سوال:ؑکیا عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں؟ . سائل: . . . . . .
الجواب بعون الوھاب:
عورتیں اگر قبرستان کی زیارت کرنا چاھیں تو اس صورت میں جائز ہے جب فتنہ ، اختلاط وغیرہ کا خطرہ نہ ہو بصورت دیگر عورتوں کے لئے قبرستان کی زیارت کرنی جائز نہیں ہے۔
کیونکہ عورتوں میں قوت برداشت کم ہوا کرتا ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ قبرستان نہ جائیں۔
عورت کے قبرستان جانے کے بارے میں اہل علم کے مابین شدید اختلاف ہے بعض اہل علم حرام بعض مکروہ اور جواز کے قائل ہیں۔
امام ابوحنیفہ امام مالک اور صحیح روایت کے مطابق امام شافعی رھمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں۔۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ عورت کے قبرستان کی زیارت اس صورت میں جائز ہے جب وہ ہر کسی فتنہ سے محفوظ ہو۔
اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ بھی جواز کے قائل ہیں۔[ردالمختار242/2 ، مواھب الجلیل237/2 ، المجموع للنووي310/5 ، المبدع284/2 ، المحلي388/3].
جو اہل علم جواز کے قائل ہیں انکی ادلہ:
نمبر ایک:نبی محترم علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو زیارت قبور کی دعاء سکہائی۔
یعنی عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول علیہ السلام جب میں زیارت قبول کروں اسوقت کیا کہوں؟
نبی مکرم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم یہ الفاظ کہاکرو۔(السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون)۔[رواہ مسلم974]۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ زیارت قبور کرنا عورتوں کے لئے جائز ہے کیونکہ اگر جائز نہ ہوتا تو نبی علیہ السلام حضرت عائشہ سے اس دعاء کی تعلیم نہ دیتے۔
نمبر دو:حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ نبی علیہ السلام ایک قبر سے گذرے اور وہاں ایک عورت رورہی تھی آپ علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا کہ صبر کرو اور اللہ سے ڈر ، اس عورت نے کہا کہ تمہیں تھوڑی میری جیسی مصیبت آئی ہے اور وہ عورت نبی مکرم علیہ السلام کو نہیں جانتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ پہر اسے نبی علیہ السلام کے بارے میں خبر دی گئ کہ یہ نبی علیہ السلام ہیں ، وہ دوڑتے ہوئے نبی علیہ السلام کے پاس گئ اور کہاکہ اب میں صبر کروں گی ، اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ الصبر عند الصدمة الأولى).[صحيح بخاري1283 ، صحيح مسلم حدیث نمبر:926]۔
اس حدیث سے علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس عورت کو قبر کی زیارت سے منع نہیں کیا بلکہ اسے کسی کے وقت صبر اور رب سے ڈرنے کا حکم دیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو قبر پر بیٹھنے سے نہیں روکا اور یہ قبرکی زیارت کرنے کے لئے حجت ہے۔[فتح الباری148/3]۔
نمبر تین:بعض صحابیات کا زیارت قبور کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لئے زیارت قبور کرنا جائز ہے۔
جیساکہ ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو انہوں نے اپنے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا کہ کیا نبی علیہ السلام نے اسے منع نہیں کیا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا ہاں لیکن پہر نبی علیہ السلام نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی۔[مستدرک حاکم1392 ، سنن کبری للبیھقی7207]۔
اس اثر سے بھی واضح ہوا کہ عورت کا قبرستان کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جائز ہے۔
نمبر چار:نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن اب قبروں کی زیارت کرو۔
دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ قبروں کی زیارت تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی۔[صحیح مسلم 977 ، ترمذی 1054]۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب نبی علیہ السلام نے قبروں کی زیارت کی اجازت دیدی اس حکم میں مروعورت دونوں ہی شامل ہیں۔
شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ(والصحيح هو الجواز). یعنی اس معاملے میں صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے یہی رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کے لئے زیارت قبور کرنا جائز ہے رہا مسئلہ کہ حدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں کی زیارت کرتے ہیں لیکن اسے مراد وہ عورتیں ہیں جو کثرت سے زیارت قبور کرتی ہیں۔
۔[شریط للشیخ مقبل رحمہ اللہ تعالی]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ اور ابن جبرین رحمہ اللہ اس چیز کے قائل ہیں کہ عورت کے لئے زیارت قبور کرنی اس صورت میں جائز نہیں جب وہ گھر سے قبرستان کی زیارت کی غرض سے نکلے لیکن اگر کوئی عورت راستہ میں قبرستان سے گذرے اس صورت میں وہ قبر کی زیارت کرسکتی ہے قبروں کے پاس ٹھاکر اموات کے لئے دعاء وغیرہ کرسکتی یے۔[فتاوی ابن جبرین [ 12983 ، وفتاوی ورسائل للشیخ ابن عثیمن رحمھما اللہ تعالی]۔
علامہ شیخ محمد سعید رمضان البوطی رحمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں۔[فتاوی للشیخ محمد سعید رمضان بوطی فتاوی نمبر:15268 تاریخ فتوی١٠/٧/٢٠١١].
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے لئے قطرستان کی زیارت کرنے میں جواز ہے لیکن اگر فتنہ اور خوف ، اختلاط ، اور محرم وغیرہ ساتھ نہ ہو اس صورت میں عورت کی زیارت کرنی جائز نہیں اور جن احادیث سے منع کی دلیل ملتی ہے اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ عورت کو اس صورت میں زیارت قبور حرام ہے جب وہ بار بار زیارت کرے بصورت دیگر عورت کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتح]۔
امام قرطبی رحمہ اللہ بھی جائز کے قائل ہیں جب فتنہ خوف وخطر اور اختلاط وغیرہ سے محفوظ ہو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[المفهم].
شيخ الباني رحمه الله بهى جواز کے قائل ہیں۔[شریط للشیخ ناصر]۔علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ حدیث کہ حضرت عائشہ اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کرتی تھی استدلال کرتے ہیں کہ اس فعل عائشہ سے ثابت ہوا کہ عورت کا قبرستان کی زیارت کرنا مباح ہے۔
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کو کسی فتنہ خوف وخطر ، اختلاط وغیرہ کا خوف نہ ہو تو ان صورتوں میں انکے لئے قبروں کی زیارت کرنی جائز ہے بصورت دیگر جائز نہ ہوگا۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
كتبه/ابوزهير محمد يوسف بٹ البزلوي الریاضی۔
الجواب بعون الوھاب:
عورتیں اگر قبرستان کی زیارت کرنا چاھیں تو اس صورت میں جائز ہے جب فتنہ ، اختلاط وغیرہ کا خطرہ نہ ہو بصورت دیگر عورتوں کے لئے قبرستان کی زیارت کرنی جائز نہیں ہے۔
کیونکہ عورتوں میں قوت برداشت کم ہوا کرتا ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ قبرستان نہ جائیں۔
عورت کے قبرستان جانے کے بارے میں اہل علم کے مابین شدید اختلاف ہے بعض اہل علم حرام بعض مکروہ اور جواز کے قائل ہیں۔
امام ابوحنیفہ امام مالک اور صحیح روایت کے مطابق امام شافعی رھمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں۔۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ عورت کے قبرستان کی زیارت اس صورت میں جائز ہے جب وہ ہر کسی فتنہ سے محفوظ ہو۔
اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ بھی جواز کے قائل ہیں۔[ردالمختار242/2 ، مواھب الجلیل237/2 ، المجموع للنووي310/5 ، المبدع284/2 ، المحلي388/3].
