find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Balon ke Masail aur Unka Hal (Part 2)

Balon Ke Mofassal Ahkamat Part 2 by Mrs J Ansari

③ بچوں کے بالوں کے احکام
➊ جب بچہ سات دن کا ہوجائے تو ساتویں دن بچے کے سر بال منڈانے چاہئیں۔ [منتقيٰ ابن الجارود : 910 و سنده حسن، رواية الحسن عن سمرة كتاب والا حتجاج بالكتاب صحيح والحمدلله]
➋ جو بال ساتویں دن اتارے جائیں تو ان کے برابر وزن کرکے چاندی صدقہ کی جائے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 304/9 و سنده حسن]
➌ بالوں کو تھوڑا سا چھوڑ کر باقی منڈوا دینا منع ہے۔
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا۔“ [صحيح البخاري : 5920، صحيح مسلم : 2120]
قزع کی چار قسمیں ہیں :
① سر کے بال سارے نہ مونڈنا بلکہ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے بادلوں کی طرح، ٹکڑیوں میں مونڈنا۔
② درمیان سے سر کے بال مونڈنا اور اطراف میں بال چھوڑ دینا۔
③ اطراف مونڈنا اور درمیان سے سر کے بال چھوڑ دینا۔
④ آگے سے بال مونڈنا اور پیچھے سے چھوڑ دینا۔
 علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی کمال محبت و شفقت ہے۔ انسانی جسم میں بھی عدل کا خیال رکھا کہ سر کا بعض حصہ مونڈ کر اور بعض حصہ ترک کرکے سر کے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے۔ بالوں سے کچھ حصہ سر کا ننگا کر دیا جائے اور کچھ حصہ ڈھانک دیا جائے یہ ظلم کی ایک قسم ہے۔“ [تحفة المودود بأ حكام المولود ص 69]
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا : احلقوه كله أو اتركوه كله تم اس کا سارا سر مونڈو یا سارا سر چھوڑو۔ [ ابوداود : 4195 و سنده صحيح]
➖ اس حکم میں جوان اور بڑے مرد بھی شامل ہیں اور صرف بچوں کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
➍ مسلمان عورت کے سر کے بال
① عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹوا سکتی کیونکہ اس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہے۔ لہٰذا منع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لعن الله المشتبهين من الرجال بالنساء و المشتبهات من النساء بالرجال ”اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور [اللہ لعنت کرے] ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔“[صحيح بخاري : 5885]
➖ آج کی جدت پسند عورت ہر کام میں اپنے آپ سے مردوں کو حقیر سمجھتی ہیں۔ اللہ نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ اس سے زیادہ کی امنگ لیے ہوئے ہے اسی لئے وہ ذلیل بنتی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ عورت کی عزت اور مقام اسی میں ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت بالکل اختیار نہ کرے۔
➖ اللہ کی لعنت کی مستحق ہے وہ عورت جو اپنے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے سر کے بالوں کو کٹواتی ہے۔
② حج اور عمرہ کے موقع پر جب وہ عورت احرام کھولے تو سر کے بالوں کو (آخر سے تقریبا ایک انچ تک) کتروانا چاہئے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ليس على النساء الحلق إنما على النساء التقصير (حج یا عمرہ سے احرام کھولنے کے بعد) ”عورتوں پر سر منڈوانا نہیں بلکہ بال کتروانا ہے۔“ [ابوداود 1985، الدارمي : 1911و سنده حسن، و حسنه ابن حجر فى التلخيص الحبير 261/2]
③ عورت کا اپنے سر کے بال منڈوانا حرام ہے۔ دلیل کے لئے دیکھئے فقرہ سابقہ : 2
④ عورت مجبوری (شدید بیماری) کی حالت میں اپنے سر کے بال منڈوا سکتی ہے۔
⑤ فوت شدہ عورت کے بالوں کو تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دینا چاہئے۔
❀ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی وفات پاگئیں….. ”ہم نے (غسل دینے کے بعد) اس کے بال تین حصوں میں گوند کر پیچھے ڈال دیئے ” [صحیح بخاری : 1263]
⑥ جنبی عورت کا غسل جنابت میں اپنے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں ہے بلکہ اسی طرح اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالے۔ [صحیح مسلم : 330]
⑦ اگر عورت نے حیض (ماہواری کا خون) یا نفاس (وہ خون جو بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک جاری رہتا ہے) کے ختم ہونے پر غسل کرنا ہے تو پھر سر کے بالوں کا کھولنا ضرور ی ہے۔ [صحيح البخاري : 317]
فائدہ : نفاس اور حیض کا ایک ہی حکم ہے۔ دیکھیں صحیح البخاری [298]
⑧ حیض (یا نفاس) سے نہاتے وقت بالوں میں کنگھی کرنی چاہئے۔ [صحيح بخاري : 316]
⑨ نماز پڑھتے وقت بالغ عورت اپنے سر کے بالوں کو چادر سے ڈھانپ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہیں ہوتی۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا يقبل الله صلاة حائض إلابخمار جس عورت کو حیض آتا ہے (جو بالغہ ہے ) اللہ تعالیٰ اس کی نماز ڈوپٹہ کے بغیر قبول نہیں کرتا۔ [ابوداود : 641، الترمذي : 377، ابن ماجه 655المعجم لابن الاعرابي 325، 326/2 ح 1996 و هو حديث صحيح]
تنبیہ : اگر سر پر اتنا باریک کپڑا ہے جس سے سر کے بال نظر آرہے ہیں تو اس میں بھی نماز صحیح نہیں ہوگی کیونکہ عورت کو سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
⑩ عورت کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنے بال غیر محرموں کے سامنے کھلے چھوڑے کیونکہ غیر محرم سے عورت کا پردہ کرنا فرض ہے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ ”اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“ [الاحزاب : 59]
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ﴾ کی تفسیر کے متعلق عبیدہ السلمانی سے سوال کیا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانپ لیا اور اپنی بائیں آنکھ ظاہر کی۔ [تفسير ابن جرير 33/22 و سنده صحيح، من طريق ابن عون عن محمد بن سيرين به]
➖ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ اگر انگریز کافر عورت کی طرح پردہ کو مسلمان عورت نے بھی دور کردیا تو کل قیامت کے دن انہی کافر عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گی۔
⑪ درج ذیل مسئلوں میں عورت کے سر کے بالوں کے احکام مرد کی طرح ہیں مثلا :
➊ بال پاک ہیں۔
➋ بالوں کی خرید و فروخت کرنا نا جائز ہے۔
➌ بالوں کوکنگھی کرنا۔
➍ کنگھی دائیں سے شروع کرنا۔
➎ مانگ تالو سے نکالنا۔
➏ بالوں میں تیل لگانا۔
➐ بالوں کو گوند کر یا چوٹی بنا کر نماز نہ پڑھنا۔
➑ بالوں کو کسی چیز سے چپکانا۔
➒ سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے۔
➓ سفید بالوں کو کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا زرد رنگ یا کسی اور رنگ سے رنگنا۔
⓫ مصنوعی بال (وگ) لگانا حرام ہے۔
⓬ وضو میں سر کا مسح کرنا۔
⓭ غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح کرنے کے بجائے تین چلو ڈالنا یا مسح کرنا۔
مذکورہ تمام احکام کی تفصیل (مسلمان مرد کے بالوں کے احکام ) میں گزر چکی ہے۔
⛔➋ ابرؤوں (ابرواں) کے بالوں کے احکام (یہ احکام عورت کے ساتھ خاص ہیں)
ابروؤں کے بال اتارنا یا باریک کرنا حرام ہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”گودنے والی اور خوبصورتی کے لئے ابروؤں کے بال اتارنے والی (یا باریک کرنے والی) دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی اس کی کنیت ام یعقوب تھی وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تم نے ایسی ایسی عورت پر لعنت کی ہے ؟ انہوں نے کہا : بے شک میں تو ضرور اس پر لعنت کروں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اس پر لعنت آئی ہے۔ وہ عورت کہنے لگی : میں نے تو سارا قرآن دو تختیوں کے درمیان پڑھا ہے اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تو قرآن کو (غور و فکر اور سمجھ کر) پڑھتی تو ضرور یہ مسئلہ پا لیتی کیا قرآن میں تو نے یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تم کو حکم دے اس پر عمل کرو اور کس بات سے منع کرے اس سے باز رہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں یہ آیت تو قرآن میں ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع کیا ہے۔ وہ عورت کہنے لگی : تمہاری بیوی بھی تو یہ کرتی ہے، انہوں نے کہا : جا دیکھ جب وہ گئی وہاں کوئی بات نہ پائی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی“ [صحيح بخاري : 4886]
➖ اللہ ہماری مسلمان ماؤں اور بہنوں کو اس لعنت کے مستحق عمل سے محفوظ فرمائے۔
فائدہ ① : چہرے کے بالوں کو نوچنا خوبصورتی کے لئے حرام ہے۔
یہ عورتوں کے ساتھ خاص ہے۔ دلیل (ابرؤوں کے بالوں کے احکام میں گزر چکی ہے۔ )
فائدہ ② : عورت کا اپنے چہرے کے غیر عادی بالوں (داڑھی یا مونچھیں) کو زائل کرنا درست ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے امام نووی کا قول نقل کیا ہے کہ ”چہرے سے بال نوچنے سے داڑھی، مونچھیں یا بچہ داڑھی مستثنیٰ ہیں عورت کا انہیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے“ پھر حافظ ابن حجر نے کہا : کہ ”س قول کو مفید کہا : جائے گا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے اجازت لے کہ میں اپنی داڑھی یا مونچھیں یا بچہ داڑھی زائل کرلوں یا اسے اس کا علم ہونا چاہئے ورنہ خاوند کو دھوکا رہتا ہے۔“ [فتح الباري 462/10]
◈ شیخ محمد بن الصالح العیثمین لکھتے ہیں : ”ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اگ آئیں جہاں عادتا بال نہیں اگتے مثلا عورت کی مونچھیں اگ آئیں یا رخساروں پر آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلاف عادت اور چہرے کے لئے بدنمائی کا باعث ہیں۔“
[فتاويٰ برائے خواتين : ص 342- 343]

⛔➌ رخساروں کے بالوں کے احکام (یہ مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ )
اللحية (داڑھی) کی تعریف لغت میں ہے کہ ”دونوں رخساروں اور ٹھوڑی کے بال“ [القاموس الوحيد ص 1462]
فائدہ : بچہ داڑھی بھی داڑھی میں شامل ہے۔
عنفقه (نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان کے بال) بھی داڑھی میں شامل ہے جو اسے خارج سمجھتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ جو بال نیچے کے چپاڑے پر ہیں ان کے داڑھی میں داخل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ [فتاويٰ اهلحديث 273/1 بحواله فتاويٰ ثنائيه مدنيه 57/1]
فائدہ : گھنڈی اور گردن کے بال داڑھی میں شامل نہیں، ان کو لینا جائز ہے۔
[فتاويٰ ثنائيه مدنيه : 782/1]
⛔➍ داڑھی کے احکام
➊ داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عشر من الفطرة قص الشارب و اعفاء اللحية ”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔“ [صحيح مسلم : 261]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالفوا المشركين وفروا اللحي واعفو الشوارب ”مشرکوں کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو پست کرو۔“ [صحيح بخاري : 5892، صحيح مسلم : 259]
❀ صحیح بخاری [5893] میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ انهكوا الشوارب و اعفوا اللحي ”داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو۔“
❀ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم] اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”تم مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔“ [مسند احمد : 264/5 و سنده حسن، حسنه ابن حجر فتح الباري 354/10]
➖ معلوم ہوا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔
◈ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ بنایا ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے، فرض نہیں۔ عام لوگوں کا یہ ذہن ہے اس کو سنت سمجھتے ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے۔ داڑھی رکھنا بڑھانا سنت نہیں بلکہ فرض ہے، واجب ہے اور داڑھی کٹانا فرض اور واجب کی خلاف ورزی ہے، نافرمانی ہے، حرام ہے اور گناہ ہے“ [مقالات نور پوري : ص 278]
تنبیہ : جن احادیث میں داڑھیاں چھوڑنے، معاف کرنے اور بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، ان کے راویوں میں سے ایک راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری [5892، 5893] و صحیح مسلم [259]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے کے وقت اپنی داڑھی کا کچھ حصہ (ایک مشت سے زیادہ کو) کاٹ دیتے تھے۔ دیکھئے [ صحيح بخاري 5892، و سنن ابي داود 2357، و سنده حسن و حسنه الدارقطني 182/2 و صححه الحاكم 422/1 وو افقه الذهبي]
➖ کسی صحابی سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر اس سلسلے میں انکار ثابت نہیں ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت صحابی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنیں اور پھر خود ہی اس کی مخالفت بھی کریں۔
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں : والأخذ من الشارب و الأظفار و اللحية ”مونچھوں، ناخنوں اور داڑھیوں میں سے کاٹنا۔“ [مصنف ابن ابي شيبه 85/4 ح 15668 و سنده صحيح، تفسير ابن جرير 109/17 و سنده صحيح]
◈ محمد بن کعب القرظی (تابعی، ثقہ عالم) بھی حج میں داڑھی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ [تفسير ابن جرير 109/17 و سنده حسن]
◈ ابن جریح بھی اس کے قائل تھے۔ [تفسير طبري 110/17 و سنده صحيح]
◈ ابراہیم [نخعی] رخساروں کے بال کاٹتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 375/8 ح 25473 وسنده صحيح]
◈ قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور داڑھی کے بال کاٹتے تھے۔ [ابن ابي شيبه : ح 25476 و سنده صحيح]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 375/8 ح 25479 و سنده حسن]
➖ اس کے راوی عمرو بن ایوب کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے [225، 224/7] اور اس سے شعبہ بن الحجاج نے روایت لی ہے۔ شعبہ کے بارے میں یہ عمومی قاعدہ ہے کہ وہ (عام طور پر) اپنے نزدیک ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ دیکھئے تہذیب التہذیب [5، 4/1] اس عمومی قاعدے سے صرف وہی راوی مستثنیٰ ہوگا جس کے بارے میں صراحت ثابت ہو جائے یا جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہو۔
ان دو توثیقات کی وجہ سے عمرو بن ایوب حسن درجے کا راوی قرار پاتا ہے۔
طاوس (تابعی) بھی داڑھی میں سے کاٹنے کے قائل تھے۔ [الترجل للخلال : 96 و سنده صحيح، هارون هو ابن يوسف بن هارون بن زياد الشطوي]امام احمد بن حنبل بهي اسي جواز كے قائل تهے۔ [كتاب الترجل : 92]
➖ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کاٹنا اور رخساروں کے بال لینا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ داڑھی کو بالکل قینچی نہ لگائی جائے۔ واللہ اعلم
➖ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صحابی کا عمل دلیل ہے یا نہیں ؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا کون سا فہم معتبر ہے۔ وہ فہم جو چودھویں پندرھویں ہجری کا ایک عالم پیش کر رہا ہے یا وہ فہم یا جو صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور محدثین کرام سے ثابت ہے۔ ؟ !
➖ ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ، تابعین، تبع تابعین و محدثین اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی، تابعی، تبع تابعی، محدث یا معتبر عالم نے ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی کو کاٹنا حرام یا ناجائز نہیں قرار دیا۔ حافظ عبداللہ رو پڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”خلاصہ یہ ہے ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں کیونکہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے ….“[فتاويٰ اهل حديث 1 ص 111] / زع ]
③ سفید داڑھی کو رنگنا بھی چاہئے۔
❀ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے سر کے بالوں کو مہندی لگائی ہوئی تھی۔“ [مسند احمد 163/4 ح 17498 و سنده صحيح]
④ مونچھوں کے احکام
➊ مونچھوں کو ترشوانا چاہئے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عشر من الفطرة قص الشارب…. ”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں (جن میں) مونچھیں تراشنا بھی ہیں۔“ [صحيح مسلم : 261]
➋ مونچھوں کو ترشوانے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وقت لنا فى قص الشارب و تقليم الأظفار و نتف الإبط و حلق العانة أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة ”ہمارے لئے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم مونچھوں کو ترشوانا، ناخنوں کو اتارنا، بغلوں کے بال نوچنا اور زیر ناف بال مونڈھنے کو چالیس دنوں سے زیادہ تاخیر نہ کریں۔“ [صحيح مسلم : 129/1 ح 258]
➖ ساری مونچھوں (یا بعض مونچھوں) کو قینچی سے کاٹنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم يأخذ من شاربه فليس منا ”جو شخص مونچھوں میں سے نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ [السنن الكبريٰ للنسائي : 9293 و سنده صحيح]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مونچھیں اتنی کاٹتے کہ ان کی (سفید) جلد نظر آتی تھی۔ [صحيح البخاري قبل ح : 5888 تعليقا، رواه الاثرم كمافي تغليق التعليق 72/5 و سنده حسن، الطحاوي فى معاني الآثار 231/4 و سنده صحيح]
❀ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات مونچھوں کو تاؤ دیتے تھے۔ [ديكهئے كتاب العلل و معرفة الرجال للامام احمد 261/1 ح 1507 و سنده صحيح]
➖ امام مالک رحمہ اللہ کی بھی باریک سروں والی لمبی مونچھیں تھیں۔ [حوالہ مذکور : 1507 و سندہ صحیح]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی لمبی مونچھوں کو مسواک سے کاٹا (یا کٹوایا) تھا۔ [ديكهئے سنن ابي داود : 188 و سنده صحيح]
➖ امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ نے (ایک دفعہ) اپنی مونچھوں کو استرے سے منڈوایا تھا۔ دیکھئے التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ
[ص 160 ح 311 و سندہ صحیح]
➖ معلوم ہوا کہ مونچھیں کاٹنا اور منڈانا دونوں طرح جائز ہیں تاہم بہتر یہی ہے کہ مونچھیں استرے کی بجائے قینچی سے کاٹی جائیں۔
⛔➏ بغلوں کے بالوں کے احکام
➊ بغلوں کے بالوں کو نوچنا بھی فطرت سے ہے۔ [صحیح مسلم : 261]
جو شخص بغلوں کے بالوں کو اکھاڑنے پر قادر نہ ہو تو انہیں مونڈ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿اتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ”اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔“ [التغابن : 16] نیز دیکھئے کتاب الترجل [ص 150] و المجموع [288/1]
➋ بغلوں کے بالوں کو نوچنے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔ [صحیح مسلم : 129/1ح 258]
فائدہ : مونچھوں کو کٹوانا افضل ہے اور منڈوانا بھی جائز ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں
[زادالمعاد : 178/1- 182]
⛔➐ زیر ناف بالوں کے احکام :
➊ زیر ناف بالوں کو مونڈنا فطرت سے ہے۔ [صحيح مسلم : 26]
➋ زیر ناف بالوں کے مونڈھنے میں چالیس دن سے تاخیر نہ کرے۔ [صحیح مسلم : 129/1 ح 258]
فائدہ : فوت شدہ کے زیر ناف بالوں کو مونڈھنا بھی درست ہے اور نہ مونڈھنا بھی دونوں طرح کے آثار سلف صالحین سے مروی ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه ح : 10945، 10954، 10974، الاوسط : 328/5، 329 مسائل احمدلابي داود : ص 141] لیکن بہتر یہی ہے کہ بال نہ مونڈے جائیں۔
⛔➑ (کانوں کے اندرونی) سینہ، کمر، بازؤوں، پشت، ٹانگوں، رانوں، ہاتھوں اور پاؤں پر اگے ہوئے بالوں کے احکام
➖ جسم پر اگے ہوئے بالوں کی بعض اقسام کے احکام قرآن و حدیث نے بیان کردیئے ہیں اور بعض کے نہیں بیان کئے یعنی ان سے خاموشی اختیار کی ہے جس چیز سے شریعت نے خاموشی اختیار کی ہو ا(ور دوسرے قرائن سے اس کی نفی بھی نہ ہو رہی ہو تو) اس کا کرنا جائز ہو تا ہے معلوم ہوا کہ سینہ، کمر اور بازؤوں کے بال کاٹنا اور مونڈنا جائز ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
⛔➒ ناک میں اگے ہوئے بالوں کو اکھیڑنا :
➖ اس کے متعلق بھی شریعت خاموش ہے ان کا اکھیڑنا بھی جائز ہے۔
نوٹ : اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو فضول نہیں بنایا ناک میں اگے ہوئے بالوں اور اس سے پہلی قسم کے بالوں کے اگانے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں جو ہم پر (علم نہ ہونے کی وجہ سے) مخفی ہیں لہٰذا ان کو اپنی حالت میں چھوڑنا ہی بہتر ہے۔
⛔➓ کنپٹی کے بالوں کے احکام
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹی کے چند بال سفید تھے۔ [صحيح بخاري : 3550 و صحيح مسلم : 231]
➋ جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے وقت کنپٹیوں کا مسح کیا تھا۔ [سنن ابي داود : 129 و سنن الترمذي : 34]
➖ اس کی سند عبداللہ بن محمد بن عقیل (ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
─┅━━━━─━══★◐★══━─━━━━┅┄
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ ابراہیم بن بشیر الحسینوی
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS