Ramzan ke Chand Dekhne Ki Dua, Ruyate Helal ke Ahkam
روئیت حلال کے احکام / چاند دیکھنے کی دعا
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘
الملخص الفقہی:1/262۔263
احادیث نبوی سے استدلال :
👈 1۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری: 1808، مسلم :1080
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ
لسان العرب ، ج12ص443
یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
👈 2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری، 1814، مسلم1080
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ
اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
👈 3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘
و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔
(بخاری ومسلم)
یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ:
اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔
👈 4۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔
جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
👈 5۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔
مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی
سیدناعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” تم روزہ نہ رکھو حتیٰ کہ چاند دیکھ لو اور افطار نہ کروحتیٰ کہ چاند دیکھ لو
اگرتم پر مطلع ابرآلود ہو تو گنتی پوری کر لو “
(بخاری ،کتاب الصوم(١٩٠٦) ۔مسلم ، کتاب باب وجوب صوم (١٠٨٠) )
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا
” چاند دیکھ کر روزہ رکھواور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر مطلع
ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تیس دن پورے کرلو “
(بخاری ،کتاب الصوم ،١٩٠٩ ۔ مسلم ،کتاب الصوم ،١٠٨١ )
یعنی شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھو اگر نظر آجائے تو دوسرے دن روزہ رکھو اور اگر نظرنی آئے یا مطلع ابرآلود ہو تو سیدنا عمّار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ
” جس شخص نے اس دن( یعنی شک کے دن) کا روزہ رکھا اس نے یقینًا
ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی “
(ابن ماجہ کتاب الصیام ،١٦٤٠ ۔ابوداؤد کتاب الصیام ،٢٣٣٤
ترمذی ،٦٨٦ ، نسائی ،٢١٩٠ ۔دارمی،١٦٨٢)
🌍 چاند دیکھنے کے معتبر اوقات
چاند دیکھنے کےمعتبر اوقات کو دوامور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
* پہلا امر* انتیس شعبان کوسورج غروب ہونے سےپہلے چاند دیکھا جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ،یعنی اس سے نا تو روزے رکھنا واجب ہوتا ہےاور نا ہی روزہ چھوڑنا۔کیونکہ اگر اس کا اعتبار کر لیا جائےتومہینے کے اٹھائیس دنوں کا ہونا لازم آتا ہے۔حالانکہ یہ ہو نہیں سکتا۔
* دوسرا امر * جب چاند انتیس تاریخ کو سورج غروب ہونے کے بعددیکھا جائے تو علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رؤیت معتبر ہوگی۔اور اسکی دلیل سفیان بن سلمہؓ کی روایت ہے۔کہتے ہیں
“ ہم مقام خانقین میں تھے کہ عمر بن خطابؓ کا خط موصول ہوا۔اس میں لکھا تھا
کہ ”چاند چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے، جب تم دن کے وقت چاند دیکھو تو تم شام ہونے
سے پہلے افطار نہ کرو۔ہاں اگر دو مسلمان گواہی دے دیں کہ انہوں نے گزشتہ
رات چاند دیکھا تھا تو پھر افطار جائز ہے۔“
(صحیح ; سنن الدارقطنی ، بیہقی ،التلخیص ٨١٤/٢ )
🌍 رمضان کا چانددیکھنے کےلیےایک فردکی گواہی کافی ہے
واضح رہے کہ رؤیت ھلال کے لیے عادل و قابل اعتماد ایک شخص ہی کی گواہی کافی ہے۔سیدناابن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ
” لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو خبر دی کہ میں نے اسےدیکھ لیا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود
بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔“
(ابوداؤد کتاب الصوم ،٢٣٣٤٢۔دارمی کتاب الصیام،٢٣٤٤۔دارقطنی،١٥٦/٢
بیہقی ٢١٢/٤ ۔ابن حبان ،٨٧١ ۔حاکم ،٤٢٣/١ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کےچاند کی رؤیت کے بارے میں ایک مسلمان عادل شخص کی گواہی کافی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کی گواہی پر خود بھی روزہ رکھا اورلوگوں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔اس مسئلہ کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا
” میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے۔تو آپؐ نے فرمایا ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے
سوا کوئی معبود برحق نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ،پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تمگواہی دیتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا جی
ہاں،آپؐ نےفرمایا! لوگوں میں اعلان کردوکہ وہ کل روزہ رکھیں “
(ابوداؤد ،کتاب الصیام ،٢٣٤٠ ۔بیہقی ٤١٤/٤١ )
🌍 چاند دیکھنے کی دعا
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو کہتے
اَللہُ اَکۡبَرُ اَللَّھُمَّ اَھۡلِہُ عَلَیۡنَابِالۡاَمۡنِ وَالۡاِیۡمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالۡاِسۡلاَمِ
وَالتَّوۡ فِیۡقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرۡ ضٰی رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللہُ
” اللہ سب سے بڑا ہے ۔اے اللہ! تو اسے ہم پر امن ایمان سلامتی اور اسلام
کے ساتھ طلوع کر اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ کہ جس سے تو محبت کرتا
ہے ۔اے ہمارے رب ! اورجسے تو پسند فرماتا ہے (اے چاند) ہمارا اور تیرا
رب اللہ ہے ۔“
(سنن دارمی ،کتاب الصوم : باب ما یفال عندرویت الھلال، ٤٤٢١ یہ روایت کثرت
شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحہ )
حصن المسلم: ص 130ـ131
تحقیق 👇👇👇
حدثنا محمد بن بشار حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا سليمان بن سفيان المديني حدثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله عن أبيه عن جده طلحة بن عبيد الله : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا رأى الهلال قال اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله
قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
قال الشيخ الألباني : صحيح
جامع الترمذى: كتاب الدعوات، باب: باب 51 ما يقول عند رؤية الهلال[/qh]
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 430 :
رواه الترمذي ( 2 / 256 ) و الحاكم ( 4 / 285 ) و أحمد ( 1 / 162 ) و أبو يعلى
( 1 / 191 ) و عنه ابن السني في " عمل اليوم و الليلة " ( 635 ) و الدارمي
( 2/ 4 ) و العقيلي ( 182 ) و ابن أبي عاصم في " السنة " ( 376 ) و الضياء في "
المختارة " ( 1 / 279 ) عن سليمان بن سفيان قال : حدثني بلال بن يحيى بن طلحة
ابن عبيد الله عن أبيه عن جده مرفوعا . و قال الترمذي : " حسن غريب " ،
و قال العقيلي في سليمان هذا " لا يتابع عليه " ، و روى عن ابن معين أنه ليس
بثقة . ثم قال العقيلي : " و في الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كأن هذا من أصلحها
إسنادا ، كلها لينة الأسانيد " .
قلت : و سليمان بن سفيان ضعيف ، و قد تقدم و مثله بلال بن يحيى بن طلحة و لعله
من أجل ذلك سكت عليه الحاكم ثم الذهبي ، و لم يصححاه . لكن الحديث حسن لغيره بل
هو صحيح لكثرة شواهده التي أشار إليها العقيلي ، لكنها شواهد في الجملة و إنما
يشهد له شهادة تامة حديث ابن عمر قال ... فذكره ، إلا أنه زاد : " و التوفيق
لما تحب و ترضى " . أخرجه الدارمي ( 2 / 3 - 4 ) و ابن حبان ( 2374 )
و الطبراني في " المعجم الكبير " ( 13330 ) عن عبد الرحمن بن عثمان بن إبراهيم
حدثني أبي عن أبيه و عمه عنه . قال الهيثمي : ( 10 / 139 ) : " و عثمان بن
إبراهيم الحاطبي فيه ضعف ، و بقية رجاله ثقات " . كذا قال : و عبد الرحمن بن
عثمان قال الذهبي : " مقل ، ضعفه أبو حاتم الرازي " . و أما ابن حبان فذكره في
" الثقات " ! و له طريق أخرى بلفظ آخر عن ابن عمر ، و هو مخرج في " الضعيفة "
( 3503 ) . و له شاهد آخر مختصر من حديث حدير السلمي مرفوعا به دون قوله : " ربي
و ربك الله " ، و زاد : " و السكينة و العافية و الرزق الحسن " . و هو مخرج
هناك ( 3504 )
سلسلة الأحاديث الصحيحة: باب 1816، ج 4/ ص 315
* فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّراحمدربّآنی حفظ اللہ
(احکام الصیام )
* سلیمان بن محمد بن سلیمان العصیان حفظ اللہ
( احکام ومسائلِ رمضان )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘
الملخص الفقہی:1/262۔263
احادیث نبوی سے استدلال :
👈 1۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری: 1808، مسلم :1080
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ
لسان العرب ، ج12ص443
یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
👈 2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری، 1814، مسلم1080
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ
اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
👈 3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘
و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔
(بخاری ومسلم)
یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ:
اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔
👈 4۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔
جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
👈 5۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔
مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی
سیدناعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” تم روزہ نہ رکھو حتیٰ کہ چاند دیکھ لو اور افطار نہ کروحتیٰ کہ چاند دیکھ لو
اگرتم پر مطلع ابرآلود ہو تو گنتی پوری کر لو “
(بخاری ،کتاب الصوم(١٩٠٦) ۔مسلم ، کتاب باب وجوب صوم (١٠٨٠) )
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا
” چاند دیکھ کر روزہ رکھواور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر مطلع
ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تیس دن پورے کرلو “
(بخاری ،کتاب الصوم ،١٩٠٩ ۔ مسلم ،کتاب الصوم ،١٠٨١ )
یعنی شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھو اگر نظر آجائے تو دوسرے دن روزہ رکھو اور اگر نظرنی آئے یا مطلع ابرآلود ہو تو سیدنا عمّار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ
” جس شخص نے اس دن( یعنی شک کے دن) کا روزہ رکھا اس نے یقینًا
ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی “
(ابن ماجہ کتاب الصیام ،١٦٤٠ ۔ابوداؤد کتاب الصیام ،٢٣٣٤
ترمذی ،٦٨٦ ، نسائی ،٢١٩٠ ۔دارمی،١٦٨٢)
🌍 چاند دیکھنے کے معتبر اوقات
چاند دیکھنے کےمعتبر اوقات کو دوامور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
* پہلا امر* انتیس شعبان کوسورج غروب ہونے سےپہلے چاند دیکھا جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ،یعنی اس سے نا تو روزے رکھنا واجب ہوتا ہےاور نا ہی روزہ چھوڑنا۔کیونکہ اگر اس کا اعتبار کر لیا جائےتومہینے کے اٹھائیس دنوں کا ہونا لازم آتا ہے۔حالانکہ یہ ہو نہیں سکتا۔
* دوسرا امر * جب چاند انتیس تاریخ کو سورج غروب ہونے کے بعددیکھا جائے تو علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رؤیت معتبر ہوگی۔اور اسکی دلیل سفیان بن سلمہؓ کی روایت ہے۔کہتے ہیں
“ ہم مقام خانقین میں تھے کہ عمر بن خطابؓ کا خط موصول ہوا۔اس میں لکھا تھا
کہ ”چاند چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے، جب تم دن کے وقت چاند دیکھو تو تم شام ہونے
سے پہلے افطار نہ کرو۔ہاں اگر دو مسلمان گواہی دے دیں کہ انہوں نے گزشتہ
رات چاند دیکھا تھا تو پھر افطار جائز ہے۔“
(صحیح ; سنن الدارقطنی ، بیہقی ،التلخیص ٨١٤/٢ )
🌍 رمضان کا چانددیکھنے کےلیےایک فردکی گواہی کافی ہے
واضح رہے کہ رؤیت ھلال کے لیے عادل و قابل اعتماد ایک شخص ہی کی گواہی کافی ہے۔سیدناابن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ
” لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو خبر دی کہ میں نے اسےدیکھ لیا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود
بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔“
(ابوداؤد کتاب الصوم ،٢٣٣٤٢۔دارمی کتاب الصیام،٢٣٤٤۔دارقطنی،١٥٦/٢
بیہقی ٢١٢/٤ ۔ابن حبان ،٨٧١ ۔حاکم ،٤٢٣/١ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کےچاند کی رؤیت کے بارے میں ایک مسلمان عادل شخص کی گواہی کافی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کی گواہی پر خود بھی روزہ رکھا اورلوگوں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔اس مسئلہ کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا
” میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے۔تو آپؐ نے فرمایا ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے
سوا کوئی معبود برحق نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ،پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تمگواہی دیتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا جی
ہاں،آپؐ نےفرمایا! لوگوں میں اعلان کردوکہ وہ کل روزہ رکھیں “
(ابوداؤد ،کتاب الصیام ،٢٣٤٠ ۔بیہقی ٤١٤/٤١ )
🌍 چاند دیکھنے کی دعا
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو کہتے
اَللہُ اَکۡبَرُ اَللَّھُمَّ اَھۡلِہُ عَلَیۡنَابِالۡاَمۡنِ وَالۡاِیۡمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالۡاِسۡلاَمِ
وَالتَّوۡ فِیۡقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرۡ ضٰی رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللہُ
” اللہ سب سے بڑا ہے ۔اے اللہ! تو اسے ہم پر امن ایمان سلامتی اور اسلام
کے ساتھ طلوع کر اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ کہ جس سے تو محبت کرتا
ہے ۔اے ہمارے رب ! اورجسے تو پسند فرماتا ہے (اے چاند) ہمارا اور تیرا
رب اللہ ہے ۔“
(سنن دارمی ،کتاب الصوم : باب ما یفال عندرویت الھلال، ٤٤٢١ یہ روایت کثرت
شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحہ )
حصن المسلم: ص 130ـ131
تحقیق 👇👇👇
حدثنا محمد بن بشار حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا سليمان بن سفيان المديني حدثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله عن أبيه عن جده طلحة بن عبيد الله : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا رأى الهلال قال اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله
قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
قال الشيخ الألباني : صحيح
جامع الترمذى: كتاب الدعوات، باب: باب 51 ما يقول عند رؤية الهلال[/qh]
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 430 :
رواه الترمذي ( 2 / 256 ) و الحاكم ( 4 / 285 ) و أحمد ( 1 / 162 ) و أبو يعلى
( 1 / 191 ) و عنه ابن السني في " عمل اليوم و الليلة " ( 635 ) و الدارمي
( 2/ 4 ) و العقيلي ( 182 ) و ابن أبي عاصم في " السنة " ( 376 ) و الضياء في "
المختارة " ( 1 / 279 ) عن سليمان بن سفيان قال : حدثني بلال بن يحيى بن طلحة
ابن عبيد الله عن أبيه عن جده مرفوعا . و قال الترمذي : " حسن غريب " ،
و قال العقيلي في سليمان هذا " لا يتابع عليه " ، و روى عن ابن معين أنه ليس
بثقة . ثم قال العقيلي : " و في الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كأن هذا من أصلحها
إسنادا ، كلها لينة الأسانيد " .
قلت : و سليمان بن سفيان ضعيف ، و قد تقدم و مثله بلال بن يحيى بن طلحة و لعله
من أجل ذلك سكت عليه الحاكم ثم الذهبي ، و لم يصححاه . لكن الحديث حسن لغيره بل
هو صحيح لكثرة شواهده التي أشار إليها العقيلي ، لكنها شواهد في الجملة و إنما
يشهد له شهادة تامة حديث ابن عمر قال ... فذكره ، إلا أنه زاد : " و التوفيق
لما تحب و ترضى " . أخرجه الدارمي ( 2 / 3 - 4 ) و ابن حبان ( 2374 )
و الطبراني في " المعجم الكبير " ( 13330 ) عن عبد الرحمن بن عثمان بن إبراهيم
حدثني أبي عن أبيه و عمه عنه . قال الهيثمي : ( 10 / 139 ) : " و عثمان بن
إبراهيم الحاطبي فيه ضعف ، و بقية رجاله ثقات " . كذا قال : و عبد الرحمن بن
عثمان قال الذهبي : " مقل ، ضعفه أبو حاتم الرازي " . و أما ابن حبان فذكره في
" الثقات " ! و له طريق أخرى بلفظ آخر عن ابن عمر ، و هو مخرج في " الضعيفة "
( 3503 ) . و له شاهد آخر مختصر من حديث حدير السلمي مرفوعا به دون قوله : " ربي
و ربك الله " ، و زاد : " و السكينة و العافية و الرزق الحسن " . و هو مخرج
هناك ( 3504 )
سلسلة الأحاديث الصحيحة: باب 1816، ج 4/ ص 315
* فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّراحمدربّآنی حفظ اللہ
(احکام الصیام )
* سلیمان بن محمد بن سلیمان العصیان حفظ اللہ
( احکام ومسائلِ رمضان )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment