Ramzan Ke roze Farz hone Ke Sharayet kya Hain. kin Logon Par Roza Farz Hai
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
آدمی پررمضان کے روزے فرض ہونے کی شرائط 👇👇👇
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ آدمی پر روزہ فرض ہونے کی چھ شرطیں ہیں
🌟 پہلی شرط : اسلام
اسلام کی ضد کفر ہے۔لہٰذا کافر پرروزہ لازم نہیں ہے۔یعنی ہم کافرکوروزےکاپابندنہیں بنائیں گے۔کیونکہ وہ لائقِ عبادات نہیں ہے۔اگروہ روزہ رکھ بھی لے توبھی اسکاروزہ مقبول نہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾ (سورة الفرقان )
اورانہوں نے جوجواعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا ۔
نیز فرمایا
وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ ﴿۵۴﴾
کوئی سبب انکےخرچ کی قبولیت کےنہ ہونےکااس کےسوانہیں کہ یہ اللہ اوراس کےرسول کےمنکر ہیں۔
اسی طرح اگر آدمی نماز نہیں پڑھتا ہوتواس کا روزہ بھی صحیح نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے قبول کیاجائےگا، کیونکہ بےنمازی کافرہے ، اور اللہ تعالی کافرکی عبادت قبول نہیں فرماتا۔
🌟 دوسری شرط : عقل
اس کی ضدجنون ( پاگل پن ) ہے ۔لہٰذا مجنوں (پاگل شخص ) پر روزہ فرض نہیں۔کیونکہ روزے کی درستگی کےلیے نیت شرط ہے۔اور مجنوں نیت کااہل نہیں اسلیے کہ وہ عقل وشعور نہیں رکھتا۔اور حدیث میں ہے
” تین طرح کےلوگ مرفوع القلم ہیں۔١۔سونےوالا یہاں تک کہ بیدارہوجائے۔٢۔بچہ، یہاں
تک کہ بلوغت کوپہنچ جائے۔٣۔مجنوں ، یہاں تک کہ اسکےہوش وحواس درست ہوجائیں ۔ “
اور مجنوں ہی کےحکم میں وہ شخص بھی ہےجسکی عقل کبرسنی کی وجہ سےچلی گئی ہو۔اس لیے کہ جب انسان سن رسیدہ ہوجاتا ہے تو بسااوقات اس کی عقل چلی جاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ رات اوردن ،دور اور نزدیک کےدرمیان بھی تمیز نہیں کرپاتا اور اسکی حالت ایک بچے سےبھی گئی گزری ہوجاتی ہے۔لہٰذا جب انسان عمرکےاس مرحلہ کوپہنچ جائے توشریعت اس پر روزہ فرض نہیں کرتی ، جس طرح کے اس کے لیے نماز اور طہارت ضروری نہیں رہ جاتی۔
🌟 تیسری شرط : بلوغت
اسکی ضد کم سنی ہے ، مذکر(مرد ) کی بلوغت کی پہچان تین علامتوں میں سے کسی ایک سے ہوتی ہے۔اور مئونث (عورت) کی بلوغت کی پہچان چارعلامتوں میں سے کسی ایک سے ہوتی ہے۔
پہلی علامت * پندرہ سال کا پورا ہونا ۔
دوسری علامت * زیرِ ناف بال کا اگنا۔
تیسری علامت * بشہوت منی کا نکلنا ،خواہ خواب کی حالت میں ہو یا حالتِ بیداری میں
جب ان تین علامتوں میں سے کوئی علامت ظاہرہوجائے توانسان بالغ ہوجاتا ہے۔خواہ مرد ہویا عورت۔اورعورت کے بلوغ کی پہچان ایک چوتھی علامت سےبھی ہوتی ہے۔اور وہ ہے دم حیض کا آنا ،جب عورت کو دم حیض آنےلگے تو وہ بلوغت میں داخل ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ اگراسے دس سال کی عمر میں ہی دم حیض کا آنا شروع ہوجائے تب وہ بالغ ہوجاتی ہے اور اب اس کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور اس پر وہ تمام امور واجب ہوجاتے ہیں جوایک تیس سالبکی عورت پر واجب ہوتے ہیں۔
🌟 چوتھی شرط : طاقت
اسکی ضد عجز وبےبسی ہے۔روزے کی طاقت وہمت نہ ہونے کی دو قسمیں ہیں
👈 (1) وقتی طور پر طاقت نہ رکھنا۔جیسے کوئی عام بیماری ہوجس سےشفایابی کی امید ہو۔
👈 (2) دائمی عجز وبےبسی ، جس کے ختم ہونے کی امید نہ ہو۔جیسے کوئی ایسی بیماری جس سے شفا یابی کی امیدنہ ہو۔مثلاً کینسر کا مرض اور پیرانہ سالی۔اسلیےکہ پیرانہ سالی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ،کیونکہ سن رسیدہ شخص کاپھر جوان ہونا ممکن نہیں ہے۔اس قسم کی عجز وبےبسی میں آدمی پر روزہ واجب نہیں ہے۔اس لیے کہ وہ اسکی طاقت سے باہر ہے۔لیکن اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر دن کےبدلے ایک مسکین کوکھانا کھلائے۔اگر مہینہ انتیس دن کا ہے تو انتیس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔اور مہینہ تیس دن ہونےکی صورت میں تیس مسکینوں کوکھانا کھلائے گا۔کھانا کھلانے کی دو صورتیں ہیں :
👈 (1) پہلی صورت یہ ہے کہ ماہ رمضان کے دنوں کی تعداد میں مہینہ کے آخر میں مساکین کو دعوت دےاور انہیں دوپہر یا شام کا کھانا کھلائے۔
👈 (2) دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں اناج اور گوشت دیدے ،اناج کےساتھ سالن بھی ہو ،اور اس اناج کی مقدار ایک چوتھائی صاع (٤/١ صاع ) ہے کیونکہ صاع عہد نبوی میں چار مد کا ہوتا تھا اور صاع کا تعین کیا گیا تو اسکی مقدار دو کلو چالیس گرام پہنچی۔ اس طرح ہرمسکین کو آدھا کلو اور دس گرام ( یعنی پانچ سو دس گرام ) کھانا دیا جائے گا۔یہی واجب مقدار ہےلیکن احتیاط کےطورپرانسان اس سے زیادہ دیدے تو کوئی حرج نہیں۔
عجز کی دوسری قسم وقتی عجز ہے ۔جسکے زائل ہونے کی امید ہوتی ہے۔جیسےعام بیماریاں زکام اور بخار وغیرہ۔ایسی صورت میں اس پر واجب ہے کہ جن دنوں کا اس نےروزہ نہیں رکھا ،اتنے دنوں کی قضا کرے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے
فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۵﴾
تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار
ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔(سورة البقرہ )
اگرایسےمریض پر روشہ شاق گزرے تو اس سے کہا جائے گا کہ روزہ توڑ دے اور بعد میں اسکی قضا کر لے ۔
🌟 پانچویں شرط : اقامت (مقیم ہونا )
اسکی ضد سفرہے(یعنی سفر میں ہونا ) ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۵﴾
تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار
ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔
(سورة البقرہ )
اس آیت کے مطابق مسافرکےلیے افضل کام وہی ہےجواس کےحق میں آسان تر ہو۔اگر اس کے حق میں روزہ توڑنا آسان راہ ہے تو وہ روزہ توڑ دے۔اور اگرروزہ رکھنا اور توڑنا مساوی حیثیت رکھتےہوں تو راجح مسلک یہی ہےکہ روزہ رکھنا افضل ہے کیونکہ یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپؐ روزہ رکھتےتھے اور جب آپؐ سےیہ کہا گیا کہ لوگوں پرروزہ شاق گزررہاہے اور وہ آپؐ کےفعل کاانتظار کررہےہیں ، تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔مسافر کا روزہ نہ رکھنا اور رکھنا اگراس کےلیے برابرہوں تو اسکا روزہ رکھ لینا اس لیے بھی افضل ہے،کیونکہ دیکھنےمیں یہ بات آتی ہے کہ جب انسان پر کسی چیز کی قضا واجب ہوتی ہے تواسکےلیےیہ قضا دشوارگزارہو جاتی ہے۔
یہاں ایک بہت اہم سوال پیداہوتا ہے کہ اگرآدمی عمرہ کرنے کےلیے آئے اور مکہ میں ہو تو کیا وہ روزہ چھوڑ دے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جب (معتمر) سفرمیں ہو ،اور سفر میں ہی ہے ،تواسکے لیےروزہ توڑنا(نہ رکھنا) جائز ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسن ٨ ہجری میں مکہ فتح کیا ،انیس یا بیس رمضان کومکہ میں داخل ہوئے۔اور مہینے کا باقی حصہ وہیں گزارا اور روزہ نہیں رکھا۔جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ نبی اکرمؐ نے باقی مہینہ روزہ نہیں رکھا اور مکہ میں انیس دن گزارےاور نماز قصر کرتے رہے۔اسی لیے ہم مکہ میں ایسے لوگوں کو پاتے ہیں جن پرعمرے کی ادائیگی کی وجہ سے روزہ بہت شاق گزرتا ہے۔یہاں تک کہ بعض لوگوں کوبےہوش ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔لہٰذاایسےشخص کو روزہ توڑ دینا ہی بہتر ہے،کیونکہ وہ سفر میں ہے۔
اب یہاں دوسراسوال پیداہوتا ہے کہ کیا یہ افضل ہے کہ آدمی جب دن میں مکہ پہنچے توروزے کی حالت میں باقی رہے اور عمرہ کو رات تک کےلیے مئوخر کردے؟ یایہ افضل ہےکہ روزہ توڑ دے تاکہ پہنچتے ہی دن میں عمرہ ادا کرلے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ افضل دوسری صورت ہے ،یعنے روزہ توڑ دے تاکہ عمرہ کی ادائیگی جلد کرسکے کیونکہ اس کا مکہ آنے کا مقصود اصلی عمرہ ہی ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ہی کے لیے جلدی کرتے تھے،یہاں تک کہ اپنی اونٹنی (سواری) کو مسجد کے دروازے پرہی بٹھادیتےاور عمرہ کی ادائیگی کےلیے مسجد میں داخل ہو جاتے۔
🌟 چھٹی شرط : موانع سے خالی ہونا
یہ شرط عورت کےساتھ خاص ہے۔یعنی وہ حیض ونفاس کی حالت میں نہ ہو ۔کیونکہ حیض ونفاس روزے کی صحت سے مانع ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کے لیے فرمایا
الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم
کیا ایسی بات نہیں کہ جب عورت حالت حیض میں ہوتی ہےتونہ نمازپڑھتی ہےنہ روزہ رکھتی ہے۔
اور تمام مسلمانوں کااجماع ہے کہ حائضہ عورت کا روزہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ اس پر روزہ رکھنا حرام ہے۔اور یہی حکم نفاس والی عورت کے بارے میں بھی ہے۔
ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
والسلامُ علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
شیخ محمّد بن صالح العثیمین رحمة اللہ
روزہ اور اعتکاف کےاحکام ومسائل
السلامُ علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
آدمی پررمضان کے روزے فرض ہونے کی شرائط 👇👇👇
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ آدمی پر روزہ فرض ہونے کی چھ شرطیں ہیں
🌟 پہلی شرط : اسلام
اسلام کی ضد کفر ہے۔لہٰذا کافر پرروزہ لازم نہیں ہے۔یعنی ہم کافرکوروزےکاپابندنہیں بنائیں گے۔کیونکہ وہ لائقِ عبادات نہیں ہے۔اگروہ روزہ رکھ بھی لے توبھی اسکاروزہ مقبول نہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾ (سورة الفرقان )
اورانہوں نے جوجواعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا ۔
نیز فرمایا
وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ ﴿۵۴﴾
کوئی سبب انکےخرچ کی قبولیت کےنہ ہونےکااس کےسوانہیں کہ یہ اللہ اوراس کےرسول کےمنکر ہیں۔
اسی طرح اگر آدمی نماز نہیں پڑھتا ہوتواس کا روزہ بھی صحیح نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے قبول کیاجائےگا، کیونکہ بےنمازی کافرہے ، اور اللہ تعالی کافرکی عبادت قبول نہیں فرماتا۔
🌟 دوسری شرط : عقل
اس کی ضدجنون ( پاگل پن ) ہے ۔لہٰذا مجنوں (پاگل شخص ) پر روزہ فرض نہیں۔کیونکہ روزے کی درستگی کےلیے نیت شرط ہے۔اور مجنوں نیت کااہل نہیں اسلیے کہ وہ عقل وشعور نہیں رکھتا۔اور حدیث میں ہے
” تین طرح کےلوگ مرفوع القلم ہیں۔١۔سونےوالا یہاں تک کہ بیدارہوجائے۔٢۔بچہ، یہاں
تک کہ بلوغت کوپہنچ جائے۔٣۔مجنوں ، یہاں تک کہ اسکےہوش وحواس درست ہوجائیں ۔ “
اور مجنوں ہی کےحکم میں وہ شخص بھی ہےجسکی عقل کبرسنی کی وجہ سےچلی گئی ہو۔اس لیے کہ جب انسان سن رسیدہ ہوجاتا ہے تو بسااوقات اس کی عقل چلی جاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ رات اوردن ،دور اور نزدیک کےدرمیان بھی تمیز نہیں کرپاتا اور اسکی حالت ایک بچے سےبھی گئی گزری ہوجاتی ہے۔لہٰذا جب انسان عمرکےاس مرحلہ کوپہنچ جائے توشریعت اس پر روزہ فرض نہیں کرتی ، جس طرح کے اس کے لیے نماز اور طہارت ضروری نہیں رہ جاتی۔
🌟 تیسری شرط : بلوغت
اسکی ضد کم سنی ہے ، مذکر(مرد ) کی بلوغت کی پہچان تین علامتوں میں سے کسی ایک سے ہوتی ہے۔اور مئونث (عورت) کی بلوغت کی پہچان چارعلامتوں میں سے کسی ایک سے ہوتی ہے۔
پہلی علامت * پندرہ سال کا پورا ہونا ۔
دوسری علامت * زیرِ ناف بال کا اگنا۔
تیسری علامت * بشہوت منی کا نکلنا ،خواہ خواب کی حالت میں ہو یا حالتِ بیداری میں
جب ان تین علامتوں میں سے کوئی علامت ظاہرہوجائے توانسان بالغ ہوجاتا ہے۔خواہ مرد ہویا عورت۔اورعورت کے بلوغ کی پہچان ایک چوتھی علامت سےبھی ہوتی ہے۔اور وہ ہے دم حیض کا آنا ،جب عورت کو دم حیض آنےلگے تو وہ بلوغت میں داخل ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ اگراسے دس سال کی عمر میں ہی دم حیض کا آنا شروع ہوجائے تب وہ بالغ ہوجاتی ہے اور اب اس کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور اس پر وہ تمام امور واجب ہوجاتے ہیں جوایک تیس سالبکی عورت پر واجب ہوتے ہیں۔
🌟 چوتھی شرط : طاقت
اسکی ضد عجز وبےبسی ہے۔روزے کی طاقت وہمت نہ ہونے کی دو قسمیں ہیں
👈 (1) وقتی طور پر طاقت نہ رکھنا۔جیسے کوئی عام بیماری ہوجس سےشفایابی کی امید ہو۔
👈 (2) دائمی عجز وبےبسی ، جس کے ختم ہونے کی امید نہ ہو۔جیسے کوئی ایسی بیماری جس سے شفا یابی کی امیدنہ ہو۔مثلاً کینسر کا مرض اور پیرانہ سالی۔اسلیےکہ پیرانہ سالی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ،کیونکہ سن رسیدہ شخص کاپھر جوان ہونا ممکن نہیں ہے۔اس قسم کی عجز وبےبسی میں آدمی پر روزہ واجب نہیں ہے۔اس لیے کہ وہ اسکی طاقت سے باہر ہے۔لیکن اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر دن کےبدلے ایک مسکین کوکھانا کھلائے۔اگر مہینہ انتیس دن کا ہے تو انتیس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔اور مہینہ تیس دن ہونےکی صورت میں تیس مسکینوں کوکھانا کھلائے گا۔کھانا کھلانے کی دو صورتیں ہیں :
👈 (1) پہلی صورت یہ ہے کہ ماہ رمضان کے دنوں کی تعداد میں مہینہ کے آخر میں مساکین کو دعوت دےاور انہیں دوپہر یا شام کا کھانا کھلائے۔
👈 (2) دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں اناج اور گوشت دیدے ،اناج کےساتھ سالن بھی ہو ،اور اس اناج کی مقدار ایک چوتھائی صاع (٤/١ صاع ) ہے کیونکہ صاع عہد نبوی میں چار مد کا ہوتا تھا اور صاع کا تعین کیا گیا تو اسکی مقدار دو کلو چالیس گرام پہنچی۔ اس طرح ہرمسکین کو آدھا کلو اور دس گرام ( یعنی پانچ سو دس گرام ) کھانا دیا جائے گا۔یہی واجب مقدار ہےلیکن احتیاط کےطورپرانسان اس سے زیادہ دیدے تو کوئی حرج نہیں۔
عجز کی دوسری قسم وقتی عجز ہے ۔جسکے زائل ہونے کی امید ہوتی ہے۔جیسےعام بیماریاں زکام اور بخار وغیرہ۔ایسی صورت میں اس پر واجب ہے کہ جن دنوں کا اس نےروزہ نہیں رکھا ،اتنے دنوں کی قضا کرے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے
فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۵﴾
تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار
ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔(سورة البقرہ )
اگرایسےمریض پر روشہ شاق گزرے تو اس سے کہا جائے گا کہ روزہ توڑ دے اور بعد میں اسکی قضا کر لے ۔
🌟 پانچویں شرط : اقامت (مقیم ہونا )
اسکی ضد سفرہے(یعنی سفر میں ہونا ) ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ﴿۱۸۵﴾
تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار
ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔
(سورة البقرہ )
اس آیت کے مطابق مسافرکےلیے افضل کام وہی ہےجواس کےحق میں آسان تر ہو۔اگر اس کے حق میں روزہ توڑنا آسان راہ ہے تو وہ روزہ توڑ دے۔اور اگرروزہ رکھنا اور توڑنا مساوی حیثیت رکھتےہوں تو راجح مسلک یہی ہےکہ روزہ رکھنا افضل ہے کیونکہ یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپؐ روزہ رکھتےتھے اور جب آپؐ سےیہ کہا گیا کہ لوگوں پرروزہ شاق گزررہاہے اور وہ آپؐ کےفعل کاانتظار کررہےہیں ، تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔مسافر کا روزہ نہ رکھنا اور رکھنا اگراس کےلیے برابرہوں تو اسکا روزہ رکھ لینا اس لیے بھی افضل ہے،کیونکہ دیکھنےمیں یہ بات آتی ہے کہ جب انسان پر کسی چیز کی قضا واجب ہوتی ہے تواسکےلیےیہ قضا دشوارگزارہو جاتی ہے۔
یہاں ایک بہت اہم سوال پیداہوتا ہے کہ اگرآدمی عمرہ کرنے کےلیے آئے اور مکہ میں ہو تو کیا وہ روزہ چھوڑ دے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جب (معتمر) سفرمیں ہو ،اور سفر میں ہی ہے ،تواسکے لیےروزہ توڑنا(نہ رکھنا) جائز ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسن ٨ ہجری میں مکہ فتح کیا ،انیس یا بیس رمضان کومکہ میں داخل ہوئے۔اور مہینے کا باقی حصہ وہیں گزارا اور روزہ نہیں رکھا۔جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ نبی اکرمؐ نے باقی مہینہ روزہ نہیں رکھا اور مکہ میں انیس دن گزارےاور نماز قصر کرتے رہے۔اسی لیے ہم مکہ میں ایسے لوگوں کو پاتے ہیں جن پرعمرے کی ادائیگی کی وجہ سے روزہ بہت شاق گزرتا ہے۔یہاں تک کہ بعض لوگوں کوبےہوش ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔لہٰذاایسےشخص کو روزہ توڑ دینا ہی بہتر ہے،کیونکہ وہ سفر میں ہے۔
اب یہاں دوسراسوال پیداہوتا ہے کہ کیا یہ افضل ہے کہ آدمی جب دن میں مکہ پہنچے توروزے کی حالت میں باقی رہے اور عمرہ کو رات تک کےلیے مئوخر کردے؟ یایہ افضل ہےکہ روزہ توڑ دے تاکہ پہنچتے ہی دن میں عمرہ ادا کرلے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ افضل دوسری صورت ہے ،یعنے روزہ توڑ دے تاکہ عمرہ کی ادائیگی جلد کرسکے کیونکہ اس کا مکہ آنے کا مقصود اصلی عمرہ ہی ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ہی کے لیے جلدی کرتے تھے،یہاں تک کہ اپنی اونٹنی (سواری) کو مسجد کے دروازے پرہی بٹھادیتےاور عمرہ کی ادائیگی کےلیے مسجد میں داخل ہو جاتے۔
🌟 چھٹی شرط : موانع سے خالی ہونا
یہ شرط عورت کےساتھ خاص ہے۔یعنی وہ حیض ونفاس کی حالت میں نہ ہو ۔کیونکہ حیض ونفاس روزے کی صحت سے مانع ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کے لیے فرمایا
الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم
کیا ایسی بات نہیں کہ جب عورت حالت حیض میں ہوتی ہےتونہ نمازپڑھتی ہےنہ روزہ رکھتی ہے۔
اور تمام مسلمانوں کااجماع ہے کہ حائضہ عورت کا روزہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ اس پر روزہ رکھنا حرام ہے۔اور یہی حکم نفاس والی عورت کے بارے میں بھی ہے۔
ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
والسلامُ علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
شیخ محمّد بن صالح العثیمین رحمة اللہ
روزہ اور اعتکاف کےاحکام ومسائل
No comments:
Post a Comment