جو اہل علم جواز کے قائل ہیں انکی ادلہ:
نمبر ایک:نبی محترم علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو زیارت قبور کی دعاء سکہائی۔
یعنی عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول علیہ السلام جب میں زیارت قبول کروں اسوقت کیا کہوں؟
نبی مکرم علیہ السلام نے فرمایا کہ تم یہ الفاظ کہاکرو۔(السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون)۔[رواہ مسلم974]۔
اس حدیث سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ زیارت قبور کرنا عورتوں کے لئے جائز ہے کیونکہ اگر جائز نہ ہوتا تو نبی علیہ السلام حضرت عائشہ سے اس دعاء کی تعلیم نہ دیتے۔
نمبر دو:حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ نبی علیہ السلام ایک قبر سے گذرے اور وہاں ایک عورت رورہی تھی آپ علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا کہ صبر کرو اور اللہ سے ڈر ، اس عورت نے کہا کہ تمہیں تھوڑی میری جیسی مصیبت آئی ہے اور وہ عورت نبی مکرم علیہ السلام کو نہیں جانتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ پہر اسے نبی علیہ السلام کے بارے میں خبر دی گئ کہ یہ نبی علیہ السلام ہیں ، وہ دوڑتے ہوئے نبی علیہ السلام کے پاس گئ اور کہاکہ اب میں صبر کروں گی ، اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ الصبر عند الصدمة الأولى).[صحيح بخاري1283 ، صحيح مسلم حدیث نمبر:926]۔
اس حدیث سے علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس عورت کو قبر کی زیارت سے منع نہیں کیا بلکہ اسے کسی کے وقت صبر اور رب سے ڈرنے کا حکم دیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو قبر پر بیٹھنے سے نہیں روکا اور یہ قبرکی زیارت کرنے کے لئے حجت ہے۔[فتح الباری148/3]۔
نمبر تین:بعض صحابیات کا زیارت قبور کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لئے زیارت قبور کرنا جائز ہے۔
جیساکہ ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو انہوں نے اپنے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کیا کہ کیا نبی علیہ السلام نے اسے منع نہیں کیا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا ہاں لیکن پہر نبی علیہ السلام نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی۔[مستدرک حاکم1392 ، سنن کبری للبیھقی7207]۔
اس اثر سے بھی واضح ہوا کہ عورت کا قبرستان کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جائز ہے۔
نمبر چار:نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن اب قبروں کی زیارت کرو۔
دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ قبروں کی زیارت تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی۔[صحیح مسلم 977 ، ترمذی 1054]۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب نبی علیہ السلام نے قبروں کی زیارت کی اجازت دیدی اس حکم میں مروعورت دونوں ہی شامل ہیں۔
شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ(والصحيح هو الجواز). یعنی اس معاملے میں صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے یہی رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کے لئے زیارت قبور کرنا جائز ہے رہا مسئلہ کہ حدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو قبروں کی زیارت کرتے ہیں لیکن اسے مراد وہ عورتیں ہیں جو کثرت سے زیارت قبور کرتی ہیں۔
۔[شریط للشیخ مقبل رحمہ اللہ تعالی]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ اور ابن جبرین رحمہ اللہ اس چیز کے قائل ہیں کہ عورت کے لئے زیارت قبور کرنی اس صورت میں جائز نہیں جب وہ گھر سے قبرستان کی زیارت کی غرض سے نکلے لیکن اگر کوئی عورت راستہ میں قبرستان سے گذرے اس صورت میں وہ قبر کی زیارت کرسکتی ہے قبروں کے پاس ٹھاکر اموات کے لئے دعاء وغیرہ کرسکتی یے۔[فتاوی ابن جبرین [ 12983 ، وفتاوی ورسائل للشیخ ابن عثیمن رحمھما اللہ تعالی]۔
علامہ شیخ محمد سعید رمضان البوطی رحمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں۔[فتاوی للشیخ محمد سعید رمضان بوطی فتاوی نمبر:15268 تاریخ فتوی١٠/٧/٢٠١١].
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے لئے قطرستان کی زیارت کرنے میں جواز ہے لیکن اگر فتنہ اور خوف ، اختلاط ، اور محرم وغیرہ ساتھ نہ ہو اس صورت میں عورت کی زیارت کرنی جائز نہیں اور جن احادیث سے منع کی دلیل ملتی ہے اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ عورت کو اس صورت میں زیارت قبور حرام ہے جب وہ بار بار زیارت کرے بصورت دیگر عورت کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتح]۔
امام قرطبی رحمہ اللہ بھی جائز کے قائل ہیں جب فتنہ خوف وخطر اور اختلاط وغیرہ سے محفوظ ہو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[المفهم].
شيخ الباني رحمه الله بهى جواز کے قائل ہیں۔[شریط للشیخ ناصر]۔علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ حدیث کہ حضرت عائشہ اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کرتی تھی استدلال کرتے ہیں کہ اس فعل عائشہ سے ثابت ہوا کہ عورت کا قبرستان کی زیارت کرنا مباح ہے۔
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کو کسی فتنہ خوف وخطر ، اختلاط وغیرہ کا خوف نہ ہو تو ان صورتوں میں انکے لئے قبروں کی زیارت کرنی جائز ہے بصورت دیگر جائز نہ ہوگا۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
كتبه/ابوزهير محمد يوسف بٹ البزلوي الریاضی۔
No comments:
Post a Comment