Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Part 02
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 2___________________Part 02
طارق بن زیاد نے راہب کی روداد سنی ۔اور ظریف بن مالک سے مشورہ کیا ک کیا کیا جائے ۔دونوں یہ فیصلہ کیا ک اس کو موسی بن نصیر کے پاس بیھج دیا جائے ۔اور وہاں سے جو فرمان شئے گا ہم لوگ اس پر عمل کریں گے ۔
چناچہ دونوں راہبوں کو موسی بن نصیر کے پاس بیھج دیا گیا اور ساتھ ان کی ساری روداد لکھ کر بھی بھیج دی گئی ۔موسی کے پاس پہنچ کر انہوں نے طارق کا لکھا ہوا مراسلہ پیش کیا ۔موسی نے مراسلہ کھول کر پڑھا اور راہبوں سے ہم کلام ہوا۔
کیا حاکم وقت کو اس وحشیانہ واقعہ کی اطلاع نہیں ہوئی؟
راہب سب کو خبر ہے اور سب کو ہی نہایت رنج وقلق ہے-
موسیٰ=پهر ایسے ابو الہوس اور بدکار بادشاہ کو معزول یا قتل کیوں نہیں کر دیتے؟
راہب=اس لیے کہ سب اس سے ڈرتے ہیں!
موسیٰ=اچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
جولین: صرف یہ کہ آپ اس ظالم سے میرا انتقام لیں-
جولین:آپ ایک مظلوم کی حمایت میں تلوار بلند کر رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا معقول وجہ ہو گی-
موسیٰ: یہ تمہارا آپس کا مسئلہ ہے خود ہی طے کر لو!
جولین: اگر ہم طے کر سکتے ہوتے تو تمہارا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے!
راہب: مسلمانوں کا قول ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنا اور مظلوموں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
موسیٰ:بے شک!
راہب: جو بے عزتی جولین کی کی گئی ہے اس سے کیا وہ مظلوم نہیں سمجھے جاتے؟
موسیٰ:بےشک
راہب: اور رازرق؟
موسیٰ: ظالم ہے-
راہب پهر کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہو جاتا کہ مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں؟
موسی: بےشک میرا یہ فرض ہو جاتا ہے-
راہب: تو اللہ کے لیے آپ مظلوم کی حمایت کیجئے اور ظالم کو سزا دیجئے-
میں شرافت تہزیب اور انسانیت کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں-
جولین: اگر آپ نے ہماری امداد نہ کی اور میں اس بدکار و جفا کار سے اپنا انتقام نہ لے سکا تو میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قسم کھاتا ہوں کہ سمندر میں ڈوب کر مروں گا اور میرا خون آپ کی گردن پر ہو گا-
موسی یہ سن کر گھبرا گیا اور انہوں نے جلدی سے کہا-
میں ان شاءالله تمہاری مدد کروں گا لیکن________
راہب:لیکن کیا؟
موسیٰ:میں محض ایک وائسرائے ہوں، خلیفہ کا ماتحت میں خود مختار نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو میں تمام واقعات لکھ کر اعلی حضرت خلیفۂ کے حضور میں ارسال کر کے ان سے لشکر کشی کی اجازت حاصل کر لوں-
راہب:نہایت مناسب رائے ہے آپ کی-
موسی:اچھا تو میں ابھی لکھتا ہوں--
موسی نے اسی وقت ایک عرض داشت لکھی اور اپنے ایک متمد آدمی کو دے کر خلیفہ کی خدمت میں ارسال کر دی-
کونٹ جولین اور راہب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے-
ان کے جاتے ہی موسیٰ اور عبد العزیز آٹھ کر چلے گئے-
ان کے جاتے ہی لوگ جوک در جوک اٹھ کر روانہ ہو گئے-
___________________________
عجیب خواب_______________ہر مسلمان، وائسرائے موسیٰ اور دوسرے اراکین سلطنت خوب جانتے تھے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک جس قدر رحم دل فیاض اور سخی ہے، اسی قدر یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کے ہمسایہ بادشاہوں اور تاج داروں میں ناچاقی نہ ہو-
تمام ممالک میں امن امان قائم رہے-
جس زمانے میں بلاد مغرب کے وائسرائے موسیٰ بن نصیر تھے-
اسی زمانے میں بلاد مشرق کے وائسرائے حجاج بن یوسف ثقفی تھے-
یہ عراق میں رہنے والے تھے اور موسی افریقہ میں-
موسیٰ کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے چند خود سر راجاؤں نے جزیرہ سراندیپ (لنکا) سے آنے والے مسلمانوں کو قید کر لیا ہے اور حجاج بن یوسف نے خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت لی ہے-
موسیٰ کا خیال تھا کہ خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت دے دیں گے کہ وہاں مسلمان قید تھے مگر اندلس پر یورش کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپس میں عیسائیوں میں مناقشات تھے-
تاہم انہیں کچھ امید ضرور تھی اور وہ اسی امید پر ہی انہوں نے تیاریاں شروع کر دیں تھیں-
افریقہ سے اندلس جاتے ہوئے راستے میں سمندر کو بغیر جہازوں کے عبور کرنا ممکن نہیں تھا-
بحیرہ روم نے افریقہ کو اندلس سے بالکل جدا کر دیا تھا اور مسلمانوں نے اس وقت سمندر میں جہاز رانی نہیں کی تھی مگر جب کہ اندلس پر چڑھائی کا ارادہ تھا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جہاز تیار کروائے جائیں تاکہ بحیرہ روم کو عبور کیا جا سکے-
چنانچہ موسیٰ نے جہاز تیار کروانے شروع کروا دئیے تھے-
یہ بات نہیں تھی کہ مسلمان جہاز چلانا یا بنانا نہیں جانتے تھے فقط اب تک ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی-
چار جہاز تیار کئے جا رہے تھے جو کہ اس قدر بڑے تھے کہ ان میں سے ہر ایک میں دو ہزار آدمی اور اور ان کے کھانے پینے کا پندرہ بیس روز کا سامان با آسانی آ سکتا تھا-
جنگ پر جانے کی ہر مسلمان کی تمنا اور خواہش تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنے آدمی بھیجے جائیں گے اور ان کا افسر کون ہو گا-
البتہ جہاد کے شائقین نے ابھی سے جہاد پر جانے کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں تھیں-
جو لوگ تجربہ کار تھے اور متعدد لڑائیوں میں لشکر کی قیادت کر چکے تھے انہوں نے افسری کے لیے کہنا اور کوشش کرنا شروع کر دیں تھیں.
عام لوگوں کا خیال تھا کہ موسیٰ اپنے بیٹے عبد العزیز کی سر کردگی میں یہ لشکر بھیجے گا-"
لیکن موسیٰ چپ تھے اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا-
علاوہ ازیں جب سے مسلمانوں کو اندلس کے بادشاہ رازرق کی عشرت پسندانہ زندگی کے واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ سب اس سے بہت ناخوش تھے-
اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد اسے اس کی بدکاری اور بو الہوسی کی سزا دیں-
مسلمان نہ خود بدکار تھے اور نہ دوسروں کو بدکار دیکھنا پسند کرتے تھے گویا وہ نیکو کاری کے ٹھیکیدار تھے-
اور چاہتے تھے کہ ساری دنیا انہی کی طرح نیک رہے-"
بدکاری اور بد امنی کا دنیا میں نام تک باقی نہ رہے-"
ایک روز موسیٰ دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کے پاس کئی معزز اشخاص مثلاً علی بن ربیع طمی ، حیات بن تمیمی ابن عبداللہ ایوب اور عبد العزیز وغیرہ بیٹھے تھے-"
یہ تمام وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وقت لشکر کی قیادت کر چکے تھے، نیز نہایت مشہور اور شجاع لوگ تھے-
علی بن ربیع طمی نے دریافت کیا-"
آپ نے اس مہم کی افسری کے لیے بھی کوئی شخص تجویز کر لیا ہے؟
مو سی نے جواب دیا ہاں-"
کر لیا ہے ممکن ہے کہ اس کا نام سن کر آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے-"
عبد العزیز حضرت میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے-
موسیٰ:خواب؟ ______کیا خواب دیکھا ہے تم نے؟
ابھی عبد العزیز نے اپنا خواب بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ کونٹ جولین اور اشببلیا کا راہب دونوں آ گئے-
یہ دونوں قیروان ہی میں مقیم تھے اور اکثر موسیٰ کے پاس آتے رہتے تھے-
علیک سلیک کے بعد وہ بیٹھ گئے تب موسی نے عبد العزیز سے کہا"-
ہاں بیٹا تم اپنا خواب بیان کرو-"
عبد العزیز:میں نے دیکھا کہ میں بحری سفر کر رہا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے آدمی ہیں-
ہم سب ایک سر سبز پہاڑ پر جا کر اترے اور پہاڑ کو عبور کر کے بہشت زار میدانوں کو طے کرنے لگے-
اس کے نواح میں ہزاروں لاکھوں چڑیاں تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اڑ جاتی تھیں-
کبھی کبھی وہ ہمیں چونچیں بھی مارتی تھیں مگر جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ اڑ جاتیں تھیں-
میدانوں کے بعد ہم نے آبادیاں بھی دیکھیں، وہ نہایت خوبصورت اور خوش نما تھیں-
ایک جگہ ہم جب پہنچے تو ہمارے سامنے ایک چوڑا دریا آ گیا-
اس دریا پر ایک اونچا پل باندھا تھا جو نہایت شاندار اور مضبوط اور خوبصورت تھا-
اس کے دروازے جن سے دریا بہہ رہا تھا؛ محرابدار اور اونچے اونچے تھے-
میں نے آج تک کسی پل کے اتنے اونچے دروازے نہیں دیکھے!
ہم نے پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا اور خوش نما وادی میں جا اترے-
اس وادی میں بہت سے کھنڈر تھے اور ان کھنڈرات میں ایک پتھر کا بہت اونچا بت نصب تھا اتنا اونچا کہ اس کے نیچے کھڑے ہونے سے اس کا سر نظر نہیں آتا تھا-
ہم سب اس بت کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس کی پشت کی طرف سے چند عورتیں آئیں-
سب نہایت خوبصورت تھیں اور ریشمی پوشاکیں نیز سونے کے ایسے زیورات جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھیں لیکن ان کے درمیان جو عورت تھی وہ ان سب سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی نیز اس کی پوشاک بھی ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور بھڑک دار تھی-
اس کے زیورات آبدار موتیوں اور جواہرات کے تھے مگر وہ ایک طوق پہنے ہوئے تھی جس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے تھے-
اس کی چمک سے اس عورت کے رخسار دمک رہے تھے اور اس کا چہرہ چاند سے زیادہ جگمگا رہا تھا-
اس عورت نے میری طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا-
میں اس کے پیچھے چل دیا-
جب ہم سنگی بت سے زرا فاصلے پر پہنچ گئے تو وہ عورت اور اس کے ساتھ والیاں سب ہنسیں اور میں چونک پڑا-
چونکتے ہی میری آنکھ کھل گئی-
موسی، راہب، کونٹ جولین نیز تمام لوگ خاموش بیٹھے حیرت بھری نظروں سے عبد العزیز کو دیکھ رہے تھے..................
*جاری ہے.......*
No comments:
Post a Comment