Jung ki Tamanna Dil Me Na Rakho
Jannat Talwar ke Saye Tale Hai (Mafhoom Hadeeth)
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس حدیث کا مفہوم تھوڑا وضاحت کر دیں
دو باتیں ہیں اس حدیث میں ایک تو جنگ کی خواہش پر منع کیا جا رہا ہے دوسری طرف جنت تلوار کے سائے تلے
((وضاحت کر دیں ))
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ ﷻ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے
بخاري 2966
ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
{ ابو ابر اہیم عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعض ایام میں ، جن میں آپ کا دشمن سے سامنا ہو ا، انتظار فر ما یا ، ( یعنی لڑائی شروع نہیں کی ) حتیٰ کہ جب سو رج ڈھل گیا تو آپ ان ( صحابہ رضوان اللہم اجمعین) میں کھڑے ہوئے }
ترجمہ حدیث : اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو ، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ، بادل بھیجنے والے ، احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔
➖ صحیح البخاری / رٙقٙمُ الْحٙدِیْث : 2966
➖ كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ/جہاد کا بیان
➖ بَابٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ/نبی کریم ﷺ دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کردیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے
( متفق علیہ )
توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (٦/٣٣۔فتح) ، و صحیح المسلم(١٧٤٦)
⛔اسی سے متعلق ایک دوسری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جو صحیح مسلم (مختصر ) کے مطالعے کے دوران سامنے آئی:
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
ابو النضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےعمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لیئے نکلے، تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں*تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوالِ آفتاب تک انتظار کیا پھر لوگوں (صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمیعن) میں*کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالٰی سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن)جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
حدیث نمبر 1126
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں*دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں*کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
(آمین ثم آمین)
⛔ تبصرہ :
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ اور جب نبھا کی شکل نہ نظر آئے اور صورتِ حال یہ ہو کہ دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے.
اس حدیث کا مفہوم تھوڑا وضاحت کر دیں
دو باتیں ہیں اس حدیث میں ایک تو جنگ کی خواہش پر منع کیا جا رہا ہے دوسری طرف جنت تلوار کے سائے تلے
((وضاحت کر دیں ))
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ ﷻ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے
بخاري 2966
ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا قَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ»
{ ابو ابر اہیم عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعض ایام میں ، جن میں آپ کا دشمن سے سامنا ہو ا، انتظار فر ما یا ، ( یعنی لڑائی شروع نہیں کی ) حتیٰ کہ جب سو رج ڈھل گیا تو آپ ان ( صحابہ رضوان اللہم اجمعین) میں کھڑے ہوئے }
ترجمہ حدیث : اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو ! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو ، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو ، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی ، اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے ، بادل بھیجنے والے ، احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے ، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔
➖ صحیح البخاری / رٙقٙمُ الْحٙدِیْث : 2966
➖ كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ/جہاد کا بیان
➖ بَابٌ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ القِتَالَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ/نبی کریم ﷺ دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کردیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے
( متفق علیہ )
توثیق الحدیث : أخرجہ البخاری (٦/٣٣۔فتح) ، و صحیح المسلم(١٧٤٦)
⛔اسی سے متعلق ایک دوسری حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے جو صحیح مسلم (مختصر ) کے مطالعے کے دوران سامنے آئی:
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
ابو النضر سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےعمر بن عبیداللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لیئے نکلے، تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمن سے لڑائی کی حالت میں*تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوالِ آفتاب تک انتظار کیا پھر لوگوں (صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمیعن) میں*کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالٰی سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن)جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
حدیث نمبر 1126
باب: دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا، لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور یوں*دعا فرمائی کہ اے اللہ! کتاب نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں*کو بھگانے والے، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
(آمین ثم آمین)
⛔ تبصرہ :
کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو لڑائی کو ٹالنا اچھا ہے۔ اگر کوئی صلح کی عمدہ صورت نکل سکے۔ اور جب نبھا کی شکل نہ نظر آئے اور صورتِ حال یہ ہو کہ دشمن مقابلہ ہی پر آمادہ ہو تو جم کر اور خوب ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ایسے موقعہ پر اس دعائے مسنونہ کا پڑھنا ضروری ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ یعنی اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جنت کے لئے مالی و جانی قربانی کی ضرورت ہے جنت کا سودا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ﴿ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ﴾(التوبۃ: ۱۱۱) میں مذکور ہے.
No comments:
Post a Comment