find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 35)

Andalas Pe Musalmano ne kaise Hukumat ki?
<فاتح اندلس>
          طارق بِن زیاد

         35      قسط نمبر __________Part 35
فرمان_____
طارق طلیطلہ کی طرف روانہ ہو گئے تھے -
وہ چاہتے تھے کہ سارے اندلس میں ایک ہی وقت مسلمان گھوم جائیں تاکہ عیسائیوں پر ان کی ہیبت اور بھی چها جائے.
ان کی یہ تمنا پوری ہوگئی ایک طرف زید نے فتوحات شروع کر دیں دوسری طرف مغیث الرومی نے اور تیسری جانب وہ خود بڑهہ رہے تھے -
ان کا گزر جس بستی سے بھی ہوا اسے ویران اور غیر آباد ہی پایا-
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کر وہاں کے باشندے مال و اسباب و عزیز و اقارب کو لے کر کسی طرف چلے گئے ہیں -
وہ بڑھتے چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ کوہ طلیطلہ کے پاس پہنچ گئے انہوں نے اس جگہ قیام کر دیا - "
یہاں ظہر کی نماز پڑھ کر سپاہی کهانا تیار کرنے لگے جب وہ کهانا کها کر فارغ ہوئے تو الورا کی جانب سے غبار سا بڑھتا نظر آیا -
مسلمان اس غبار کو دیکھ کر ہوشیار ہو گئے انہیں خیال ہوا کہ شاید عیسائی لشکر طلیطلہ والوں کی امداد کے لئے آ رہا ہے انہیں معلوم تھا کہ تدمیر جو رازرق کا سپہ سالار تھا میدان جنگ میں اپنی جان بچا کر بھاگ گیا تھا -
وہ یہ جانتے تھے کہ تدمیر کا اثر و رسوخ ملک میں کافی ہے-
انہوں نے خیال کیا کہ تدمیر ہی کا لشکر لے کر آ رہا ہے -
طارق نے مسلمانوں کو مسلح ہونے کا حکم دے دیا اور تمام مسلمان مسلح ہو کر صف بستہ ہو گئے غبار بڑھتا چلا آ رہا تھا - یہاں تک کہ جب وہ زیادہ قریب ہوا اور گروہ کا دامن چاک ہوا تو سوار نظر آئے-
یہ سوار مسلمان تھے اسلامی پرچم آگے آگے لہراتا آ رہا تھا مسلمان انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور انہوں نے اللہ اکبر کا پر شور نعرہ لگایا -
آنے والے لشکر کے سردار زید ہیں جو سپاہیوں سے آگے علم ہاتھ میں لئے بڑی شان سے بڑھے چلے آ رہے تھے -
زید ملاگا کو فتح کر کے اسٹیجا پر حملہ آور ہوئے تھے -
انہوں نے اسٹیجا بھی فتح کر لیا تھا اور اس کے بعد الورا پر جا دھمکے تهے -
الورا والوں نے صلح کر لی تھی اور صلح نامہ لکھ کر طلیطلہ کی طرف چل پڑے تھے کیونکہ طارق نے ہدایت کر دی تھی کہ وہ اس طرف سے فارغ ہو کر طلیطلہ آ جائیں تاکہ دونوں آفیسر مل کر دارالسلطنت پر حملہ کریں-
چنانچہ زید حسب قرار داد فتح کا پرچم لہراتے ہوئے آ رہے تھے طارق اور ان کے لشکر نے بڑهہ کر اس فتح مند لشکر کا استقبال کیا.
دونوں سردار نہایت تپاک اور خندہ پیشانی سے ملے عصر کی نماز پڑھ کر طارق زید کو اپنے خیمہ پر لے گئے اور ان سے جنگ کے واقعات دریافت کرنے لگے-
انہوں نے ملاگا اسٹیجا اور الورا وغیرہ کی فتوحات کی تمام روئیداد کہہ سنائی-
طارق بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ان پہیم ظفر مندیوں پر خدا شکر ادا کیا-
اس عرصہ میں بہت سے آفسز آ آ کر بیٹھ گئے تھے -
ابهی یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک سوار آیا اور اس نے گھوڑے سے اتر کر طارق کو سلام کیا-
طارق نے اسے سلام کا جواب دیتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا جب وہ بیٹھ گئے تب انہوں نے دریافت کیا تم کہاں سے آ رہے ہو؟ "-
سوار نے جواب دیا میں قاصد ہوں اور قیروان سے آ رہا ہوں"-
طارق : قیروان میں خیریت ہے؟ "
قاصد : اللہ کے فضل و کرم سے سب طرح خیریت ہے قیروان کی مسجد میں ہر نماز کے بعد آپ کی فتح یابی کی دعا مانگی جاتی ہے-
طارق : حضرت موسیٰ بن نصیر تو خیریت سے ہیں؟
قاصد نے عبا کی جیب میں سے ایک لفافہ نکال کر طارق کو دیا.
طارق نے لے کر اسے بوسہ دیا کھولا اور پڑھا لکھا تھا____از طرف موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد غرب اسلامیہ بجانب طارق بن زیاد سپہ سالار اندلس-
حمد و صلوتہ کے بعد معلوم ہوا کہ فتح نامہ مع مال غنیمت کے پانچویں حصہ کے پہنچا پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی-
تم نے نہایت بہادری اور ناموری کا کام کیا ہے-
اللہ تمہیں زور قوت عطا فرمائے کہ تم سارے اندلس کو فتح کر لو آمین.
مگر اس پہلی ہی شکست سے عیسائیوں کے دلوں میں جوش انتقام کا جذبہ بدرجہ اتم پیدا ہو گیا ہو گا اور اپنے بادشاہ اور ہم مذہبوں کا بدلہ لینے کے لئے ہر طرف سے تم ہجو کریں گے -
تمہارے پاس اس قدر لشکر نہیں ہے کہ تم اندلس کے ٹڈی دل عیسائیوں کا مقابلہ کر سکو-
اس لیے تم پیش قدمی ملتوی کر دو اور جس جگہ مقیم ہو وہیں ٹھہرے رہو-
میں اٹھارہ اور تمام مسلمانوں کا سلامسلام سب مجاہدین کو پہنچا دینا-
طارق نے خط پڑھ کر قاصد سے دریافت کیا-
کیا موسیٰ تمہارے سامنے روانہ ہو چکے تھے-"
اب طارق نے خط زید کو دیا انہوں نے پڑھ کر کہا -
انہیں ہم سے محبت ہے اس لیے انہوں نے ازراہ دور اندیشی ایسا لکھا ہے-"
طارق:مگر مجھے ان کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے-
زید:اگر آپ کو عیسائیوں کی طرف سے اندیشہ نہیں ہے -
ایک افسر:بلکہ اس وقت مسلمانوں کی دھاک عیسائیوں کے دلوں پر بیٹھ گئی ہے اور وہ سراسیمہ اور بد حواس ہو رہے ہیں اگر آپ نے اس وقت پیش قدمی روک دی تو پھر ان کے دلوں سے خوف جاتا رہے گا- دوسرا افسر:یہی بات ہے موسیٰ یہاں سے بہت فاصلے پر ہیں انہیں معلوم نہیں کہ اس وقت پیش قدمی کو روک دینا نہایت مضر ثابت ہو گا -
زید:میرے خیال میں آپ کو رکنا نہیں چاہیے-
اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی کی پوری امید ہے.
طارق:لیکن وائسرائے کے حکم کی سرتابی ہوتی ہے
پہلا افسر:کس ذاتی غرض کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی وجہ سے ہے اور اس میں کچھ ہرج نہیں ہے -
زید: کسی ذاتی غرض کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی وجہ سے ہے اور اس میں کچھ ہرج نہیں ہے -
زید: وائسرائے نے خود اپنے خطاب ہی میں اس بات کی تشریح کر دی ہے انہیں اندیشہ ہے کہ کہیں چاروں طرف سے عیسائی ہجوم نہ کرنے لگیں مگر یہاں یہ اندیشہ ہی نہیں ہے.
دوسرا افسر:اگر آپ نے پیش قدمی نہ کی اور موسیٰ کو یہاں آ کر یہ واقعات معلوم ہوئے کہ اگر پیش قدمی کی جاتی تو فتح یقینی تھی تو ممکن ہے کہ وہ ناخوش ہو جائیں-
زید: یقیناً ناخوش ہوں گے مناسب یہی ہے کہ پیش قدمی جاری رکهی جائے اور دارالسلطنت پر قبضہ کر لیا جائے-
طارق : بہتر-
اب مغرب کی اذان ہوئی اور یہ لوگ نماز پڑھنے لگے نماز پڑھ کر آتے ہی سب کهانا تیار کرنے لگے اور عشاء کی نماز پڑھ کر کهانا کها کر سو رہے-
صبح اٹھتے ہی نماز پڑهی اور طلیطلہ کی طرف روانہ ہوئے-
اب طلیطلہ بہت قریب رہ گیا تھا - سامنے پہاڑ آ کر گیا تھا اور پہاڑی کے آخری سرے پر دارالسلطنت طلیطلہ تھا -
یہ پہاڑ پر چڑھ کر درہ میں گھس گئے اور نہایت تیزی سے اسے عبور کرنے لگے -
ایک رات انہوں نے پہاڑ کی ایک کھلی ہوئی وادی میں قیام کیا اور صبح ہوتے ہی پهر چل پڑے-
کئی دروں اور گھاٹیوں کو طے کر کے وہ دریائے ٹیگس کے کنارے پر پہنچے-
سامنے ہی دریا کے دوسرے کنارہ پر طلیطلہ تھا جس کی شان دار عمارتیں اور سنگی فصیل دور سے ہی نظر آ رہی تھی -
شہر نہایت خوبصورت اور فصیل مضبوط تھی -
طلیطلہ پہاڑی چٹان پر آباد تھا پہاڑ کاٹ کر ہی اس کی فصیل بنائی گئی تھی اور دریائے ٹیگس شہر کے چاروں طرف بہتا تھا -
اس نے قلعہ کے گرد قدرتی خندق قائم کر دی تھی عیسائی فصیل پر چڑھے انہیں دیکھ رہے تھے -
طارق نے اس روز اپنے لشکر کو دریائے ٹیگس کے کنارہ پر مقیم ہونے کا حکم دیا اور تمام لشکر دور تک پھیل کر خیمہ زن ہو گیا-
_____طلیطلہ کی فتح_____
طلیطلہ کی فتح ____اہل طلیطلہ کو قلعہ پر اتنا بھروسہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے آنے کی مطلق بھی پروا نہ کی-"
بلکہ نہایت اطمینان نے اپنے کاروبار میں مشغول رہے جب طارق نے صلح کے لیے قاصد بهیجا تو انہوں نے نہایت سخت اور بڑا روکها جواب دیا-
مجبور ہو کر طارق نے دریا عبور کرنے کی کوشش شروع کردی-
اس دریا پر ایک عظیم الشان پل تها مگر پل کے دونوں طرف فوجی چوکیاں نظر آ رہی تھیں اور ان چوکیوں میں کافی زیادہ فوج رہتی تھی - "
اس لئے اس طرف سے دریا عبور کرنا مشکل نظر آ رہا تھا مگر اور کسی طرف بھی ایسا کوئی موقع معلوم نہ تھا جس کے ذریعے دریا کو عبور کیا جا سکے-
وجہ یہ کہ اول تو اندلس کے قریب قریب تمام دریا نشیب میں بہتے تهے اور ان کے دونوں کنارے بہت اونچے ہوتے ہیں-
دوسرے یہ دریا پہاڑی راستوں کو کاٹ کر غاروں میں سے بہہ رہا تھا اس کا پانی کا پاٹ کافی چوڑا تھا اور گہرائی کا پتہ نہ چلتا تھا -
اگر کہیں گہرائی معلوم بھی ہو گئی تو چٹانوں سے غار میں کودنا نہ صرف انسانوں کے لیے مشکل تھا بلکہ گھوڑے بهی نہیں اتر سکتے تھے-
اس لئے اس طرف سے پل کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا پل پار کرنے کے لیے-
طارق کئی روز تک دریا کو دیکھتے رہے عیسائی سپاہی روزانہ فصیل پر چڑھ کر طارق کی راستہ تلاش میں لا حاصل سعی کرتے دیکھ کر ہنستے تھے -
کئی روز کی تلاش اور جستجو کے بعد یہی نتیجہ نکلا کہ صرف پل ہی کے ذریعے سے دریا کو عبور کیا جا سکتا ہے-
چنانچہ طارق نے پل پر دھاوا کرنے کا پروگرام بنایا اور ایک روز صبح کی نماز پڑهتے ہی دو ہزار سواروں کو لے کر پل کی طرف بڑھنا شروع کر دیا -
فصیل والے سپاہیوں نے انہیں بڑھتا دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا -
چوکیوں والوں نے بھی مسلمانوں کو دیکھ لیا تھا کہ وہ پل پر حملہ کرنا چاہتے ہیں لہذا وہ بھی مستعد ہو بیٹھے-
دونوں طرف دو زبردست چوکیاں تهیں یہ دو چھوٹے چھوٹے قلعے تهے جو کافی بلند تهے اور جن کی فصیل چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھی -
دونوں کی فصیلیں گول تهیں جیسے اکثر برج ہوا کرتے تھے ان دونوں چوکیوں میں دو دو ہزار سپاہی ہر وقت موجود رہتے تھے اور ضرورت کے وقت ان کی تعداد میں اور بھی اضافہ کردیا جاتا تھا -
چنانچہ اب بھی ایک ایک ہزار کا اضافہ کر کے تین تین ہزار سپاہی کر دئیے تھے -
پل پر زبردست لوہے کا عالی شان گیٹ تھا -
جب پھاٹک بند کر دیا جاتا تھا تو پھر کسی طرح بھی کوئی شخص ادھر سے ادھر آ جا نہیں سکتا تھا مسلمانوں کے خوف سے وہ پھاٹک بھی بند کر گیا تھا اور چوکیوں کے پہرہ دار فصیل پر چڑھ گئے تھے -
طارق خوب سمجھ رہے تھے کہ ان کی پل کی طرف حرکت کرتے ہی ان پر تیروں کی بارش کر دی جائے گی -
وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ اگر سواروں کو لے جایا گیا تو یہ گھوڑے زخمی ہو جائیں گے یا سوار مجروح ہو کر گر پڑیں گے -
اس لیے انہوں نے تمام سپاہیوں کو دھاوا کا حکم دیا ان دو ہزار میں سے ایک ہزار پر زید کو افسر مقرر کر دیا تھا اور ایک ہزار اپنے تحت میں رکهے تهے - "
دو ہزار مجاہدین اسلام اللہ اکبر کے نعرے لگاتے پل کی طرف بڑھے -
قلعہ کی فصیل والوں نے انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ کر اس قدر شور مچایا کہ تمام قلعہ گونج اٹھا اور لوگ شہر میں سے جنگ کا تماشا دیکھنے کے لیے قلعہ کی فصیلوں پر چڑھ آئے.
