Gharwale ke Kahne Par kisi Chaliswi, Pachaswi wagairah Me Kya Ja Sakte Hai
اگر مجبوراً کسی چالیسویں پچاسویں ، وغیرہ میں جانا پڑجاۓ ،شوہر کے کہنے سے تو کیا عمل اختیار کرنا چاہیئے ؟ یا حق کی دعوت کا اظہار کرنے کی نیت سے جاسکتے ہیں ؟
ہمیں یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اطاعت معروف میں ہے معصیت میں نہیں ۔ اللہ تعالی کی معصیت کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ۔ آپﷺ نے فرمایا:
[اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ]
’’اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، المغازی، حدیث: ۴۳۴۰)
اوریہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حرام کام معروف اوراچھا کام نہيں بلکہ یہ تو منکر اوربرائي ہے جس پر عمل خالق پر مخلوق کو فوقیت دینا ہے
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " السمع والطاعة على المرء المسلم فيما احب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإن امر بمعصية، فلا سمع عليه ولا طاعة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وعمران بن حصين، والحكم بن عمرو الغفاري، وهذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا“ ۱؎۔
➖امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عمران بن حصین اور حکم بن عمر و غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
➖سنن ترمذي/حدیث نمبر: 1707
➖كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
➖کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
➖باب مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ
➖باب: خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
➖تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، والأحکام ۴ (۷۱۴۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۹)، سنن ابی داود/ الجہاد ۹۶ (۲۶۲۶)، سنن النسائی/البیعة ۳۴ (۴۲۱۱)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۰ (۲۸۶۴)، (تحفة الأشراف: ۸۰۸۸)، و مسند احمد (۲/۱۷، ۴۲) (صحیح)
اس لیے خاوند اگربیوی کوکسی حرام کام کرنے کا کہنے اورنہ کرنے پر طلاق کی دھمکی دے توبیوی اپنے خاوند کواچھے اوربہتر انداز میں سمجھائے اوراسے اس حرام کام سے خوف دلائے ۔ لیکن ان امورِ معصیت میں عورت کے لیے جائز نہیں کہ خاوند کی اطاعت کرے ۔ علماء ہوں یا امراء و حکام ، ہر خاص و عام کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ رہی بات دین کی غرض سے ایسی مجالس میں جانا تو خیروبھلائ اورنیکی کی دعوت دینا دین اسلام کا ایک اہم کام ہے جس پر اسلام بہت زیادہ زوردیتا ہے ، اس لیے کہ یہ ایسا وسیلہ ہے جو اسلام کے پھیلنے اورنشر ہونےاورعدل کے ثابت ہونے میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔
چاہے یہ کام امر بالمروف سے ہو یاپھر نہی عن المنکر کے ساتھ ، یا پھر اس میں قدوہ حسنہ استعمال کیا جاۓ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
تم میں سےایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جو بھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے منع کرے ، اوریہی لوگ فلاح وکامیابی حاصل کرنے والے ہيں آل عمران ( 104 ) ۔
لہٰذا اگر آپ سمجھتی ہیں کہ حق کی دعوت دینے کے لیے آپ ایسی مجالس میں شرکت کرنے کے باوجود فتنہ سے دور رہ سکتی ہے، ارکانِ مجالس کا انکے امورِ بدعہ میں شامل ہوئے بغیر دعوتِ دین ان تک پہنچا سکتی ہیں ، نیز آپ کا میلان نواہی کے کسی بھی کام کو اختیار کرنے کا پابند نہ بنایا جائے تو اس اعتدال و توازن اور ثبات و استقلال کے ساتھ ایک مومن کی حقیقی شان یہی ہونی چاہیے کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں حریص ہو، بھلائی کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائے اور جن اعمالِ صالحہ کی اس کو تعلیم دی گئی ہے ان کی توفیق و استطاعت رکھتے ہوئے ان کی تشہیر و انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہ کرے۔ لہٰذا ہمارے علم کے مطابق ان مذکورہ شروط کے ساتھ آپ کا ایسی مجلس میں شرکت کرنا ان شاءاللہ کوئی حرج پیدا نہیں کرے گا
