Kya Dua Likh kar ya Dam Karna Jayez Hai
کیا تعویز لٹکانا شرک ھے اور کیا ہر قسم کا تعویز لٹکانا شرک کے زمرے میں آئے گا جیسا کہ بعض لوگ ہندسے یا شرکیہ کلمات پر مشتمل تعویز گلے میں پہنتے ھیں وہ تو بلاشک وشبہ شرک ھوگا لیکن جو لوگ کسی قرآنی آیت یا آیت الکرسی یا صبح شام کے اذکار میں سے کوئی دعا لکھ کر گلے میں پہن لیں تو کیا وہ بھی شرک کے زمرے میں آئے گا؟
دوم۔۔
کیا دم کرنا شرک ھے جو لوگ آیت الکرسی قرآنی آیات معوذتین یا صبح شام کے اذکار پر مشتمل دعائیں پڑھ کر خود پر اپنے گھر پر یا بچوں پر پھونک مارتے ھیں کیا وہ شرک کے مرتکب ھوتے ہیں؟؟
جو دم جائز اور صحیح ھے اور جو تعویز صحیح اور جائز ھے اسکے بارے مکمل رہنمائی کی درخواست ھے اور جو تعویز اور دم شرک کے زمرے میں آتے ھیں انکی بھی مکمل تفصیل درکار ہے
--------------------------------------------------
قرآنی آیات اور اسمائے و صفات باری تعالی کے علاوہ تعویذ پہننا جائز نہیں ہے اور یہ شرک میں داخل ہے جبکہ قرآنی اور اسماء وصفات باری تعالی پر مشتمل تعویذ کے بارے اختلاف ہے۔ اس میں بھی راجح موقف یہی ہے کہ اسے بھی نہ پہنا جائے اور صرف دم پر بھی اکتفا کیا جائے۔
فتاوی اللجنہ الدائمہ کا یہی موقف ہے۔ کیونکہ قرآنی تعویذ پہننے میں اس کی عدم تعظیم کا پہلو نکلتا ہے مثلا واش روم میں تعویذ پہن کر داخل ہونا یا حالت جنابت و حالت حیض و نفاس میں تعویذ کو اپنے جسم سے لگانا وغیرہ۔
وقال علماء اللجنة الدائمة :
اتفق العلماء على تحريم لبس التمائم إذا كانت من غير القرآن ، واختلفوا إذا كانت من القرآن ، فمنهم من أجاز لبسها ومنهم من منعها ، والقول بالنهي أرجح لعموم الأحاديث ولسدِّ الذريعة .
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الله بن غديان ، الشيخ عبد الله بن قعود .
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 1 / 212 ) .
➖ امام احمد بن حنبل سے (تعویزکے طور پر ) قرآن مجید لٹکانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : التعليق كلها مكروه:ہر قسم کے تعویز لٹکانے مکروہ ہیں ـ (مسائل الامام احمد واسحاق ، روايه اسحق بن منصور الکوسج 1/193 فقره : 382)
شرکیہ جھاڑ ، پھونک وہ ہیں جو مبہم لکیروں اور غیر مفہوم سمجھ میں نہ آنے والی عبارتوں پر مشتمل ہوں اور ہر بیماری کے اکتشاف یاجادو چھڑانے یا تعویزوں کے بنانے میں جنوں سےمدد طلب کی گئی ہو۔
شرعی رقیہ (جھاڑ پھونک ، دم) بالاتفاق مشروع ہے ، اس کے جواز اور مشروعیت کی دلیلیں بے شمار ہیں، چند دلیلیں درج ذیل ہیں:
➖ ۱- ارشاد باری تعالیٰ:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین، ولا یزید الظالمین الا خساراً﴾ ۔
”اور ہم قرآن کریم سے ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااور رحمت ہیں، اور ظالموں کو نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی“۔ (الاسراء:82)
➖ ۲- حضرت اماں عائشہ رضی شعنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول ش ﷺ کو تکلیف ہوتی تو حضرت جبریلں یہ دعا پڑھ کر دم کرتے :”بسم اللہ یبریک ومن کل داءٍ یشفیک ومن شر حاسدٍ اذا حسد، وشرکل عین“، ” شکے نام سے وہ آپ کو بری کرے گا، ہر بیماری سے شفا دے گا، اور ہر حاسد کے حسد کے شر سے، اور ہر نظربد کے شر سے محفوظ رکھے گا“(مسلم)۔
➖ ۳- حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے کہ جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذتین (سورة الفلق وسورةالناس) پڑھ کر دم کرتے، اور جب آپ مرض الموت میں تھے تو میں آپ پر پڑھ کر دم کیا کرتی تھی اور خود آپ کے دست مبارک کو آپ پر پھیرتی تھی، کیونکہ آپ کا دست مبارک میرے ہاتھوں سے زیادہ با برکت تھا(مسلم)۔
➖ ۴- حضرت عثمان بن ابو العاص صنے رسول ش ﷺ سے درد کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا، اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین مرتبہ بسم شکہو، پھرسات بار یہ دعا پڑھو:”أعوذ باللہ وقدرتہ من شر ما أجد وأحاذر“… ”میں شاور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس چیزسے جو میں پاتا ہوں اور جس چیز سے میں خائف ہوں “(مسلم)۔
یہ اور اس طرح کی دیگر آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی آیات وادعیہ ماثورہ سے دم کرنا مشروع ومستحب ہے، بلکہ بعض روایات میں آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے ، چنانچہ آپ نے ایک لونڈی کا چہرہ متغیر دیکھا تو فرمایا ، اس پر دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگی ہے(بخاری)، نیزدم کے سلسلہ میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا، جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے چاہیے کہ فائدہ پہنچائے(مسلم)
⛔ تعویذ گنڈے :
تعویز گنڈے سےمراد وہ دھاگہ یا گھٹری ہے جو کسی انسان یا جانور کولٹکا دی جائے اگر ان میں کتاب و سنت کے منافی بدعیہ چیزیں لکھی ہوئی ہوں تو وہ اہل علم کے اتفاق کے ساتھ جائز نہیں ہیں بلکہ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق کتاب و سنت کی دعاؤں پر مشتمل تعویز بھی درست نہیں ہیں کیوں کہ یہ شرک کے اسباب میں سے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ جھاڑ پھونک تعویز اور محبت کامنتر یہ سب شرک ہیں ’’۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ هَذَا وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
صحیح : سنن ابی داود / رقم الحدیث : 3883
كِتَابُ الطِّبِّ
بَاب فِي تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
تعویذ گنڈے لٹکانا ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ” دم جھاڑ ‘ گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں یا تحریریں شرک ہیں ۔ “ ان کی اہلیہ نے کہا : آپ یہ کیوں کر کہتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میری آنکھ درد کی وجہ سے گویا نکلی جاتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ مجھے دم کرتا تھا ۔ جب وہ دم کرتا ہو میرا درد رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ شیطان کی کارستانی ہوتی تھی ۔ وہ تیری آنکھ میں اپنی انگلی مارتا تھا ‘ تو جب وہ ( یہودی ) دم کرتا تو ( شیطان ) باز آ جاتا تھا ۔ حالانکہ تجھے یہی کچھ کہنا کافی تھا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے «أذہب الباس رب الناس ، اشف أنت الشافی ، لا شفاء إلا شفاؤک ، شفاء لا یغادر سقما» ” اے لوگوں کے رب ! دکھ دور کر دے ‘ شفاء عنایت فرما ‘ تو ہی شفاء دینے والا ہے ‘ تیری شفاء کے سوا کہیں کوئی شفاء نہیں ‘ ایسی شفاء عنایت فرما جو کوئی دکھ باقی نہ رہنے دے ۔ “
اسی طرح کسی کاغذ تانبے یالوہے کے ٹکڑے پر اللہ کانام یا آیت الکرسی لکھ کر گاڑیوں میں لٹکانا یا قرآن شریف گاڑی کے اندر اس اعتقاد سے رکھنا کہ اس سے گاڑی ہر طرح کی آفت و بلا اور نظر بد وغیرہ سے محفوظ رہے گی شرک کی قبیل سے ہے۔
اسی طرح ہتھیلی کی شکل کاکوئی لوہا یااس میں آنکھ کی شکل بناکر نظر بد سے حفاظت کے لئے گھر یاگاڑی میں رکھنا قطعاً درست نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘ جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا’’ (احمد ترمذی حاکم )۔
1- اگر تعویذات کی عبارت میں کفر یا شرک ہو تو ایسے تعویذات کفر یا شرک ہیں
2- اگر تعویذات کی عبارت میں کفر یا شرک نہ ہو مثلا آیات قرآنی یا دیگر ادعیہ وغیرہ تو کفر یا شرک نہیں البتہ حرام ہیں
3- تمیمہ کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے شرک قرار دیا ہے اور بعض لوگ تمیمہ کا معنى تعویذ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں تمیمہ تعویذ کو نہیں کہا جاتا بلکہ وہ چیزے دیگری ہے۔
4- تمیمہ کا معنى ہے وہ منکے یا چمڑے کے ٹکڑے جنہیں نظر بد یا بیماری سے بچنے کے لیے لٹکایا جاتا ہے
جسطرح آپ کے علاقے کے لوگ گاڑی نئی لیں تو جوتا لٹکا دیتے ہیں مکان نیا بنائیں تو کالی ہنڈیا رکھ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ
5- جی ہاں ۔ تعویذات بہر صورت حرام ہیں خواہ کفر یا شرک بنیں یا نہ ۔
جہاں تک پھونک مار کر دم کرنے کی بات ہے تو انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
➖ فتاوی ابن باز رحمہ اللہ کے مطابق
جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے۔اس سے مراد وہ ہے۔جس میں شرک ہو یا غیر اللہ کے ساتھ توسل(وسیلہ پکڑنا) ہو یا ایسے مجہول الفاظ ہوں۔جن کے معنی معلوم نہ ہوں۔باقی رہے وہ دم جھاڑ جو ان سے پاک ہوں۔تو وہ شرعا جائز اور شفاء کا ایک بڑا سبب ہیں۔کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:
الا باس بالرقي ما لم يكن شركا
(صحيح مسلم كتاب السلام باب لا باس بالرقي ح :2200)
''جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں''
نیز آپﷺ نے فرمایا ہے۔:
من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه
(صحیح مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقیۃ من العین والنعلۃ ۔۔۔ح:5729)
''جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتاہو اسے ضرور پہنچانا چاہیے۔''
ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم نے اپنی ''صحیح'' میں بیان فرمایا ہے۔نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ:
لارقية الا من عين او حمة
(صحيح بخار کتاب الطب باب من اکتوی او کری ح:5705 وصحیح مسلم کتاب الایمان باب لدلیل علی دخول طوائف ۔۔۔ح:220)
''دم جھاڑ نظر بد اور ڈسے جانے سے ہوتا ہے۔''
اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں باتوں میں دم جھاڑ زیادہ بہتر اور زیادہ شفاء بخش ہوتا ہے۔اور نبی کریمﷺ نے خود دم کیا بھی ہے۔اور کرایا بھی باقی رہا مریضوں یا بچوں کے گلے میں تعویز لٹکانا تو یہ جائز نہیں جو تعویز لٹکائے جایئں انہیں تمائم حروز اور جوامع کے نام سے موسوم کیاجاتاہے۔اوران کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی انواع واقسام میں سے ایک ہیں۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
((من لبس تميمة فلااتم الله له’ومن تعلق ودعة فلا ودع الله له))
(مسند احمد 154/4 مجمع الزوائد /103 وابو یعلی فی المسند رقم 1759)
‘‘جو شخص تعویذ لٹکائے ،اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا نہ فرمائے اورجو سیپی وغیرہ لٹکائے ،اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔’’
نیز آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
((من تعلق تميمة فقد اشرك))
‘‘جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔’’
نیز فرمایا:
ان الرقي والتمائم والتولة شرك( سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی تعلیق التمائم ج ؛ 3883۔مسند احمد 1/381)
جو تعویذ قرآنی آیات اور جائز دعائوں پر مشتمل ہوں۔ان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔کہ یہ حرام ہے یا نہیں؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ بھی حرام ہیں۔ اور اس کے دو سبب ہیں:
1۔مذکورہ احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے۔کہ ہر طرح کے تعویز حرام ہیں۔خواہ وہ قرآنی آیات پر مشتمل ہوں۔یا غیر قرآنی کلمات پر!
2۔شرک کے سد باب کے لئے یہ بھی حرام ہیں۔ کیونکہ اگر قرآنی آیات پر مشتمل تعزیزوں کوجائز قرار دے دیاجائے تو ان میں دوسرے بھی شامل ہوکر معاملے کو مشتبہ بنادیں گے اور ان تعویزوں کے لٹکانے سے شرک کا دروازہ کھل جائےگا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جو زرائع شرک اور گناہوں تک پہنچانے والے ہوں۔ان کا بند کردینا قواعد شریعت میں سے ایک بہت بڑا قاعدہ ہے۔اور توفیق عطا فرمانے والا تو اللہ ہی ہے۔!
فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
➖ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
جھاڑ پھونک کے بارے میں ایک حدیث ممانعت کی ہے دوسری جواز کی ۔ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟ اگر کوئی بیمار شخص اپنے سینے پر قرآن کی آیات والا تعویذ لٹکائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الشیخ ابن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں
جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے وہ وہ ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ سے توسل ہو ، یا اس کے الفاظ مجہول ہوں جن کی سمجھ نہ آسکے۔
رہا کسی ڈسے ہوئے آدمی کو دم جھاڑ کرنے کا مسئلہ تو یہ جائز ہیاور شفاء کا بڑا ذریعہ ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایاہے:
((لا بأسَ بالرُّقی ماَلَم تکُنْ شرکاً))
’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((منِ اسْتطاَعَ أَنْ یَنفعَ أخَاہ فَلَیَنْفَعَہُ))
’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘
ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپﷺ نے فرمایا:
((لا رُقیۃَ إِلا مِن عین أَوحُمَۃٍ))
’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘
جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبیﷺ نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے
رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَنْ تعلَّق تمیمۃ فلاَ أَتمَّ اللَّہُ لَہ، ومَنْ تعلَّق وَدعۃً فَلَا وَدَع اللّٰہُ لہ۔))
’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ تعلَّق تمیمۃً فقد أَشرْکَ))
’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الرُّقی وَالتَّمائِمَ والتَّولۃَ شِرْکٌ))
دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘
ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہوں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں ؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں ۔
ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیوں کہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں ۔
اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذرائع شرک یا معاصی تک پہنچانے والے ہوں ان کا سدباب شریعت کے بڑے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے اور توفیق تو اللہ ہی سے ہے۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ /(جلداول -صفحہ 32)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه
دوم۔۔
کیا دم کرنا شرک ھے جو لوگ آیت الکرسی قرآنی آیات معوذتین یا صبح شام کے اذکار پر مشتمل دعائیں پڑھ کر خود پر اپنے گھر پر یا بچوں پر پھونک مارتے ھیں کیا وہ شرک کے مرتکب ھوتے ہیں؟؟
جو دم جائز اور صحیح ھے اور جو تعویز صحیح اور جائز ھے اسکے بارے مکمل رہنمائی کی درخواست ھے اور جو تعویز اور دم شرک کے زمرے میں آتے ھیں انکی بھی مکمل تفصیل درکار ہے
--------------------------------------------------
قرآنی آیات اور اسمائے و صفات باری تعالی کے علاوہ تعویذ پہننا جائز نہیں ہے اور یہ شرک میں داخل ہے جبکہ قرآنی اور اسماء وصفات باری تعالی پر مشتمل تعویذ کے بارے اختلاف ہے۔ اس میں بھی راجح موقف یہی ہے کہ اسے بھی نہ پہنا جائے اور صرف دم پر بھی اکتفا کیا جائے۔
فتاوی اللجنہ الدائمہ کا یہی موقف ہے۔ کیونکہ قرآنی تعویذ پہننے میں اس کی عدم تعظیم کا پہلو نکلتا ہے مثلا واش روم میں تعویذ پہن کر داخل ہونا یا حالت جنابت و حالت حیض و نفاس میں تعویذ کو اپنے جسم سے لگانا وغیرہ۔
وقال علماء اللجنة الدائمة :
اتفق العلماء على تحريم لبس التمائم إذا كانت من غير القرآن ، واختلفوا إذا كانت من القرآن ، فمنهم من أجاز لبسها ومنهم من منعها ، والقول بالنهي أرجح لعموم الأحاديث ولسدِّ الذريعة .
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الله بن غديان ، الشيخ عبد الله بن قعود .
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 1 / 212 ) .
➖ امام احمد بن حنبل سے (تعویزکے طور پر ) قرآن مجید لٹکانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : التعليق كلها مكروه:ہر قسم کے تعویز لٹکانے مکروہ ہیں ـ (مسائل الامام احمد واسحاق ، روايه اسحق بن منصور الکوسج 1/193 فقره : 382)
شرکیہ جھاڑ ، پھونک وہ ہیں جو مبہم لکیروں اور غیر مفہوم سمجھ میں نہ آنے والی عبارتوں پر مشتمل ہوں اور ہر بیماری کے اکتشاف یاجادو چھڑانے یا تعویزوں کے بنانے میں جنوں سےمدد طلب کی گئی ہو۔
شرعی رقیہ (جھاڑ پھونک ، دم) بالاتفاق مشروع ہے ، اس کے جواز اور مشروعیت کی دلیلیں بے شمار ہیں، چند دلیلیں درج ذیل ہیں:
➖ ۱- ارشاد باری تعالیٰ:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین، ولا یزید الظالمین الا خساراً﴾ ۔
”اور ہم قرآن کریم سے ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااور رحمت ہیں، اور ظالموں کو نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی“۔ (الاسراء:82)
➖ ۲- حضرت اماں عائشہ رضی شعنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول ش ﷺ کو تکلیف ہوتی تو حضرت جبریلں یہ دعا پڑھ کر دم کرتے :”بسم اللہ یبریک ومن کل داءٍ یشفیک ومن شر حاسدٍ اذا حسد، وشرکل عین“، ” شکے نام سے وہ آپ کو بری کرے گا، ہر بیماری سے شفا دے گا، اور ہر حاسد کے حسد کے شر سے، اور ہر نظربد کے شر سے محفوظ رکھے گا“(مسلم)۔
➖ ۳- حضرت عائشہ ہی سے مروی ہے کہ جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذتین (سورة الفلق وسورةالناس) پڑھ کر دم کرتے، اور جب آپ مرض الموت میں تھے تو میں آپ پر پڑھ کر دم کیا کرتی تھی اور خود آپ کے دست مبارک کو آپ پر پھیرتی تھی، کیونکہ آپ کا دست مبارک میرے ہاتھوں سے زیادہ با برکت تھا(مسلم)۔
➖ ۴- حضرت عثمان بن ابو العاص صنے رسول ش ﷺ سے درد کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا، اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین مرتبہ بسم شکہو، پھرسات بار یہ دعا پڑھو:”أعوذ باللہ وقدرتہ من شر ما أجد وأحاذر“… ”میں شاور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس چیزسے جو میں پاتا ہوں اور جس چیز سے میں خائف ہوں “(مسلم)۔
یہ اور اس طرح کی دیگر آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی آیات وادعیہ ماثورہ سے دم کرنا مشروع ومستحب ہے، بلکہ بعض روایات میں آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے ، چنانچہ آپ نے ایک لونڈی کا چہرہ متغیر دیکھا تو فرمایا ، اس پر دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگی ہے(بخاری)، نیزدم کے سلسلہ میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا، جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے چاہیے کہ فائدہ پہنچائے(مسلم)
⛔ تعویذ گنڈے :
تعویز گنڈے سےمراد وہ دھاگہ یا گھٹری ہے جو کسی انسان یا جانور کولٹکا دی جائے اگر ان میں کتاب و سنت کے منافی بدعیہ چیزیں لکھی ہوئی ہوں تو وہ اہل علم کے اتفاق کے ساتھ جائز نہیں ہیں بلکہ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق کتاب و سنت کی دعاؤں پر مشتمل تعویز بھی درست نہیں ہیں کیوں کہ یہ شرک کے اسباب میں سے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ جھاڑ پھونک تعویز اور محبت کامنتر یہ سب شرک ہیں ’’۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ هَذَا وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
صحیح : سنن ابی داود / رقم الحدیث : 3883
كِتَابُ الطِّبِّ
بَاب فِي تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
تعویذ گنڈے لٹکانا ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ” دم جھاڑ ‘ گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں یا تحریریں شرک ہیں ۔ “ ان کی اہلیہ نے کہا : آپ یہ کیوں کر کہتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میری آنکھ درد کی وجہ سے گویا نکلی جاتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ مجھے دم کرتا تھا ۔ جب وہ دم کرتا ہو میرا درد رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ شیطان کی کارستانی ہوتی تھی ۔ وہ تیری آنکھ میں اپنی انگلی مارتا تھا ‘ تو جب وہ ( یہودی ) دم کرتا تو ( شیطان ) باز آ جاتا تھا ۔ حالانکہ تجھے یہی کچھ کہنا کافی تھا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے «أذہب الباس رب الناس ، اشف أنت الشافی ، لا شفاء إلا شفاؤک ، شفاء لا یغادر سقما» ” اے لوگوں کے رب ! دکھ دور کر دے ‘ شفاء عنایت فرما ‘ تو ہی شفاء دینے والا ہے ‘ تیری شفاء کے سوا کہیں کوئی شفاء نہیں ‘ ایسی شفاء عنایت فرما جو کوئی دکھ باقی نہ رہنے دے ۔ “
اسی طرح کسی کاغذ تانبے یالوہے کے ٹکڑے پر اللہ کانام یا آیت الکرسی لکھ کر گاڑیوں میں لٹکانا یا قرآن شریف گاڑی کے اندر اس اعتقاد سے رکھنا کہ اس سے گاڑی ہر طرح کی آفت و بلا اور نظر بد وغیرہ سے محفوظ رہے گی شرک کی قبیل سے ہے۔
اسی طرح ہتھیلی کی شکل کاکوئی لوہا یااس میں آنکھ کی شکل بناکر نظر بد سے حفاظت کے لئے گھر یاگاڑی میں رکھنا قطعاً درست نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘ جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا’’ (احمد ترمذی حاکم )۔
1- اگر تعویذات کی عبارت میں کفر یا شرک ہو تو ایسے تعویذات کفر یا شرک ہیں
2- اگر تعویذات کی عبارت میں کفر یا شرک نہ ہو مثلا آیات قرآنی یا دیگر ادعیہ وغیرہ تو کفر یا شرک نہیں البتہ حرام ہیں
3- تمیمہ کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے شرک قرار دیا ہے اور بعض لوگ تمیمہ کا معنى تعویذ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں تمیمہ تعویذ کو نہیں کہا جاتا بلکہ وہ چیزے دیگری ہے۔
4- تمیمہ کا معنى ہے وہ منکے یا چمڑے کے ٹکڑے جنہیں نظر بد یا بیماری سے بچنے کے لیے لٹکایا جاتا ہے
جسطرح آپ کے علاقے کے لوگ گاڑی نئی لیں تو جوتا لٹکا دیتے ہیں مکان نیا بنائیں تو کالی ہنڈیا رکھ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ
5- جی ہاں ۔ تعویذات بہر صورت حرام ہیں خواہ کفر یا شرک بنیں یا نہ ۔
جہاں تک پھونک مار کر دم کرنے کی بات ہے تو انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
➖ فتاوی ابن باز رحمہ اللہ کے مطابق
جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے۔اس سے مراد وہ ہے۔جس میں شرک ہو یا غیر اللہ کے ساتھ توسل(وسیلہ پکڑنا) ہو یا ایسے مجہول الفاظ ہوں۔جن کے معنی معلوم نہ ہوں۔باقی رہے وہ دم جھاڑ جو ان سے پاک ہوں۔تو وہ شرعا جائز اور شفاء کا ایک بڑا سبب ہیں۔کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:
الا باس بالرقي ما لم يكن شركا
(صحيح مسلم كتاب السلام باب لا باس بالرقي ح :2200)
''جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں''
نیز آپﷺ نے فرمایا ہے۔:
من استطاع منكم ان ينفع اخاه فلينفعه
(صحیح مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقیۃ من العین والنعلۃ ۔۔۔ح:5729)
''جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتاہو اسے ضرور پہنچانا چاہیے۔''
ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم نے اپنی ''صحیح'' میں بیان فرمایا ہے۔نیز نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ:
لارقية الا من عين او حمة
(صحيح بخار کتاب الطب باب من اکتوی او کری ح:5705 وصحیح مسلم کتاب الایمان باب لدلیل علی دخول طوائف ۔۔۔ح:220)
''دم جھاڑ نظر بد اور ڈسے جانے سے ہوتا ہے۔''
اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں باتوں میں دم جھاڑ زیادہ بہتر اور زیادہ شفاء بخش ہوتا ہے۔اور نبی کریمﷺ نے خود دم کیا بھی ہے۔اور کرایا بھی باقی رہا مریضوں یا بچوں کے گلے میں تعویز لٹکانا تو یہ جائز نہیں جو تعویز لٹکائے جایئں انہیں تمائم حروز اور جوامع کے نام سے موسوم کیاجاتاہے۔اوران کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی انواع واقسام میں سے ایک ہیں۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
((من لبس تميمة فلااتم الله له’ومن تعلق ودعة فلا ودع الله له))
(مسند احمد 154/4 مجمع الزوائد /103 وابو یعلی فی المسند رقم 1759)
‘‘جو شخص تعویذ لٹکائے ،اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا نہ فرمائے اورجو سیپی وغیرہ لٹکائے ،اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔’’
نیز آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
((من تعلق تميمة فقد اشرك))
‘‘جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔’’
نیز فرمایا:
ان الرقي والتمائم والتولة شرك( سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی تعلیق التمائم ج ؛ 3883۔مسند احمد 1/381)
جو تعویذ قرآنی آیات اور جائز دعائوں پر مشتمل ہوں۔ان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔کہ یہ حرام ہے یا نہیں؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ بھی حرام ہیں۔ اور اس کے دو سبب ہیں:
1۔مذکورہ احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے۔کہ ہر طرح کے تعویز حرام ہیں۔خواہ وہ قرآنی آیات پر مشتمل ہوں۔یا غیر قرآنی کلمات پر!
2۔شرک کے سد باب کے لئے یہ بھی حرام ہیں۔ کیونکہ اگر قرآنی آیات پر مشتمل تعزیزوں کوجائز قرار دے دیاجائے تو ان میں دوسرے بھی شامل ہوکر معاملے کو مشتبہ بنادیں گے اور ان تعویزوں کے لٹکانے سے شرک کا دروازہ کھل جائےگا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جو زرائع شرک اور گناہوں تک پہنچانے والے ہوں۔ان کا بند کردینا قواعد شریعت میں سے ایک بہت بڑا قاعدہ ہے۔اور توفیق عطا فرمانے والا تو اللہ ہی ہے۔!
فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلددوم
➖ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
جھاڑ پھونک کے بارے میں ایک حدیث ممانعت کی ہے دوسری جواز کی ۔ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟ اگر کوئی بیمار شخص اپنے سینے پر قرآن کی آیات والا تعویذ لٹکائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الشیخ ابن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں
جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے وہ وہ ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ سے توسل ہو ، یا اس کے الفاظ مجہول ہوں جن کی سمجھ نہ آسکے۔
رہا کسی ڈسے ہوئے آدمی کو دم جھاڑ کرنے کا مسئلہ تو یہ جائز ہیاور شفاء کا بڑا ذریعہ ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایاہے:
((لا بأسَ بالرُّقی ماَلَم تکُنْ شرکاً))
’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((منِ اسْتطاَعَ أَنْ یَنفعَ أخَاہ فَلَیَنْفَعَہُ))
’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘
ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپﷺ نے فرمایا:
((لا رُقیۃَ إِلا مِن عین أَوحُمَۃٍ))
’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘
جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبیﷺ نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے
رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَنْ تعلَّق تمیمۃ فلاَ أَتمَّ اللَّہُ لَہ، ومَنْ تعلَّق وَدعۃً فَلَا وَدَع اللّٰہُ لہ۔))
’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ تعلَّق تمیمۃً فقد أَشرْکَ))
’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ الرُّقی وَالتَّمائِمَ والتَّولۃَ شِرْکٌ))
دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘
ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہوں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں ؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں ۔
ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیوں کہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں ۔
اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذرائع شرک یا معاصی تک پہنچانے والے ہوں ان کا سدباب شریعت کے بڑے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے اور توفیق تو اللہ ہی سے ہے۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ /(جلداول -صفحہ 32)
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه
No comments:
Post a Comment