find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Khawind Ka Nam Lga Sakti Hai?

Kya Biwi Apne Nam Ke Sath Apne Mahboob (Shauhar) Ka Nam Lga Sakti Hai?

میرا اپ سے ایک سوال ہے کہ بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگا سکتی ہے جو اج کل فیشن بنا ہوا ہے جبکہ میں نے سنا ہے اور پڑھا بھی ہے کہ عورت اپنے نام کے ساتھ صرف اپنے باپ کا نام لگا سکتی ہے۔ پوری تفصیل سے جواب دینا مہربانی ہوگی۔
Tahreer: Mrs Jarjis Ansari
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
عام معمول تو یہ ہے کہ نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بیوی اگر اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام کسی بھی وجہ سے لکھ دیتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ والی بات نہیں۔اور اگر ایک عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام نہیں بھی لگاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں
الشیخ محمد عبدالرحمن رفیق طاہر حفظہ اللہ کہتے ہیں
شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ہے کہ شوہر کا نام عورت اپنے نام کے ساتھ لگائے یا کوئی اور اسکا نام لیتے ہوئے شوہر کے نام کو ساتھ ذکر کرے, بالخصوص امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ "زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم " کا لاحقہ انکے ناموں کے ساتھ لگتا ہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب ہے تو بتانے والے بتایا " امرأۃ ابن مسعود " یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا ۔ اسی کلمہ " امرأۃ ابن مسعود " کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟؟؟
⬅مزید:
راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں.
"الشیخ ابوالحسن علوی"
⬅مزید:
عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کے علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کوئی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے..شیخ کا کلام ختم ہوا
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے نام کے آگے شوہر کا نام بطور شوہر کے ہی لگاتی ہے تو کوئی حرج نہیں..ان شاء اللہ!
⬅اس بارے میں دیوبند کا موقف
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے لیکن یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرے
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» صحيح البخاري (8/ 156)
ترجمہ: "جس شخص نے اپنے آپ کو (حقیقی والد کے علاوہ) کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے.."
قرآن و حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو حقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے..
جبکہ کسی لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی ہے بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی..حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طور پراپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں.. صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے.. عام طور پر شادی سے پہلے والد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے اور شادی کے بعد شوہر کا نام لکھتے ہیں اور چونکہ تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو ( متخصص فی الافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان)
واللہ اعلم!"
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS