find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Dhadhi ko Ek Moost Ke Bad Katna Chahiye?

 Dhadhi Ko Katne Ka Masla, Kya Monchh Rakh Sakte HAi, Dhadhi Kitne Bare hone Pe Katne Chahiye


بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
حدیث ہے داڑی کو معاف کرنا اور کچھ کہتے ہیں ایک مٹھ کے بعد کاٹ سکتے ہیں ایسی بھی حدیث ہے یہ حدیث کسی صحابی سے منقول ہے اس کی وضاحت کر دے ارجنٹ جواب برائے مہربانی
شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
داڑھى پورى اور گھنى ركھنا فرض ہے، اور داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:
" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى كو بڑھاؤ مشركوں كى مخالفت كرو"
متفق عليہ. يہ حديث ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے.
اور صحيح بخارى ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى پورى ركھو مشركوں كى مخالفت كرو "
اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مونچھيں پست كرو، اور داڑھى لمبى كرو مجوسيوں كى مخالفت كرو "
يہ سب احاديث داڑھى پورى اور گھنى اور اپنى حالت پر باقى ركھنے پر دلالت كرتى ہيں، اور مونچھوں كے كاٹنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں، مشروع بھى يہى ہے، اور يہى واجب اور فرض ہے جس كى راہنمائى نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمائى اور اس كا حكم بھى ديا.
اور پھر داڑھى پورى ركھنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى اور صحابہ كرام كى اقتدا اور مشركوں كى مخالفت، اور كفار اور عورتوں سے مشابہت بھى سے بھى دورى ہے.
ليكن ترمذى شريف ميں جو حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے "
اہل علم كے ہاں يہ خبر باطل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بعض لوگ اس كو دليل بناتے ہيں، حالانكہ يہ حديث ثابت ہى نہيں، كيونكہ اسكى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے جو متہم بالكذب رواتى ہے.
لہذا مومن شخص كے ليے اس باطل حديث كو دليل بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى اہل علم كے اقوال كے ساتھ رخصت حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ سنت نبويہ سب كے ليے حاكم ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ جو كوئى شخص رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرتا ہے، اس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى ﴾.
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)​
ديكھيں كتاب: مجموع فتاوى و مقالات المتنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 4 / 443 ).
1 - کیا داڑھی بڑھانا واجب ہے یا جائز؟
2 - کیا داڑھی مونڈھنا گناہ ہے یا یہ عمل دین ميں نقص کا باعث ہے؟
3 - کیا داڑھی مونڈھنا مونچھیں بڑھانے کے ساتھ جائز ہے؟
ان سوالات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم مونچھیں چھوٹی کرو، اور داڑھیاں لمبى رکھو اور مشرکین کی مخالفت کرو
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لمبی کرو، مجوسیوں کی مخالفت کرو
اور امام نسائی نے اپنی سنن میں صحیح اسناد کے ساتھ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں علامہ حافظ ابومحمد ابن حزم کا قول ہے کہ تمام علماء متفق ہیں کہ مونچھیں کاٹنا اور داڑھی بڑھانا فرض ہے۔ ا. هـ.
مونچھیں کاٹنے داڑھی بڑھانے اور گھنی کرنے کے تعلق سے اس باب میں احادیث اور علماء کا کلام بکثرت پایا جاتا ہے، جس کا احاطہ اس مختصر جواب میں ممکن نہیں ہے، اور گزشتہ احادیث اور ابن حزم کے نقل کردہ اجماع سے تينوں سوالوں کا جواب بھی مل جاتا ہے،
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانا اور گھنی کرنا فرض ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور آپ کا حکم وجوب کو بتاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟﺟﻮ ﻛﭽھ ﺭﺳﻮﻝ ﺩﮮ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﮯ ﺭﻙ ﺟﺎؤ
اسی طرح مونچھیں کاٹنا واجب ہے اور مونچھوں کو بالکل چھوٹا کرنا افضل ہے، لیکن مونچھیں بڑھانا یا اسمیں دم بنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی مخالفت لازم آتی ہے:
مونچھیں چھوٹی كرو تم مونچھوں کو پست کرو مونچھیں کاٹو جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں
یہ چاروں جملے جیساکہ صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں، اور آخری لفظ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا وہ آپ کا يہ فرمان ہے:
جو شخص اپنی مونچھوں سے کچھ حصہ نہ لے وہ ہم میں سے نہیں اس میں شدید وعید ہے جو ایک مسلمان کو اس عمل سے پرہیز کرنے کو واجب قرار دیتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجا آوری کی طرف دعوت دیتا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مونچھیں بڑھانا اور اسمیں دم بنانا گناہ اور معصیت ہے ،
اسی طرح داڑھی مونڈھنا اور اسے چھوٹی کرنا جملہ معصیت اور گناہ میں سے ہے، جس سے ایمان کی کمی اور کمزوری لازم آتی ہے، اور اللہ کا غیظ وغضب نازل ہونے کا اندیشہ ہے، مذکورہ احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ مونچھیں لمبی کرنا اور داڑھی مونڈھانا یا چھوٹی کرنا مجوسیوں اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرنے کے مرادف ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا گناہ عظیم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو جس قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوگا۔ امید ہے کہ یہ جواب آپ کے لیے کافی وشافی ہوگا۔
احناف داڑھی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ خود ساختہ ہے اور اپنے خود ساختہ عمل کےلئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لیتے ہیں کہ انہوں نے ایک مشت سے زائد داڑھی کٹائی تھی۔ لیکن احناف کا داڑھی کے ساتھ موجود سلوک کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
جن لوگوں کا قول کہ قبضہ یعنی ایک مٹھ سے زاید کو کاٹا جایے اور وہ ابن عمر وغیرہ کے آثار سے استدلال کرتے ہیں تو یہ استدلال ضعیف ہے کیونکہ مرفوع اور صحیح احادیث جو کہ داڑھی کو بڑھانے پر دلالت کرتی ہیں ان موقوف آثار کی نفی کرتی ہیں چنانچہ ان مرفوع کو مرفوع اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوءے حجت بنانا صحیح نہیں
تحفۃ الاحوذی 8/49
1۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خاص حج اور عمرہ کے موقع پر ایسا کیا جبکہ موجود حنفی تقریبا ہر مہینے یا پندرہ دن بعد یہ عمل کرتے ہیں اور نہ وہ کوئی حج کا موقع ہوتا ہے اور نہ ہی عمرہ کا۔
2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل کو سنت قرار نہیں دیا جبکہ احناف اسے سنت قرار دیتے ہیں
3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کو صرف لمبائی میں کٹوایا تھا جبکہ احناف داڑھی کو لمبائی کے علاوہ اطراف سے بھی کٹواتے ہیں اور خط بنوانے کے نام پر گالوں کے بال بھی کٹواتے ہیں جو کہ داڑھی کا حصہ ہیں۔
جہاں تک عمر رضی اللہ عنہ کا فعل بیان کیا جاتا ہے تو عمر رضی اللہ عنہ کا قول اس کی مخالفت میں ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ عمل سنت کے خلاف تھا یا زیادہ سے زیادہ صرف حج و عمرہ کے موقع پر اختیار کرنے والا عمل تھا اور اگر میں یہ کہوں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعفا ء اللحیہ وا لی حدیث کے راوی بھی ہیں اور محدثین کا اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کر دہ روایت کے خلا ف ہو تو روا یت کا اعتبا ر ہو تا ہے اس کے عمل کی کو ئی حیثیت نہیں ہو تی ۔
۔..................................................................
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS