدل گئیں تو محض بعض حالات میں بدلی ہوئی صفات کی بناپر اسے الگ نماز نہیں کہا جاسکتا۔
تنبیہ:
یادرے کہ اس حدیث میں جو یہ ذکرہے:
يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو۔
تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارچار رکعات ایک سلام سے پڑھتے ،کیونکہ یہاں چار رکعات کے بعد سلام پھیرنے کی صراحت نہیں ہے،لہٰذا یہاں مطلب صرف یہ ہے کہ چار رکعات پڑھ کرٹہرتے تھے۔اور سلام ہر دورکعت پر ہی پھیرتے تھے جیساکہ خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے دوسری حدیث میں صراحت کردی ہے جو اس کے بعد آرہی ہے۔
رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد جو نماز بطور قیام پڑھی جاتی ہے، اسے عرف عام میں تراویح کہتے ہیں۔ راقم الحروف نے ”نور المصابیح فی مسئلۃ التراویح“ میں ثابت کر دیا ہے کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) سنت ہے۔
❀نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک (عام طور پر) گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ دیکھئے صحیح مسلم [ 254/1 ح 736]
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت سے) آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ دیکھئے [صحیح ابن خزیمہ 138/2 ح 1070 و صحیح ابن حبان الاحسان 62/4 ح 2401، 64/4 ح 2406]
↰ اس روایت کی سند حسن ہے۔
❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (نماز پڑھانے والوں) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں نماز عشاء کے بعد) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ دیکھئے [موطأ امام مالک 114/1 ح 249 و السنن الکبریٰ للنسائی 113/3 ح 4687]
↰ اس روایت کی سند صحیح ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ دیکھئے [آثار السنن ح 775، دوسرانسخہ : 776]
↰ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کا اس پر عمل رہا ہے۔
🌍 غیر اہلحدیث علماء کا آٹھ تراویح کے حق میں مئوقف :⤵⤵⤵
اب اس مضمون میں حنفی و تقلیدی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی آٹھ رکعات تراویح سنت ہے۔
🌟 ➊ ابن ہمام حنفی (متوفی 861ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے .
[فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]
🌟 ➋ سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔
[حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]
🌟 ➌ ابن نجیم مصری (متوفی 970ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“
[البحرالرائق ج 2 ص 67]
👈 تنبیہ : ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ [12] رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ ”بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔“
🌟 ➍ ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014ھ) نے کہا :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“
[مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]
🌟 ➎ دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“
[حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
◈ نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]
🌟 ➏ دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“
[علم الفقه ص 198، حاشيه]
🌟 ➐ دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔⤵
👈 ① بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
👈 ② آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“
[مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]
🌟 ➑ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“
[براهين قاطعه ص 8]
◈ خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“
[براهين قاطعه ص 195]
🌟 ➒ انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“
[العرف الشذي ص 166 ج 1]
🌟 ➓ نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“
[مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]
🌟 ⓫ محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“
[معارف السنن ج 5 ص 543]
👈 تنبیہ ① یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطور الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کے اقوال کو عملاً حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بعض علماء نے بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ غلط دعویٰ کر رکھا ہے کہ
”مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا اور جماعت قائم کر دی“
↰ اس قسم کے بے دلیل دعووں کے رد کے لئے یہی کافی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [ديكهئے موطأ امام مالك 114/1 و سنده صحيح]
👈 تنبیہ ② امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور امام طحاوی کسی سے بھی بیس رکعات تراویح کا سنت ہونا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
حافظ زبیر علی زئی
فضیلةالشیخ ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment