Kya Quran Majeed Ko Bagair Wuzu Ke Padh Sakte Hai?
سوال: کیا قرآن مقدس کی تلاوت بغیر وضوء کے کرسکتے ہیں اور اسے چھوسکتے ہیں؟
الجواب بعون الوھاب:
تحریر:ابوزھیر محمد یوسف بت بزلوی ریاضی۔
قرآن کریم رب کریم کی پاک اور مقدس کتاب ہے قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت انسان باوضوء ہو وہی افضل ہے لیکن اگر کوئی قرآن مجید کو بغیر ہاتھ لگائے تلاوت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہ اس حالت میں جائز ہے جب کسی شخص کا وضوء ٹوٹا ہو یعنی حدث اصغر کی صورت میں قرآن کریم کو بغیر چھوئے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس بات پر علماء کا اجماع ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ شارح مسلم فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کریم کو بغیر ہاتھ لگائے بغیروصوء پڑھنا جائز ہے اور وضوء کرکے پڑھنا افضل ہے ، لیکن قرآن کریم کو بغیر وضوء کے ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے یہ رائے اکثر اہل علم ائمہ اربعہ کی ہے ، امام حاکم ، امام حماد ، داود ظاہری جواز کے قائل ہیں۔[قراءة القرآن على غير وضوء]۔
قرآن کریم کی تلاوت باوضوء کرنا مستھب ہے واجب نہیں یہی رائے اکثر اہل علم کی ہے۔ یعنی تلاوت قرآن کے لئے وضوء شرط نہیں ہے۔
اسلئے اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم کو بغیر چھوئے تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دلیل:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے کہ نبی اکرم علیہ السلام بغیر وضوء کے اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔[صحیح مسلم مع شرح النووی، کتاب الحیض ، باب ذکر اللہ فی حال الجنابة وغيرها حديث نمبر373].
حدث اصغر یعنی بغیر وضوء کے ذکر اللہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تلاوت قرآن بھی ذکر اللہ میں داخل ہے اسلئے علماء نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قرآن کی تلاوت بغیر ہاتھ لگائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن کریم کو بغیر وضوء کے ہاتھ لگا کر پڑھنا جائز نہیں یہ رائے جمھوراہل علم کی ہے ، اور ائمہ اربعہ کی رائے بھی یہی ہے ، صحابہ کرام اسی کا فتوی دیتے تھے۔
دلیل:حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے اہل یمن کو یہ پیغام لکھا کہ قرآن کریم کو بغیر پاکی کے کوئی نہ چھوئے۔[إرواء الغليل نمبر:1/158/159/160/161/ 122. للعلامة الألباني –رحمه الله ، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے دیکھئے السلسلہ الاحادیث الصحیحہ]۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جو شخص بغیر وضوء ہو وہ قرآن کو ہاتھ لگائے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی علیہ السلام نے اس پیغام کو لکھا کہ بغیروضوء کوئی قرآن کو نہ چھوئے ، یہی قول سلمان فارسی ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کی ہے صحابہ میں انکا کوئی مخالف نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول علی ، سعد بن ابی وقاص ، ابن عمر رضی اللہ عنھم کا ہے انکا کوئی مخالف نہیں ہے ، اسے یہ ثابت ہوا کہ بغیر وضوء والے شخص کو مصحف کو چھوئے یا ، ہاتھ لگائے یا اسے اٹھائے یعنی اسے چھونا جائز نہیں ہے۔[مجموع للنووی]۔
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ بغیر وضوء کے اگرچہ قرآن کریم کو چھوئے بغئر پرھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہی ہے کہ وضوء سے ہی تلاوت کی جائے ، یہ اس حالت میں جواز ہے جب حدث اصغر یعنی وضوء توت گیا ہو لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے غسل واجب ہوا ہو یا حائض عورت وغیرہ اس صورت میں ہاتھ لگائے یا بغیر ہاتھ لگائے دونوں ہی صورتوں میں جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
الجواب بعون الوھاب:
تحریر:ابوزھیر محمد یوسف بت بزلوی ریاضی۔
قرآن کریم رب کریم کی پاک اور مقدس کتاب ہے قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت انسان باوضوء ہو وہی افضل ہے لیکن اگر کوئی قرآن مجید کو بغیر ہاتھ لگائے تلاوت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہ اس حالت میں جائز ہے جب کسی شخص کا وضوء ٹوٹا ہو یعنی حدث اصغر کی صورت میں قرآن کریم کو بغیر چھوئے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس بات پر علماء کا اجماع ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ شارح مسلم فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کریم کو بغیر ہاتھ لگائے بغیروصوء پڑھنا جائز ہے اور وضوء کرکے پڑھنا افضل ہے ، لیکن قرآن کریم کو بغیر وضوء کے ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے یہ رائے اکثر اہل علم ائمہ اربعہ کی ہے ، امام حاکم ، امام حماد ، داود ظاہری جواز کے قائل ہیں۔[قراءة القرآن على غير وضوء]۔
قرآن کریم کی تلاوت باوضوء کرنا مستھب ہے واجب نہیں یہی رائے اکثر اہل علم کی ہے۔ یعنی تلاوت قرآن کے لئے وضوء شرط نہیں ہے۔
اسلئے اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم کو بغیر چھوئے تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دلیل:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے کہ نبی اکرم علیہ السلام بغیر وضوء کے اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔[صحیح مسلم مع شرح النووی، کتاب الحیض ، باب ذکر اللہ فی حال الجنابة وغيرها حديث نمبر373].
حدث اصغر یعنی بغیر وضوء کے ذکر اللہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تلاوت قرآن بھی ذکر اللہ میں داخل ہے اسلئے علماء نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قرآن کی تلاوت بغیر ہاتھ لگائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن کریم کو بغیر وضوء کے ہاتھ لگا کر پڑھنا جائز نہیں یہ رائے جمھوراہل علم کی ہے ، اور ائمہ اربعہ کی رائے بھی یہی ہے ، صحابہ کرام اسی کا فتوی دیتے تھے۔
دلیل:حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے اہل یمن کو یہ پیغام لکھا کہ قرآن کریم کو بغیر پاکی کے کوئی نہ چھوئے۔[إرواء الغليل نمبر:1/158/159/160/161/ 122. للعلامة الألباني –رحمه الله ، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے دیکھئے السلسلہ الاحادیث الصحیحہ]۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جو شخص بغیر وضوء ہو وہ قرآن کو ہاتھ لگائے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی علیہ السلام نے اس پیغام کو لکھا کہ بغیروضوء کوئی قرآن کو نہ چھوئے ، یہی قول سلمان فارسی ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کی ہے صحابہ میں انکا کوئی مخالف نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول علی ، سعد بن ابی وقاص ، ابن عمر رضی اللہ عنھم کا ہے انکا کوئی مخالف نہیں ہے ، اسے یہ ثابت ہوا کہ بغیر وضوء والے شخص کو مصحف کو چھوئے یا ، ہاتھ لگائے یا اسے اٹھائے یعنی اسے چھونا جائز نہیں ہے۔[مجموع للنووی]۔
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ بغیر وضوء کے اگرچہ قرآن کریم کو چھوئے بغئر پرھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہی ہے کہ وضوء سے ہی تلاوت کی جائے ، یہ اس حالت میں جواز ہے جب حدث اصغر یعنی وضوء توت گیا ہو لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے غسل واجب ہوا ہو یا حائض عورت وغیرہ اس صورت میں ہاتھ لگائے یا بغیر ہاتھ لگائے دونوں ہی صورتوں میں جائز نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
No comments:
Post a Comment