ہمیں یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اطاعت معروف میں ہے معصیت میں نہیں ۔ اللہ تعالی کی معصیت کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ۔ آپﷺ نے فرمایا:
[اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ]
’’اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔‘‘
(صحیح البخاری، المغازی، حدیث: ۴۳۴۰)
اوریہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حرام کام معروف اوراچھا کام نہيں بلکہ یہ تو منکر اوربرائي ہے جس پر عمل خالق پر مخلوق کو فوقیت دینا ہے
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " السمع والطاعة على المرء المسلم فيما احب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإن امر بمعصية، فلا سمع عليه ولا طاعة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وعمران بن حصين، والحكم بن عمرو الغفاري، وهذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا“ ۱؎۔
➖امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عمران بن حصین اور حکم بن عمر و غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
➖سنن ترمذي/حدیث نمبر: 1707
➖كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
➖کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
➖باب مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ
➖باب: خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
➖تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، والأحکام ۴ (۷۱۴۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۹)، سنن ابی داود/ الجہاد ۹۶ (۲۶۲۶)، سنن النسائی/البیعة ۳۴ (۴۲۱۱)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۰ (۲۸۶۴)، (تحفة الأشراف: ۸۰۸۸)، و مسند احمد (۲/۱۷، ۴۲) (صحیح)
اس لیے خاوند اگربیوی کوکسی حرام کام کرنے کا کہنے اورنہ کرنے پر طلاق کی دھمکی دے توبیوی اپنے خاوند کواچھے اوربہتر انداز میں سمجھائے اوراسے اس حرام کام سے خوف دلائے ۔ لیکن ان امورِ معصیت میں عورت کے لیے جائز نہیں کہ خاوند کی اطاعت کرے ۔ علماء ہوں یا امراء و حکام ، ہر خاص و عام کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ رہی بات دین کی غرض سے ایسی مجالس میں جانا تو خیروبھلائ اورنیکی کی دعوت دینا دین اسلام کا ایک اہم کام ہے جس پر اسلام بہت زیادہ زوردیتا ہے ، اس لیے کہ یہ ایسا وسیلہ ہے جو اسلام کے پھیلنے اورنشر ہونےاورعدل کے ثابت ہونے میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔
چاہے یہ کام امر بالمروف سے ہو یاپھر نہی عن المنکر کے ساتھ ، یا پھر اس میں قدوہ حسنہ استعمال کیا جاۓ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
تم میں سےایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جو بھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے منع کرے ، اوریہی لوگ فلاح وکامیابی حاصل کرنے والے ہيں آل عمران ( 104 ) ۔
لہٰذا اگر آپ سمجھتی ہیں کہ حق کی دعوت دینے کے لیے آپ ایسی مجالس میں شرکت کرنے کے باوجود فتنہ سے دور رہ سکتی ہے، ارکانِ مجالس کا انکے امورِ بدعہ میں شامل ہوئے بغیر دعوتِ دین ان تک پہنچا سکتی ہیں ، نیز آپ کا میلان نواہی کے کسی بھی کام کو اختیار کرنے کا پابند نہ بنایا جائے تو اس اعتدال و توازن اور ثبات و استقلال کے ساتھ ایک مومن کی حقیقی شان یہی ہونی چاہیے کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں حریص ہو، بھلائی کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھائے اور جن اعمالِ صالحہ کی اس کو تعلیم دی گئی ہے ان کی توفیق و استطاعت رکھتے ہوئے ان کی تشہیر و انجام دہی میں کبھی کوتاہی نہ کرے۔ لہٰذا ہمارے علم کے مطابق ان مذکورہ شروط کے ساتھ آپ کا ایسی مجلس میں شرکت کرنا ان شاءاللہ کوئی حرج پیدا نہیں کرے گا
No comments:
Post a Comment