find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Masjid Se Alag Kamre Me Itikaf Kiya Ja Sakta Hai

Kya Masjid Se Alag Kamre Me Itikaf Kiya Ja Sakta Hai

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 مسجد سے عليحدہ كمرہ ميں اعتكاف كرنے كا حكم
اعتكاف يہ ہے كہ اللہ كى اطاعت كے ليے مسجد كا التزام كيا جائے، اور يہ صرف مساجد كے ساتھ خاص ہے، اور كسى جگہ اعتكاف كرنا صحيح نہيں ہوگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر مرد اعتكاف كرنا چاہے تو يہ مسجد كے علاوہ كہيں صحيح نہيں گا، ہمارے علم كے مطابق اس ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
{ اور تم ان عورتوں سے مباشرت نہ كرو اس حال ميں كہ تم مساجد ميں اعتكاف كر رہے ہو }.
چنانچہ يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے مساجد كو ہى اعتكاف كے ليے خاص كيا ہے، اور اگر مساجد كے علاوہ كہيں دوسرى جگہ اعتكاف صحيح ہوتا تو اس ميں مباشرت كرنے كى حرمت كى تختيصيص نہ ہوتى؛ كيونكہ اعتكاف ميں تو مباشرت مطلفا حرام ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں رہتے ہوئے اپنا سر ميرى طرف كرتے تو ميں آپ كو كنگھى كيا كرتى تھى، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم جب اعتكاف ميں ہوتے تو بغير كسى ضرورت كے گھر ميں داخل نہيں ہوتے تھے "
اور دارقطنى ميں امام زہرى عن عروۃ و سعيد بن المسيب سے مروى ہے وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" اعتكاف كرنے والے شخص كے ليے سنت يہ ہے كہ وہ انسانى ضرورت كے بغير باہر نہ نكلے، اور جماعت والى مسجد كے علاوہ كہيں اعتكاف صحيح نہيں ہے "
ديكھيں: المغنى ( 3 / 65 ).
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ عليحدہ جگہ مسجد ميں شمار نہيں ہوتى اس ليے اس ميں اعتكاف كرنا صحيح نہيں ہوگا.
مسجد ميں كيا داخل ہوگا اس قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
1 ـ اگر كمرہ مسجد سے متصل تيار كيا گيا ہو اور اس ليے بنايا گيا ہو كہ يہ مسجد ہو، يعنى مسجد كو تيار كرنے والے شخص كى نيت ہو كہ يہ كمرہ مسجد كا حصہ ہو جہاں نماز كى جائے، تو اسے مسجد كے احكام ديے جائينگے، اس طرح اس ميں اعتكاف كرنا جائز ہوگا، اور وہاں حائضہ اور نفاس والى عورت نہيں جائيگا.
ليكن اگر يہ نيت ہو كہ يہ كمرہ تعليم وغيرہ كے ليے يا پھر ميٹنگ وغيرہ كے ليے استعمال كيا جائے، يا پھر امام يا مؤذن كى رہائش كے ليے ہو تو يہ نماز كى جگہ نہيں، اس ليے اس وقت يہ مسجد كے حكم ميں نہيں ہوگا.
2 ـ اور اگر مسجد كے بانى كى نيت كا علم نہ ہو، تو پھر اصل يہى ہے كہ جو مسجد كى چارديوارى ميں ہو اور اس كا مسجد ميں دروازہ ہو تو اسے مسجد كا حكم حاصل ہوگا.
🌏 روزہ اور اعتکاف کے اجماعی مسائل : ⬇
◈ اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔
◈ اجماع ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے۔
◈ اجماع ہے کہ روزہ دار کو بے اختیار قے آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
◈ اجماع ہے کہ جو روزہ دار قصدا قے کرے اس کا روزہ باطل ہے۔
◈ اجماع ہے کہ روزہ دار (اپنی) رال اور (اپنا) تھوک نگل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
◈ اجماع ہے کہ عورت کو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں اور درمیان میں ایام شروع ہو جائیں تو پاکی کے بعد پچھلے روزہ پر بنا کرے گی۔
◈ اجماع ہے کہ ادھیڑ عمر، بوڑھے جو روزہ کی استطاعت نہیں رکھتے روزہ نہیں رکھیں گے (بلکہ فدیہ ادا کریں گے)۔
◈ اجماع ہے کہ اعتکاف لوگوں پر فرض نہیں، ہاں اگر کوئی اپنے اوپر لازم کر لے تو اس پر واجب ہے۔
◈ اجماع ہے کہ اعتکاف مسجد حرام، مسجد رسول، اور بیت المقدس میں جائز ہے۔
[ ان تینوں مساجد میں بالاتفاق اعتکاف جائز ہے ان کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف اگرچہ اختلافی مسئلہ ہے لیکن راجح یہی ہے کہ تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے۔]
◈ اجماع ہے کہ معتکف اعتکاف گاہ سے پیشاب، پاخانہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔
◈ اجماع ہے کہ معتکف کے لئے مباشرت (بیوی سے بوس و کنار) ممنوع ہے۔
◈ اجماع ہے کہ معتکف نے اپنی بیوی سے عمداً حقیقی مجامعت کر لی تو اس نے اعتکاف فاسد کر دیا۔ [الاجماع لابن المنذر ص 47، 48]
🌏 کیا عورت گھر میں اعتکاف کرسکتی ہے ؟
علماء کرام اس پرمتفق ہیں کہ مرد کا مسجد کے علاوہ کہیں اوراعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 187 ) ۔
مندرجہ بالاآیت میں اعتکاف کومسجد کےساتھ خاص کیا گیا ہے لھذا یہ ثابت ہوا کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا صحیح نہيں ہوگا ۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 4 / 461 ) ۔
عورت کے بارہ میں جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے مرد کی طرح عورت کا اعتکاف بھی مسجد کے علاوہ کسی جگہ صحیح نہیں ، جس کی دلیل بھی مندرجہ بالا آیت ہے :
{ اورعورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 187 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجدمیں اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں اجازت دے دی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔
اوراگر عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی راہنمائي فرماتے کیونکہ مسجدمیں جانے سے اس کے اپنے گھرمیں پردہ زيادہ ہے ، اس کے باوجود آپ نے مسجد میں ہی اعتکاف کی اجازت دی ۔
بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ : عورت گھرمیں اپنی نماز والی جگہ پر اعتکاف کرسکتی ہے ، لیکن جمہور علماء کرام نے ایسا کرنے سے منع کرتےہوئے کہا ہے :
اس کے گھرمیں نماز والی جگہ کو مسجد نہيں کہا جاسکتا صرف مجازی طورپر اسے مسجد کا نام دیا جاسکتا اورحقیقتا وہ مسجد کانام حاصل نہیں کرسکتی اس لیے اس کے احکام بھی مسجد والے نہیں ہونگے ، اسی لیے وہاں یعنی گھرمیں نماز والی جگہ پر جنبی اورحائضہ عورت داخل ہوسکتی ہے ۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 464 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہيں :
عورت اورمرد کا مسجد کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ، نہ توعورت کا گھرکی مسجد میں اورنہ ہی مرد کا اپنی گھرمیں نمازوالی جگہ پر اعتکاف کرنا صحیح ہے ، یعنی اس جگہ جو گھر کے ایک کونے میں نماز کے لیے تیار کی گئي ہو اسے گھرکی مسجد کہا جاتا ہے ۔
دیکھیں المجموع ( 6 / 505 ) ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال پوچھا گيا :
اگرعورت اعتکاف کرنا چاہے تو وہ کس جگہ اعتکاف کرے گی ❓
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب کوئي عورت اعتکاف کرنا چاہے تو اگر اس میں کوئي شرعی محذور نہ پایاجائے تووہ مسجد میں اعتکاف کرے گی ، اوراگراس میں کوئي شرعی محذور ہوتو پھر عورت اعتکاف نہیں کرے گی ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع الفتاوی ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی ( 20 / 264 )
اورالموسوعیۃ الفقھیۃ میں ہے کہ :
عورت کے اعتکاف کی جگہ میں اختلاف ہے ، جمہورعلماء کرام اسے مرد کی طرح قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی عورت کا اعتکاف صحیح نہیں ، تواس بنا پر عورت کا اپنے گھرمیں اعتکاف کرنا صحیح نہیں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے جب عورت کا اپنے گھرکی مسجدمیں اعتکاف کے بارہ میں سوال کیا گيا تووہ کہنے لگے :
گھرمیں عورت کا اعتکاف کرنا بدعت ہے ، اوراللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں ، اس لیے نماز باجماعت والی مسجد کےعلاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ گھرمیں نمازوالی جگہ نہ تو حقیقتا مسجد ہے اورنہ ہی حکما اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز ہے ، اوراگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس پر عمل پیرا ہوتیں ، اس کے جواز کے لیے اگرچہ وہ ایک بارہی عمل کرتیں ۔ا ھـ
دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 5 / 212 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
علامہ نووی ؒ (أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)
شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں :
وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ الِاعْتِكَافَ لَا يَصِحُّ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجَهُ وَأَصْحَابَهُ إِنَّمَا اعْتَكَفُوا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ الْمَشَقَّةِ فِي مُلَازَمَتِهِ فَلَوْ جَازَ فِي الْبَيْتِ لفعلوه ولو مرة لاسيما النِّسَاءُ لِأَنَّ حَاجَتَهُنَّ إِلَيْهِ فِي الْبُيُوتِ أَكْثَرُ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مِنَ اخْتِصَاصِهِ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَّهُ لَا يَصِحُّ فِي غَيْرِهِ هُوَ مَذْهَبُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَدَاوُدَ وَالْجُمْهُورِ سَوَاءٌ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يَصِحُّ اعْتِكَافُ الْمَرْأَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَهُوَ الْمَوْضِعُ الْمُهَيَّأُ مِنْ بَيْتِهَا لِصَلَاتِهَا ‘‘
ان احادیث ( جو صحیح مسلم کے باب الاعتکاف میں وارد ہیں )سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں صحیح ہوگا ،کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ اور انکی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ؓ نے مسجد میں ہی اعتکاف کیا ہے؛ باوجود اس مشقت کے جو مسجد میں اپنے آپ کو پابند کرنے میں تھی تو اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا ،تو یقیناً
وہ گھر میں کرتے ۔
خاص کر ازواج مطہرات تو جواز کی صورت میں اپنے گھروں میں اعتکاف کرتیں ،کیونکہ انکی ضروریات اپنے گھر سے وابستہ ہیں؛
اور یہ اعتکاف کا مسجد سے خاص ہونا،مسجد کے علاوہ کہیں اور نہ ہونا ۔۔جو ہم نے بیان کیا،یہ امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد ،امام داود ظاہری۔۔اور جمہور کا قول و مذہب ہے
کہ اعتکاف کرنے والا مرد ہو یا عورت اعتکاف صرف مسجد میں شرعاً صحیح ہوگا ؛
۔|
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
🌍 فقہ حنفی اور عورت کا اعتکاف :⬇
اس مسئلہ میں سب سے مختلف مذہب ابو حنیفہ کا ہے جو فرماتے ہیں کہ:کہ عورت اپنے گھر ،نماز پڑھنے والی جگہ پر ہی اعتکاف کر سکتی ہے ، حالانکہ فقہ حنفی کے علماء سے عورت کا اعتکاف مسجد میں ثابت ہے ۔
فتح القدیر کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں؛
( قَوْلُهُ أَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَعْتَكِفُ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا ) أَيْ الْأَفْضَلُ ذَلِكَ ، وَلَوْ اعْتَكَفَتْ فِي الْجَامِعِ أَوْ فِي مَسْجِدِ حَيِّهَا وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ الْجَامِعِ فِي حَقِّهَا جَازَ
ابن حمام رحمۃ اللہ علیہ افضلیت کی ترتیب بتا رہے ہیں کہ عورت کے لئے گھر کی مسجد میں اعتکاف بہتر ہے پھر محلہ کی مسجد میں پھر ۔۔۔۔عورت کی نماز کی ترتیب کے لحاظ سے جو احادیث سے ثابت ہے۔
وہ فقہ حنفی نہیں بتا رہے۔ فقہ حنفی میں تو یہی ہے کہ ”أَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَعْتَكِفُ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا“ اگر عورت اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی گھر کی مسجد میں کرے۔
برصغیر کے حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکهتے ہیں :
لو اعتکفت فی مسجد جماعة فی خباء ضرب لها فيه ، لا بأس به ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی الله علیه وسلم فی عهدہ کما ثبت فی صحيح البخارى ۔
''اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔''
(عمدۃ الرعایۃ : ١/٢٥٥)
🌏 اعتکاف کرنے والے کامسجد سے نکلنا ⬇
اعتکاف کرنے والے کا مسجدسے نکلنا صحیح نہیں کیونکہ مسجد سے خروج کی وجہ سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، کیونکہ مسجدمیں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے ٹھرنے کا نام ہی اعتکاف ہے ۔
لیکن جب کوئي ضرورت ہوتو مسجد سے نکلا جاسکتا ہے مثلا قضائے حاجت ، وضوء ، غسل ، اوراگرکوئي کھانا لانے والا نہ ہوتو کھانے لانے کے لیے نکلنا جائز ہے اوراسی طرح دوسرے امور جن کے بغیر کوئي چارہ نہیں اوروہ مسجد میں سرانجام نہیں دیے جاسکتے ۔
امام بخاری اور امام مسلم نے عا‏‏ئشہ رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ :
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو گھرمیں قضائے حاجت کے بغیر داخل نہيں ہوتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2092 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 297 )
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی المغنی میں کہتے ہیں :
حاجۃ الانسان سے بول براز مراد ہے اوریہ الفاظ ان دونوں سے کنایۃ بولے گئے ہیں ، کیونکہ ہر انسان قضائے حاجت کا محتاج ہے ، اوراسی کے معنی میں کھانا پینا بھی آتا ہے کہ اگر کھانا لانے والا کوئي نہ ہو تو وہ مسجدسے نکل کر کھانا لاسکتا ہے ۔
اورہر وہ چيز جس کے بغیر کوئي چارہ نہ ہو اس کے لیے بھی مسجد سے نکلا جاسکتا ہے ، اس سے اعتکاف فاسد نہيں ہوگا اورجب تک وہ اس میں طویل عرصہ صرف نہيں کرتا اعتکاف صحیح ہے ۔ ا ھـ
اورملازمت یا کام پر جانے کے لیے مسجد سے نکلنا اعتکاف کے منافی ہے اس سے اعتکاف صحیح نہیں رہتا ۔
مستقل فتوی کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ سے مندجہ ذیل سوال کیا گيا :
کیا اعتکاف کرنے والے کے لیے مریض کی عیادت کے لیے جانا یا دعوت قبول کرکے مسجد سے نکلنا یا گھرکی ضروریات پوری کرنا یا جنازہ کے ساتھ جانا یا کام پر جانا جائز ہے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
اعتکاف کرنے والے کےلیے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف نہ تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اورنہ ہی کسی کی دعوت کھانے مسجد سے باہر جائے ، اور نہ ہی اپنی گھریلوضروریات پوری کرنے کے لیے مسجدسے نکلے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے اوراسی طرح ڈیوٹی پرجانےکےلیے مسجد سے باہر نہ نکلے کیونکہ حدیث میں ہے کہ :
عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے ، اورنہ عورت کو چھو‎‎‎ئے اورنہ ہی اس سے مباشرت کرے ، اور نہ ہی کسی کام کے لیے نکلے ، لیکن جس کام کے بغیر گزارہ نہ ہو وہ کرسکتا ہے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2473 ) ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 410 )
۔|
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
🌍 کتنے دن کا اعتکاف جائز ہے ❓⬇
اعتکاف کم از کم ایک رات کا بھی ہوسکتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ، قَالَ: «أَوْفِ بِنَذْرِكَ» سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اپنی نذر پوری کر لے'' صحیح البخاری: 6697
جب کوئي مسلمان شخص پورا عشرہ اعتکاف نہ کرسکے تواس کےلیے جائز ہے کہ اس کے لیے جتنے ایام بھی میسر ہوں اعتکاف کرے ، دو دن یا تین یا اس سے بھی زيادہ دن چاہے ایک ہی رات کا اعتکاف کرے یہ سب جائز ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مسجد میں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے رکنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ، چاہ وہ زيادہ مدت کے لیے ہو یا کم مدت کے لیے ، کیونکہ میرے علم کے مطابق اس کے بارہ میں کوئي حدیث وارد نہیں ، جس میں ایک یا دو دن یا اس سے زیادہ کی تحدید کی گئي ہو ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی الشيح ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 15 / 441 ) ۔
🌏 اختتامِ اعتکاف اور معتکف کے استقبال کی شرعئی حیثیت ⬇
آخری عشرہ چونکہ شوال کا چاند دیکھنے کے ساتھ یا رمضان کے تیس دن پورے ہونے کےساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اسکے ساتھ ہی اعتکاف بھی ختم ہو جاتا ہے ۔معتکف آخری عشرہ ختم ہوتے ہی اعتکاف ختم کر کے باہر آجائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مدینہ میں رہے ،رمضان المبارک میں اعتکاف فرماتے رہے ۔آپ کے بعد آپکی ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں ۔کتب حدیث میں کوئی حدیث تو دور کی بات ہے اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ اعتکاف سے فراغت کے بعد معتکف کو اعتکاف گاہ سے پروٹوکول کے ساتھ نکالا جائے ، اسکے گلے میں ہار پہنائے جائیں اور جلوس کی شکل میں اسے گھر پہنچایا جائے۔شنید ہےکہ بعض مقامات پر معتکف حضرات کی یادگاری کےطور پر تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں۔
دین اسلام میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اعتکاف کا مقصد دل کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ اوراسکے ذریعہ سکون وطمانیت کا حصول ہے ،معتکف کو گناہوں سے نفرت اور امورِ خیر سے محبت ہو ۔اگر دورانِ اعتکاف یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو ایسے انسان کو بالکل ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ گلے میں پھولوں کے ہار پہنے یا لوگوں کی مبارک باد اور داد وصول کرے۔بلکہ اسے چاہیے کہ فراغتِ اعتکاف کے بعد خاموشی سے اپنا بسترکندھے پررکھے اور سادگی کے ساتھ گھر روانہ ہو جائے ۔گلے میں ہار پہنانے اورمبارک باد وتصاویر بنانے سے ریاکاری اور نمائش کا اندیشہ ہوتا ہے ۔جس سے اعتکاف کا اجر و ثواب جاتے رہنے کا احتمال ہے ۔پھر اس طرح کے کام اسلاف سے بھی ثابت نہیں ہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS