دلیر ماں( افسانہ)
امتحانات ختم ہو چکے تھے. سبھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے. شاطر بھی ٹرین کے ذریعہ وقت صبح گھر پہونچ گیا. بہنوں نے خوشیوں سے چلا کر شاطر کا بہنانہ استقبال کیا. شاطر بھی ہنستے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہوگیا. ماں بیمار تھی. شاطر جا کر ماں کے پاس بیٹھ گیا. جگر کے ٹکڑے کو دیکھ کر ماں کا اداس چہرہ یکایک کھل اٹھا.
امتحانات ختم ہو چکے تھے. سبھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے. شاطر بھی ٹرین کے ذریعہ وقت صبح گھر پہونچ گیا. بہنوں نے خوشیوں سے چلا کر شاطر کا بہنانہ استقبال کیا. شاطر بھی ہنستے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہوگیا. ماں بیمار تھی. شاطر جا کر ماں کے پاس بیٹھ گیا. جگر کے ٹکڑے کو دیکھ کر ماں کا اداس چہرہ یکایک کھل اٹھا.
شاطر کے والدشہر سے باہر ایک معمولی قسم کے ملازم تھے. خلوص و ایمانداری کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکر یں کھا رہے تھے.جہاں بھی جاتے معمول کے مطابق شرافت پاؤں کی بیڑیاں بن جاتی . ہمیشہ اجرت سے کم پیسے ملنا اپنا مقدر مان چکے تھے. کبھی کبھی تو الزامات بھی لگتے. الزامات کو مٹانے کی خاطر سود بھی دیتے. مگر پھر بھی الزامات جوں کا توں ان کا سایہ کی طرح پیچھا کرتیں.
شاطر کو آئے ہوئے پندرہ دن کا عرصہ گزر چکا تھا. سبھی خوش مگر حیران و پریشان تھے. شوخیاں. شرارتیں.لاابالیاں. بہنوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا. سب شاطر سے رخصت ہوچکی تھیں. ماں کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانے سے بھی سبھی حیران و پریشان تھے.
میز کے چاروں طرف سبھی کھانے کے بعد گفتگو کر رہے تھے. تبھی شاطر کی بڑی بہن نے کہا شاطر اب کے ہمارے لئے آتے وقت کیا لاؤگے. بات کاٹ کر چھوٹی بہن نے کہا. اچھا شاطر یہ بتاؤ. تمہاری پرانی شراتییں کہاں ہیں.؟ . حالات کے شعور نے سبھوں کو چھین لیاہے . شاطر کو تبھی اپنے عارف و کالج یاد آگئے. یکایک موبائل کی گھنٹی بجی. عارف نے کہا بہت بہت مبارک ہو. میرے پیارے شاطر. تمہارا نام فائنل لسٹ میں آگیا ہے. صرف تین روز باقی ہیں. داخلہ لینے کی تیاری کرو. شاطر نے موبائل اسکرین پر نگاہیں جمالیں. اپنے نام پر نظر پڑتی ہی خوشیوں کے دوبوند اس کی آنکھوں سے چھلک گئے. بہنوں نے تیزی سے بھاگ کر باورچی خانہ میں ماں کو یہ خوشخبری سنائی.
شاطر داخلہ کے اصول و ضوابط پڑھنے لگا. فیس پر نظر پڑتی ہی اسے اپنی منزل بہت دور دکھنے لگی. اس نے اپنے والد کو خوشخبری سنائی. ساتھ ہی اداس لہجہ میں فیس کے بارے میں بھی بتایا. والد نے مغموم لہجے میں کہا. بیٹا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے. ابھی میں کچھ نہیں کرسکتا.
فیس کے بارے میں شاطر نے ماں سے بھی گفتگو کی. ماں بھی چپ چاپ بیٹھ گئ. یکا یک ماں کے ذہن میں خیال آیا. چلو شناسا ؤں کے در پر ہی دستک دی جائے. اپنوں نے (اپنا خون تو اپنا خون ہو تا ہے) کو عملی جامہ پہنا نے کے بجائے. اپنائیت کا کا احساس گفتگو سے بھی نہ دلایا. ماں نے آخر فون کاٹ دیا.
ماں پاس خموش بیٹھ گئ. ماں کی خموشی و لاچار نگاہیں شاطر کے خوابوں کے پر کتر نے لگے. لخت جگر کو دولت علم سے مالا مال کرنے کی تمنائیں ادھورا خواب بننے لگیں .
ماں اٹھ کر کمرے میں چلی گئی چند منٹ بعد سونے کے کنگن سامنے لاکر رکھ دیئے. شاطر نے کہا. ماں یہ کیا ہے. آپ تو کہتی تھیں یہی کنگن بیچ کر ہم بڑی بہن کی شادی کریں گے. شاطر کو بازار کی جانب اشارہ کے سوا ماں کچھ نہ کہ سکی.
شاطر بازار سے واپس آگیا. کنگن جوہری کا ہو کر بھی شاطر کو خوشیاں نہ دے سکا.
ماں کی بیماری بڑھ چکی تھی. مگر پھر بھی پل بھر آرام کرنے کو فرصت میسر نہ تھی. شاطر کچھ دیر کے بعد اپنے بیگ کے ساتھ تیار ہوگیا. ماں دعاؤں میں یاد رکھنا. میں چلتا ہوں. ماں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا. شاطر کا ہاتھ پکڑ لیا. چہرہ سے کئ دنوں سے بیمار مگر ممتانہ لہجہ میں کہا. شاطر اگر ہوسکے تو آج مت جاؤ. اٹھتے قدم ماں کے لہجے سے رک گئے.
آخر ایک شام و شب ماں کے سایہ میں اور گزر گئ.
ماں کی طبیعت آج کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئ تھی. ماں درد سے آنسو بہا رہی تھی. شاطر دبے پاؤں گھر میں آیا. ماں کے گرتے آنسوؤں پر نظر پڑ گئی. ماں آنسوؤں کو برابر روکے جا رہی تھی. درد نے آنسوؤں پر ماں کے ضبط کو چھین لیا تھا. شاطر کو اگلی صبح ہر حال داخلہ کے لئے پہونچنا تھا. درد سے نڈھال ماں نے شاطر کو صرف اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا.
(فنی ناحیہ سے آپ کے تبصروں پر مشکور ہوں گے)
عبید اسد
شعبئہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ.
ماں پاس خموش بیٹھ گئ. ماں کی خموشی و لاچار نگاہیں شاطر کے خوابوں کے پر کتر نے لگے. لخت جگر کو دولت علم سے مالا مال کرنے کی تمنائیں ادھورا خواب بننے لگیں .
ماں اٹھ کر کمرے میں چلی گئی چند منٹ بعد سونے کے کنگن سامنے لاکر رکھ دیئے. شاطر نے کہا. ماں یہ کیا ہے. آپ تو کہتی تھیں یہی کنگن بیچ کر ہم بڑی بہن کی شادی کریں گے. شاطر کو بازار کی جانب اشارہ کے سوا ماں کچھ نہ کہ سکی.
شاطر بازار سے واپس آگیا. کنگن جوہری کا ہو کر بھی شاطر کو خوشیاں نہ دے سکا.
ماں کی بیماری بڑھ چکی تھی. مگر پھر بھی پل بھر آرام کرنے کو فرصت میسر نہ تھی. شاطر کچھ دیر کے بعد اپنے بیگ کے ساتھ تیار ہوگیا. ماں دعاؤں میں یاد رکھنا. میں چلتا ہوں. ماں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا. شاطر کا ہاتھ پکڑ لیا. چہرہ سے کئ دنوں سے بیمار مگر ممتانہ لہجہ میں کہا. شاطر اگر ہوسکے تو آج مت جاؤ. اٹھتے قدم ماں کے لہجے سے رک گئے.
آخر ایک شام و شب ماں کے سایہ میں اور گزر گئ.
ماں کی طبیعت آج کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئ تھی. ماں درد سے آنسو بہا رہی تھی. شاطر دبے پاؤں گھر میں آیا. ماں کے گرتے آنسوؤں پر نظر پڑ گئی. ماں آنسوؤں کو برابر روکے جا رہی تھی. درد نے آنسوؤں پر ماں کے ضبط کو چھین لیا تھا. شاطر کو اگلی صبح ہر حال داخلہ کے لئے پہونچنا تھا. درد سے نڈھال ماں نے شاطر کو صرف اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا.
(فنی ناحیہ سے آپ کے تبصروں پر مشکور ہوں گے)
عبید اسد
شعبئہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ.
No comments:
Post a Comment