Musalmanon Ki Hukumat Andalas pe.
<فاتح اندلس>
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 37_________Part 37
جزبہ دل ______عبدالعزیز طوو والی بت طناز کو دیکھ کر محو دید ہو گئے تھے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ نازنین تھی ہی بے حد حسین ۔
اس پر اعلی قسم کی پوشاک بہترین زیورات اور ان پر طرہ خوش نما اور چمک دار طوق پہنے تھی اور بھی خوبصورت معلوم ہو رہی تھی ۔
یہ نائلہ تھی رازرق کی بیگم اور اندلس کی ملکہ عربی اور عیسائی ہر دو مورخین نے اس کی بہت تعریف کی ہے ۔
خصوصا عیسائی تو اسے ارض اندلس کی حور لکھتے ہیں ۔
مسلمان بھی اندلس کی نازنین کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
عبدالعزیز اس کو اور وہ عبدالعزیز کو دیکھ رہی تھی کچھ وقفہ بعد نائلہ ناز و انداز سے بل کھاتی ہوئی بڑھی اور ان کے پاس آ کر بولی آپ کون ہیں؟ "
وہ عربی جانتی تھی اور نہایت فصاحت سے بول رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔
میں ایک گمنام شخص ہوں نائلہ ہنس پڑی اور بولی گمنام؟ یا اپنا نام ہی نہیں رکھا؟ "
عبدالعزیز درست سمجھا آپ نے!
نائلہ آپ عرب کے رہنے والے ہیں؟
عبدالعزیز جی ہاں ۔
نائلہ مسلمانوں کے والی یا امیر آپ کے کچھ رشتے دار ہوتے ہیں؟ "
عبدالعزیز ہاں وہ میرے والد ہیں ۔
نائلہ یہ پچھلا لشکر شاید آپ ہی لے کر آئے ہیں؟ "
آپ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ "
عبدالعزیز اگر آپ سنیں تو عرض کروں!!!
نائلہ میں سن رہی ہوں آپ کہیں!
عبدالعزیز عرصہ ہوا تھا ایک خواب دیکھا تھا ۔
نائلہ چونک کر خواب؟ "
عبدالعزیز ہاں!
نائلہ کیا دیکھا تھا؟ "
عبدالعزیز جو کچھ اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔
نائلہ کیا یہ سر زمین آپ نے پہلے بھی دیکھی تھی؟ "
عبدالعزیز بالکل بھی نہیں ۔
نائلہ پھر خواب میں کیسے دیکھ لیا؟ '
عبدالعزیز میں نہیں کہہ سکتا کیسے لیکن دیکھا ۔
یہی کھنڈرات یہی بت اور اسی طرح بت کے پیچھے آپ کو کھڑے دیکھا!
نائلہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئی اور بولی اس نے کہا- "کہ اس نے مجھے کھڑے دیکھا؟ "
عبدالعزیز ہاں ۔
نائلہ عجیب بات ہے یہ تو!
عبدالعزیز ہاں نہایت عجیب جب میں نے اپنا خواب بیان کیا تو وہاں سیوطا کے گورنر کونٹ جولین اور اشبلایا کے راہب بھی موجود تھے ۔
نائلہ کو اور بھی زیادہ حیرت ہوئی اس نے کہا وہ دونوں وہاں کیوں گئے تھے؟ "
عبدالعزیز شاہ رازرق نے کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا کی آبرو ریزی کی تھی وہ فریادی بن کر گئے تھے ۔
نائلہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا ٹھیک ہے! "
یہ کہہ کر افسردہ سی ہو گئی اس افسردگی میں بھی کمال حسین معلوم ہو رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔"
مجھے کونٹ نے بتایا تھا کہ وہ خوش نما طوق والی دوشیزہ حور وش نائلہ ہے جو اندلس کی ملکہ ہے ۔"
نائلہ کے چہرے سے غم و حسرت کے آثار ظاہر ہو گئے تھے ۔
وہ سر جھکائے خاموش کھڑی تھی غالبا اسے اپنا وہ زمانہ یاد آ گیا تھا جب کہ وہ اندلس کی ملکہ تھی اور اس کا ہر باشندہ اس کی عزت کرتا تھا مگر اس کے ہوس کار شوہر کی بدکاری نے اس کی جان لے لی اور ملکہ اندلس کو دارالسلطنت سے بھاگ کر مریڈا میں پناہ لینا پڑی ۔
عبدالعزیز نے دریافت کیا کیا آپ ہی کا نام نائلہ ہے؟ "
نائلہ جی ہاں مجھ بد نصیب کا نام ہی نائلہ ہے ۔
عبدالعزیز آپ بد نصیب نہیں خوش قسمت ہیں ایسی خوش نصیب کہ جس پر دنیا رشک کرتی ہے ۔
نائلہ آہ میں جانتی ہوں ۔
وہ اس قدر غم زدہ ہو گئی کہ فقرہ پورا نہ کر سکی ۔
عبدالعزیز نے اسے تسلی دتیے ہوئے کہا آپ افسردہ نہ ہوں آپ جو حکم دو گی میں اس کی تعمیل کروں گی ۔
نائلہ آہ میں حکم دوں ایک قیدی کیا حکم دے سکتا ہے ۔
عبدالعزیز مگر آپ تو قیدی نہیں ہیں!
نائلہ میری قوم آپ کی غلام ہے ۔
عبدالعزیز نہیں نہیں آپ کنیز نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ایسا خیال کر کے اپنے دل کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔
نائلہ مقدر کا لکھا پیش آتا ہے مجھے اس کا رنج ضرور ہے لیکن اس رنج سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
عبدالعزیز آپ ذرا بھی غم نہ کریں بتائیں مجھے آپ کیا چاہتی ہیں ۔
نائلہ آپ کا بے حد شکریہ میں نے سنا ہے کہ والی طلیطلہ جانے والے ہیں ۔
عبدالعزیز جی ہاں ۔
نائلہ آپ بھی چلے جائیں گے ۔
عبدالعزیز بے شک مجھے ان کے ساتھ جانا پڑے گا ۔
نائلہ کیا میں آپ لوگوں کے ساتھ جا سکتی ہوں؟ "
عبدالعزیز بڑی خوشی سے ۔
نائلہ بس تو یہ ہی عنایت کیجئے ۔
عبدالعزیز عنایت یہ تو میری عین تمنا ہے!
نائلہ اور میری بھی ۔
اس کے بعد اس نے جلدی سے اپنی زبان آب دار موتیوں جیسے دانتوں میں دبا گویا اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہے جسے وہ کہنا نہیں چاہتی تھی ۔
عبدالعزیز خوش ہو گئے انہوں نے کہا میں اپنی قسمت پر جتنا فخر کروں کم ہے ۔
نائلہ جس قدر حسیں تھی اسی قدرت نے اسے سیرت بھی اچھی عطا کی تھی
آپ اسے فخر و مباہات کیوں سمجھتے ہیں- "
عبدالعزیز میں بالکل نا امید ہو گیا تھا ۔
نائلہ کیوں؟
عبدالعزیز اس لئے کہ جب اندلس پر لشکر بھیجا جانے لگا تو میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ مجھے بھیج دیں مگر انہوں نے انکار کردیا اور بجائے اور میری بجائے میرے طارق کو بھیج دیا ۔
دوبارہ وہ خود چلے آئے لیکن قدرت کو یہ منظور تھا کہ میں آپ کا دیدار کر سکوں چنانچہ ایسے انتظامات پیدا ہو گئے کہ مجھے آنا پڑا ۔
نائلہ مگر کاش نہ آتے ۔
عبدالعزیز کیوں؟
نائلہ اس لئے کہ نہ آپ کو دیکھتی اور نہ ۔۔۔۔۔
عبدالعزیز اور کیا؟
نائلہ میرے دل میں یہ تمنا پیدا نہ ہوتی کہ میں آپ کے ساتھ چلوں ۔
عبدالعزیز یہی بات میرے لیے فخر کی ہے ۔
نائلہ مگر ۔۔۔۔
عبدالعزیز مگر کیا؟
نائلہ آپ کب تک میرے ساتھ رہیں گے؟ "
عبدالعزیز میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں ۔
نائلہ ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔؟
عبدالعزیز جی ہاں ۔
نائلہ سوچ سمجھ کر اقرار کرنا ۔
عبدالعزیز میں نے سوچ کر ہی اقرار کیا ہے ۔
نائلہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
خدا کرے کہ آپ اپنے وعدے پر قائم رہیں ۔
عبدالعزیز میں مسلمان ہوں مسلمان اپنے وعدے سے نہیں پھرتا ۔
نائلہ میں نے بھی یہی سنا ہے ۔
عبدالعزیز مگر آپ بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کو تیار رہیں ۔
نائلہ بڑے ناز کے ساتھ اگر میں تیار نہ ہوں تو ۔
عبدالعزیز لیکن ___؟
نائلہ لیکن کیا؟ "
عبدالعزیز یہ خیال کر لیجئے کہ آپ ملکہ ہیں اور میں ایک وائسرائے کا بیٹا ہوں ۔
نائلہ مگر آب میں ملکہ نہیں ہوں ۔
عبدالعزیز آپ ملکہ ہیں اور تمام عیسائی اب بھی تمہارے سامنے سر خم کرتے ہیں ۔
نائلہ خیر میں کچھ بھی ہوں آپ اپنا وعدہ یاد رکھیں ۔
عبدالعزیز ضرور یاد رکھوں گا
عبدالعزیز کیا آپ نے مجھے پہلے دیکھا تھا؟ "
نائلہ ہاں مگر یہ نہیں بتاوں گی کہ کب اور کہاں؟ ؟
عبدالعزیز اور آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؟ "
نائلہ بے شک ۔
عبدالعزیز مگر میں واقف بھی نہیں تھا کہ یہاں بت ہے اتفاقیہ ہی اس طرف نکل آیا تھا ۔
عبدالعزیز اچھا آب چلئے ۔
دونوں آگے پیچھے چل پڑے اور خادمائیں ان کے پیچھے چلیں ۔
دونوں استراحت افزا وادی کی سیر کرتے مریڈا کے قلعہ کے پاس پہنچ گئے ۔
نائلہ سلام کر کے قلعہ کے اندر چلی گئی اور عبدالعزیز اسلامی لشکر کی طرف روانہ ہو گئے ______نئی تجویز _______
_________
نیئ تجویز ______موسی بن نصیر کے جب سے مریڈا کے جب سے مریڈا کو فتح کیا تھا مغربی اندلس کے عیسائیوں پر رعب طاری ہو گیا تھا اور مریڈا کے نواحی شہروں کے لوگ آ آ کر مصالحت کرنے لگے تھے ۔
جب کہ اس کے نواح سے بھی اطمینان ہو گیا تھا تو موسی نے طلیطلہ جانے کا اعلان کر دیا ۔
لشکر تیار ہونے لگا ۔
عبدالعزیز نے نائلہ کو اپنے ساتھ لے جانے کا وعدہ کر لیا تھا لیکن وہ اسے اپنے باپ کی منظوری کے بنا ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے ۔
اس لئے وہ شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہ کس طرح اپنے باپ سے منظوری حاصل کرے اس کی سمجھ میں کوئی تدبیر نہیں آ رہی تھی ۔
دن گزرتے رہے آخر وہ دن بھی آ گیا جس کے اگلے روز لشکر نے روانہ ہونا تھا عبدالعزیز بہت زیادہ مضطرب اور پریشان تھے ۔
وہ اپنے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے پاس بڑے بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گئے ۔
موسی کہہ رہے تھے یہ سچ ہے لیکن- "
موسی نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لیکن تمہیں کیا فکر لاحق ہو گئئ ہے؟ "
عبدالعزیز مجھے ڈر ہے کہ عیسائیوں کے شہروں میں چند مسلمان جگہ جگہ چھوڑ دئیے گئے ہیں جو اگر یہ نافرمانی کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے لگے تو کیا انتظام کیا جائے ۔
علی نے کہا عیسائیوں کو اس بات کی جرآت کبھی نہیں ہو گی ۔
موسی لیکن انہوں نے بات معقول کی ہے ۔
حیات: اکثر مجھے بھی اسی بات کا اندیشہ رہتا ہے ۔
عبدالعزیز : اور مجھے کئی روز سے خطرہ ہے اس بات کا ابھی ان کا فقرہ مکمل بھی نہیں ہوا ہو گا کہ چند مسلمان خستہ حالت میں آتے ہوئے نظر آئے اور سلام کر کے موسی کے سامنے بیٹھ گئے موسی نے انہیں دیکھ کر کہا- "
یہ تمہاری حالت کس نے کی ہے؟ "
ان میں سے ایک شخص نے کہا ۔
زندگی تھی جو اس حالت میں بھی آپ تک پہنچ گئے- "
موسی نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا- "
تم کہاں سے آ رہے ہو؟ -
وہی مسلمان اسونیا کے عیسائیوں نے بےوفائی بغاوت اور حماقت بھی ۔
موسی ذرا تفصیل سے بیان کرو ۔
وہی مسلمان :اس جمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہم اسونیا میں تھے اور چونکہ ان کے شہر میں رہتے عرصہ ہو گیا تھا اس لئے ہر طرح مطمئن تھے اور یہ سمجھ گئے تھے کہ بغاوت نہ کریں گے مگر ایک رات کو وہ دفعتا ہم پر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور ہم اس وقت نہتے تھے سوئے ہوئے تھے ہمیں آ کر قتل کرنے لگے ۔
جب تک ہم ہوشیار ہوتے اس وقت تک بیس مسلمان شھید ہو گئے-
موسی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا کہا بیس مسلمان شھید ہو گئے؟ "
مسلمان جی ہاں!
موسی اچھا پھر کیا ہوا؟ "
مسلمان چونکہ ہم نہتے تھے اس لیے چھپ کر بھاگے اور قلعہ سے باہر نکل کر چھپتے چھپاتے یہاں تک آ پہنچے!
عبدالعزیز جو اندیشہ تھا وہ سامنے آ گیا!
موسی بذات خود عیسائیوں نے اپنا اعتماد کھو لیا ہے ۔
اب ہم ان کا کبھی اعتبار نہیں کریں گے اب اسونیا کے ان بیس مسلمانوں کا بدلہ لینا اور انہیں سبق سناما ضروری ہو گیا ہے ۔
علی: بے شک ۔
موسی عبدالعزیز تم اسونیا جاو اور وہاں کے عیسائیوں کو قرار واقعی سزا دے کر طلیطلہ آ جانا ۔
عبدالعزیز بہت بہتر آپ کا ارادہ یہاں سے طلیطلہ جانے کا ہے؟ "
موسی جی ہاں ۔
عبدالعزیز مجھے خوف ہے کہ کہیں سونیا والوں کی تقلید میں دوسرے مقامات کے عیسائی بھی بغاوت نہ کر بیٹھیں ۔
موسی بے شک ۔
عبدالعزیز خصوصا ایسے مقامات جیسا کہ مریڈا ہے جو نہایت ہی مضبوط و مستحکم ہیں اور یہ مشکل سے فتح ہوئے ہیں ان کی حفاظت کا معقول بندوبست ہونا چاہیے ۔
موسی یہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو پر معقول انتظام کیا ہونا چاہیے؟ "
علی ہر قلعہ میں زیادہ سے زیادہ اسلامی لشکر چھوڑ دئیے جائیں جس سے ان کے دلوں میں بغاوت کا خیال نہ آئے ۔
عبدالعزیز مگر اس طرح ہماری قوت منتشر ہو جائے گی اور فتوحات کا سلسلہ رک جائے گا ۔
موسی بالکل ٹھیک کہا ہے ۔
علی پھر کیا تدبیر کی جائے؟ "
موسی تدبیر ایسی ہونی چاہئیے جس سے ہم زیادہ سے زیادہ لشکر بھی نہ چھوڑیں اور اور بغاوت کا بھی اندیشہ نہ رہے ۔
علی عیسائیوں سے گرجاوں میں حلف لیے جائیں ۔
موسی بے سود ہے آب ان لوگوں کے قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔عبدالعزیز ایک بات میری سمجھ میں آ رہی ہے ۔
موسی کیا؟ "
عبدالعزیز ہر قلعہ کے بڑے اور معزر سرداروں کو بطور یرغمال اپنے ہمراہ لیے چلتے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اگر کسی مقام کے باشندے نے بغاوت کی تو ان سب کو قتل کر دیا جائے گا جو ہمارے پاس یرغمال ہوں گے اور ان کے قلعہ یا شہر کو آگ لگادی جائے گی ۔
موسی نے خوش ہو کر کہا یہ تجویز مناسب ہے مجھے پسند آئی ہے اسی پر عمل کرتے ہیں ۔
علی واقعی یہ اچھی تجویز ہے ۔
عبدالعزیز اور ضمانت کے طور پر ہر طبقہ میں سے ایک ایک دو دو ادمی لے لئے جائیں ۔
موسی اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ "
عبدالعزیز میرا مطلب یہ ہے کہ امراء اور روساء کے علاوہ پادریوں کو بھی بطور یرغمال ساتھ لیا جائے گا ۔
موسی ٹھیک ہے ۔
عبدالعزیز اب یہ مریڈا ہی ہے یہاں سے آپ کس کس لیں گے؟ "
موسی جو لوگ مصالحت کرنے کے لئے آئے تھے ان میں ہر طبقہ کے آدمی شامل تھے ان سب کو ساتھ لے لیا جائے ۔
عبدالعزیز نہایت مناسب ہے لیکن ۔
موسی لیکن کیا؟ "
عبدالعزیز ان لوگوں کے درمیان ایک معزز ہستی بھی ہے ۔
موسی وہ کون؟ "
عبدالعزیز شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ۔
موسی ہاں مجھے اس کا خیال تک نہیں آیا وہ بھی قلعہ میں ہے اسے بھی ساتھ لے جانا ضروری ہے ۔
عبدالعزیز حضور وہ خواب یاد ہو گا جو میں نے قیروان میں دیکھا تھا ۔
موسی مجھے یاد نہیں ۔
عبدالعزیز میں نے سبزہ زار اور کھنڈرات کےدرمیان ایک سنگ بت دیکھا تھا ۔
موسی ہاں یاد آ گیا ۔
وہ جگہ یہی تھی حضور!!!
موسی نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا یہی جگہ ہے؟ "
عبدالعزیز جی حضور میں کھنڈرات اور بت دیکھ چکا ہوں
موسی نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ طوق والی حسینہ؟ "
عبدالعزیز وہ بھی وہاں ہے میں نے اسے بھی دیکھا ہے ۔
موسی وہ کون ہے؟ "
عبدالعزیز وہ نائلہ ہے ۔
موسی تم نے اس سے باتیں کی ۔
عبدالعزیز جی ہاں ۔
موسی وہ تمہارے ساتھ جانا اپنی توہین نہ سمجھے ۔
عبدالعزیز میرے خیال میں نہیں سمجھے گی بلکہ خوشی سے ہمراہ چلے گی ۔
موسی اچھا اب تم تیار ہو جاو آج ہی روانہ ہونا ہے ۔
عبدالعزیز آج نہیں کل ۔
عبدالعزیز بہتر ہے ۔
موسی اسی وقت ان عیسائیوں کو طلب کر لیا جائے جو مصالحت کے لیے آئے تھے ۔
مجھے افسوس ہے کہ اسونیا کے عیسائیوں نے مصالحت کر کے بغاوت کر دی اور بیس مسلمانوں کو شھید کر دیا ان کی اس احمقانہ حرکت کی وجہ نے تمام عیسائیوں کی طرف سے ہمیں بد ظن کر دیا ہے ۔
اور عام مسلمانوں میں جوش و غضب کا طوفان امڈ آنے کا خطرہ ہے
اب ہم یہاں سے طلیطلہ جا رہے ہیں اور چونکہ ہم تمام عیسائیوں کی طرف سے مشکوک ہو چکے ہیں اس لئے ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ ہر قلعہ سے کچھ آدمی بطور یرغمال اپنے ساتھ رکھیں اور جس جگہ کے لوگ بغاوت کریں وہاں یرغمالیوں کو قتل کر دیا جائے گا ۔ان لوگوں نے موسی کی بات کو اطمنان سے سن کر کہا افسوس ہے کہ ایک جگہ کے احمقوں کی وجہ سے تمام عیسائی مشکلات میں پڑ گئے ہیں ۔
ہم بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ سے زیادہ شفیق حکمران کوئی نہیں ہے چونکہ ہمیں آپ پریقین ہے اس لئے ہمیں آپ کے ساتھ جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے آپ جب چاہیں اطمنان کے لیے ہمیں ساتھ لے جائیں ۔
موسی ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ سب اور رازرق کی بیوی ہمارے ساتھ جائے گی ۔
عیسائی بہتر ہے ۔
موسی ہم کل روانہ ہوں گے آپ بھی تیار رہنا ۔
عیسائی جی بہت اچھا ۔
تمام عیسائی اٹھ کر چلے گئے اور دوسرے روز سب تیار ہو کر آ گئے نائلہ بھی ان کے ساتھ تھی موسی سب کو ساتھ لے کر طلیطلہ کی طرف اور عبدالعزیز دو ہزار مجاہدین کے ساتھ اسونیا کی جانب روانہ ہوئے _____طارق کی معزولی _______طارق کی معزولی_____طارق کے پاس موسی کا قاصد پہنچ گیا تھا اور اس نے امیر کے حکم سے بہادر اور شیر دل سپہ سالار کو مطلع کر دیا تھا ۔
طارق مجبور ہو کر رک گئے تھے اور اب ان کا ارادہ اگے بڑھنے کا نہ تھا ۔
انہوں نے راحیل کے والد کو اطلاع کرا دی تھی کہ ان کی بیٹی بحفاظت مسلمانوں کے پاس ہے ۔
ابھی وہ وطن واپس نہیں آنا چاہتی ۔
اگر وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں تو فورا چلے آئیں ۔
طاتو کو پتہ چل گیا تھا کہ مغیث الرومی قرطبہ اور اس کے گردونواح کو فتح کرتے ہوئے طلیطلہ کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں ۔
انہوں نے یہ بھی سن لیا تھا کہ موسی نے اشبیلیا کے تمام علاقے فتح کر لئے ہیں ۔
ان کے دل میں پھر جوش جہاد پیدا ہو گیا اور انہوں نے اگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا لیکن امیر موسی کا پاس لحاظ کر کے اپنے دل پر جبر کیا اور فتوحات کی امنگوں کو سینے میں دبا کر خاموش رہ گئے ۔
کچھ عرصہ بعد مغیث الرومی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مشورہ دیا کہ اس وقت عیسائی مرعوب ہو رہے ہیں جس طرف بڑھتے چلے جائیں فتح ہوتی جا ئے گی اور اس طرح سارے اندلس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ۔
چنانچہ انہوں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور آگے بڑھ کر مدینتہ السالم القلعہ اور قسطہ وغیرہ کو فتح کر کے دریائے غار الغارہ تک پہنچ گئے ۔
مسلمانوں کی ہیبت عیسائیوں پر کچھ بیٹھ گئئ کہ جس طرف بھی انہوں نے رخ کیا عیسائی حلقہ بگوش اطاعت ہوتے گئے ۔
طارق دریائے الغارہ کو عبور کرکے کوہستان میں پہنچ گئے ۔یہ سلسلہ کوہ فرانس کے جنوب اور اندلس کے شمال میں دور تک پھیلا ہوا تھا ۔
اس نے تمام کوہستان کو کھوند ڈالا اور اسلامی پرچم لہراتے نعرہ تکبیر لگاتے اللہ کی واحدانیت کا شور مچاتے تسخیر بلاد کرتے ہوئے مدینتہ المبداء تک جا پہنچے چونکہ آگے راستہ دشوار گزار تھا نیز موسی کے طلیطلہ آنے کا خیال تھا اس لئے وہ اگے نہ بڑھے اور وہیں سے واپس لوٹ کر طلیطلہ دارالسلطنت آ گئے ۔
ابھی یہاں آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ موسی کے آنے کی خبر گرم ہوئی اور وہ چند سرداروں کا لشکر لے کر ان کے استقبال کے لیے روانہ ہو گئے ۔
جب وہ ایک مشہور شہر طلاورہ میں پہنچے تو وہاں موسی سے ملاقات ہوئی ۔
طارق نے موسی کا بشرہ دیکھ کر معلوم کر لیا کہ وہ ان سے ناخوش ہیں ۔
ناخوشی کی وجہ وہ بخوبی جانتے تھے مگر انہوں نے اس کے متعلق کچھ گفتگو نہ کی بلکہ دونوں نے اپنی اپنی فتوحات کا حال ایک دوسرے کو سنایا موسی نے طارق کی اور طارق نے موسی کی تعریف کی ۔
اب یہ سب یہاں سے چلے اور طلیطلہ چلے گئے ۔طارق نے یہاں پہنچ کر کوہستان کی تمام روداد سنائی اور جو نودرات وہاں سے ملے تھے موسی کے سامنے پیش کیے ۔
منجملہ ان کے ایک تخت تھا جو بیش بہا جواہرات سے مرصع تھا ۔
کچھ عجیب قسم کے بڑے بڑے لعل و یاقوت اس میں جڑے ہوئے تھے ۔
موسی نے آن تمام چیزوں کو دیکھ کر پھر طارق کی تعریف کی اور اس کی بہادری کو سراہا مگر ساتھ ہی ان سے کہا ۔
طارق میں تم سے اس لئے خوش ہوں کہ تم نے اپنی بہادری کی دھاک عیسائیوں پر بیٹھا دی اور خفا اس لئے ہوں کہ تم نے میرے حکم کے خلاف ورزی کی ہے اور کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے ۔
طارق نے عاجزی کے لہجہ میں کہا ۔
مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے میں آپ کا غلام ہوں موسی نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ۔
آب تم غلام نہیں ہو بلکہ ایک صوبے کے گورنر ہو ۔
طارق میں خوب جانتا ہوں کہ میں اپنے وطن سے جس وقت آیا تھا غلام تھا آپ کی مہربانیوں نے مجھے اس اعلی رتبے پر پہنچایا ۔
موسی نہیں بلکہ اللہ کی مہربانیوں اور تمہاری ذاتی قابلیتوں نے تمہیں یہ رتبہ دیا ۔
طارق مگر میں ممنون ہوں آپ کا آپ ہی نے مجھے نوازا ہے اور آپ ہی نے مجھے غلامی سے آزاد کیا آپ ہی کی بدولت اس رتبے کو پہنچا ہوں ۔
موسی اس میں شک نہیں کہ تم غلام تھے مگر مسلمان ہو کر تم میرے اور تمام مسلمانوں کے بھائی بن گئے ہو میں نے جو بھی تمہارے ساتھ کیا محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا ۔
طارق بے شک میں اسی لئے مشکور ہوں ۔
موسی میں نے اپنا فرض ادا کیا اس کے لیے شکریہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
طارق یہ آپ کی زرہ نوازی ہے ۔
موسی میں نے جب تمہیں آس مہم پر بھیجا تھا تو ہزاروں مسلمانوں کی قسمتیں تمہارے ہاتھ میں دے دی تھیں ۔
طارق جی ہاں!!
موسی تمہاری ذرا سی لغرزش مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتی تھی ۔
طارق بے شک مگر میں نے احتیاط رکھی اور بفضلہ تعالی مسمسلمانوں کو بالکل بھی نقصان نہیں پہنچا ۔
موسی یہ سچ ہے لیکن نقصان پہنچنے کا خطرہ تو تھا ۔
طارق اگر ایسا ہوتا تو میں کبھی پیش قدمی نہ کرتا ۔
موسی نہیں میرے نوجوان سپہ سالار تم نے جوش جہاد اور فتح کی خوشی میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا ۔
طارق یہ بات نہیں ہے ۔
موسی تو پھر؟ "
طارق چونکہ عیسائیوں کو متواتر شکستیں ہو رہی تھیں جس سے تمام ملک میں مسلمانوں کی شہرت ہو گئی اور عیسائیوں پر ان کا رعب چھا گیا آس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اگے بڑھ کر جتنا ہو سکے علاقہ فتح کر لوں ۔
موسی مگر میں نے تمہیں پیش قدمی کی ممانت کی تھی ۔
مغیث الرومی لیکن یا امیر وہ موقع ایسا تھا کہ اگر اس وقت پیش قدمی روک دی جاتی تو عیسائیوں کے دلوں پر چھایا رعب ختم ہو جاتا اور وہ سنبھل کر نئے جوش کے ساتھ متفقہ متحدہ ہو کر مقابلہ پر آ جاتے اور اس طرح سے ہماری سرفروشی کا نتیجہ برعکس ہو جاتا ۔
موسی خدانخواستہ کہیں مسلمانوں کو شکست ہو جاتی تو ۔۔۔۔۔۔۔
مغیث الرومی تب ہم سب اس کے ذمہ دار ہوتے ۔
موسی مگر سپہ سالار تو طارق تھے ۔
مغیث الرومی بے شک سپہ سالار وہی تھے مگر انہوں نے اپنی رائے سے کچھ بھی نہیں کیا ۔
موسی تو پھر؟
مغیث الرومی انہوں نے جو بھی کیا سب کے مشورے سے کیا ۔
موسی اور سب کا مشورہ کیا تھا؟
مغیث الرومی یہی کہ پیش قدمی کو جاری رکھا جائے ۔
موسی کیا یہ مشورہ صحیح تھا؟
مغیث الرومی جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ نہایت موزوں تھا ۔
موسی میں پھر بھی یہیں کہتا ہوں کہ اگر شکست ہوتی تو مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا؟
مغیث الرومی نہایت برا ۔
موسی اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی؟
مغیث الرومی ان تمام لوگوں پر جو اس مشورے میں شامل تھے ۔
موسی نہیں بلکہ صرف طارق پر کیونکہ وہ سپہ سالار تھے اور دنیا عقبی میں وہی جوابدہ تھے ۔
مغیث الرومی یہ سچ ہے مگر انہوں نے جو بھی کیا خالص اللہ کے لیے کیا نہ کہ نمود و نمائش کی غرض سے ۔
موسی میں اسے مانتا ہوں ۔مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ پر جوش اور بہادر نوجوان ہے مگر اس بہادری اور جوش کے زعم میں بارہ ہزار مسلمانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا ۔
مغیث الرومی مگر اللہ نے ہماری مدد کی ہم اس خطرے سے نکل آئے ہیں ۔
موسی بے شک اللہ نے اسے بے پایاں مہربانی مہربانی سے نوازا مگر انہوں نے نے نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس عہدے کے قابل نہیں ہیں ۔
اس وقت تمام سردار وہاں موجود تھے۔ انہوں نے ان گی گفتگو سے یہ اندازہ لگایا کہ وہ طارق کو ان کے عہدے سے معزول کرنا چاہتے ہیں ۔
علی نے کہا مجھے تو نہیں لگتا کہ طارق نے کوئی نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
حیات میں بھی یہی سمجھتا ہوں اس لئے کہ اگر وہ پیش قدمی کو روک دیتے تو عیسائی دوبارہ حملہ آور ہوتے ۔
موسی یہ تسلیم کر چکا ہوں یہ میں مگر تم سب یہ بات تو مانو گے کہ طارق نے حکم عدولی کی ہے؟
مغیث الرومی یہ سچ ہے ۔
موسی میں طارق کو معزول کرتا ہوں ۔
طارق مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں ہو گا بلکہ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح ایک سپاہی بن کر جہاد کروں گا ۔
موسی مگر میں تمہیں قید کا حکم دیتا ہوں اور تم قید میں رہو گے ۔
طارق مجھے اس سے بھی کوئی رنج نہیں اس لئے کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا ہر کام اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہو اور وہ اس کی پاداش میں قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑیں یا اللہ کو میرا امتحان مقصود ہو ۔
مغیث الرومی مگر ایسے جانباز کو قید کر کے اس کا دل تو نہ توڑیں ۔
طارق نے مسکرا کر کہا ۔نہیں اس سے میرا دل نہیں ٹوٹے گا میں سمجھتا ہوں کہ امیر کو چونکہ مسلمانوں کا زیادہ خیال ہے اس لئے ان کی شفقت ان سے ایسا کرا رہی ہے ۔
موسی بالکل یہی بات ہے ۔
طارق میں اسے خوب سمجھتا ہوں ۔
موسی می مسلمانوں کے خلیفہ کو سارا واقعہ لکھ کر سفارش کر دوں گا پھر جو وہاں سے جواب آئے گا تو اس پر عمل کروں گا ۔
طارق بہتر ہے ۔
اس وقت طارق کو سپاہی کی حراست میں دے کر ایک کمرہ میں قید کر دیا گیا اور موسی نے تمام واقعات لکھ کر خلیفہ کو بھیج دیئے ۔
اس واقعہ کو عیسائیوں نے موسی کے بے جا رشک و حسد اور تنگ دلی پر محمول کیا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ موسی طارق کی فتوحات سے جل گئے اور انہوں نے فاتح اعظم کو معزول کر کے قید کر دیا ۔
حالانکہیہ بات نہیں تھی اگر وہ اس مزاج کے ہوتے تو کبھی ان کو سپہ سالار بنا کر بھیجتے ۔
بات یہی ہے کہ کہ انہیں اندیشہ ہوا تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہو جاتی تو نتیجہ بہت برا ہوتا ۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ ان کی عدول حکمی سے اوروں کو بھی اس کی جرات ہو جاتی اس لئے جو کچھ بھی انہوں نے جو کیا وہی مناسب نہ تھا _____بغاوت کی سزا _______
__________
بغاوت کی سزا____عبدالعزیز دو ہزار مجاہدین کو ساتھ لے کر اسونیا کی طرف چل پڑے -
انہیں اور تمام مسلمانوں کو بہت رنج تھا کہ وہاں کے باشندوں نے سوئے ہوئے مسلمانوں پر یورش کر کے بیس آدمیوں کو شہید کر دیا تھا - "
وہ جوش انتقام میں غرق بڑھے چلے جا رہے تھے -
اسونیا والے خوب جانتے تھے کہ مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے وہ انتقام لینے کے لئے ضرور حملہ آور ہوں گے چنانچہ انہوں نے فصیل کی مرمت کرلی تهی اور فصیلوں کے برجوں پر سپاہی تعینات کر دیئے تھے وہ قلعہ کے تمام دروازے بند کر کے جنگ و پیکار کے لیے تیار بیٹھے تھے - "
ابهی وہ ان انتظامات سے فارغ بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ ایک دن عصر کے وقت دور سے اسلامی لشکر علم لہرا کر قلعہ کی طرف بڑھتا نظر آیا -
تمام عیسائی مسلمانوں کو دیکھنے کے لیے فصیل پر امڈ آئے مگر انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تهوڑی یعنی صرف دو ہزار ہی ہے تو ان کے حوصلے بلند ہو گئے -
قلعہ کے اندر اب بھی سپاہیوں کی تعداد دس ہزار تهی انہیں اطمینان ہو گیا کہ مسلمان قلعہ فتح نہیں کر سکتے -
اسلامی لشکر قلعہ سے زرا فاصلے پر خیمہ زن ہو گیا - چونکہ اس کے قیام کرنے تک آفتاب غروب ہو گیا اس لئے اس روز جنگ کی تیاری کرنے میں رات گزار دی.
صبح مسلمانوں نے فجر کی نماز پڑهتے ہی قلعہ کے سامنے صف بندی کر لی عیسائی بھی فصیل پر چڑھ آئے اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے کہ مسلمان آگے بڑھیں تو وہ ان پر تیروں اور سنگریزوں کی بارش کر کے انہیں روک سکیں.
عبدالعزیز نے اسلامی صفوں کے درمیان گهوڑا دوڑایا اور ان کے درمیان میں آ کر بلند آواز میں کہا-"
مسلمانوں یہ بد عہد اور مکار عیسائی اپنی کثرت تعداد اور قلعہ کی مضبوطی پر مغرور ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسلمان اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی مہربانی پر ناز کرتے ہیں.
عیسائیوں نے بد عہدی کر کے بیس مسلمانوں کو شہید کر دیا -
ان مظلوموں کی موت نے اس وقت ہر مسلمان کو بے چین کر رکھا ہے ہمیں اس وقت تک چین نہیں آئے گا جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں گے.
میں چاہتا ہوں کہ جنگ کا آج ہی فیصلہ ہو جائے.
قلعہ پر آج ہی اسلامی پرچم لہرایا جائے.
سیڑھیاں ساتھ لے لو فصیل توڑنے کا سامان بھی ساتھ لے لو اور حملہ کر دو.
مسلمانوں نے پہلے ہی سامان اٹھا لیا تھا وہ عبدالعزیز کی گفتگو سن کر گرما گئے اور جب عبدالعزیز نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو وہ بھی اس پر شور نعرہ کی تکرار اور جوش میں آگے بڑھے.
عیسائیوں نے انہیں دیکھا انہوں نے فلاخنیں اور کمانیں سنبھال لیں اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ جب مسلمان ان کی زد پر آ جائیں تو تیروں اور پتهروں کے ٹکروں کی بارش شروع کر دیں دو ہزار مسلمانوں کا سیلاب قلعہ کی طرف بڑھ رہا تھا -
دھوپ نکل کر مسلمانوں کے ہتھیاروں اور سفید پوشاکوں پر چمک رہی تھی -
جس وقت یہ شیر دل مجاہدین قلعہ کی طرف بڑھے تو ان پر تیروں کی باڑھ اور پتهروں کے ٹکڑے آنے لگے.
مسلمانوں نے پہلے ہی سے اس بات کا بندوبست کر لیا تھا وہ ڈھالوں کو اٹھائے ان کے ضبط و نظام کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے.
عیسائیوں نے چیخ چیخ کر شور کر کے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کی کوشش شروع کردی مگر مسلمان خوب جانتے تھے کہ عیسائی سوائے شور شغب کے اور کچھ نہیں کر سکتے -
چنانچہ وہ ان کے غل کی پروا کئے بنا آگے بڑھنے لگے عیسائیوں نے نہایت شدت سے تیرا فگنی اور سنگ باری شروع کر دی.
ہر عیسائی چلا چلا کر یا تو تیر برسا رہا تھا یا پتهر پهینک رہا تھا -
چونکہ اب مسلمانوں پر زد پڑنے لگی تھی اس لیے وہ زخمی ہو رہے تھے مگر زخم کهانے پر بھی ان کی رفتار میں سستی نہیں آ رہی تھی بلکہ تیر کها کر جس طرح شیر زخم کها کر غضبناک ہوتا ہے اور جوش و غضب سے زخمی کرنے والے پر جست لگاتا ہے اسی طرح مسلمان زخمی ہو کر غیظ و غضب میں آ رہے تھے اور ان کے گھوڑے برابر تیزی سے بڑھتے چلے آ رہے تھے -
عیسائیوں کا خیال تھا کہ تیروں اور پتهروں کی بارش انہیں آگے نہیں بڑھنے دے گی مگر جب انہوں نے انہیں زخمی ہونے پر بھی آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو ان پر حیرت اور خوف کا غلبہ ہو گیا اور اب ان کے ہاتھ سست پڑنے لگے.
مسلمان بڑھتے بڑھتے فصیل کے نیچے پہنچ گئے انہوں نے گھوڑوں سے اتر کر سیڑھیاں لگانی اور فصیل توڑنی شروع کر دی -
عیسائی چونکہ فصیل کے اوپر تهے اس لیے وہ یہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ مسلمان کیا کر رہے ہیں البتہ ہتھوڑوں کی آواز سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ لوگ فصیل توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں.
جب اللہ کسی سے ناراض ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل سلب کر لیتا ہے شاید عیسائیوں سے بھی اللہ ناخوش تھا اس لیے ان کی بهی عقلیں سلب کر لیں.
ہتھوڑوں کی آواز
سنتے ہی افسروں نے زیادہ تعداد کو فصیل سے نیچے بهیج دیا کہ وہ قلعہ کے اندر پہنچ کر انتظار کریں جب مسلمان فصیل توڑ کر قلعہ کے اندر داخل ہوں تو شگافوں سے سر نکالتے ہی انہیں قتل کر دیا جائے.
انہیں یہ خیال ہی نہ رہا کہ مسلمان فصیل پر سیڑھیوں کے ذریعے بھی آ سکتے ہیں یا انہوں نے یہ سمجھ لیا تها کہ مسلمانوں کے پاس سیڑھیاں نہیں تهی. اس لئے وہ فصیل پر نہیں چڑھ سکتے.
چنانچہ فصیل پر بہت تھوڑے عیسائی رہ گئے ۔ اور اب وہ بھی مطمئن ہو کر قلعہ کے اندر جھانکنے لگے -
ادھر مسلمانوں نے سیڑھیاں لگا کر اوپر چڑھنا شروع کر دیا ان کا خیال تھا کہ عیسائی فصیلوں پر تلواریں تانے کھڑے ہوں گے اس لیے انہوں نے ڈھالوں کو سروں پر رکھ کر اوپر چڑھنا شروع کر دیا. فصیل نہایت اونچی تهی تقریباً تیس پینتیس فٹ بلند اتنی بلندی پر چڑھنا آسان نہیں تھا مسلمان منہ میں تلواریں دبائے اور ایک ہاتھ میں ڈھال اٹھائے اور ایک ہاتھ میں ڈنڈے پکڑے ہوئے نہایت تیزی سے چڑھے جا رہے تھے -
جب فصیل کے برابر پہنچ گئے تو انہوں نے سر ابهار کر دیکها.
عیسائی دوسری طرف تهے وہ جلدی سے فصیل پر کود گئے اور وہاں جاتے ہی تلواریں ہاتھ میں لیے عیسائیوں کی طرف دوڑے -
دھمک سن کر عیسائیوں نے اپنی پشت کی طرف دیکھا وہ مسلمانوں کو آتے دیکھ کر سہم گئے اور چلا چلا کر کہنے لگے جن آ گئے جن آ گئے! !
عیسائی بعد عقلی تو خود کرتے اور سمجھتے کہ مسلمان انسان نہیں جن ہیں اور اسی لئے وہ جب جہاں چاہیں پہنچ سکتے ہیں.
چنانچہ اس وقت بھی انہوں نے یہی سمجھا مسلمانوں نے دوڑ کر خوف زدہ عیسائیوں پر حملہ کر دیا اور باوجود عیسائیوں کی ڈھالوں کے انہیں قتل کر ڈالا اس طرح ان کی کافی تعداد فصیل پر ضائع ہو گئی
چونکہ فصیل پر عیسائی کم رہ گئے تھے اس لیے ان کا جلد خاتمہ کر دیا.
قلعہ کے اندر والے عیسائیوں نے فصیل والے عیسائیوں کا شور سن لیا تھا اور ساتھ ہی انہیں نیچے گرتے ہوئے دیکھا تھا وہ خود بھی گھبرا گئے مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے سیڑھیوں کی طرف بڑھے عیسائیوں نے مسلمانوں کو دروازے پر ہی روکنے کی کوشش کی مگر مسلمان کچھ ایسے جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے بڑھتے ہوئے عیسائیوں کو دیکھ کر ان پر جھپٹ پڑے جنگ شروع ہوئی عیسائی مسلمانوں پر اور مسلمان عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے تلواریں بجلی کی طرح کوندتی اٹھیں اور سرفروشوں کے سروں پر جھکیں اور خون اگلتے ہوئے اٹھیں.
جس وقت عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اسی وقت شور و غل کر کے قلعہ کو سر پر اٹھا لیا تھا.
ادھر زخمیوں کے شور و غل سے قلعہ گونج اٹھا-
مسلمان نہ شور کر رہے تھے نہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے بلکہ نہایت اطمینان اور استقلال کے ساتھ لڑ رہے تھے جو بھی ان کی زد میں آتا قضا انہیں اپنے قبضہ میں لے لیتی.
اگرچہ عیسائی بہت جوش و خروش سے لڑ رہے تھے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو قتل کر دیں یا قلعہ سے باہر نکال دیں.
مگر بے سود وہ جیسے ہی حملے کے لئے آگے بڑھتے مسلمانوں کی تلواریں موت کی صورت ان کا استقبال کرتیں.
ہر مسلمان جوش و غضب سے بھرا ہوا حملہ کر رہا تھا اور جوش سے بھوکا شیر بنا ہوا تھا -
مسلمانوں کا تانتا لگا ہوا تھا اور وہ برابر زینے سے اتر کر نیچے آ کر پھیلتے جاتے جوں جوں وہ پھیلتے جاتے جنگ کی آگ بهی پھیلتی جاتی دور تک تلواروں کی چھاوں نظر آ رہی تھی -
مسلمانوں نے عیسائیوں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا ۔
مسلمان چاہتے تھے کہ دروازہ کی طرف بڑھ کر پھاٹک کهول دیں.
تاکہ سارے مسلمان اندر آ جائیں اور جنگ کا فیصلہ جلدی ہو سکے لیکن عیسائی انہیں بڑھنے نہیں دے رہے تھے ابهی تک بہت کم مسلمان آئے تھے اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ وہ انہیں دبا کر قلعہ سے باہر نکال دیں گے یا مار ڈالیں گے.
اب عبدالعزیز بھی قلعہ کے اندر آ گئے اور انہوں نے آتے ہی جوش و غضب سے حملہ کر کہ ان کے پروں کے پرے الٹ دئیے اور صفیں زیر و زبر کر دیں، جو بھی ان کے سامنے آ گیا انہوں نے اسے مار ڈالا جس پر بھی حملہ کرتے اسے قتل کئے بنا نہ ہو چھوڑتے.
مسلمانوں نے انہیں اس قدر جوش سے لڑتے دیکها تو ان میں بھی جوش کی لہر دوڑ گئی اور وہ پہلے سے زیادہ شدت سے حملے کرنے لگے -
عیسائی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا دیں مگر مسلمانوں نے بڑهہ کر اور بھی سختی سے حملہ کیا کہ عیسائی پیچھے ہٹتے چلے گئے تقریباً پچاس آدمی مارتے کاٹتے دروازے تک پہنچ گئے انہوں نے پھاٹک کهول دیا اور پھاٹک کھلتے ہی ایک دم مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیا اور تلواریں نکال لیں اور بے دریغ عیسائیوں کو کاٹ ڈالا.
وہ ہر طرف پھیل گئے سارے قلعے میں چپہ چپہ ہر عیسائیوں کی لاشیں بکهری نظر آنے لگیں اگرچہ عیسائی بہت زیادہ تعداد میں تھے لیکن تهوڑی ہی دیر میں ان کی کثیر تعداد لقمہ اجل بن گئی.
یہ دیکھ کر عیسائیوں نے ہتھیار ڈال ڈال دئیے.
مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر کے قلعہ پر قبضہ کر لیا.
عبدالعزیز نے باغیوں کے سرغنوں کو سزائیں دیں قیدیوں سے جزیہ لیا اور قلعہ پر تسلط کر کے وہاں کے چند معززین کو بطور یرغمال اپنے ساتھ لیا اور دو روز وہاں قیام کر کے تیسرے روز دو سو مسلمانوں کو اس قلعہ میں چهوڑ کر بقیہ لشکر لے کر طلیطلہ کی طرف روانہ ہوئے____طارق کی بحالی____
جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment