Kya Khudkush (Suicide) karna Sahi Hai
کافر دشمنوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو بم دھماکے سے اڑاناعام طور پر خودکش حملہ کہا جاتا ہے جو کہ قرآن و حدیث کی رو سے ایک حرام عمل ہے ۔
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿سورة النساء /۲۹﴾
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اپنےآپکو تیز دھار آلے سے قتل کیا، تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کیلئے یہی تیز دھاری آلہ ہاتھ میں لیکر اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا)
بخاری ( 5442 ) اورمسلم ( 109 ) نے اسے روایت کیا ہے۔
خودکش حملہ کیا ہے ؟
یعنی کسی کو مارنے سے پہلے خود کو مارنا۔۔۔۔۔
دین میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔۔۔
اور جو لوگ خودکش حملوں کے فدائی ہونے کا شائبہ ڈالتے ہیں انکو معلوم ہونا چاہیئے کہ
فدائی حملہ میں پہلے کافر کو مارا جاتا ہے اور پھر اس کے ہاتھوں قتل ہوا جاتا ہے مگر خودکش حملہ میں کافر مرے یا نہ مرے بندہ خود کو مار ڈالے۔۔۔۔جسے دین میں واضح طور پر خودکشی کہا جاتا ہے۔
جب دین میں فدائی حملے موجود ہیں تو پھر خود سے ایک ایسی قسم ایجاد کرنا کہ جس کے جائز ہونے میں ہی اشکالات و شکوک وشبہات ہوں اور دلائل باوجود تراش خراش کے بھی نہ بن پا رہے ہوں تو اس عمل کا کیا فائدہ؟؟؟
اور اللہ قرآن میں واضح منع فرماتا ہے کہ:
ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ( البقرة/ 195)،
" اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو"۔
تو پھر خودکش ہو یا خودکشی ایک ہی بات ہے۔۔۔
کثیر علماء سلف اسے حرام قرار دیتے ہیں
اور جو اس کے جواز کی راہ نکالتے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کا جواز تب بنے گا جب :
➖ ا۔ انتہائی مجبور ہو اور کفار کو نقصان پہنچانے کو کوئی اور ذریعہ نہ بچا ہو۔۔۔
➖ ب۔ یہ مسلم ممالک میں مسلمان معاشروں میں نہیں بلکہ حربی کفار کے خلاف صرف میدان جہاد میں ہو۔۔
➖ ج۔ ا س سے بہت بڑا نقصان متوقع ہو نہ کہ ایک دو بندے مارنا جیسا کہ آجکل رواج بن چکا ہے، کوئی انڈر ویئر میں ڈالتا ہے کوئی پیٹ میں نگل کر، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
➖ د۔ ا س کو کراہت سمجھ کر کرنا نہ کہ اپنے جہاد کا شعار بنا لینا۔۔جیسا کہ آجکل عام ہے اور کچھ جہادی تنظیمیں صرف اپنے اسی عمل کی وجی سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں
➖ ر۔ اس کو معمول بنانے کی بجائے ، صرف ناگزیر حالات میں اختیار کرنا۔۔
لیکن جواز اس رائے کہ باوجود ، باکثرت علماء اس کے مجبوری میں بھی حرام اور ناجائز ہونے کے قائل ہیں ۔
علماء کے مطابق ، اگر جہاد میں کسی مجبوری کی حالت میں خودکشی جائز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں کفار کے خلا ف اس شخص کو خودکشی کرنے پر جہنم کی وعید نہ سناتے کہ جس نے اپنے زخموں سے تنگ ہو کر اور مجبور ہو کر خود ہی اپنے آپ کو مار لیا تھا ۔
اور یہ کام ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جب کوئی خودکش بمبار فوج یا پولیس کے درمیان گھر جاتا ہے تو وہ گرفتاری کے ڈر سے خود کو اڑا لیتا ہے جو کہ واضح خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
اس ضمن میں آپکے سامنے دو جیّد علماء کرام رحمہ اللہ کے فتاوی پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجیے
⛔فتوی نمبر / 1
علامہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کچھ یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو دھماکے سےاُڑائے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"میری نظر میں یہ کام درست نہیں ہے، اور کئی بار اس کے متعلق متنبہ بھی کرچکا ہوں، کیونکہ یہ قتل کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم) [یعنی اپنی جان کو قتل مت کرو] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے اپنی جان کو کسی بھی چیز سے قتل کیا ،قیامت کے دن اسی چیز کیساتھ اسے عذاب دیا جائے گا)[ بخاری( 5700 ) ومسلم ( 110 )]۔۔۔ اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ، لیکن بارودی مواد اپنے ساتھ رکھ کر خود کش حملہ کرے اور انہی یہودیوں کے ساتھ !مارا جائے تو یہ غلط ہے، جائز نہیں"
⛔فتوی نمبر / 2
اسی طرح فقیہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے خود کش حملوں کے بارے میں پوچھا گیا:
تو انہوں نے جواب دیا: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کو مستثنی نہیں کیا، اس لئے یہ حکم عام ہے؛ اور اس لئے بھی خود کش حملہ حرام ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہے؛ جبکہ یہ خود کش حملہ آور آپنے آپکو دھماکے سے اُڑا کر مسلمانوں کے ایک فرد کو کم کر رہا ہے، مزید برآں کہ اُسکی وجہ سے دوسروں کا بھی نقصان ہوتا ہے؛کیونکہ دشمن پھر ایک کے بدلے ایک نہیں بلکہ بسا اوقات پوری قوم کو بھی تباہ کرسکتا ہے؛ اسی طرح ایک خود کش حملہ جسکی وجہ سے دس یا بیس یا تیس یہودی قتل ہوں اسکی وجہ سے مسلمانوں کو انتہائی شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور سنگین نقصان ہوتاہے، جیسے کہ آج فلسطینیوں کا یہود کے ساتھ معاملہ [ہمارے سامنے ]ہے۔
اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے؛ اس لئے کہ خود کش حملہ کے رد عمل میں حاصل ہونیوالے نقصانات اسکے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ (جنگ یمامہ کے موقع پر انہوں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انہیں قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دیں، تو وہ انکے لئے دروازہ کھول دینگے)کو دلیل بھی نہیں بنا سکتا،کیونکہ براء بن مالک کے واقعہ میں موت یقینی نہیں تھی، اسی لئے وہ ناصرف بچ بھی نکلے اور دروازہ کھولنےمیں بھی کامیاب رہے، جسکی بنا پر لوگ قلعہ میں داخل ہوئے"
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ورسائل عثيمين" (25/ 358)
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿سورة النساء /۲۹﴾
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالٰی تم پر نہایت مہربان ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اپنےآپکو تیز دھار آلے سے قتل کیا، تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کیلئے یہی تیز دھاری آلہ ہاتھ میں لیکر اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا)
بخاری ( 5442 ) اورمسلم ( 109 ) نے اسے روایت کیا ہے۔
خودکش حملہ کیا ہے ؟
یعنی کسی کو مارنے سے پہلے خود کو مارنا۔۔۔۔۔
دین میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔۔۔
اور جو لوگ خودکش حملوں کے فدائی ہونے کا شائبہ ڈالتے ہیں انکو معلوم ہونا چاہیئے کہ
فدائی حملہ میں پہلے کافر کو مارا جاتا ہے اور پھر اس کے ہاتھوں قتل ہوا جاتا ہے مگر خودکش حملہ میں کافر مرے یا نہ مرے بندہ خود کو مار ڈالے۔۔۔۔جسے دین میں واضح طور پر خودکشی کہا جاتا ہے۔
جب دین میں فدائی حملے موجود ہیں تو پھر خود سے ایک ایسی قسم ایجاد کرنا کہ جس کے جائز ہونے میں ہی اشکالات و شکوک وشبہات ہوں اور دلائل باوجود تراش خراش کے بھی نہ بن پا رہے ہوں تو اس عمل کا کیا فائدہ؟؟؟
اور اللہ قرآن میں واضح منع فرماتا ہے کہ:
ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ( البقرة/ 195)،
" اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو"۔
تو پھر خودکش ہو یا خودکشی ایک ہی بات ہے۔۔۔
کثیر علماء سلف اسے حرام قرار دیتے ہیں
اور جو اس کے جواز کی راہ نکالتے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کا جواز تب بنے گا جب :
➖ ا۔ انتہائی مجبور ہو اور کفار کو نقصان پہنچانے کو کوئی اور ذریعہ نہ بچا ہو۔۔۔
➖ ب۔ یہ مسلم ممالک میں مسلمان معاشروں میں نہیں بلکہ حربی کفار کے خلاف صرف میدان جہاد میں ہو۔۔
➖ ج۔ ا س سے بہت بڑا نقصان متوقع ہو نہ کہ ایک دو بندے مارنا جیسا کہ آجکل رواج بن چکا ہے، کوئی انڈر ویئر میں ڈالتا ہے کوئی پیٹ میں نگل کر، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
➖ د۔ ا س کو کراہت سمجھ کر کرنا نہ کہ اپنے جہاد کا شعار بنا لینا۔۔جیسا کہ آجکل عام ہے اور کچھ جہادی تنظیمیں صرف اپنے اسی عمل کی وجی سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں
➖ ر۔ اس کو معمول بنانے کی بجائے ، صرف ناگزیر حالات میں اختیار کرنا۔۔
لیکن جواز اس رائے کہ باوجود ، باکثرت علماء اس کے مجبوری میں بھی حرام اور ناجائز ہونے کے قائل ہیں ۔
علماء کے مطابق ، اگر جہاد میں کسی مجبوری کی حالت میں خودکشی جائز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں کفار کے خلا ف اس شخص کو خودکشی کرنے پر جہنم کی وعید نہ سناتے کہ جس نے اپنے زخموں سے تنگ ہو کر اور مجبور ہو کر خود ہی اپنے آپ کو مار لیا تھا ۔
اور یہ کام ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جب کوئی خودکش بمبار فوج یا پولیس کے درمیان گھر جاتا ہے تو وہ گرفتاری کے ڈر سے خود کو اڑا لیتا ہے جو کہ واضح خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
اس ضمن میں آپکے سامنے دو جیّد علماء کرام رحمہ اللہ کے فتاوی پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجیے
⛔فتوی نمبر / 1
علامہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو کچھ یہودیوں کو قتل کرنے کیلئے اپنے آپکو دھماکے سےاُڑائے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"میری نظر میں یہ کام درست نہیں ہے، اور کئی بار اس کے متعلق متنبہ بھی کرچکا ہوں، کیونکہ یہ قتل کے مترادف ہے، اور اللہ تعالی فرماتا ہے: (ولا تقتلوا أنفسكم) [یعنی اپنی جان کو قتل مت کرو] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نے اپنی جان کو کسی بھی چیز سے قتل کیا ،قیامت کے دن اسی چیز کیساتھ اسے عذاب دیا جائے گا)[ بخاری( 5700 ) ومسلم ( 110 )]۔۔۔ اور اگر شرعی جہاد شروع ہوجائے تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرے، چنانچہ اگر قتل ہوجائے تو الحمد للہ، لیکن بارودی مواد اپنے ساتھ رکھ کر خود کش حملہ کرے اور انہی یہودیوں کے ساتھ !مارا جائے تو یہ غلط ہے، جائز نہیں"
⛔فتوی نمبر / 2
اسی طرح فقیہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے خود کش حملوں کے بارے میں پوچھا گیا:
تو انہوں نے جواب دیا: "ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جن خود کش حملوں میں موت یقینی ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید سنائی ہے کہ : (جس نے دنیا میں کسی چیز کے ساتھ اپنے آپکو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ اسے عذاب دیا جائے گا) [بخاری ( 5700 ) اورمسلم ( 110 )] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی چیز کو مستثنی نہیں کیا، اس لئے یہ حکم عام ہے؛ اور اس لئے بھی خود کش حملہ حرام ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہے؛ جبکہ یہ خود کش حملہ آور آپنے آپکو دھماکے سے اُڑا کر مسلمانوں کے ایک فرد کو کم کر رہا ہے، مزید برآں کہ اُسکی وجہ سے دوسروں کا بھی نقصان ہوتا ہے؛کیونکہ دشمن پھر ایک کے بدلے ایک نہیں بلکہ بسا اوقات پوری قوم کو بھی تباہ کرسکتا ہے؛ اسی طرح ایک خود کش حملہ جسکی وجہ سے دس یا بیس یا تیس یہودی قتل ہوں اسکی وجہ سے مسلمانوں کو انتہائی شدید تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور سنگین نقصان ہوتاہے، جیسے کہ آج فلسطینیوں کا یہود کے ساتھ معاملہ [ہمارے سامنے ]ہے۔
اور جو شخص اس کے بارے میں جواز کا قائل ہے، اسکی یہ بات بے بنیاد ہے، بلکہ اسکی یہ بات فاسد رائے پر قائم ہے؛ اس لئے کہ خود کش حملہ کے رد عمل میں حاصل ہونیوالے نقصانات اسکے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اور یہ براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ (جنگ یمامہ کے موقع پر انہوں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ انہیں قلعے کی فصیل کے اندر پھینک دیں، تو وہ انکے لئے دروازہ کھول دینگے)کو دلیل بھی نہیں بنا سکتا،کیونکہ براء بن مالک کے واقعہ میں موت یقینی نہیں تھی، اسی لئے وہ ناصرف بچ بھی نکلے اور دروازہ کھولنےمیں بھی کامیاب رہے، جسکی بنا پر لوگ قلعہ میں داخل ہوئے"
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ورسائل عثيمين" (25/ 358)
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
No comments:
Post a Comment