Ali Maula Kahna Kya Shahi Hai
جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔
اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا واقعی یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث۔
۔.......................................................................
یہ حدیث مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ترمذي/حدیث نمبر ( 3713 ) اور ابن ماجہ /حدیث نمبر ( 121 ) میں روایت کی گئی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَأَبُو سَرِيحَةَ هُوَ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
جامع الترمذی / رقم الحدیث : 3713
امام ترمذی کہتے ہیں:
➖ ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
➖ ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
➖ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: ۳۲۹۹)، و۳۶۶۷)، و مسند احمد (۴/۳۶۸، ۳۷۲) (صحیح)
اور علامہ حافظ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے :
سنن الترمذیؒ کی تخریج میں فرماتے ہیں :
"اسناده صحيح ، واخرجه احمد في فضائل الصحابة 2/569 زح959 ،عن محمد بن جعفر وهو حديث متواتر كما في كتب المتواترة : كتاب السيوطي ح100، الكناني ح232، الزبيدي ح69، ورواه احمد 4/372 في مسنده، والحديث وراه النسائي فى الكبرى ح8148 ، من حديث ابي الطفيل به مطولا-
➖ زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :
کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔
➖ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔
➖ امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کےایک گروہ سے یہ منقول ہےکہ انہوں نےاس قول میں طعن کیا ہے۔لیکن اسکے بعد والا قول (اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک،تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 )
➖ امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔
اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔
➖ شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
➖ اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔
اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا واقعی یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث۔
۔.......................................................................
یہ حدیث مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ترمذي/حدیث نمبر ( 3713 ) اور ابن ماجہ /حدیث نمبر ( 121 ) میں روایت کی گئی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَأَبُو سَرِيحَةَ هُوَ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
جامع الترمذی / رقم الحدیث : 3713
امام ترمذی کہتے ہیں:
➖ ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
➖ ۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
➖ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: ۳۲۹۹)، و۳۶۶۷)، و مسند احمد (۴/۳۶۸، ۳۷۲) (صحیح)
اور علامہ حافظ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے :
سنن الترمذیؒ کی تخریج میں فرماتے ہیں :
"اسناده صحيح ، واخرجه احمد في فضائل الصحابة 2/569 زح959 ،عن محمد بن جعفر وهو حديث متواتر كما في كتب المتواترة : كتاب السيوطي ح100، الكناني ح232، الزبيدي ح69، ورواه احمد 4/372 في مسنده، والحديث وراه النسائي فى الكبرى ح8148 ، من حديث ابي الطفيل به مطولا-
➖ زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :
کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔
➖ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔
➖ امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کےایک گروہ سے یہ منقول ہےکہ انہوں نےاس قول میں طعن کیا ہے۔لیکن اسکے بعد والا قول (اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک،تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 )
➖ امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔
اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔
➖ شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
➖ اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔
No comments:
Post a Comment