ادھر چوکیوں والے بالکل مسلح اور مستعد ہو کر موقع کا انتظار کرنے لگے - مسلمان نہایت اطمینان اور استقلال سے ڈھالوں کا قلعہ بنائے بڑهہ رہے تھے -
انہوں نے تمام اونچی چٹانیں طے کر کے نیچے والی چٹانوں پر چڑھنا شروع کر دیا مگر جونہی وہ چوکی والوں کی زد میں فوراً ہی ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا-
تیر اس قدر کثرت سے آنے لگے کہ ایک دفعہ تو آفتاب تیروں کے پیچھے چھپ گیا اور بہت سے مسلمان ان تیروں سے زخمی بھی ہوئے لیکن وہ زخمی ہونے پر بھی نہ جھجکے نہ رکے بلکہ برابر بڑھتے رہے اور انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ عیسائیوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے تیروں سے وہ زخمی ہو رہے ہیں -
وہ بڑھتے رہے نہایت جانبازی اور بڑی جرات کے ساتھ عیسائی انہیں اس طرح بڑھتے دیکھ کر کمال حیران ہو رہے تھے -
اول اول تو وہ سمجھے تھے کہ تیرافگنی کر کے مسلمانوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں-
ان کے برابر بڑھنے سے اب وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کے تیر خالی جا رہے ہیں اور مسلمانوں پر ان کا اثر نہیں کر رہے اس سے وہ حیرت زدہ ہو کر ڈر گئے - "
انہوں نے سنا تھا کہ مسلمان عجیب لوگ ہیں ان پر آگ اثر کرتی ہے نہ پانی ہتھیاروں کا تو مطلق بھی اثر نہیں ہوتا-
اب وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ بھی رہے تھے کہ وہ تیر برسا رہے ہیں اور مسلمان تیر کها کها کر بھی بڑھتے چلے آ رہے ہیں -
انہوں نے قلعہ کی فصیل والوں کو پکار کر کہا - "
ان لوگوں پر تیروں کا بھی اثر نہیں  ہوتا یہ بڑھتے چلے آ رہے ہیں یقیناً ان کا سیلاب ہمیں بہا لے جائے گا.
طلیطلہ کا گورنر فصیل پر موجود تھا اس نے للکار کر کہا گھبراو مت کوشش کرتے رہیں.
لیکن ان عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا کچھ اس طرح رعب چھایا تھا کہ اب ان سے تیر افگنی اس شد و مد سے نہیں ہو سکی جیسے کہ شروع کی تھی-
مسلمانوں نے اس بات کو سمجھ لیا اور آپنی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کر دی طارق سب سے آگے تهے اور مجاہدین ان کے پیچھے تهے جو لوگ زخمی ہوئے تھے انہوں نے تیروں کو اپنے جسموں سے نکال نکال کر پھینک دیا تھا اور جوش و غضب سے بڑهہ آگے بڑھ رہے تھے آخر وہ بڑھتے بڑھتے پھاٹک تک پہنچ گئے اور اسے توڑنے لگے-
اب چوکی والے عیسائیوں کے شور کا وقت آ گیا تھا وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے تھے اور قلعہ والوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہے تھے -
کچھ مسلمان تو پھاٹک توڑنے لگے کچھ چٹانوں پر چڑھ کر قلعہ کی فصیلوں پر چڑھنے لگے لیکن چوکیوں والوں نے انہیں نہ دیکها اور موقع کچھ ایسا تھا کہ پھاٹک والوں پر تیر نہ برسا سکتے تھے وہ جھروکوں میں سے جھانک کر غل مچا رہے تھے -
جب کہ وہ شور کرنے میں مصروف تھے چند مسلمان فصیل پر پہنچ گئے -
انہوں نے وہاں پہنچتے ہی تلواریں سونت لیں اور عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے عیسائیوں کو ان کے آنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے تھے -
چونکہ ان مسلمانوں نے پر زور حملے کر کے تمام عیسائیوں کو فصیل کے سامنے سے ہٹا دیا تھا اس لیے مسلمانوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا اور جو شخص بھی اوپر پہنچتا وہ تلوار لے کر عیسائیوں پر ٹوٹ پڑتا اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیتا.
عیسائی بھی تلواریں کهنیچ کر مقابلے میں آ گئے اور نہایت جوش و خروش سے مقابلہ کرنے لگے -
ان کی ہمت مسلمانوں کو کم دیکھ کر بڑهہ گئیں اور وہ بڑے ولولے سے لڑنے لگے مسلمان نہایت پهرتی اور بڑی قوت سے لڑ رہے تھے اور دور تک پھیل گئے تھے -
ان کی تلواریں عیسائیوں کو کھیتی کی طرح کاٹ رہی تھیں _
قلعہ والوں نے جب یہ کیفیت دیکهی تو وہ ان کی مدد کے لیے آگے دوڑے اور قلعہ کا پھاٹک کهول کر پل کی طرف جھپٹے.
ادھر طاہر نے جو زید کے ساتھ ملاگا وغیرہ کی فتوحات میں شامل تھے اور اس وقت ایک چٹان پر بیٹھے مسلمانوں کی کاروائی دیکھ رہے تھے - عیسائیوں کو پھاٹک پر پہنچتے دیکھ لیا-
وہ جلدی سے لوٹے اور تمام لشکر کو چڑھا لائے چونکہ اب تیرافگنی کا خدشہ باقی نہ رہا تھا اس لیے اب وہ لشکر چلا وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے اس عرصہ میں تقریباً تین سو مسلمان برج پر چڑھ چکے تھے اور انہوں نے عیسائیوں کو قتل کر کے انہیں برج کے دوسری طرف دھکیل دیا-
طارق اور ان کے ہمراہی بھی پھاٹک توڑنے میں مصروف تھے اور آخر انہوں نے پھاٹک توڑ ڈالا-
جس وقت پھاٹک ٹوٹا اسی وقت طاہر لشکر لے کر پہنچ گئے.
سواروں کی بر وقت آمد مسلمانوں کی ہمتیں مزید بڑھا دیں طارق کا غلام ان کا گهوڑا لے آیا تھا-
وہ جلدی سے گھوڑے پر سوار ہونے انہوں نے پیادوں کو پھاٹک پر ہی روک دیا اور سواروں کو لے کر آگے چل پڑے-
جونہی وہ پھاٹک کے دوسری طرف نکلے انہوں نے تمام پل پر عیسائیوں کو پھیلے ہوئے اور ننگی تلواریں لئے دیکها-
یہ قلعہ والے عیسائی تھے جو برج والوں کی مدد کے لیے آئے تھے یہ سب پیدل تهے طارق اور دوسرے مسلمانوں نے گھوڑے ان کی طرف دوڑائے-
عیسائی ان کی صورتیں دیکھتے ہی چلاتے ہوئے بھاگے لیکن وہ بھاگ نہ سکے اور مسلمانوں نے انہیں جا لیا اور جہنم واصل کر دیا -
اس وقت دو محاذوں پر جنگ ہو رہی تھی ایک برج میں اور دوسری پل پر اور دونوں جگہوں سے عیسائی قتل ہو ہو کر گر رہے تھے -
مسلمانوں کے دستے انہیں مارتے گراتے پھاٹک تک جا پہنچے.
عیسائی کچھ ایسے بد حواس ہوئے کہ انہیں پھاٹک بند کرنے کا بھی ہوش نہ رہا مسلمانوں نے عیسائیوں کو چاروں طرف سے گھیر کر قتل کرنا شروع کر دیا -
اس وقت عیسائیوں میں کوئی نظام باقی رہا تھا نہ کوئی ضابطہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے مسلمانوں کے ڈر سے قلعہ میں چھپتے پهر رہے تھے -
مسلمانوں نے قلعہ کے اندر عیسائیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے مسلمان بهی اگرچہ تیروں سے بہت زیادہ زخمی ہوئے لیکن شہید ایک بهی نہ ہوا-
عیسائیوں نے اس طرح قتل و غارت دیکھ کر ہتھیاروں کو پهینک کر امان" امان" چلانا شروع کر دیا -
طارق نے فوراً جنگ بندی کا حکم دیا اور تهوڑی دیر میں تمام فوجیوں کو گرفتار کر لیا-
اب پادریوں کی جماعت طارق کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے مصالحت کی گفتگو شروع کی-
جب تک ہم نے قلعہ کو فتح نہیں کیا تھا مصالحت کی بات ہو سکتی تھی اب جب کہ ہم نے بزور شمشیر قلعہ فتح کیا ہے اب مصالحت کی بات فضول ہے طارق نے کہا-"
ایک راہب نے آگے بڑھ کر کہا اچھا اگر آپ صلح نہیں کرنا چاہتے نہ کریں مگر رحم تو کریں-"
طارق نے جوش میں آ کر کہا تم لوگ وہ قوم ہو جو کسی پر رحم نہیں کرتے ہم مسلمانوں کی صفت ہے رحم کرنا
: ہے رحم کرنا چنانچہ ہم بھی رحم کریں گے -
پادری: بندہ پروری ہو گی آپ کی
طارق: ایسے نہ کہو یہ معصیت ہے بندہ پرور سوائے اللہ کے اور کوئی بھی نہیں ہے-
پادری: اچھا مہربانی سہی-
طارق : ہاں یہ کہہ سکتے ہو سنو اس شرط پر صلح کی جا سکتی ہے اس وقت شہر میں جتنے گھوڑے اور ہتھیار ہیں سب ہمارے حوالے کر دو-
اور جو شخص اس کو جبر سمجھے وہ جہاں جی چاہے چلا جائے مگر اس حالت میں اسے اپنی تمام مقبوضات سے ہاتھ دھونا پڑے گا -
جو لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں انہیں اطمینان دلایا جائے گا اور انہیں معمولی جزیہ دینا پڑے گا -
پادری: اور حضور قانون کونسا لازم ہو گا؟
طارق:کوئی نیا قانون جاری نہیں کیا جائے گا وہی رہے گا بلکہ حکام بھی عیسائی اور یہودی ہی رہیں گے صرف اعلی عدالت کا حکمران مسلمان ہو گا -
پادری نے حیرانگی سے کہا یہودی کیوں جناب ہمیں یہودیوں سے بچائیں.
طارق نے کہا اطمینان رکھو یہود تمہیں اور تم یہود کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.
پادری نے کہا ہمیں آپ کی شرط منظور ہے.
پادری چلے گئے انہوں نے ہتھیار اور گھوڑے مسلمانوں کے حوالے کر دئیے.
طارق نے جب شاہی محل دیکھا تو حیران رہ گئے ایک کمرہ انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا اور اس میں ٹهہر گئے.
طارق چونکہ سارا دن کے تھکے ہوئے تھے لیٹتے ہی سو گئے.
دفعتاً ان کی آنکھ کھلی اور انہوں نے ایک حسین دوشیزہ کو اپنے سرہانے کھڑے پایا-
وہ کمال کی خوبصورتی کی مالک تهی نگاہ اس کے چہرے پر نہیں ٹهہرتی تهی.
وہ کم سن اور بھولی تهی اور اپنی فسوں خیز آنکھوں سے طارق کو دیکھ رہی تھی.
وہ رشک حور کو دیکھ کر حیران رہ گئے انہیں خیال ہوا کہ شاید وہ سو رہے ہیں اور انہیں خواب میں پری پیکر نظر آ رہی ہے.
اسی خیال سے وہ اس پری جمال کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے__________
  
بچھڑوں کا ملاپ_____اسمٰعیل یا بلقیس کو کچھ خبر ہی نہ تھی کہ مسلمان کہاں ہیں؟
وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں وہ دونوں تو اپنی مصیبت میں گرفتار ہو گئے تھے اور اللہ اللہ کر کے انہیں اس مصیبت سے نجات ملی تھی-
اتفاق سے اب ایک اور گهوڑا ان کے ہاتھ آ گیا تھا اور سفر کی کلفت قدرے کم ہو گئی تھی -
اگرچہ اب بھی اسمٰعیل کو پیدل ہی چلنا پڑ رہا تھا مگر وہ اس کے باوجود خوش و خرم تهے کہ بلقیس کے لیے تو گهوڑا مل گیا تھا -
بلقیس چاہتی تھی کہ وہ بھی سوار ہو مگر انہوں نے منظور نہ کیا--
انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی منزل مقصود تھی -
صرف چلنے سے کام تها اور وہ چلے جا رہے تھے اتفاق سے وہ وادی بیکا کی طرف جا نکلے-
غالباً قارئین بھولے نہیں ہوں گے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کی شاہ رازرق کے لشکر سے جنگ ہوئی تھی -
یہاں انہوں نے عیسائی مردوں کے ڈھیر دیکهے ان کی صورتیں بگڑ گئی تھیں اور لاشیں سڑنے سے اس قدر تعفن پیدا ہو گیا تھا کہ اس طرف سے نکلنا غیر ممکن ہو گیا تھا -
یہاں پہنچ کر اسمٰعیل نے کہا - "
معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی جنگ ہوئی ہے اور انہوں نے عیسائیوں کو شکست دے دی ہے-"
بلقیس نے کہا - "
عیسائی مردوں کو دیکھنے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی ہے-"
اس لئے کہ اگر عیسائی فتح یاب ہوتے تو وہ اپنے مردوں کو اس طرح میدان جنگ میں نہ چھوڑتے تم نے دیکھا ہے؟ جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں ایک مسلمان کی لاش بھی نظر نہیں آئی
بلقیس مگر کس قدر تعفن آ رہا ہے! !
اسمٰعیل بہت زیادہ یہاں سے جلدی بڑهو ورنہ بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہے -
بلقیس مگر کہاں بڑهوں؟ لاشیں تو میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں-
اسمٰعیل تم گهوڑا تهوڑی تیزی سے بڑھا لے جاو.
بلقیس اور آپ؟
اسمٰعیل آپ میری فکر نہ کریں
بلقیس کیونکہ آپ مرد ہیں؟
اسمٰعیل : یہی بات ہے -
بلقیس : مگر تعفن مردوں اور عورتوں دونوں ہی کو نقصان پہنچاتا ہے - "
اسمٰعیل : یہ سچ ہے مگر تم پر جلدی اثر ہو سکتا ہے
بلقیس اور آپ پر بھی
اسمٰعیل : میں نے کہا کہ تم میری فکر نہ کرو

بلقیس یہ ممکن نہیں ہے.
اسمٰعیل : پھر؟ ؟؟
بلقیس : آپ بھی سوار ہو جائیں شاید گهوڑا ہم دونوں کو آسانی سے نہ لے جا سکے
بلقیس: بہت خوب ہم دونوں میں وزن ہی کتنا ہے
اسمٰعیل : تم میں تو کچھ وزن نہیں مگر___
بلقیس : آپ میں
اسمٰعیل : ہاں مجھ میں ہے
بلقیس:تو بس آہستہ آہستہ ہی چلتے ہیں
اسمٰعیل : ارے نہیں آپ بیمار پڑ جائیں گی
بلقیس: میرے بیمار ہونے کی فکر نہ کریں آپ.
اسمٰعیل : بڑی ضدی ہو تم! !
بلقیس : آپ سے زیادہ نہیں
اسمٰعیل : دیکهو تعفن سے دماغ پھٹنے لگا ہے
بلقیس: تو گھوڑے پر سوار ہو جائیں
اسمٰعیل : اچھا شریر لڑکی-
یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کو تیزی سے وہ وہاں سے نکال لے گئے کچھ دور چل کر بلقیس نے کہا -
آپ کو ضد تھی کہ میرے ساتھ گھوڑے پر سوار نہ ہوں لیکن__-"
اسمٰعیل : تم نے اپنی ضد قائم رکهی اور مجھے سوار ہونے پر مجبور کر دیا -
بلقیس : مرد عورت سے نہیں جیت سکتا-
اسمٰعیل : تم سچ کہتی ہو-
اسمٰعیل : ضد کرنے کا موقع ہی نہیں آئے گا-
بلقیس : کیوں؟
اسمٰعیل : اس لیے کہ تم اپنے والد کے ساتھ چلی جاو گی -
بلقیس : بے شک چلی جاؤں گی -
اسمٰعیل : پھر ضد کرنے کا موقع کہاں ملے گا!
بلقیس : تو کیا آپ مجھے چهوڑ جائیں گے؟ -
اسمٰعیل : میں تو عمر بھر نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن___
بلقیس : لیکن___؟-
اسمٰعیل : لیکن تم مجھے چهوڑ دو گی -
بلقیس : اطمینان رکھئیے میں اپنے محسن کو کبھی نہیں چھوڑوں گی -
اسمٰعیل : کیا تم میرے ساتھ اسلامی لشکر میں چلو گی؟
بلقیس : ضرور چلوں گی بشرطیکہ آپ مجھے لے چلیں-
اسمٰعیل : اگر تمہارے والد نے منع کر دیا؟
بلقیس : نہیں کریں گے اسمٰعیل : وہ کیوں منع کریں گے؟ -
بلقیس : اس لیے کہ ہماری قوم میں یہ دستور ہے کہ بلقیس خاموش ہو گئی - اسمٰعیل نے دریافت کیا-" کیا دستور ہے؟ "-
بلقیس : کہ لڑکیاں جہاں چاہیں جا سکتی ہیں اب دریائے وادئ الکبیر آ گیا ہے-
میں اسے جانتی ہوں قرطبہ یہاں سے قریب ہی ہے-
اسمٰعیل : لیکن اگر قرطبہ میں عیسائیوں کی فوج یا پولیس ہوئی تو؟
بلقیس : اطمینان رکھو میں سراغ لگا لوں گی -
اسمٰعیل : بت سیم تن میں تیرے ساتھ ہوں جہاں چاہے لے چل-
بلقیس : خوب آپ میرے ساتھ ہیں کیا؟
اسمٰعیل : کاش تم عمر بھر کے لئے میری ہو جاو. بلقیس نے مسکراتے ہوئے گھوم کر اسمٰعیل کو دیکھتے ہوئے کہا -
کیا مطلب ہے اس سے آپ کا؟
اسمٰعیل : یہی کہ تم میرے ساتھ رہو بلقیس چپ ہو گئی -
اسمٰعیل نے گهوڑا دریا میں ڈال دیا اور وہ نہایت آسانی سے پار لے گیا-
کچھ دور چل کر اسمٰعیل گھوڑے سے اترے اور ساتھ ساتھ چلنے لگے-
اسی طرح دونوں سفر کرتے کرتے قرطبہ پہنچ گئے
اسمٰعیل نے کہا بلقیس قرطبہ کی فصیل کی طرف دیکھ رہی تھی اس نے کہا - "
دیکھیں قلعہ پر عیسائی علم کی بجائے آپ کا علم لہرا رہا ہے -
اسمٰعیل نے غور سے دیکھا اور خوش ہوتے ہوئے کہا -
تم نے ٹھیک کہا ہے چلو اب کوئی اندیشہ نہیں ہے - "
بلقیس مگر مجھے بھی مسلمانوں سے کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہیے
اسمٰعیل بالکل نہیں
بلقیس:اس لیے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں!
اسمٰعیل : نہیں بلکہ اس لیے کہ مسلمان کس عورت بیمار یا مذہبی آدمی کو کچھ نہیں کہتے.
بلقیس : اچھا آئیے-
دونوں چل پڑے اور عصر کے وقت قلعہ میں داخل ہو گئے - ابهی وہ دروازہ سے بڑھے ہی تهے کہ انہیں مغیث الرومی مل گئے-
انہوں نے انہیں دیکھتے ہی سلام کیا اور بے ساختہ دوڑ کر ان سے لپٹ گئے - اسمٰعیل نے سلام کا جواب دیا اور بغلگیر ہوتے ہوئے کہا -
اللہ کا شکر ہے کہ آپ یہاں ہیں - "
مغیث الرومی نے علیحدہ ہوتے ہوئے کہا -
اور یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ تم آ گئے کیسے چھوٹے تم ان ناکسوں کی قید سے؟ "
اسمٰعیل نے نہایت اختصار سے تمام کیفیت سنا دی مغیث الرومی نے کہا خوب تو اس لڑکی نے تمہاری مدد کی-"
اسمٰعیل : جی ہاں!
مغیث الرومی: اس نے تمام مسلمانوں پر احسان کیا ہے-
بلقیس شرمیلے انداز میں بولی نہیں بلکہ انہوں نے مجھ پر احسان کیا ہے-"
اتفاق سے وہاں امامن آ گیا اس کو دیکھتے ہی بلقیس گھوڑے سے اتر کر اس کی طرف چلی.
جونہی اسے امامن نے دیکھا دوڑتا ہوا آیا اسے سینے سے لپٹا کر بولا-
میری بیٹی میری بیٹی خدا کا شکر ہے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے.
تهوڑی دیر کے بعد اس نے اسے سینے سے الگ کیا تو فرط مسرت سے بلقیس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے-
نہ رو میری بیٹی نہ رو اب تو خوش ہونے کا موقع ہے تجھے ان ظالموں سے نجات مل گئی-
تجھے کون ان کے چنگل سے چھڑا لایا.
بلقیس نے اسمٰعیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ شریف مسلمان-"
امامن نے اسمٰعیل کے پاس جا کر کہا میں آپ کا بے حد مشکور ہوں آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے.
اسمٰعیل : اس میں احسان کی کیا بات ہے جو میرا فرض تھا میں نے وہ ادا کیا تھا.
امامن : میں عمر بھر آپ کا ممنون رہوں گا اور میری بیٹی بھی
اب وہ بلقیس کی طرف متوجہ ہو کر بولا آ جا میری بیٹی تیرے بغیر گهر سونا پڑا ہے-
بلقیس نے شرماتے ہوئے کہا اور ابا یہ شریف مسلمان؟ "
امامن : میں اپنے گھر میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں مجھے بہت خوشی ہو گی. مغیث الرومی: اس وقت تو انہیں میرے ساتھ رہنے دیجئے
امامن : بہتر ہے -
اب بلقیس امامن کے ساتھ اور اسمٰعیل مغیث الرومی کے ہمراہ روانہ ہو گئے______فتوحات کا سلسلہ____فتوحات کا سلسلہ_____موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز نے جب سے وہ عجیب و غریب خواب دیکھا تھا، اس وقت سے انہیں ان تمام چیزوں کے دیکھنے کا زبردست شوق پیدا ہو گیا تھا اور جب کونٹ جولین نے انہیں یہ بتایا کہ سب چیزیں اندلس جانے کی اجازت حاصل کر لیں گے لیکن ان کی حسرتوں اور امنگوں کا اس وقت خون ہو گیا، جب موسٰی نے انہیں اجازت نہ دی اور طارق کو اندلس کی مہم پر روانہ کیا-"
مگر ان کے دل کو اطمینان تھا کہ خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ بیداری میں بھی دیکهے گا لیکن کب اور کس طرح یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا - "
وہ رات دن انہیں خیالوں میں غلطاں پیچاں رہتا ایک دن طارق کا قاصد نوید مسرت لایا ان کا دل عجیب انداز میں ڈھرک رہا تھا انہیں امید تھی کہ اب کہ وہ ضرور جائے گا -
ان کے دل میں امید کی شعاعیں پهر چمکی اور فریب دل نے نئی نئی امنگیں اور نئی نئی تمنائیں پیدا کرنا شروع کر دیں-
انہوں نے دوبارہ اپنے باپ موسیٰ سے اندلس چلنے کی آرزو کی مگر ان کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں جب انہوں نے کہا کہ وہ خود معہ اپنے دونوں بھائیوں عبداللہ اور مروان کے اندلس جا رہے ہیں اور قیروان کی حکومت خود ان کے یعنی عبدالعزیز کے ہاتھ میں رہے گی-
عبدالعزیز کے ان سے دو چھوٹے بھائی تھے -
ان میں سے ایک کا نام عبداللہ اور دوسرے کا کامران تھا -
عبدالعزیز کو پهر افسوس ہوا اور ان کی تمنائیں کوہ حسرت سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئیں لیکن کوئی غیبی طاقت اب بھی ان سے کہ رہی تھی کہ وہ ضرور اندلس جائیں گے اور وہ تمام چیزیں دیکھیں گے جو انہوں نے خواب میں دیکهی تهیں - "
مگر یہ کب اور کیسے ہوگا.
اس کا حل اس سے نہیں ہو رہا تھا -
آخر ان کے سامنے ان کا باپ موسیٰ دس ہزار سوار اور اٹهہ ہزار پیدل سپاہ لے کر ان کے دونوں بھائیوں عبداللہ اور مروان نیز مشہور سردار مثلاً علی بن ربیع حیات بن تمیمی اور عیسیٰ بن عبداللہ الطویل کے ہمراہ اندلس روانہ ہوئے-
عبدالعزیز ایک مرتبہ پھر حسرت اور افسوس کے بھنور میں غوطے کهانے لگے.
موسیٰ معہ لشکر کے جب اندلس کے ساحل پر اترے تو ان کے استقبال کے لئے کونٹ جولین اور اشبیلیا کا راہب آئے اور انہوں نے نہایت شان سے ان کا استقبال کیا.
انہیں یہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا کہ طارق فتح کے زعم میں اندرون ملک میں بڑھتے گئے ہیں -
اور انہوں نے ان کے حکم کی مطلقاً پروا نہیں کی وہ کچھ برہم ہو گئے کونٹ جولین جو نہایت ہوشیار تھا سمجھ گیا کہ وہ طارق سے ناخوش ہو گئے ہیں لہذا اس نے کہا - "
معلوم ہوتا ہے کہ آپ طارق سے کچھ ناخوش سے ہو گئے ہیں - "
موسیٰ ہاں اس نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی.
جولین: انہوں نے چاہا تھا کہ پیش قدمی روک دیں مگر__
موسیٰ: مگر آپ نے انہیں آگے بڑھنے کا مشورہ دیا-
جولین: نہیں!
موسیٰ: اور؟
جولین: ان کے ماتحت افسروں کے مشورے سے.
موسیٰ: کس وجہ سے؟
جولین: اس وجہ سے کہ بہادر طارق نے جب وادی بیکا کے کنارے پر رازرق کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دی تو عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت چها گئی-
اس پر طاری نے دانش مندی کی کہ اپنے لشکر کے تین حصے کئے اور ایک کو قرطبہ دوسرے کو ملاگا اور تیسرے کو طلیطلہ روانہ کیا-
ان تینوں لشکروں کو پہیم فتوحات نصیب ہوئیں اور اس انداز سے عیسائی اور بھی مرعوب ہو گئے -
موسیٰ جب تو انہوں نے بہادری اور عقلمندی کا ثبوت دیا ہے.
جولین یہی بات ہے فتح و نصرت شیر دل طارق کے قدموں سے لگی پهرتی ہے -
موسیٰ میں ان کی فتوحات سے بہت خوش ہوا ہوں مگر!
جولین مگر کیا حضور؟
موسیٰ انہیں میرے حکم کا احترام کرنا چاہئے تھا
جولین یہ سچ لیکن اگر وہ اس قدر کامیابی کے بعد رک جاتے تو عیسائیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا جو رعب تھا وہ ختم ہو جانا تھا اور وہ سنبھل کر پهر اپنی طاقت اکٹھی کر کے مسلمانوں سے نبرد آزما ہو جاتے -
موسیٰ میں یہ سب باتیں سمجھتا ہوں جانتا ہوں کہ ایسی حالت میں آگے بڑھنا ہی مناسب تھا مگر انہیں تمام واقعات کی مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی - "
جولین یہ البتہ ان سے فروگذاشت ہو گئ
موسیٰ اور انہیں اس کا مجھے جواب دینا پڑے گا -
جولین حضور اب کس طرف بڑھنے کا ارادہ ہے
موسیٰ میں اس ملک کے راستوں سے کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ.
جولین: جنوب سے شمال تک کا تمام علاقہ بہادر طارق نے فتح کر لیا ہے لہذا آپ مغرب کی طرف بڑھیں-
اشبیلیا اور بوسنیا کا زرخیز وسیع علاقہ اس طرف ہے.
موسیٰ مناسب ہے.
جولین لیکن آپ کے پاس لشکر کتنا ہے؟
موسیٰ اٹھارہ ہزار.
جولین ان علاقوں کی فتح کے لیے یہ لشکر کم ہے.
موسیٰ کم کیا آپ نے طارق کو نہیں دیکھا؟ ؟ان کے ہمراہ کتنا لشکر تها صرف بارہ ہزار مسلمان
جولین یہ سچ ہے مگر اس طرف کے قلعہ جات نہایت مضبوط اور عیسائی بکثرت ہیں -
موسیٰ کچھ فکر نہ کرو اللہ مددگار ہے وہی ہمیں فتح دے گا.
جولین بہتر ہے -
دوسرے روز موسیٰ اپنا لشکر لے کر اشبیلیا کے علاقے کی طرف بڑھے -
عیسائیوں نے مجاہد اعظم طارق کی فتوحات کے واقعات سن رکهے تهے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ مسلمان جس شہر میں جاتے یا حملہ کرتے ہیں اسے فتح کئے بغیر نہیں چھوڑتے.
ان کے دلوں پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی -
چنانچہ جس وقت موسیٰ اس نواح میں بڑھے تو شہر اور قلعے کے عیسائی ان کے سامنے آ پڑے اور انہوں نے صلح کی درخواست پیش کی.
موسیٰ نے بھی نہایت نرم شرائط کے ساتھ صلح کرنی شروع کردی اور اس طرح سے ان کی رحم دلی کی اشبیلیا کے تمام علاقوں میں شہرت پھیل گئی اور سارے علاقوں کے عیسائی آ آ کر صلح کرنے لگے اس طرح مسلمان بغیر کسی خون خرابے کے تمام علاقوں پر قابض ہو گئے -
چونکہ یہ علاقہ دور تک پھیلا ہوا تھا اس لیے موسی نے یہاں آ کر عیسیٰ بن عبداللہ کو گورنر بنا کر دو ہزار سپاہی ان کے علاقے میں امن امان قائم رکھنے کے لیے چهوڑ دئیے اور خود شہر قار مونیا کی جانب بڑھے.
جب وہ اس شہر کے سامنے پہنچے تو انہوں نے وہاں صبح کی نماز پڑھی اور فارغ ہو کر مسلح لشکر کو حکم دیا اتنے میں قلعہ کا پھاٹک کهلا اور چند آدمی سفید جھنڈا لہراتے ہوئے نظر آئے.
چونکہ سفید جھنڈا امن اور صلح کا جھنڈا کہلاتا ہے اس لیے موسی نے لشکر کو حملہ کرنے سے روک دیا.
یہ لوگ موسیٰ کے حضور حاضر ہوئے اور صلح کی درخواست پیش کی موسیٰ نے ان کی بهی انہیں شرائط پر صلح کر لی جن کی بناء پر اشبیلیا والوں سے کی تھی.
غالباً قارئین اس بات کے متمنی ہوں گے کہ انہیں بھی معلوم ہو جائے کہ وہ شرائط کیا تهیں تو درج زیل شرائط
عیسائی شہری مسلمانوں اور اسلامی حکومت کے وفادار رہیں گے اور کبھی سرکشی نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی سازش کریں گے.
انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو گی.
عیسائی حکومت کا جو قانون ہے وہی قانون نافذ رہے گا.
پرانے گرجے بدستور قائم رہیں گے البتہ نئے گرجے تعمیر کرنے کے لیے حاکم سے اجازت لینی ہو گی.
ہر مقدمہ کی اپیل مسلمان حاکم کے اجلاس میں ہو گی اور اس کا فیصلہ ناطق ہو گا.
عیسائیوں کو ہر مرد و عورت اور بچہ کی طرف سے 2 دینار سالانہ جزیہ دینا ہو گا -
جو عیسائی مسلمان ہو جائے گا اس پر اسلامی قوانین کی پابندی لازم ہو گی اور عیسائی قوانین سے کوئی سروکار نہ ہو گا -
یہ وہ شرائط ہیں جن کی بنا پر موسی نے ان سے صلح کی تھی.
چونکہ ان سے نرم شرائط اور ہو بھی نہیں سکتی تھیں اس لیے عیسائی بڑے جوش و خروش سے ان کی شرائط کو مان لیتے تھے اور قلعہ اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیتے تھے -
چنانچہ انہیں شرائط پر شہر قارمونیا نے بھی صلح کر لی قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا -
موسیٰ نے ایک معمولی درجے کے آفیسر کو ڈھائی سو پیادہ دے دے کر اس شہر میں متعین کر دیا اور خود بوسیٹانیا کی طرف بڑھے -
بوسیٹانیا اندلس غربی کا حصہ تھا موسیٰ نے اس کی طرف پیش قدمی کی اور سب سے پہلے شہر سبلا پہنچے ان کے آنے سے پہلے ہی یہاں ان کی ہیبت چها گئ تھی انہوں نے ان سے پہنچتے ہی صلح کر لی یہاں بھی انہوں نے کچھ سپاہی چھوڑے اور خود اسونیا کی طرف بڑھے -
اسونیا کا قلعہ نہایت مضبوط تها لیکن اس کے باشندوں کی ہمتیں اس فصیل کی طرح بلند نہ تهیں چنانچہ انہوں نے بھی صلح کر کے قلعہ مسلمانوں کے حوالے کر دیا وہاں سے موسی مرتبلس کی طرف بڑھے.
چونکہ انہیں فتوحات بغیر لڑے بهڑے ہی نصیب ہوتی جا رہی تھیں اس لیے ان کا جذبہ شوق بڑھتا چلا گیا جب وہ مرتبلس پہنچے تو وہاں کے عیسائیوں نے ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور صلح کر کے قلعہ ان کے حوالے کر دیا موسیٰ وہاں سے بیزاد کی سمت روانہ ہوئے.

اب تک انہوں نے جتنا بھی علاقہ فتح کیا وہاں کچھ نہ کچھ لشکر چھوڑتے رہے جس کی وجہ سے ان کا لشکر کم رہ گیا.
مسلمانوں کا عیسائیوں پر اتنا رعب چها گیا تھا کہ مزید لشکر منگوانے کی ضرورت ہی نہیں تهی.
بیزاد والوں نے ان سے مصالحت کر لی اور وہ آگے بڑھے.
تمام علاقے کو فتح کر کے وہ شہر مریڈا پہنچے. یہ شہر اس قدر خوبصورت تها کہ موسیٰ اور تمام مسلمان اسے دیکھ کر حیران رہ گئے.
وہ پہاڑ کے دامن میں آباد تھا اور اس کی فصیل نہایت بلند تهی ایسا لگتا تھا کہ اس شہر کے بانیوں نے بھاری پتهروں کو کاٹ کر بنایا تھا.
مریڈا والوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر دیا اور فصیل پر چڑھ گئے موسی سمجھ گئے کہ مریڈا والے لڑنے کے ارادے سے فصیل پر چڑھ گئے ہیں.
کونٹ جولین سے انہیں معلوم ہوا کہ اس قلعہ کے اندر کم از کم پچاس ہزار سپاہی موجود ہیں یہ دیکھ کر موسیٰ نے اپنا ایک قاصد اپنے بیٹے عبدالعزیز کے پاس روانہ کر دیا کہ امدادی لشکر لے کر جلد از جلد یہاں آ جائیں.
ادھر انہوں نے قاصد مریڈا والوں کے پاس بهیجا کہ وہ صلح کر لیں لیکن شہر والے آمادہ نہ ہوئے اور ایک معزز شخص نے بلند آواز میں کہا اپنے معزز سردار کہو کہ اس قلعہ کی فتح کا خیال دل سے نکال کر کسی اور طرف چلا جائے.
ورنہ اس کے لشکر کی تمام لاشیں اس فصیل کے نیچے سڑتی ہوئی نظر آئیں گی.
قاصد نے کہا تم فضول لڑ رہے ہو تمام ملک فتح ہو چکا ہے حتی کہ دارالسلطنت بھی اور تمہارے سردار بھی ہمارے مطیع ہو چکے ہیں پھر کس کے بھروسے پر تم لڑنا چاہتے ہو؟
اس شخص نے جواب دیا اپنے قلعہ کی مضبوطی اور لشکر کی کثرت تعداد کے بھروسے پر
اس کے علاوہ شاہ رازرق کی ملکہ نائلہ یہاں موجود ہے اور جب تک وہ یہاں رہے گی اس وقت تک ہم ان کی حفاظت کریں گے - "
قاصد واپس آ گیا اور اس نے قلعہ والوں کا پیغام سنا دیا.
موسیٰ نے جوش میں آ کر اپنے لشکر میں منادی کرا دی کہ رات کو حملے کے لیے تیار رہیں اور اگلے روز مریڈا پر حملہ کیا جائے گا -
اب تک اس لشکر کو زور آزمائی کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ بغیر لڑے ہی انہیں فتوحات ملی تهیں مگر اب انہیں امید ہو چکی تھی کہ مریڈا والوں سے جنگ ضرور ہو گی.
وہ امیر کے اعلان کو سن کر بہت خوش ہوئے اور ساری رات لڑائی کی تیاری کرتے رہے____
ہولناک لڑائی_____

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS