Andalas Pe Musalmanon ki Hukumat Kaise Hui?
<فاتح اندلس>
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 36________Part 36
ہولناک لڑائی_____موسیٰ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے. لیکن پچھلی رات میں اٹهہ بیٹھے اٹهہ کر وضو کیا-
تہجد کی نماز پڑهی اور نماز پڑھ کر سجدہ ریز ہو گئے پروردگار عالم سے عرض کی-"
خدائے بے نیاز آج کرہ ارض پر تیری الوہیت کی منادی اور سچے دل سے تیری عبادت کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں-
وہ مسلمان جو تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اور اطاعت گزار ہیں جو تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں-
اگرچہ تو بے نیاز ہے اور تجھے اس کی پروا نہیں کہ کون تیری عبادت کرتا ہے کون تجھے مانتا ہے اور کون تیری توحید کا قائل اور اس کا مبلغ ہے لیکن مسلمان تیرے ہیں وہ جو کچھ کرتے ہیں تیرے ہی بھروسے پر کرتے ہیں تو ان کی مدد کر اور انہیں رسوا ہونے سے بچا لے-
تونے اپنے کلام پاک قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے-"
ترجمہ : یعنی تو مالک ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دے-
تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے اے پروردگار تو مسلمانوں پر رحم کر، انہیں عزت دے اور فتح یاب کر!"
یہ دعا مانگ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور صبح تک کلام الہی پڑهتے رہے صبح کو انہوں نے نماز پڑھائی اور مسلمانوں کو مسلح ہو کر قلعہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا-
مسلمان فوراً اپنے اپنے خیمے پر پہنچے اور مسلح ہو کر فصیل کی طرف نکل کر صف بستہ ہونے لگے-
ابهی مسلمانوں کی صفیں درست نہ ہوئی تھیں کہ قلعے کا پھاٹک کهلا اور عیسائی سواروں کا سیلاب قلعہ میں سے نکل کر مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگا.
موسیٰ اور مسلمانوں نے انہیں قلعہ سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہی سمجھ لیا تھا کہ انہیں اپنی کثرت پر زعم ہے سامان حرب پر ناز ہے اور فخر و غرور کے مجسمے بن کر مسلمان کو فنا ڈالنے کے لئے بڑے ہی عزم و ارادہ سے قلعہ سے باہر نکلے ہیں - "
موسیٰ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کو دور تک پھیلا دیا - صف بندی کر لی اور مسلمان جنگ کے لئے مستعد ہو گئے -
عیسائیوں کا لشکر برابر آ رہا تھا اور آ آ کر مسلمانوں کے لشکر کے محاذ میں پھیلتا جا رہا تھا.
ان کے افسران کی صف بندی کرتے جا رہے تھے -
اس وقت آفتاب کسی قدر بلند ہو گیا تھا اور دھوپ پھیل گئی تھی -
سرفروشوں کے لباس اور ہتھیار دھوپ میں جگمگا رہے تھے -
موسیٰ نے دیکھا کہ قلعہ کے پھاٹک کے اوپر ایک خوبصورت سہ دری ہے جس کے دروازے نہایت شاندار اور خوبصورت ہیں -
اس سہ دری میں چند کرسیاں ڈالی گئی ہیں اور ان میں ایک کرسی پر ایک نہایت حسین خاتون بیٹھی ہے -
جس کی ریشمی پوشاک اور جواہرات کے زیورات کے اتنا فاصلہ ہونے پر بھی چمک رہے ہیں -
اس وقت موسیٰ کے پاس کونٹ جولین موجود تھا موسیٰ نے اس سے دریافت کیا-"
یہ سامنے دروازہ کے اوپر کون عورت بیٹھی ہے؟ "
جولین نے غور سے دیکھ کر کہا یہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے - "
اب عیسائی لشکر میں طبل جنگ پر چوٹیں پڑیں اور اس کی ہیبت ناک آواز سے تمام میدان گونجنے لگا-
موسیٰ نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو پچیس ہزار عیسائی صف بستہ نظر آئے اور سامنے فصیل پر بھی بے شمار عیسائی سپاہی کھڑے تھے -
موسیٰ نے بھی اپنے لشکر کو بڑھنے کا اشارہ کیا.
مسلمانوں کی صفیں بھی سمندر کے طوفان خیر موجوں کی طرح آگے بڑھنے لگیں-
دونوں لشکر دو کوہ شکن موجوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے -
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ تیروں کی جنگ کر کے لڑائی کو طول نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ دونوں فوجوں میں سے کسی نے بھی کمانیں نہ سنبھالیں، بلکہ برابر بڑھتے رہے-
یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اب عیسائیوں نے ایک شور عظیم کے ساتھ تلواریں میانوں سے نکال کر ہاتھوں میں اٹها لیں صاف و شفاف تلواریں دھوپ میں جگمگاتی آنکھوں میں چوند پیدا کرتی ہوئی بلند ہوئیں.
مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگا کر اپنی تلواریں ہاتھوں میں لے کر تولیں-
چونکہ دونوں لشکر برق رفتاری سے بڑهہ رہے تھے اس لیے دونوں کی زبردست ٹکڑ ہوئی، ٹکر ہوتے ہی تشنہ تلواریں انسانوں کی طرف لپکیں اور ان سے بچنے کے لیے سپاہیوں نے سیاہ ڈھالیں اٹھا لیں-
چونکہ جنگ تمام پہلی صف میں شروع ہوئی تھی اور پہلی صف شمال سے جنوب تک تقریباً ایک میل لمبی تھی، اس لیے حد نگاہ تک تلواریں اٹھتیں اور جھکتی نظر آ رہی تھیں _ عیسائی بڑے جوش و خروش سے حملے کر رہے تھے وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد تمام مسلمانوں کو قتل کر ڈالیں مگر مسلمان بھی غیظ و غضب میں بھرے ہوئے نہایت پهرتی سے حملے کر رہے تھے -
ان کی تلواریں زبردست کاٹ کر رہی تھیں. جو مسلمان عیسائیوں پر حملہ کرتا تھا اسے قتل کئے بغیر نہ چهوڑتا تھا - "
مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کو الٹ دیا اس کے ایک ایک سپاہی کو چن چن کر مار ڈالا تھا اور اب انہوں نے دوسری صف پر حملہ کر دیا -
موسیٰ ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار لئے نہایت جوش و خروش اور دلیری سے لڑ رہے اور قتل کر رہے تھے -
وہ ضعیف العمر تهے - اتنے بوڑھے کہ ان کی ڈاڑھی برف کی مانند سفید تهی مگر دل جوان تھا اور جوانی کی سی امنگ اور جوانوں ہی کے جوش سے لڑ رہے تھے -
ان کی شمشیر خار شگاف نہایت پهرتی سے اٹھتی تھی اور نہایت تیزی سے کاٹ ڈالتی تهی -
انہیں اس طرح لڑتے دیکھ کر تمام مسلمانوں کو جوش آ رہا تھا اور ہر مسلمان نہایت شدت اور دلیری سے حملے کر رہا تھا - "
چونکہ مسلمان لڑائی میں کچھ ایسے مصروف تھے کہ انہیں اپنے تن بدن تک کا ہوش نہیں تھا اس لیے وہ اپنی حفاظت سے غافل ہو گئے اور غافل ہونے کی وجہ سے شہید ہو رہے تھے مگر کثرت سے نہیں جس طرح عیسائی مر رہے تھے -
عیسائیوں کی تو پہلی اور دوسری صفوں کا صفایا ہو چکا تھا اور مسلمانوں کی پہلی صف میں سے چند مسلمان شہید ہوئے تھے -
مرنے والوں کے گھوڑے دولتیاں جھاڑتے پهر رہے تھے ان کا جس طرف رخ ہوتا وہ لاتیں مارنے لگتے تھے -
ان گھوڑوں سے مسلمان اور عیسائی دونوں کو نقصان پہنچ رہا تھا -
چنانچہ کچھ مسلمانوں نے انہیں پکڑ کر عیسائیوں کی طرف بھگا دیا زخم خوردہ گھوڑوں نے عیسائی لشکر میں پہنچ کر کچھ ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ عیسائیوں کو ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہو گیا-
جب کہ عیسائی ان سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے اس وقت مسلمانوں نے ان پر پوری شدت سے حملہ کر دیا اب عیسائیوں پر دوہری مار پڑنے لگی-
ایک گھوڑے تو دوسرا مسلمانوں نے انہیں کاٹنا شروع کر دیا -
اسی سے وہ گھبرا اٹھے اور ان کی گھبراہٹ مسلمانوں نے دیکھ لی-
انہوں نے اور زور و شور سے حملے کرنا شروع کر دئیے اور ہر طرف ہر محاذ پر ایسی خون ریز جنگ کی کہ لاشوں پر لاشیں بچها دیں-
عیسائیوں نے مقابلہ کے لیے کچھ ہاتھ پیر مارے مگر مسلمانوں کے جوش کے سامنے کچھ نہ کر سکے اور مرنے لگے.
باوجود یکہ عیسائی زیادہ مر چکے تھے اور اب بھی مر رہے تھے ان کی تعداد کم نہیں ہو رہی تھی مسلمان عیسائیوں کو ختم کرنے میں کچھ ایسے مشغول ہوئے تھے جسے انہوں نے انہیں ختم کر کے ہی چھوڑنا ہے وہ ایک ہاتھ میں ڈھالیں لیے دوسرے میں تلوار پکڑے بڑی پهرتی سے حملے کر رہے تھے -
اب تک مسلمانوں نے عیسائیوں کی کئی صفیں الٹ دی تهیں اور ان کے اگلے سواروں کو پچھلوں سے ملا دیا تھا -
عیسائیوں کو مسلمانوں پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا کہ وہ بہت ہی کم اور پھر ایسے جوش سے لڑ رہے تھے کہ خود تو مرتے نہیں عیسائیوں کو برابر قتل کئے جا رہے تھے -
اور اگر کوئی مرتا تو شاذ و نادر عیسائیوں کے افسر انہیں للکار للکار جوش دلا رہے تھے کہہ رہے تھے کہ مسلمان کم ہیں تمہاری زرا سی ہمت اور تھوڑا سا استقلال ان کا خاتمہ کر دے گا-
عیسائی سوار بھی یہی سمجھ رہے تھے لیکن جب بھی وہ جوش میں آ کر حملہ کرتے مسلمان انہیں تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیتے تھے اور ان کے جوش اور ان کی جرات کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ وہ بے چارے قتل ہو کر گر پڑتے تھے اور اپنے وجود سے میدان جنگ کو پاٹ دیتے تھے -
مسلمان ایسے ہی جوش و خروش میں بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے اس بات کا بھی خیال چهوڑ دیا کہ وہ ہر طرف سے دشمن کے نرغے میں ہیں اور انہیں سنهبل کر لڑنا چاہیے وہ بڑهہ بڑهہ کر حملے کر رہے تھے ہر حملہ میں عیسائیوں کی تعداد کم کرتے چلے جاتے تھے -
اس وقت دوپہر ہو گئ تھی آفتاب عین سر پر آ گیا تھا -
شدید گرمی اور لڑنے والوں کو پسینہ آ رہا تھا مگر نہ انہیں گرمی کا خیال تھا نہ پیاس کی شدت نہ دھوپ نہ پسینے کا احساس وہ لڑائی میں مصروف تھے اور جوش و خروش سے لڑ رہے تھے -
نائلہ قلعہ کے دروازے پر بیٹھی میدان کارزار کی طرف دیکھ رہی تھی وہ ایسی حسین تهی کہ دور سے بھی چاند کی طرح چمکتی ہوئی نظر آ رہی تھی -
موسیٰ ابهی تک جوش و خروش سے لڑ رہے تھے انہوں نے بہت سے عیسائیوں کو جہنم واصل کر دیا تھا -
ان کے ایک طرف ان کا بیٹا عبداللہ اور دوسری طرف دوسرا بیٹا مروان تھا اور یہ دونوں جوش اور دلیری سے لڑ رہے تھے -
موسیٰ نے سنبھل کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اس نعرہ کو سن کر مسلمان بھی سنهبل گئے اور انہوں نے بھی ایک ساتھ اس پر ہیبت نعرہ کی تکرار کی اور نعرہ لگاتے ہی اس شدت سے حملہ کیا کہ عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بد حواس ہو کر بے تحاشا قلعہ کی طرف بھاگے.
مسلمانوں نے آن کا تعاقب کیا ہر طرف سے انہیں گھیر کر مولی کھیرے کی طرح کاٹنا شروع کر دیا وہ انہیں قتل کرتے ان کے پیچھے چلے گئے-
ان کا ارادہ تھا کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ ہی قلعہ میں داخل ہو جائیں گے لیکن عیسائیوں نے پھاٹک بند کر لیا کچھ لشکر تو قلعہ میں بند ہو گیا مگر اب بھی بے تحاشا عیسائی باہر رہ گئے.
مسلمانوں نے انہیں بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک عیسائی کو بھی زندہ نہ چھوڑا اور ایک ایک کر سب کو مار ڈالا -
چونکہ پھاٹک مضبوط تها اور آسانی سے اسے توڑا نہیں جا سکتا تھا اس لیے موسی نے واپسی کا اشارہ کیا اور اسلامی لشکر واپس لوٹ کر خیموں میں آ گیا_____ب
برج الشہداء_____عیسائی مریڈا سے بڑے سازو سامان کے ساتھ اور بڑی کثرت سے میدان جنگ میں نکلے تھے کہ مسلمانوں کو مار ڈالیں گے انہیں بھگا دیں گے لیکن جب مقابلہ ہوا اور مسلمانوں نے انہیں تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیا تو شکست کها کر بھاگے-
ایسے کہ پیچھے پهر کر بھی نہ دیکھا-
اس جنگ میں عیسائیوں کا بہت نقصان ہوا ان کے کم و بیش سات ہزار آدمی مارے گئے مسلمانوں کے بهی چار سو مجاہد شہید ہوئے-
اس لڑائی نے عیسائیوں کے بڑھتے ہوئے حوصلے پست کر دئیے اور اب وہ مسلمانوں سے کچھ ڈر گئے کہ انہیں دست بستہ لڑنے کی جرات نہ ہوئی، حالانکہ مسلمان روزانہ میدان جنگ میں نکل کر ان کے قلعہ سے نکلنے کا انتظار کرتے تھے اور دوپہر ڈھلے واپس لوٹ جاتے تھے -
کئی روز اسی طرح گزر گئے مگر عیسائی پهر قلعہ سے باہر ہی نہ نکلے.
مسلمان فصیل پر بھی چڑھ آتے تھے کہ کسی طرح ایک مرتبہ عیسائی قلعہ سے باہر نکل آئیں اور صف آراء ہو کر لڑائی کریں تاکہ لڑائی کا فیصلہ جلد اور آسان ہو مگر ان کی آرزو پوری نہ ہوئی.
موسیٰ نے دیکھ لیا کہ قلعہ اس قدر مضبوط ہے کہ اس پر حملہ کر کے اسے فتح کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. اس لئے وہ اس پر حملہ نہیں کر رہے تھے -
وہ محصورین کو محاصرہ سے تنگ آ کر لڑائی پر آمادہ کرنے کی تدبیر کر رہے تھے -
ان کا خیال تھا کہ جب قلعہ کے اندر رسد وغیرہ نہ پہنچے گی تو عیسائی بھوکے مرنے لگے گے اور پھر وہ یا تو میدان میں آ کر مردانہ وار لڑیں گے یا ہتھیار ڈال کر قلعہ ہمارے حوالے کر دیں گے - "
اس میں شک نہیں کہ محاصرہ پورے طور پر کیا جا رہا تھا -
نا ممکن تھا کہ کوئی عیسائی قلعہ سے باہر آ جا سکے.
محاصرہ کی سختی سے عیسائی تنگ آ چکے تھے اور انہیں خوف لاحق ہو گیا تھا کہ اگر چند روز یہی کیفیت رہی تو وہ بھوکے مرنے لگیں گے -
جب کئی روز گزر گئے اور عیسائیوں نے کوئی حرکت نہ کی تو موسیٰ کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے قلعہ پر دھاوا کرنے کا ارادہ کر لیا -
چنانچہ ایک روز صبح کی نماز پڑهتے ہی انہوں نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جملہ ہتھیار اور قلعہ کو توڑ ڈالنے اور اس پر چڑھ جانے کا سامان مسلح ہو کر میدان جنگ میں نکلیں مسلمان خالی پڑے ہوئے بیزار ہو رہے تھے انہیں خوشی ہوئی کہ آج پھر دلوں کے حوصلے نکالنے کا موقع ملے گا،
چنانچہ مسلمان بہت جلد مسلح ہو کر ہر قسم کے سامان کے ساتھ میدان جنگ میں آ گئے موسی بھی آ گئے اور انہوں نے آتے ہی کہا
مسلمانو!!!
ہم نے بہت انتظار کیا کہ عیسائی ایک مرتبہ میدان میں نکل کر نہیں آئے مگر ان پر ہماری ہیبت کچھ ایسی چها گئی ہے کہ پهر انہیں قلعہ سے باہر نکلنے کی جرات ہی نہیں ہوئی.
چونکہ مریڈا کے سامنے پڑے ہوئے عرصہ ہو گیا ہے اس لیے اب ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے -
عیسائیوں کو قلعہ کی مضبوطی پر گھمنڈ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ قلعہ ناقابل تسخیر ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اللہ کا نام لے کر حملہ کرو اور سیڑھیاں لگا کر قلعہ کی فصیل پر پہنچ کر کچھ لوگ تو فصیل توڑنے میں مشغول ہو جاؤ اور کچھ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر پہنچنے کی کوشش کرو! !!!!!
یہ مختصر تقریر کر کے موسیٰ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تمام مسلمانوں نے اس مبارک نعرہ کی تکرار کی اور اسلامی لشکر کا سیلاب قلعہ کی طرف بڑھا-
عیسائی فصیل پر کھڑے تھے انہوں نے جب مسلمانوں کو بڑھتے ہوئے دیکھا تو گلے پھاڑ پھاڑ کر چلا نے لگے اور فلاخنوں کے ذریعے سنگریزے مارنے لگے-
چونکہ مسلمان قلعہ کے نزدیک پہنچ گئے تھے اس لیے نوکیلے پتهروں کے ٹکڑے ان کو اور ان کے گھوڑوں کو زخمی کر رہے تھے -
انہوں نے فورا ڈھالیں آگے کر لیں اور خود کو اور گھوڑوں کو بچاتے آگے بڑھنے لگے-
مسلمان عجیب شان سے آگے بڑھ رہے تھے ان کی تلواریں پر تلاوں میں پڑی تھیں _
خنجر سینوں کے نیچے پیٹیوں میں اڑسے ہوئے تھے تیر کمانیں اور ترکش پشت پر بندھے ہوئے تھے نیزے بائیں رکابوں کے برابر کا بد یواروں کے سہارے سے کھڑے تھے -
ان کی چهینیاں ہتھوڑے اور میخیں تو بربروں میں تهیں اور تین تین ڈنڈوں کی سیڑھیاں داہنی طرف رکابوں کے برابر میں بندھی ہوئی تھیں اور یہ سیڑھیاں ایسی ہوتی تهیں کہ ان کے آخری بازوؤں میں سوراخ ہوتے تھے اور ان میں ڈنڈے ڈال کر انہیں جوڑا جا سکتا تھا اور اس طرح سے انہیں حسب ضرورت لمبا کیا جا سکتا تھا!
مسلمان دونوں ہاتھوں میں ڈھالیں سنبھالے پتهروں کے ٹکروں اور تیروں سے بچتے ہوئے بڑھے چلے جا رہے تھے -
عیسائیوں نے اب پتهروں کے علاوہ تیروں کی بارش بھی شروع کر دی مگر وہ زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑهہ رہے تھے -
عیسائیوں کو ان کو اس طرح بڑھتے دیکھ کر غصہ بھی آ رہا تھا اور حیرت بھی ہو رہی تھی -
ان کی سمجھ ہی نہ آتا تھا کہ مسلمان کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں جو زخمی ہونے پر بھی نہیں رکتے اور بدستور بڑھے چلے آ رہے ہیں -
: حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے جس زمانے میں کام کیا وہ حیرت انگیز ہی تھا-
موسیٰ ان کے دنوں لڑکے عبداللہ اور مروان اور تمام جانباز افسر سارے سرفروش مجاہدین سمیت نہایت اطمینان اور بڑے استقلال سے بڑھے چلے جا رہے تھے -
آفتاب چمک رہا تھا اور دھوپ پھیل رہی تھی -
ہوا کے خفیف جھونکے چل رہے تھے جس سے اسلامی پرچم لہرا رہے تھے -
عجب سماں تھا اور عجب وقت تها عیسائی چلاتے چلاتے اور سنگریزے اور تیر پھینکتے پھینکتے تهک گئے تھے کہ مسلمان ان کے شور کرنے اور تیروں اور پتهروں کی بارش کی بارش سے ڈر جائیں گے - "
رک جائیں گے اور قلعہ تک نہ پہنچ سکیں گے مگر ان کا خیال غلط تھا اور مسلمان بڑهہ کر فصیل کے نیچے پہنچ گئے تھے -
اب تو عیسائی بہت گھبرائے اور انہوں نے تازہ دم عیسائیوں کو فصیل پر چڑھا کر ان سے بڑے بڑے اور موٹے پتهر برسانا شروع کر دئیے مگر کچھ مسلمان فصیل کے عین نیچے پہنچ گئے تھے اور انہیں پتهر اذیت پہنچا رہے تھے مگر انہوں نے اس کی متعلق پروا نہ کی -
جو لوگ فصیل کے قریب پہنچ گئے تھے انہوں نے جلدی جلدی سیڑھیاں نکال کر جوڑیں اور ایک برج کے قریب لگا کر ان پر چڑھنا شروع کیا-
جب وہ برج کے برابر پہنچے اور انہوں نے سر ابھارے تو عیسائیوں کی تلواروں نے فورا ان کے سر اڑا دئیے اور کئی مسلمان شہید ہو گئے -
مسلمانوں نے برج کے ادھر ادھر اور سامنے پانچ سیڑھیاں لگائی تهیں اور پانچوں سیڑھیوں پر چڑھنا شروع ہو گئے-
برج کافی اونچا تھا مسلمان ڈنڈوں کو پکڑ پکڑ کر چڑھ رہے تھے اور اس لیے جب وہ برج کے قریب پہنچتے تو اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے.
یہی وجہ تھی کہ عیسائیوں کی تلواروں کے گھاٹ اترتے چلے گئے لیکن باوجود شہید ہو ہو کر گرنے کے ان کے قدم نہ رکتے تهے بلکہ برابر چڑھ رہے تھے اور جوش و غضب سے ان کا برا حال تھا -
موسیٰ ان کے دونوں بیٹوں اور کئی معزز افسر برج کے نیچے کھڑے یہ کیفیت دیکھ رہے تھے اور فرط غیظ و غضب سے ان کا خون کهول رہا تھا -
ان کے دیکھتے دیکھتے بہت سے مسلمان شہید ہو گئے اس برج کا نام اسی روز سے برج" برج الشہداء" مشہور ہو گیا -
آخر موسیٰ سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے تلواریں دانتوں میں دبائی اور ڈھال ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ میں ڈنڈوں کو پکڑتے ہوئے سیڑھی پر چڑھنے لگے ان کی دیکھا دیکھی سیڑھیوں پر چڑھنے والے تمام مسلمانوں نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا -
اور جب وہ برج کے قریب پہنچے اور انہوں نے سر ابھارا تو عیسائیوں کی تلواریں ان کی ڈھالوں پر تھیں موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر ایک عیسائی کی ٹانگ پکڑ لی اور جلدی سے اسے کھینچ کر نیچے ڈال دیا-
وہ نیچے کھڑے مسلمانوں کے سروں پر پڑا مسلمانوں نے اسے چونک کر دیکھا اور سمجھے کہ شاید کوئی مسلمان سیڑھی سے گر گیا ہے مگر جب انہیں عیسائی نظر آیا تو انہوں نے تلواروں سے اس کا قیمہ بنا ڈالا.
اس عرصہ میں موسیٰ نے ایک اور عیسائی کو نیچے پهینک دیا اس کا بھی وہی حشر ہوا اب موسیٰ برج میں داخل ہو چکا تھا اس لیے عیسائیوں کو طمع ہوئی اور وہ انہیں مارنے کے لیے آگے بڑھے ہر طرف سے ان پر تلواریں برسنے لگیں فورا ہی ایک اور مسلمان اوپر پہنچ گیا اور انہوں نے مقابلہ شروع کر دیا - "
اب مسلمانوں کا تانتا بندھ چکا تھا وہ ہر سیڑھی سے کودتے اور کودتے ہی تلوار لے کر مقابلہ پر اتر آتے عیسائی بھی ڈٹ گئے وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان گنتی کے چند ایک ہی برج میں آئے ہیں.
وہ انہیں قتل کر کے نیچے ڈال دینے کے لیے بڑی کوشش کر رہے تھے برج بہت بڑا تھا اور اس میں کافی مقدار میں عیسائی موجود تھے.
مسلمانوں نے پھیل کر تلواریں چلانا اور عیسائیوں کی گردنیں اتارنا شروع کیں چونکہ مسلمانوں کو اس وجہ سے جوش اور غصہ آ رہا تھا کہ ان کے بہت سے آدمی شہید ہو گئے تھے لہٰذا ان کا انتقام لینے کے لئے اس شدت سے حملے کر رہے تھے کہ عیسائیوں کے غول کے غول کٹ کٹ کر گر رہے تھے -
ہر مسلمان خون خوار شیر بن گیا تھا اور ہر مسلمان کی تلوار فرشتہ اجل بنی ہوئی تھی - انہوں نے چشم زدن میں ان تمام عیسائیوں کا خاتمہ کر دیا جو پہلے برج کے اندر موجود تھے لیکن ان کی آمد کا سلسلہ لگا ہوا تھا اور اگلوں کے مرتے ہی پیچھے تازہ دم آ جاتے تھے مگر جب کثیر تعداد قتل ہو گئ اور ان کی لاشوں سے تمام برج پٹ گیا تو وہ گھبرانے لگے اور پھر انہیں برج میں آنے اور لڑنے کی جرات نہ ہوئی،
: اب انہوں نے یہ سوچا تھا کہ جب مسلمان فصیل کی طرف آئیں گے تب آن پر حملہ کر کے انہیں قتل کیا جائے گا ۔
چونکہ اب مسلمان کافی تعداد میں برج کے اندر آ گئے تھے اس لیے وہ فصیل کی طرف بڑھنے لگے-
ابهی برج کے دروازے کے پاس بهی نہ پہنچے تھے کہ قلعہ کے نیچے سے اللہ اکبر کے پر شور نعرہ کی آواز آئی.
یہ لوگ لوٹ آئے اور انہوں نے جھانک جھانک کر دیکھا انہیں سامنے سے اسلامی لشکر آتا دکھائی دیا موسیٰ سمجھ گئے کہ عبدالعزیز امدادی لشکر لے کر پہنچ گئے ہیں انہیں ان کے آنے کی بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے جوش مسرت سے سرشار ہو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا -
اس نعرہ کی تکرار فصیل سے نیچے کھڑے ہوئے تمام لشکر نے کی.
عیسائی ان کے پیہم نعروں اور نئے آنے والے لشکر کو دیکھ کر گھبرا گئے.
اب موسیٰ برج پر پہنچے تو انہوں نے عیسائیوں کو سفید جھنڈا لہراتے ہوئے پایا.
ایک عیسائی نے آگے بڑھ کر کہا ہم صلح کی شرائط لے کر آئے ہیں.
موسیٰ نے پوچھا کیسی شرائط؟
عیسائی: بعد میں طے ہو گا فی الوقت جنگ بندی کی جائے.
موسیٰ: پر ہم برج خالی نہیں کر سکتے ہم نے اسے تلوار کے زور پر فتح کیا ہے-
عیسائی: کچھ حرج نہیں آپ برج پر قبضہ رکھیں. موسیٰ برج پر رہنے والے مسلمانوں کی حفاظت کا انتظام کیا ہو گا؟
عیسائی جو آپ مناسب سمجھیں! !
موسیٰ ہمارا کچھ لشکر فصیل پر ٹهہر ے گا -
عیسائی ہمیں منظور ہے-
موسیٰ اور تمہارے سپاہی فصیل سے اتر جائیں.
عیسائی لیکن اس طرح تو آپ تمام فصیل پر قبضہ کر لیں گے-
موسیٰ نہیں بلکہ ہم حفاظت چاہتے ہیں-
عیسائی بہتر ہے -
موسیٰ تو تم اپنے ساتھیوں کو فصیل سے نیچے لے جاؤ.
عیسائی بہت اچھا.
عسائی چلا گیا اور اس نے اپنی اور موسیٰ کی گفتگو سے دوسرے سرداروں کو مطلع کیا تمام سرداروں نے سارے لشکر کو فصیل سے نیچے جانے کا حکم دیا اور تمام سپاہی فصیل خالی کر کے قلعہ کے اندر چلے گئے.
اب چند سردار موسیٰ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہم نے آپ کے حکم کی تعمیل کر دی ہے-"
موسیٰ نے دیکھ لیا ہے اب صرف میں ڈھائی سو سپاہی برج اور برج کے سامنے فصیل پر تعینات کر دوں گا اور بقایا تمام لشکر اسلامی خیموں میں چلا جائے.
عیسائی غالباً آپ ہی لشکر کے سپہ سالار ہیں؟
ہاں میرا نام موسیٰ ہے تمام عیسائیوں کو ان کا نام سن کر حیرت ہوئی اور ان میں سے ایک نے کہا آپ موسیٰ ہیں غربی بلاد اسلامیہ کے وائسرائے؟ "
موسیٰ جی ہاں!
اب موسیٰ نے اڑھائی سو مجاہدین بلا کر برج پر تعینات کیے اور باقی لشکر خیموں میں لوٹ گیا تمام مجاہدین فتح و نصرت کے نعرے لگاتے خیموں میں گئے.
موسیٰ نے کہا اب میں بھی جا رہا ہوں آپ معززین کو لے کر کل صبح خیمہ میں آ جائیں.
عیسائی بولا بہت بہتر ہے - "
عیسائی سردار بهی وہاں سے چلے گئے اور موسیٰ برج میں اتر کر اپنے خیمے کی طرف روانہ ہوئے____خواب کی تعبیر______
خواب کی تعبیر_____نیا آنے والا لشکر قیروان سے عبد العزیز بن موسیٰ کی سر کردگی میں آیا تھا-
یہ کل سات ہزار تها -
انہوں نے آتے ہی جب لڑائی ہوتے اور مسلمانوں کو دھاوا کرتے دیکھا تو دشمنوں پر اپنی ہیبت بٹھانے کے دور ہی سے نعرہ تکبیر نہایت زور سے بلند کیا-
عیسائی یہ دیکھ کر گھبرا گئے کہ کہیں وہ فورا ہی حملہ نہ کر دیں اور اس طرح دونوں لشکر قلعہ کو فتح کر لیں جس سے عیسائی ڈر گئے اور انہوں نے مصالحت کی گفتگو کرنے کے لیے عارضی طور پر جنگ بندی کی درخواست پیش کی جسے موسیٰ نے منظور کر لیا-
موسیٰ برج کا انتظام کر کے نیچے اتر آئے اور انہوں نے برج کے نیچے سے اپنے خیمہ تک مجاہدین تعینات کر دیئے تاکہ اگر عیسائی برج والے مسلمانوں پر حملہ کریں تو وہ فوراً امداد کو پہنچ سکیں اور کچھ آدمی اطلاع کر دیں-
پہلے اکثر اوقات ایسا ہو چکا تھا کہ عیسائیوں نے اپنے قول و قرار کرنے کے بعد عہد شکنی کی تھی اس لیے مسلمان ان کا اعتبار بہت کم کرتے تھے -
جب موسٰی نئے آنے والے اسلامی لشکر کے سامنے پہنچا تو عبد العزیز نے آگے بڑھ کر موسیٰ کو سلام کیا موسیٰ نے کہا-"
قرات العین تم خوب وقت پر پہنچے-"
عبد العزیز میں آپ کا فرمان پہنچتے ہی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہی چل پڑا تھا -
موسیٰ بہت خوب کیا تم نے تمہارے آنے سے عیسائی مرعوب ہو گئے -
عبدالعزیز کیا انہوں نے اطاعت قبول کر لی؟ "
موسیٰ ابهی نہیں ابھی تو عارضی جنگ بندی ہے.
عبدالعزیز شاید صلح پر آمادہ ہو گئے ہیں -
موسیٰ کل ان کا وفد مصالحت کے لیے آئے گا نور چشم تم اپنے لشکر کو ٹهہرا و اور خود بھی جا کر آرام کرو! !!!
عبد العزیز بہتر ہے
وہ سلام کر کے واپس لوٹے اور انہوں نے لشکر کو خیمہ زن ہونے کا حکم دیا فوراً ہی سپاہی گھوڑوں پر سے اتر پڑے اور انہوں نے خیمے نصب کرنا شروع کر دیئے-
تهوڑی دیر میں خیمے نصب کر کے وہ آرام کرنے لگے اور عبد العزیز اپنے خیمے میں چلے گئے-
موسیٰ اپنے خیمے پر پہنچے وہ کبھی کبھی خضاب کر لیا کرتے تھے آج بھی کچھ ان کے دل میں آ گئی اور انہوں نے خضاب لگا کر ڈاڑھی کو سیاہ کر لیا-
دوسرے روز آفتاب طلوع ہوتے ہی عیسائیوں کا وفد ان کی خدمت میں حاضر ہوا-
اس وقت کچھ لوگ وہی تهے جو گزشتہ روز برج کے سامنے عارضی التوائے جنگ کرانے کے لیے موسی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور کچھ دوسرے لوگ تھے-
موسیٰ کو عجیب لگا کہ اگر یہ لوگ صلح کے لیے آئے ہیں تو گفتگو کیوں شروع نہیں کرتے اور اگر صلح نہیں چاہتے تو آخر آئے کیوں ہیں؟نہ آتے-
کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد آخر موسیٰ نے دریافت کیا
کہیے کیسے تشریف لائے ہیں؟ "
ان میں سے ایک شخص نے کہا ہم آپ کے امیر سے ملنا چاہتے ہیں جن سے کل برج پر ملاقات ہوئی تھی -
موسیٰ وہ میں ہی ہوں میرا نام موسیٰ ہے میں مغربی بلاد اسلامیہ کا وائسرائے ہوں کل مجھ سے ہی گفتگو ہوئی تھی -
جو لوگ ان سے گزشتہ روز مل چکے تھے انہوں نے حیرت سے انہیں دیکھ کر کہا - "
آپ وہی ہیں؟ "
موسیٰ ہاں کیوں؟
ایک عیسائی نے کہا مگر کل تک تو آپ کی ڈاڑھی بالکل سفید تهی -
موسیٰ نے مسکرا کر کہا جی ہاں آج سیاہ ہے-"
اہل اندلس خضاب کے نام سے ہی واقف نہیں تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ سفید بالوں کو سیاہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
چونکہ موسیٰ نے ڈاڑھی سیاہ کر لی تھی اس لیے انہوں نے اسے نہیں پہنچانا اور جب موسٰی نے بتایا کہ میں وہی ہوں جن سے کل آپ کی بات ہوئی تھی انہیں بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے آپنی زبان میں آپس میں کچھ کہا-"
دنیا کی کونسی قوم ان سے لڑ سکتی ہے جو اپنی عمر تبدیل کر سکتے ہیں جن کے بوڑھے جب چاہیں جوان ہو سکتے ہیں بہتری اسی میں ہے جو شرائط پیش کریں مان لیں-
انہیں تسلیم کر کے صلح کر لیں.
سب اس بات پر متفق ہو گئے چنانچہ موسیٰ سے ایک آدمی نے کہا-
ہم فضول خون ریزی کو پسند نہیں کرتے اس لئے چاہتے ہیں کہ صلح کر لیں ایسی شرائط پر جن سے ہماری قوم کی سبکی نہ ہو.
موسیٰ میں نے پہلے ہی قاصد آپ کے پاس بهیجا تها میں خود خلق خداکا خون بہانا پسند نہیں کرتا اس لئے ہماری شرائط کچھ سخت اور اہانت انگیز نہیں ہو گی -
ایک عیسائی نے کہا اچھا تو شرائط بیان کریں.
موسیٰ سب سے پہلے تو یہ کہ جو لوگ قلعہ مریڈا میں رہنا چاہتے ہیں انہیں اپنے تمام ہتھیار اور گھوڑے ہمارے حوالے کرنا ہوں گے اور جو لوگ نہیں پسند کرتے انہیں مریڈا سے چلے جانے کی اجازت دی جائے گی -
مگر ان کے جانے سے پہلے ان کی تمام املاک ضبط کر لی جائیں گی جو لوگ قلعہ میں رہیں گے ان کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی.
ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے انہیں معمولی محصول جزیہ کے نام پر ادا کرنا پڑے گا -
عیسائی یہ شرائط معقول ہیں ہمیں منظور ہیں -
موسیٰ بس تو آپ جائیں اور سب گھوڑے اور ہتھیار جمع کر لائیے لیکن یہ خیال رکھئے کہ کسی کے پاس ان دو چیزوں میں سے کوئی چیز : رہ نہ جائے.
عیسائی اطمینان رکهے ایسا نہ ہو گا جب اعتبار کرتے ہیں تو ہم دغا بازی نہ کریں گے!
موسیٰ شرافت کا تقاضا تو یہی ہے لیکن اگر کسی کے پاس ہتھیار یا گھوڑے پائے گئے تو اس کی تمام چیزیں بحق اسلامیہ ضبط کر لی جائیں گی اور اسے جلا وطن کر دیا جائے گا -
عیسائی نہایت مناسب ہے ہم شام تک یہ چیزیں جمع کر کے حاضر ہو جائیں گے -
موسیٰ بہتر ہے -
عیسائی سلام کر کے چلے گئے اور موسیٰ نے لشکر میں اعلان کر دیا کہ آج جنگ ملتوی رہے گی شام تک عیسائی گھوڑے اور ہتھیار جمع کر لائے موسیٰ نے ان کو شمار کرا کر اپنی تحویل میں لے لیا اور اسی وقت علی بن ربیع کو قلعہ پر قبضہ کرنے کے لیے بهیجا دیا چلتے وقت اسے ہدایت بھی کر دی کہ کسی عیسائی سے کوئی تعرض نہیں کرے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے سر پر ہے.
علی نے جاتے ہی قلعہ پر قبضہ کر لیا اور یہ واقعہ یکم شوال 93 عین عید الفطر کے روز کا ہے.
عبدالعزیز کو یہ خطہ نہایت ہی بهلا معلوم ہوا وہ گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑوں کے متعلقات کی سیر کرنے لگے.
پہلے وہ پہاڑ پر گئے جس طرف بھی انہوں نے نظر اٹھائی انہیں سبزہ ہی نظر آیا.
وہ سبز پہاڑ کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور اس کے نظارہ میں ایسے محو ہوئے کہ بے اختیار بڑھتے ہی چلے گئے.
جوں جوں وہ بڑھتے جاتے تھے پہاڑ کی دل فریبی بڑھتی جا رہی تھی -
بہت سی چٹانیں پھولوں سے لدی ہوئی تهیں اور ان پر عجیب قسم کے درخت کھڑے تھے -
وہ ان چٹانوں کو دیکھتے ہوئے ایک ایسی وادی میں جا نکلے جس کا چپہ چپہ سبزہ زار تها لیکن اس میں کھنڈرات بھی بہت زیادہ تهے -
معلوم ہوتا تھا کہ کسی زمانہ میں وہاں آبادی تھی جو استبداد زمانہ نے مٹا کر کھنڈر بنا ڈالی تھی -
وہ ان کھنڈرات کو دیکھتے ہوئے بڑھتے رہے کچھ دور جا کر انہیں ایک پتهر کا بت نظر آیا جو اتنا اونچا تھا کہ اس کا سر مشکل سے نظر آتا تھا.
اس کی اتنی بلند جسامت دیکھ کر خوف آتا تھا انہوں نے پہلے کبھی اتنا بڑا بت دیکھا نہیں تھا -
وہ اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے ۔
بت کو دیکھتے ہی انہوں نے کہا یہ وہی وادی ہے جو میں نے خواب دیکھا تھا جو انہوں نے قیروان میں دیکھا تھا.
یہ وادی جو میں دیکھ رہا ہوں اس کی سب چیزیں ویسی ہی ہیں جو میں نے خواب میں دیکھیں تهیں لیکن___! لیکن وہ نازنیں نہیں ہے جو اس بت کے دوسری طرف نظر آئی تھی.
کیا میرا خواب سچا ہونے والا ہے؟ "
لیکن وہ پری وش بھی نظر آئے جس کی یاد میرے دل میں چٹکیاں لتی رہتی تھی -
انہوں نے پهر بت کو دیکھا عجیب قسم کے پتهر کا بت تها -
اس کا ہر عضو نہایت صاف صاف کاریگری سے بنایا گیا تھا -
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس میں کہیں جوڑ نظر نہیں آتا تھا.
کہ ایک چابک دست صناعی نے کسی چٹان کو کاٹ کر اس بت کو تیار کیا تھا -
عبدالعزیز نے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن زیادہ بلندی کی وجہ سے صورت واضح نظر نہیں آ رہی تھی -
وہ اسے دیکھتے ہوئے اس کی پشت کی طرف چلے گئے اس طرف نہایت دلفریب قطعات پھولوں سے لبریز تهے خوش رنگ خوشبودار پھول کهل رہے تھے ان کی شادابی اور تروتازگی جاذب نظر بنی ہوئی تھی اور خوشگوار بهینی خوشبو پھیل رہی تھی -
ان کی نگاہیں پھولوں کے اوپر سے ہوتی ہوئیں سامنے جا پڑیں ان سے تهوڑی ہی دور چند مہ جبین کهڑیں تهی -
وہ سب نہایت بیش قیمت لباس پہنے ہوئے تھے ان مہ وشوں.کے درمیان ایک کم سن حسینہ تهی جو اعلی قسم کا لباس اور آب دار موتیوں اور جواہرات کے زیورات پہنے تهی اس کے گلے میں ایک طوق تھا جس میں لعل و یاقوت اور دوسرے بیش قیمت ہیرے وغیرہ جڑے ہوئے تھے وہ اس قدر چمک رہا تھا کہ اس کی طرف نظر بهر کر دیکها نہیں جا سکتا تھا.
اس طوق نے حور و وش کے چہرے میں بجلیاں بهر دی تهیں اور اس کی صورت آفتاب کی طرح جگمگا رہی تھی -
اس کے رخساروں سے حسن کی شعاعیں نکل رہی تهیں -
وہ حور و جمال عبد العزیز کو دیکھ کر مسکرائی ان کے دل پر بجلی گری اور وہ اس ہوش ربا صورت کو دیکھتے رہ گئے
اسمعیل کی بے نیازی______اسمعیل کے آ جانے سے مغیث الرومی اور تمام مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی اور خود اسمعیل بھی نہایت مسرور تھے ۔
مغیث الرومی انہیں اپنے ساتھ اسی محل میں لے گئے جس میں وہ خود ٹھہرے تھے ۔
وہاں پہنچ کر انہوں نے اسمعیل کی گرفگاڑی اور رہائی کے مفصل واقعات بیان کرنے کی استدعا کی اور انہوں نے اپنی گرفتاری اور رہائی پہاڑ کی چٹان کی چڑھائی قیمتی پتھر اور چاندی کی کانوں کے تمام حالات تفصیل سے بیان کر دئیے ۔
مغیث الرومی اور دوسرے مسلمان بیٹھے نہایت تعجب اور بڑے شوق سے سنتے رہے جب وہ سب کچھ بیان کر چکے تو مغیث الرومی نے کہا ۔
نہایت حیرت انگیز واقعات سنائے ہیں آپ نے کیا آپ آب بھی اس چٹان پر پہنچ سکتے ہیں جہاں چاندی اور پتھر کی کانیں دیکھیں تھی؟ "
اسمعیل: جی ہاں میرے خیال میں میں آب بھی وہاں پہچ سکتا ہوں!!!
مغیث الرومی مگر تم اسے بھول جاو اور کبھی وہاں جانے کا ارادہ نہ کرنا ۔
اسمعیل میں خود کبھی بھی وہاں نہیں جاوں گا ۔
مغیث الرومی دیکھو دولت انسان کو اس دنیا کی دلفریبیوں میں پھنسا کر اللہ سے دور اور عقبی سے غافل کر دیتی ہے ۔
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے دولت لینے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو اللہ تعالی سونے چاندی کے پہاڑ بنا دیتا ہم مسلمان ہیں ہمیں انہیں کی پیروی کرنی چاہیے ۔
اسمعیل اچھا اب آپ لڑائیوں کے واقعات سنائیے!
مغیث الرومی نے شاہ رازرق کے ٹڈی دل لشکر کی لڑائی اور قرطبہ کی فتح کے تمام حالات نہایت تفصیل سے بتائے ۔
اسمعیل نے افسوس کرتے ہوئے کہا میرے لیے کس قدر افسوس کی بات ہے کہ میں پہاڑ پر چڑھا ٹکریں مارتا رہا اور آپ دشمنوں سے جہاد کرتے رہے کاش میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا اور اپنے دل کے حوصلے نکالتا- "
مغیث الرومی افسوس نہیں کرتے ہم اپنے وطن اور گھر سے جہاد کرنے کے لئے آئے تھے تم جہاں کہیں بھی رہے مجبوری کی وجہ سے رہے اور اس لئے ان شاءاللہ تمہیں ثواب ملے گا انہیں مجاہدین کے برابر ملے گا ۔
اس کے علاوہ ابھی بہت ملک باقی پڑا ہے خوب حوصلے نکالنا ۔
اسمعیل اور تدمیر کا کیا ہوا؟
مغیث الرومی وہ بچ کر نکل بھاگا ۔
اسمعیل ان شاءاللہ اسے میں ٹھکانے لگاوں گا!
مغیث الرومی ان شاءاللہ اب آپ اپنے لئے ایک کمرے کا انتخاب کر لیں اور ارام کریں ۔
اسمعیل جی بہتر ۔
اسمعیل اٹھ کر چلے گئے انہوں نے دیکھا کہ محل انتہائی شاندار تھا اور نہایت خوبصورت اور لمبے چوڑے کمرے تھے ایک کمرہ انہوں نے بھی منتخب کر لیا اور اس میں ٹھہر گئے ۔
انہیں کئ دن ہو گئے تھے اس کمرے میں ٹھہرے ہوئے لیکن انہوں نے کبھی بھی بلقیس کے کمرے کی طرف جانے کی خواہش نہ کی ۔
دراصل انہیں یہ خیال تھا کہ بلقیس جب تک پہاڑ پر تھی اسے حفاظت کے لیے اس کی ضرورت تھی مگر اب وہ اپنے گھر آ گئی تھی تو اسے اس کی حاجت نہیں رہی تھی ۔
انہوں نے یہ بھی خیال کیا کہ ممکن ہے وہ آس سے اس کے مکان پر ملنا پسند نہ کرے اس وجہ سے وہ وہاں گئے ہی نہیں ۔
حالانکہ بلقیس کی یاد ہر وقت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہتی وہ اپنے دل سے اس کا خیال نکالنے کی کوشش کرتے تھے عجیب بات یہ تھی کہ جتنا وہ اس کے خیال سے بچنے کی کوشش کرتے اسی قدر اس کی یاد ستاتی رہتی ۔
چونکہ قرطبہ پر مسلمانوں کا عمل دخل ہو گیا تھا اس لئے آب وہاں ان کے رہنے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی ۔
چنانچہ مغیث الرومی نے انہیں طلیطلہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور مسلمان تیاریاں کرنے لگ گئے ۔
اب تک تو اسمعیل کو یہ خیال تھا کہ وہ اسی شہر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جس میں وہ فتنہ روزگار ہے جس کی یاد ان کے دل میں ہے مگر اب اس شہر سے وہ جانے والے تھے ۔
انہیں نا معلوم غم و اندیشہ نے گھیر لیا آب وہ چاہتے تھے کہ اس سے الوداعی ملاقات کر لیں لیکن ہمت نہ پڑی اور وہ بھی سفر کی تیاریاں کرنے لگے ۔
ایک روز وہ اپنے کمرے میں انہیں خیالات میں کھوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے ہلکے قدموں کی چاپسنی ۔
وہ سنبھی کر بیٹھ گئے اور انہوں نے دیکھا تو بلقیس نہایت شان بڑے انداز اور کمال دلربائی سے اس کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی ۔
انہیں ایسا معلوم ہوا جیسے چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ تاریکی کے پردے چاک کر کے اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے وہ اسے دیکھ کر مسحور سے ہو گئے ۔
اس نے قریب آ کر بڑے دلفریب انداز میں کہا بے مروت سنگ دل سلام! "
اسمعیل نے سلام کا جواب دے کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی اسمعیل نے کہا میں بے مروت سنگ دل ہوں؟ "
معلوم ہوتا تھا کہ حور و وش حسینہ اس سے ناراض تھی ۔
جی نہیں آپ کو کیوں ہونے لگے ۔
اسمعیل مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں تم نے یہ الزام مجھ پر لگایا ہو ۔
بلقیس اس کی طرف ایسی نظروں سے جن میں محبت آمیز غصہ تھا ۔
بلقیس جب تک میرے ساتھ تھے۔ تب تک تو ایسی باتیں نہ بناتے تھے ۔
اسمعیل گویا میں باتیں بنا رہا ہوں؟
بلقیس نہیں میں بنا رہی ہوں ۔
اسمعیل آخر تم خفا کیوں ہو؟
بلقیس اپنے دل سے پوچھو ۔
اسمعیل اگر دل بولتا ہوتا تو __؟-
بلقیس تو کیا؟
اسمعیل تو میں اس سے پوچھتا ۔
بلقیس آپ کا دل پتھر کا تو نہیں؟
اسمعیل اور تمہارا؟ "
بلقیس میرا __خیر چھوڑو بتاو تم بھی چلے جاو گے یا نہیں؟ "
اسمعیل بھلا میں یہاں کیسے رہ سکتا ہوں؟ "
بلقیس یہ تو میں پہلے ہی جانتی تھی ۔
اسمعیل کیا جانتی تھی؟
بلقیس یہی کہ آپ یہاں نہیں رہیں گے چلے جائیں گے ملے بغیر ۔
اسمعیل میں نے کئ مرتبہ تمہارے مکان پر جا کر تم سے ملنا چاہا مگر __
بلقیس مگر کیا فرصت نہیں ملی؟ -
اسمعیل نہیں بلکہ __
بلقیس مکان کا پتہ نہ چلا؟ "
اسمعیل اب تم کہنے تو دیتی نہیں ہو ۔
بلقیس اچھا کہیے؟
اسمعیل ہمت نہیں پڑی ۔
بلقیس کیوں؟
اسمعیل اس لئے کہ مجھے لگا شاید تم خوش اخلاقی سے پیش نہ آو یا تمہارے والد میرا آنا پسند نہ کریں ۔
بلقیس آہ،اسمعیل ایسا کیسے ہو سکتا تھا ۔
آج پہلا دن تھا کہ بلقیس نے اس کا نام لیا تھا ۔اس نے اس سیم تن کو دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے ۔
بلقیس نے پھر کہنا شروع کیا آپ اس خیال میں رہے اور میں نے سمجھا بے مروتی میں نہیں آئے ۔
اسمعیل اچھا اب تم خفا تو نہیں ہو؟ "
بلقیس نہیں لیکن __
اسمعیل لیکن کیا؟
بلقیس آپ یہاں سے نہ جائیں ۔
اسمعیل یہ کیسے ممکن ہے؟
بلقیس کیوں؟
اسمعیل مغیث الرومی مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔
بلقیس اچھا تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔
اسمعیل مگر تمہارے والد کیسے اجازت دیں گے؟
بلقیس میں انہیں راضی کر لوں گی ۔
اسمعیل اچھا تو میں آج ہی ان سے اجازت لے لوں گا ۔
بلقیس آج نہیں ابھی ۔
اسمعیل اچھا تم بیٹھو میں اجازت لے کر آتا ہوں ۔
بلقیس جائیے ۔
اسمعیل چلے گئے اور بلقیس تنہا رہ گئی وہ بیٹھی کچھ سوچتی رہی تھوڑی دیر کے بعد اسمعیل آ گئے انہوں نے کہا مغیث الرومی نے اپنی طرف سے اجازت دے دی ہے مگر انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے والد کا رضا مند ہونا ضروری ہے ۔
بلقیس میں انہیں رضا مند کر لیا ہے ۔
اسمعیل کیا وہ ہمارے ساتھ طلیطلہ جانے کے لئےرضا مند ہو گئے ہیں؟
بلقیس وہ آپ کے بے حد مشکور ہیں اس لئے میری ذرا سی تحریک پر رضا مند ہو گئے تھے ۔
اسمعیل جب تومیں فضول ہی تمہارے گھر آنے سے ہچکچاتا رہا ۔
بلقیس انہوں نے خود کہا کہ اسمعیل بے مروت ہے اک مرتبہ بھی تمہیں پوچھنے نہیں آیا ۔
اسمعیل واہ واہ میں بھی کس قدر سادہ لوح ہوں ۔
بلقیس اچھا اب اجازت دیجئے مجھے بھی تیاری کرنی ہے ۔
اسمعیل بہتر
بلقیس چلی گئی اور وہ اپنی سادہ لوحی پر دیر تک پچھتاتا رہا ۔تیسرے دن مغیث الرومی دو سو مسلمانوں کو قرطبہ چھوڑ کر باقی لشکر کے ساتھ طلیطلہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔
No comments:
Post a Comment