find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Itikaf Ka kya Meaning Hai, Itikaf Kab Karna Chahiye

Itikaf Ka kya Meaning Hai, ItikafKab Karna Chahiye

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌍 اعتکاف :⬇
عبادت کی نیت سے مسجد میں گوشہ نشین ہونا اعتکاف کہلاتا ہے، رمضان کے پورے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
اعتکاف عکوف سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی کسی جگہ بیٹھ جا نا ہے۔ لیکن اصطلاحِ شرع میں کسی شخص کا ایک خاص مدت کے لئے مخصوص صفت کے ساتھ مسجد کے ایک گوشہ میں اقامت گزین ہونا اور خلوت و تنہائی میں اللہ کی عبادت یعنی نوافل، تلاوتِ قرآن و حدیث، ذکر و اذکار کے لئے وقف ہو جانا ہے۔ ملاحظہ کیجئے طرح التثریب ۴/۱۶۶ مفر دات القرآن ص ۳۴۳، شرح مسلم للنووی۷/۶۶۔یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت مؤکدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال کسی سفر کی بنا پر اعتکاف چھوٹ گیا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے:
(( عن عبد اللہ بن عمر قال کان النبی صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان .))
اور لغوی اعتبار سےاعتکاف کا معنی کسی چیز پر جم کر بیٹھ جانا اور نفس کو اسکے ساتھ لگائے رکھنا ہے۔اور شرعئی اعتبارسےتمام دنیاوی معاملات ترک کرکے عبادت کی نیت سےاللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی خاطرمسجد میں ٹھہرنےکا نام اعتکاف ہے۔
اعتکاف میں بیٹھنے والےکو ” مُعۡتَکِفۡ “ کہتے ہیں اورجائے اعتکاف کو ” مُعۡتَکَفۡ “ کہا جاتا ہے۔اعتکاف سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شوّال کےمہینے کا اعتکاف بھی ثابت ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی عشرے کا بھی اعتکاف کیا ہے لیکن افضل آخری عشرے کا اعتکاف ہے اسلیے کہ نبی کریمؐ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے جا ملے ۔سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں
” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرےکا اعتکاف کرتے تھے
حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت کردیا ۔ پھر آپؐ کے
بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں ۔“
( بخاری ، ابواب الاعتکاف ، باب الاعتکاف فی العشر الآخر ، ٢٠٢٦ )
جو شخص رمضان کے آخری دہے میں اعتکاف کرنا چاہتا ہو اسے بیسویں رمضان کو دن کے آخری حصے میں آفتاب غروب ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جانا چاہئے اور اکیسویں تاریخ کی رات مسجد میں گزارنی چاہئے، مرد، عورتیں، نابالغ بچے بھی اعتکاف کر سکتے ہیں، لیکن عورتوں کو شوہر کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔'' (بخاری۱۲۷۱)
(( عن أبى بن كعب أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف الأواخر من رمضان فسافر عاما فلم يعكتف فلما كان العام المقبل اعتكف عشرين .))
''سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا ، اعتکاف نہ کیا تو آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔'' (نسائی، ابو دائود، ابن حبان، فتح الباری۱/۳۳۲)
مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا جائے البتہ اس سے کم وقت یعنی ایک دن یا رات وغیرہ کے لئے اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروہی ہے:
(( أن عمر سأل النبى صلى الله عليه وسلم قال كنت نذرت فى الجاهلية أن أعتكف ليلة فى المسجد الحرام فقال فأوف بنذرك.))
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی نذر پوری کر۔ ''(بخاری۱/۲۷۲)
یہی حدیث امام ابنِ ماجہ رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں باب فی اعتکاف یوم اولیلة (یعنی ایک دن یا رات کا اعتکاف کرنا ) میں لائے ہیں۔ (۱/۵۲۳۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دن رات یا کچھ حصے کی نذر مان لیتا ہے کہ میں اتنا وقت اعتکاف کروں گا تو اسے نذر پوری کرنی چاہیے۔
علاوہ ازیں رمضان کے مہینے کے علاوہ بھی دیگر مہینوں میں اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری۴/۲۲۶، مسلم۱۱۳۷)
شرائط: اعتکاف مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مشروع و جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ... ١٨٧﴾... البقرۃ
''اور تم ان سے مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہو۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہی بات شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:
(( السنة لا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا فى مسجد جامع ))
''سنت یہ ہے کہ اعتکاف روزہ کی ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہے''۔ (ابو دائود ۱/۳۳۵)
عورت اگر اعتکاف میں بیٹھنا چاہے تو وہ بھی مسجد میں ہی اعتکاف کر سکتی ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا بھی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ فضربت فیہ قبۃانہوں نے مسجد میں خیمہ لگایا۔ (بخاری۱/۷۲۳)
سیدہ عائشہ رضٰ اللہ عنھا کا فرمان اوپر گزر چکا ہے کہ اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے اس لئے اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو مسجد میں ہی اس کا انتظام کرنا پڑے گا البتہ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث:
''کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا نے اعتکاف کیا '' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" و فيه دليل جواز اعتكاف النساء ولا شك ان ذلك مقيد بإذن أليائهن لذلك و امن الفتنة و الخلوة مع الرجال للأدلة الكثيرة فى ذلك والقاعدة الفقهية درء المفاسد مقدم على جلب المصالح صفة صوم النبى صلى الله عليه وسلم ."
''اس حدیث میں عورتوں کے اعتکاف پر جواز کی دلیل ہے اور بلا شبہ یہ بات عورتوں کے ولیوں کی اجازت، فتنہ اور مردوں کے ساتھ خلوت سے بچائو کے ساتھ مقید (مشروط) ہے۔''یعنی فسادات اور فتنہ کا اگر خدشہ ہو تو پھر ان سے اجتناب کرنا اوربچنا یہ مصلحتوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔
۔|
آپ کے مسائل اور ان کا حل​/ج 1
🌍 کیا اعتکاف واجب ہے ❓⬇
اعتکاف میں اصل تویہ ہے کہ اعتکاف کرنا واجب نہيں بلکہ سنت ہے ، لیکن جب کوئي اعتکاف کی نذر مانے تویہ واجب ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی نذر مانی اسے اطاعت کرنی چاہیے ، اورجس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6696 ) ۔
اور اس لیے بھی کہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا : اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دور جاہلیت میں مسجد حرام کے اندر ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6697 ) ۔
اورابن منذر نے اپنی کتاب " الاجماع " میں کہا ہے :
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ اعتکاف کرنا سنت ہے ، لوگوں پر واجب وفرض نہیں ، لیکن اگر کوئي نذر مان کر اپنے آپ پر واجب کرلے تواس پرواجب ہوجائے گا ۔ اھـ
دیکھیں الاجماع لابن المنذر ( 53 ) ۔
دیکھیں کتاب " فقہ الاعتکاف ، تالیف ڈاکٹر خالد المشیقع صفحہ نمبر ( 31 ) ۔
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
🌏 کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟​ ⬇
تمام عملوں کا دارومدار نیت پرہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ:تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اعتکاف کے لئے بھی نیت کرنی چاہئے اور نیت بھی خالص ہونی چاہئے جو ریاونمود سے پاک ہو۔ کچھ لوگ اعتکاف کی نیت کے لئے زبان سے مخصوص الفاظ بولتے ہیں ، وہ اس طرح کے ہوتے ہیں ۔
1- نویت سنۃ الاعتکاف(میں نے مسنون اعتکاف کی نیت کی)۔
2- ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺩﺧﻠﺖ ﻭ ﻋﻠﻴﻪ ﺗﻮﻛﻠﺖ ﻭ ﻧﻮﻳﺖ ﺳﻨﺔ ﺍﻻﻋﺘﻜﺎﻑ( اللہ کے نام سے داخل ہوا اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں اور سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں )۔
اس قسم کے الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں وارد نہیں ہے ، انہیں لوگوں نے اپنے من سے گھڑکر عوام میں پھیلا دیا ہے ۔ جیساکہ میں نے اوپر حدیث بیان کی کہ تمام عملوں کا دارومدار نیت پر ہے اس حدیث کے لحاظ سے ہرعمل کے لئے نیت کرنی چاہئے اور نیت خالص ہونی چاہئے تاکہ اللہ کی طرف سے درجہ قبولیت عطا ہو۔ یہاں جاننا یہ ہے کہ جب ہرعمل کے لئے نیت کرنےکا حکم ہے تو نیت کس چیز کا نام ہے ؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں نیت کے متعلق ذکر کرتے ہیں :
النية هي القصد والإرادة والقصد والإرادة محلهما القلب دون اللسان باتفاق العقلاء۔
ترجمہ: نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں ،اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔
آگے لکھتے ہیں :
فلو نوى بقلبه صحت نيته عند الأئمة الأربعة وسائر أئمة المسلمين من الأولين والآخرين۔
ترجمہ: اگر کسی نے دل سے نیت کرلی تو اس کی نیت چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل) اور مسلمانوں کے اگلے پچھلے تمام اماموں کے نزدیک صحیح ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ، نیت کے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت بقیہ تینوں ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے، اس لئے جو لوگ نماز کے لئے روزہ اوراعتکاف کے لئے مخصوص الفاظ میں زبان سے بول کر نیت کرتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ،اس بدعت سے بچنا چاہئے کیونکہ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کے فرامین ہیں :
(1)من عملَ عملا ليسَ عليهِ أمرُنا فهو ردٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ: جس نے ایسا عمل کیا جو میرا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے ۔
(2)إنَّ أصدقَ الحديثِ كتابُ اللَّهِ ، وأحسنَ الْهديِ هديُ محمَّدٍ وشرَّ الأمورِ محدثاتُها وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ (صحيح النسائي:1577)
ترجمہ: یقینا سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے،کاموں میں سے بد ترین کام وہ ہیں جنہیں ایجاد کرلیا گایا ہو اور ہرنو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
نبی ﷺ کے فرامین کی روشنی میں ذرا اندازہ لگائیں کہ دین میں نیا کام ایجاد کرنا کتنا بھیانک ہےاور اس کی سزا کس قدر خطرناک ہے؟ ۔
سمجھنے کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت ہونی چاہئے اور شریعت میں لاکھوں ،کروڑوں اعمال ہیں ، کس کی مجال ہے کہ ہر عمل کے لئے مخصوص الفاظ گھڑے ؟ اور کس کی مجال ہے کہ ہرعمل کے لئے نیت کے مخصوص الفاظ یاد کرے اور عمل کرنے سے پہلے اسے پڑھے ؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور دین کے نام سے بدعت گھڑنے یا بدعت پر عمل کرنے سے بچائے ۔ آمین
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
🌏 مستحبات ، ممنوعات اور مباحاتِ اعتکاف
🌟 مستحبات اعتکاف
اس پراجماع ہےکہ اعتکاف کےدوران نفل نماز ،تلاوت کلام پاک اورامام ابواللہ کا ذکر کرنے میں مستغرق ومنہمک رہنا مستحب ہے۔امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک اعتکاف کے دوران حدیث و فقہ کی کتب پڑھنا مستحب ہے۔جبکہ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک حدیث و فقہ کی کتابوں کے پڑھنے میں مشغولیت مستحب نہیں ہے۔کیونکہ اعتکاف کا مقصداللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا اور لو لگائے رکھنا ہے۔لہٰذا ہر وہ چیزجس سے اس میں کمی آ جائے مستحب نہیں ہے۔( دیکھیے الفتح الربانی ٢٥٥٬٢٥٤/١٠ )
🌟 ممنوعاتِ اعتکاف
(1) جماع
(البقرہ ١٨٧ ۔ ابن ابی شیبہ ٢٩/٣ ۔عبدالرزاق ٣٦٣/٤ )
(2) بیمار پرسی کو نہ جائے
(3) جنازے میں شریک نہ ہو
(4) ضروری حاجت کے بغیر نہ نکلے
( ابو داؤد ٢٤٧٣ ۔ بیہقی ٣١٧/٤ )
🌟 مباحاتِ اعتکاف
(1) حاجات ضروریہ کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے ۔
(بخاری ،باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد ،ص ٤٠٠ )
(2) مسجد میں خیمہ لگانا
( بخاری ،باب الاخبیة فی المسجد ،ص ٤٠٠ )
(3) اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کرنے مسجد میں آسکتی ہے۔اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں یا رات زیادہ ہونے یا کسی دوسرے خطرے کی بنا پربیوی کو گھرچھوڑنے جا سکتا ہے ۔
(بخاری ،باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد ،ص ٤٠٠ )
(4) استحاضہ والی عورت اعتکاف کر سکتی ہے ۔
( بخاری باب اعتکاف المستحاضہ ، ص ٤٠١ )
(5) معتک مسجد سے اپنا سر باہر نکال سکتا ہے اور اسکی بیوی حالت حیض میں بھی ہو تواس کو کنگھی کرسکتی ہے ۔اوراس کا
سر بھی دھو سکتی ہے ۔
( بخاری ، ٢٠٣١٬٢٠٢٨)
🌏 اعتکاف گاہ میں کب داخل ہوں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پہلے عشرے میں صحابہ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے ، پہلا عشرہ گز ر گیا تو جبریل نے بتایا کہ لیلۃ القدر تو ابھی آگے ہے، نبی کریمﷺدوسرے عشرے میں بھی بیٹھ گئے، بیسیویں روزے کی صبح صحابہ اپنے گھروں میں چلے گئے، بخاری(813) میں ہے کہ:
فقام النبي صلى الله عليه وسلم [ص:163] خطيبا صبيحةعشرين من رمضان فقال: «من كان اعتكف مع النبي صلى الله عليه وسلم، فليرجع، فإني أريت ليلة القدر، وإني نسيتها، وإنها في العشر الأواخر، في وتر۔۔۔
''نبی کریمﷺبیسیویں روزے کی صبح خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، فرمایا: جنہوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ معتکف میں واپس آجائیں، مجھے لیلۃالقدر دکھائی گئی ، لیکن پھر بھلا دی گئی، لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔۔۔''
بخاری (2041) میں ہے کہ نبی کریمﷺ نماز فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں جاتے تھے ۔
ان دوروایات کو ملا کر بعض احباب نے یہ استدلال کیا کہ اعتکاف بیسیویں کی صبح کوبیٹھا جائے، نبی کریمﷺنے چوں کہ بیسیویں کی صبح کو اعلان کیا کہ اعتکاف کو لوٹ آئیں، پھر دوسری روایت میں ہے کہ آپ صبح کو اعتکاف گاہ میں داخل ہوتے لہذا اعتکاف بیسیویں روزے کی صبح ہی بیٹھ جانا چاہئے۔
استدلال کی کمزوری:
یہ استدلال کمزور ہے۔
صحیح بخاری (2027)ہی کی روایت ہے کہ :
حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه، قال: «من كان اعتكف معي، فليعتكف العشر الأواخر۔۔۔
''جب اکیسیویں رات ہوئی ،وہی رات جس کی صبح آپ نے اعتکاف ختم کیا تھا، آپﷺ نے فرمایا: جنہوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ آخری عشرے کو بھی اعتکاف کریں۔''
معلوم ہوا کہ بیسیویں روزے کی رات کو آپﷺاعتکاف بیٹھے تھے۔
روایات کا درست مفہوم :
ان تینوں روایات کا معنی یہ ہوگا کہ نبی کریمﷺ نے خطبہ بیسیویں کی صبح کو دیا تھا اور اعتکاف میں بیٹھنے کا حکم بھی دیا تھا،اس حکم سے مراد ، رات کو بیٹھنا تھا ، کیوں کہ نبی کریمﷺرات ہی کو بیٹھے تھے۔
جیسا کہ اس روایت میں ذکر ہے ، اعتکاف گاہ میں اگلی صبح یعنی اکیسیویں کی صبح داخل ہوئے۔
دوسرے یہ کہ آخری عشرہ شروع بھی بیسیویں روزے کی رات یعنی اکیسیویں رات کو ہوتا ہے۔
اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی راجح ہے ۔ واللہ اعلم ​
شیخ الحدیث ، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
🌏 کیا اعتکاف کے لۓ روزہ شرط ہے ❓⬇
اعتکاف کیلئے روزہ شرط نہیں ؛ کیونکہ اس کی کوئی صحیح اور صریح شرعی دلیل نہیں،
روزہ اور اعتکاف مستقل علیحدہ ،علیحدہ دو عبادتیں ہیں ،اور ایک کو دوسری کیلئے شرط بنانے کی مستقل صریح دلیل موجود نہیں ،
قال ابن باز: (ولا يشترط أن يكون معه صومٌ على الصحيح فلو اعتكف الرجل أو المرأة وهما مفطران فلا بأس في غير رمضان) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 441). وقال أيضاً: (ولا يشترط له الصوم ولكن مع الصوم أفضل)
((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442)
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ ابن باز فرماتے ہیں :صحیح بات یہ ہے کہ اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ، لہذا اگر غیر رمضان کوئی مرد و عورت بغیر روزہ اعتکاف کرے تو درست ہے ،
قال ابن عثيمين: (القول الثاني: أنه لا يشترط له الصوم .. وهذا القول هو الصحيح) ((الشرح الممتع)) (6/ 507)
علامہ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں :اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ،صحیح قول یہی ہے "
🌏 کیا اعتکاف صرف اس مسجدمیں کیا جائے جہاں جمعہ منعقد ہوتا ہے ❓⬇
اس پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ کریم کا ارشاد ہے :
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} جب تم مساجد میں اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو "البقرہ 187 )
اور اس لئے بھی نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف کیا ،
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ " شرعاً اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ کچھ وقت کیلئے مسجد میں ٹھہرنا ، رکنا
شرعا: اللبث في المسجد على صفة مخصوصة بنية "
تو واضح ہے کہ مسجد میں مخصوص نیت سے کچھ وقت پابند ہونے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ،
اگر اس وقت کے دوران مسجد سے نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
لیکن چونکہ انسان کی کچھ ضرورتیں ایسی جن کے بغیر اس کا گزارہ مشکل ہے جیسے کھانا ،پینا اور حوائج ضروریہ تو ان کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے ،
جسمانی ضرورتوں کی طرح کچھ دینی ضرورتیں بھی ایسی ہیں جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ،مثلاً فرض نماز ،نماز جمعہ وغیرہ
اسی لئے علماء کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے ،تاہم افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے ؛
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز فرماتے ہیں :
وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك."
" اگر دوران اعتکاف جمعہ آتا ہو تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے "
اور
علامہ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں :(والأفضل أن يكون في المسجد الذي تقام فيه الجمعة، لئلا يحتاج إلى الخروج إليها )
(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين 20/ 157 )
یعنی افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے "
مزید لکھتے ہیں :
(فإن اعتكف في غيره فلا بأس أن يبكر إلى صلاة الجمعة )
اگر جامع مسجد اعتکاف نہ کرے ، تو جامع مسجد نماز جمعہ کیلئے جا سکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھی جاتی ،تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے
لیکن اگر اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
امام محی السنہ أبو محمد الحسين بن مسعود الفراء البغوي (المتوفى: 516 ھ ) فرماتے ہیں :
" أما الخروج للجمعة، فواجب عليه، لا يجوز له تركه.
واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قوم إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة.
وذهب بعضهم إلى أنه يبطل اعتكافه، وهو قول مالك، والشافعي، وإسحاق، وأبي ثور، قالوا: إذا كان اعتكافه أكثر من ستة أيام، يجب أن يعتكف في المسجد الجامع، لأنه إذا اعتكف في غيره يجب عليه الخروج لصلاة الجمعة، وفيه قطع لاعتكافه، فإن كان أقل من ذلك، أو كان المعتكف ممن لا جمعة عليه، اعتكف في أي مسجد شاء "
(شرح السنۃ ج6 ص401 )
یعنی :
نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے، جس کو ترک نہیں کیا جاسکتا ،
لیکن اگر (اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے ) نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
اس پر دو قول ہیں : ایک یہ اس نکلنے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ،امام سفیان الثوریؒ ،امام عبد اللہ بن مبارکؒ اور اہل رائے کا یہی قول کہنا ہے ، کیونکہ (نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکلنا ) جسمانی حوائج ضروریہ کی طرح (ایک حاجت ضروریہ ) ہی تو ہے ،
لیکن کچھ دیگر ائمہ و علماء کے کہنا ہے کہ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
امام مالکؒ امام شافعی ؒ ،امام اسحاق ؒاور امام ابو ثورؒ کا یہی قول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھ دن سے زائد کا اعتکاف کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے ، کیونکہ اگر جامع مسجد اعتکاف نہیں بیٹھے گا تو جمعہ کیلئے نکلنا ہوگا ، جس سے اعتکاف ختم ہوجائے گا ،
ہاں اگر چھ دن سے کم کا اعتکاف کرے ( اور ان چھ دنوں میں جمعہ نہ آتا ہو ) تو جس مسجد میں چاہے اعتکاف کرسکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ:
افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے ،
لیکن اگر جامع مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد جاسکتا ہے ، جس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جواز کی تفصیل درج ذیل ہے ،جو " الموسوعة الفقهية الدرر السنیہ ) سے ماخوذ ہے
من وجبت عليه الجمعة، وكانت تتخلَّل اعتكافه، فإنه لا يشترط لصحة استمرار الاعتكاف أن يكون اعتكافه في الجامع - وعليه أن يخرج لحضور الجمعة ثم يرجع إلى المسجد الذي يعتكف فيه - ولكنَّ الأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع، وهو قول الحنفية (7)، والحنابلة (8)، وقولٌ لبعض السلف (9)، وهو اختيار ابن العربي المالكي (10)، وابن باز (11)، وابن عثيمين (12).
الدليل:
عموم قوله تعالى: وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ [البقرة: 187]
فلفظ المساجد عامٌّ لجميع المساجد، وتخصيصه ببعض المساجد دون بعضٍ يحتاج إلى دليل.
وأما خروجه إلى الجمعة فهو ضرورةٌ من الضرورات، لا يبطل بها الاعتكاف.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ↪
حاشية:⤵
(7) ((المبسوط للسرخسي)) (3/ 108)، ((بدائع الصنائع للكاساني)) (2/ 114).
(8) ((الفروع لابن مفلح)) (5/ 140)، ((شرح منتهى الإرادات للبهوتي)) (1/ 501).
(9) قال البغوي: (أما الخروج للجمعة، فواجبٌ عليه، لا يجوز له تركه. واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قومٌ إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة) ((شرح السنة)) (6/ 401).
(10) قال ابن العربي: (إذا اعتكف في مسجدٍ لا جمعة فيه للجمعة، فمن علمائنا من قال: يبطل اعتكافه، ولا نقول به; بل يشرف الاعتكاف ويعظم. ولو خرج من الاعتكاف من مسجدٍ إلى مسجد لجاز له; لأنه يخرج لحاجة الإنسان إجماعاً، فأي فرقٍ بين أن يرجع إلى ذلك المسجد أو إلى سواه؟) ((أحكام القرآن)) (1/ 180).
(11) وقال ابن باز: (ومحل الاعتكاف المساجد التي تقام فيها صلاة الجماعة، وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442).
(12) وقال ابن عثيمين: (وهو في كل مسجدٍ، سواء كان في مسجدٍ تقام فيه الجمعة، أو في مسجدٍ لا تقام فيه، ولكن الأفضل أن يكون في مسجدٍ تقام فيه، حتى لا يضطر إلى الخروج لصلاة الجمعة) ((مجموع فتاوى ورسائل العثيمين)) (20/ 155).
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS