Eid Ke Namaz Ke Masail, Eid Ki Namaz padhne Ka Sahih Tariqa
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ عورت کا دوسری عوتوں کی الگ جماعت کرانا ⬇
عورت دوسری عورتوں کی علیحدہ جماعت نہیں کرا سکتی ۔کیونکہ عورتوں کا عید گاہ کی نماز مَردوں سےالگ پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ اتنی بات ثابت ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ شاید آپؐ عورتوں کو عید کا خطبہ نہیں سنا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کے موقعہ پر پھربعدمیں الگ وعظ فرمایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ،
عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَمَشَى إِلَيْهِنَّ
وَبِلَالٌ مَعَهُ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ فِي
ثَوْبِ بِلَالٍ.
اس میں یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ عورتوں کو نہیں
سنا سکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے اور بلال رضی اللہ
عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے،آپ نے انہیں وعظ ونصیحت کی اور صدقہ کاحکم
دیا، تو عورتیں بالی اور انگوٹھی بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔
(دیکھیے بخاری ، کتاب العیدین ، باب موعظة الامام النساء یوم عید )
❄ تکبیراتِ عید کا وقت ⬇
حافظ ابن حجرؒ تکبیرات کے وقت ، ابتدء وانتہا کے بارےمیں فرماتےہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔صحابہؓ سے جوسب سے زیادہ صحیح روایت مروی ہے وہ سیّدنا علی کا قول ہے۔
⭐ سیّدنا حضرت علیؓ عرفہ کے دن نو ذاالحجة کی فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة کی عصرتک تکبیرات کہتے۔
( دیکھیے (صحیح ) السنن الکبریٰ للبیہقی ، صلاة العیدین ، باب من استحب ان یبتدی بالتکبیر
خلف صلاة الصبح ، ٣١٤/٣ حدیث ، ٢٦٧٥ ، امام حاکم نےالمستدرک٢٩٩/١ میں اور
حافظ ذہبیؒ نےاسےصحیح کہا ہے ۔اسکی سند صحیح ہے )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطرکےدن گھر سےعیدگاہ تک باآواز بلند تکبیرات کہتے ۔
( السنن الکبریٰ للبیہقیؒ ، صلاة العیدین ، باب التکبیر لیلة الفطر ویوم الفطر٢٧٩/٣ ،
ح ٦١٢٩ ،امام بیہقیؒ فرماتےہیں کہ حدیث ابن عمرموقوفًا صحیح ہے۔اسکی سندحسن ہے)
⭐ امام زہریؒ کہتے ہیں کہ لوگ عیدکےدن اپنےگھروں سے عیدگاہ تک تکبیرات کہتے ۔پھر امام کےساتھ تکبیرات کہتے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٨/١،ح ٥٦٢٨ ، وسندہ صحیح )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عبّاسؓ نو ذوالحجة نماز فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة عصر تک ان الفاظوں میں تکبیرات کہتے
اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اللہ سب سےبڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ سب سےبڑا ہے،بہت بڑا
اللہ سب سے بڑا ہے، اورسب سےزیادہ صاحب جلال ہے ، اللہ
سب سےبڑاہے۔اور اللہ ہی کےلیے ساری تعریف ہے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٩/١،ح ٥٦٤٥، وسندہ صحیح ٤٩٠/١حدیث ٥٦٥٤ ،
وسندہ صحیح ، امام حاکم نے المستدرک ٢٩٩/١ میں اور ذہبیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ۔)
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی
ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
(البقرة:185)
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
⭐(1)اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
⭐(2) اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
⭐(3) اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
⭐(4) اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
⭐(5) اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔
❄ عید گاہ کس طرح جایا جائے ⬇
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ
بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَابِرِ، قَالَ: ""كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ
خَالَفَ الطَّرِيقَ""، تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ فُلَيْحٍ، وَقَال مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَن فُلَيْحٍ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ جَابِرٍ أَصَحُّ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل
کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے
اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
(صحيح البخاري:986)
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔
(جاری ہے )
❄ عید کا روزہ⬇
⭐ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی
کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(صحيح مسلم:1138)
⭐ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي
سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ""نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ
وَالنَّحْرِ، وَعَنِ الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی
اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔
(صحیح حدیث ،صحیح البخاری ، ١٩٩١ )
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ،
عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَا، قَالَ: سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ""يُنْهَى
عَنْ صِيَامَيْنِ وَبَيْعَتَيْنِ: الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ، وَالْمُلَامَسَةِ، وَالْمُنَابَذَةِ"".
آپ نے فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت
سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت
کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔
( صحیح البخاری ، حدیث ١٩٩٣ ).
❄ عید کے دن کھانا ⬇
کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ
اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ""كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ""، وَقَالَ مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ:
حَدَّثَنِي أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا،
کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان
کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔
(صحيح البخاري:953)
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔
۔
❄ عید کی نماز :⬇
نماز عیدین کی آذان و اقامت نہیں
قَالَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا
بُويِعَ لَهُ""إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ"".
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو
اس زمانہ میں بھیجا جب ( شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا آپ نے
کہلایا کہ ) عیدالفطر کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز
کے بعد ہوتا تھا۔
( صحیح البخاری ، العیدین ،باب صلاة العیدین )
⭐سیدنا جابرؓ نے فرمایا
” نماز عید کے لیے آذان ہے نہ تکبیر ، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز “
( صحیح المسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین ، حدیث ٨٨٦ )
⭐ عیدین میں پہلے نماز عید پڑھی جائیگی اور نماز کے بعد خطبہ دیا جائے گا
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "شَهِدْتُ
الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ،
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے
ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے گیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز
پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔
( دیکھیےصحیح البخاری ، العیدین ، باب الخطبة بعدالعید ، حدیث ٩٦٢ ،
وصحیح مسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین حدیث ٨٨٤ )
⭐ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں سوائے عید کی دورکعتوں کےنہ پہلےنفل پڑھےاور نہ بعد میں
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ""أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ
قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ تُلْقِي
الْمَرْأَةُ خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی
نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر ( خطبہ پڑھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس
آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا خیرات
کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کرنے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی۔
(صحیح البخاری ، العیدین ،باب الصلاة قبل العید وبعدھا )
🔹 عیدین کی بارہ تکبیریں :
مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
" عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن النبي -صلي الله عليه وسلم -كبّر في عيدٍ ثنْتَيْ عَشْرة تكبيرة، سبعا في الأولى، وخمساً في الآخرة، ولم يصلّ قبلها ولا بعدها۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
سیدنا عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
اور مسند امام احمد میں اس حدیث کے امام احمدؒ کے بیٹے جناب عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں :
[قال عبد الله بن أحمد]: قال أبي: وأنا أذهب إلى هذا."
میرے والد گرامی امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا بھی یہی مذہب ہے
اس کے حاشیہ میں مصر کے مشہور محقق عالم جناب احمد شاکر لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى بن كعب الثقفي الطائفي: ثقة: وثقه ابن المديني والعجلي
یعنی اس کی سند صحیح ہے ؛
اور علامہ نووی " المجموع " میں لکھتے ہیں :واحتج أصحابنا بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " كبر في الأولى سبعا وفي الثانية خمسا " رواه أبو داود وغيره وصححوه كما سبق بيانه وعن جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله رواه أبو داود
ہمارے شافعی فقہاء نے نماز عید میں بارہ تکبروں کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے لی ہے ،جس میں صآف مروی ہے کہ نبی کریم پہلی رکعت میں سات ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اس کو ابوداود اور دیگر محدثین نے نقل فرمایا ہے ،اور اس کو صحیح کہا ہے ،اور کئی ایک صحابہ کرام نے یہی بات رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے "
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں :ورواه أحمد وأبو داود وابن ماجه والدارقطني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده وصححه أحمد وعلي والبخاري فيما حكاه الترمذي
یعنی اس حدیث کو امام احمد ؒ اور علی بن مدینی ؒ اور امام بخاری ؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ ترمذیؒ نے نقل کیا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ترمذی ؒ بارہ تکبیرات کی ایک حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
"وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ،
یعنی اہل مدینہ کا یہی قول ہے ، امام مالک ، امام شافعی ؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، اور امام اسحاق بن راھویہ ؒ کا بھی یہی قول ہے (کہ نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد کہی جائیں )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ عورت کا دوسری عوتوں کی الگ جماعت کرانا ⬇
عورت دوسری عورتوں کی علیحدہ جماعت نہیں کرا سکتی ۔کیونکہ عورتوں کا عید گاہ کی نماز مَردوں سےالگ پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ اتنی بات ثابت ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ شاید آپؐ عورتوں کو عید کا خطبہ نہیں سنا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کے موقعہ پر پھربعدمیں الگ وعظ فرمایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ،
عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَمَشَى إِلَيْهِنَّ
وَبِلَالٌ مَعَهُ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ فِي
ثَوْبِ بِلَالٍ.
اس میں یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ عورتوں کو نہیں
سنا سکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے اور بلال رضی اللہ
عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے،آپ نے انہیں وعظ ونصیحت کی اور صدقہ کاحکم
دیا، تو عورتیں بالی اور انگوٹھی بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔
(دیکھیے بخاری ، کتاب العیدین ، باب موعظة الامام النساء یوم عید )
❄ تکبیراتِ عید کا وقت ⬇
حافظ ابن حجرؒ تکبیرات کے وقت ، ابتدء وانتہا کے بارےمیں فرماتےہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔صحابہؓ سے جوسب سے زیادہ صحیح روایت مروی ہے وہ سیّدنا علی کا قول ہے۔
⭐ سیّدنا حضرت علیؓ عرفہ کے دن نو ذاالحجة کی فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة کی عصرتک تکبیرات کہتے۔
( دیکھیے (صحیح ) السنن الکبریٰ للبیہقی ، صلاة العیدین ، باب من استحب ان یبتدی بالتکبیر
خلف صلاة الصبح ، ٣١٤/٣ حدیث ، ٢٦٧٥ ، امام حاکم نےالمستدرک٢٩٩/١ میں اور
حافظ ذہبیؒ نےاسےصحیح کہا ہے ۔اسکی سند صحیح ہے )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطرکےدن گھر سےعیدگاہ تک باآواز بلند تکبیرات کہتے ۔
( السنن الکبریٰ للبیہقیؒ ، صلاة العیدین ، باب التکبیر لیلة الفطر ویوم الفطر٢٧٩/٣ ،
ح ٦١٢٩ ،امام بیہقیؒ فرماتےہیں کہ حدیث ابن عمرموقوفًا صحیح ہے۔اسکی سندحسن ہے)
⭐ امام زہریؒ کہتے ہیں کہ لوگ عیدکےدن اپنےگھروں سے عیدگاہ تک تکبیرات کہتے ۔پھر امام کےساتھ تکبیرات کہتے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٨/١،ح ٥٦٢٨ ، وسندہ صحیح )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عبّاسؓ نو ذوالحجة نماز فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة عصر تک ان الفاظوں میں تکبیرات کہتے
اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اللہ سب سےبڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ سب سےبڑا ہے،بہت بڑا
اللہ سب سے بڑا ہے، اورسب سےزیادہ صاحب جلال ہے ، اللہ
سب سےبڑاہے۔اور اللہ ہی کےلیے ساری تعریف ہے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٩/١،ح ٥٦٤٥، وسندہ صحیح ٤٩٠/١حدیث ٥٦٥٤ ،
وسندہ صحیح ، امام حاکم نے المستدرک ٢٩٩/١ میں اور ذہبیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ۔)
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی
ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
(البقرة:185)
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
⭐(1)اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
⭐(2) اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
⭐(3) اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
⭐(4) اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
⭐(5) اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔
❄ عید گاہ کس طرح جایا جائے ⬇
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ
بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَابِرِ، قَالَ: ""كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ
خَالَفَ الطَّرِيقَ""، تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ فُلَيْحٍ، وَقَال مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَن فُلَيْحٍ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ جَابِرٍ أَصَحُّ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل
کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے
اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
(صحيح البخاري:986)
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔
(جاری ہے )
❄ عید کا روزہ⬇
⭐ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی
کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(صحيح مسلم:1138)
⭐ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي
سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ""نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ
وَالنَّحْرِ، وَعَنِ الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی
اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔
(صحیح حدیث ،صحیح البخاری ، ١٩٩١ )
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ،
عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَا، قَالَ: سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ""يُنْهَى
عَنْ صِيَامَيْنِ وَبَيْعَتَيْنِ: الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ، وَالْمُلَامَسَةِ، وَالْمُنَابَذَةِ"".
آپ نے فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت
سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت
کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔
( صحیح البخاری ، حدیث ١٩٩٣ ).
❄ عید کے دن کھانا ⬇
کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ
اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ""كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ""، وَقَالَ مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ:
حَدَّثَنِي أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا،
کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان
کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔
(صحيح البخاري:953)
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔
۔
❄ عید کی نماز :⬇
نماز عیدین کی آذان و اقامت نہیں
قَالَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا
بُويِعَ لَهُ""إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ"".
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو
اس زمانہ میں بھیجا جب ( شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا آپ نے
کہلایا کہ ) عیدالفطر کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز
کے بعد ہوتا تھا۔
( صحیح البخاری ، العیدین ،باب صلاة العیدین )
⭐سیدنا جابرؓ نے فرمایا
” نماز عید کے لیے آذان ہے نہ تکبیر ، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز “
( صحیح المسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین ، حدیث ٨٨٦ )
⭐ عیدین میں پہلے نماز عید پڑھی جائیگی اور نماز کے بعد خطبہ دیا جائے گا
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "شَهِدْتُ
الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ،
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے
ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے گیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز
پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔
( دیکھیےصحیح البخاری ، العیدین ، باب الخطبة بعدالعید ، حدیث ٩٦٢ ،
وصحیح مسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین حدیث ٨٨٤ )
⭐ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں سوائے عید کی دورکعتوں کےنہ پہلےنفل پڑھےاور نہ بعد میں
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ""أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ
قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ تُلْقِي
الْمَرْأَةُ خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی
نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر ( خطبہ پڑھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس
آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا خیرات
کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کرنے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی۔
(صحیح البخاری ، العیدین ،باب الصلاة قبل العید وبعدھا )
🔹 عیدین کی بارہ تکبیریں :
مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
" عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن النبي -صلي الله عليه وسلم -كبّر في عيدٍ ثنْتَيْ عَشْرة تكبيرة، سبعا في الأولى، وخمساً في الآخرة، ولم يصلّ قبلها ولا بعدها۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
سیدنا عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
اور مسند امام احمد میں اس حدیث کے امام احمدؒ کے بیٹے جناب عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں :
[قال عبد الله بن أحمد]: قال أبي: وأنا أذهب إلى هذا."
میرے والد گرامی امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا بھی یہی مذہب ہے
اس کے حاشیہ میں مصر کے مشہور محقق عالم جناب احمد شاکر لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى بن كعب الثقفي الطائفي: ثقة: وثقه ابن المديني والعجلي
یعنی اس کی سند صحیح ہے ؛
اور علامہ نووی " المجموع " میں لکھتے ہیں :واحتج أصحابنا بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " كبر في الأولى سبعا وفي الثانية خمسا " رواه أبو داود وغيره وصححوه كما سبق بيانه وعن جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله رواه أبو داود
ہمارے شافعی فقہاء نے نماز عید میں بارہ تکبروں کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے لی ہے ،جس میں صآف مروی ہے کہ نبی کریم پہلی رکعت میں سات ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اس کو ابوداود اور دیگر محدثین نے نقل فرمایا ہے ،اور اس کو صحیح کہا ہے ،اور کئی ایک صحابہ کرام نے یہی بات رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے "
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں :ورواه أحمد وأبو داود وابن ماجه والدارقطني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده وصححه أحمد وعلي والبخاري فيما حكاه الترمذي
یعنی اس حدیث کو امام احمد ؒ اور علی بن مدینی ؒ اور امام بخاری ؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ ترمذیؒ نے نقل کیا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ترمذی ؒ بارہ تکبیرات کی ایک حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
"وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ،
یعنی اہل مدینہ کا یہی قول ہے ، امام مالک ، امام شافعی ؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، اور امام اسحاق بن راھویہ ؒ کا بھی یہی قول ہے (کہ نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد کہی جائیں )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment