Udhar aur naqad ke kharid wo farokht Qisto Par
ادھار اور نقد بیع میں فرق کرنا شریعت کی رو سے کیسا ھے۔ مدلل جواب مطلوب ھے۔ مثال کے طور پر ایک چیز کی نقد قیمت لاکھ روپے ھے جبکہ 3ماہ کے ٹائم پر یہی چیز ایک لاکھ پچاس ہزار کی فروخت ہوتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے۔ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
۔_________________________
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
دور حاضر میں جن معاملات کووسیع پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے ان میں قسطوں پر خرید و فروخت بھی شامل ہے اس کو عربی میں البيع بالتقسيط کہا جاتا ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ چیز تو فورا مشتری کےحوالے کردی جائے مگر اس کی قیمت طے شدہ اقساط میں وصول کی جائے
اس کا رواج تو عہد رسالت و صحابہ میں بھی موجود تھا جیساکہ ذیل کے دو واقعات سے ثابت ہوتا ہے ۔
"عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَجَاءَ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى إِحْدَى مَنْكِبَيَّ، إِذْ جَاءَ أَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا سَعْدُ ابْتَعْ مِنِّي بَيْتَيَّ فِي دَارِكَ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ مَا أَبْتَاعُهُمَا، فَقَالَ المِسْوَرُ: وَاللَّهِ لَتَبْتَاعَنَّهُمَا، فَقَالَ سَعْدٌ: وَاللَّهِ لاَ أَزِيدُكَ عَلَى أَرْبَعَةِ آلاَفٍ مُنَجَّمَةً، أَوْ مُقَطَّعَةً، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: لَقَدْ أُعْطِيتُ بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ»، مَا أَعْطَيْتُكَهَا بِأَرْبَعَةِ آلاَفٍ، وَأَنَا أُعْطَى بِهَا خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ "( صحيح البخاري ، رقم 2258 ، بَابُ عَرْضِ الشُّفْعَةِ عَلَى صَاحِبِهَا قَبْلَ البَيْعِ )
'' عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا تھا ، اتنے میں مسور بن مخرمۃ آئے انھوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع آگئے ۔ انہوں نے کہا : اے سعد آپ کے محلے میں میرے موجود دو گھر ہیں وہ آپ خرید لیں ۔ سعد نےکہا : اللہ کی قسم میں نہیں خریدتا ۔ حضرت مسور نےکہا کہ اللہ کی قسم آپکو ضرور خریدنا ہوں گے ۔ تب سعد نے کہا میں چار ہزار درہم سے زیادہ نہیں دوں گا وہ بھی قسطوں میں ۔ ابو رافع نےکہا کہ مجھے ان گھروں کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے اور اگر میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے تو میں آپ کو یہ گھر چار ہزار درہم میں بھی نہ دیتا ۔ جب کہ مجھے ان کے پانچ سو دینار ( نقد ) ملتے تھے ۔ ''
قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں :
1۔ نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔
2۔ ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیز نقد سو روپے کی اور ادھار ایک سودس کی ہوکی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں :
(1)جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
(( و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز )) ( نيل الأوطار ج 8 ص 201 )
اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ( فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664 )
(2)امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
(3)حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔
( سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5 )
🌀قائلین جواز کے دلائل :
جو حضرات اس کے حق میں ہیں ان کا استدلال ایک تو اس بات سے ہے کہ معاملات میں اصل اباحت ہے ۔ یعنی کاروبار کی ہر وہ صورت جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو ۔ قرآن حکیم کی آیت : ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوائے ان بیوع کے جن کی حرمت قرآن وحدیث میں واضح کردی گئی ہے ، ہر قسم کی بیع جائز ہے ، اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص موجود نہیں جس سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہو ۔
ان حضرات کی دوسری دلیل ذیل کاواقعہ ہے :
((عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا فَنَفِدَتْ الْإِبِلُ فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ»، فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ)) ( سنن أبی داؤد رقم 3357 ، کتاب البیوع ، باب فی الرخصة في ذلك ) ( شيخ الباني رحمه الله نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ۔از خضرحیات)
'' حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جیش تیار کرنے کا حکم دیا تو اونٹ کم پڑگئے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقے کے اونٹ آنے تک ادھار لے لو ۔ تو انہوں نے لوگوں سے اس شرط پر اونٹ لے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ایک کے بدلے دد دد دیے جائیں گے ۔ ''
🌀مانعین کے دلائل :
جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں ان کی پہلی دلیل یہ ہے :
ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے ۔
اس رائے کے حق میں دوسری دلیل وہ روایات ہیں جن میں ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت بیان ہوئی ہے ۔ مثلا :
(( نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ))
( ترمذي : كتاب البيوع ، باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة )
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع کیا ہے ۔ ''
((نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة )) ( مسند احمد بن حنبل ج 8 ص 383 )
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے ۔ ''
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ انسان یہ کہے :
(( وإن کان بنقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا )) ( مصنف ابن أبي شيبة ج 5 ص 54 )
'' اگر نقد ہو تو اتنے اور ادھار ہو تو اتنے کی ۔
🌀راجح نقطہ نظر
ہمارے خیال میں حسب ذیل وجوہ کے باعث ان لوگوں کی رائے زیادہ وزنی ہے جوجواز کے حق میں ہیں :
ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
وَاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
سسٹر میسز اے انصاری
Home »
Deeni Mashail
» Udhar Ya Udhar Kharid Farokht Karna Kaisa Hai?
No comments:
Post a Comment