صلاحیتوں کی حفاظت کیجیے
ثناءاللہ صادق تیمی
پسماندہ اور ترقی پسند قوموں میں بہت زیاد ہ فرق نہيں ہوتا ۔ کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جن سے پسماندگی اور ارتقاء کا راستہ اور منزل طے ہوتی ہے جیسے ترقی پسند قوموں کے یہاں ایک چھوٹی سی خوبی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں انہیں ضائع نہیں جانے دیتے ۔ پسماندہ قومیں اچھی اچھی صلاحیتوں کو ان کی اوقات یاد دلادیتی ہیں ۔ ہم مسلمانوں میں بڑی بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں جیسے ہم کسی کو خود سے بڑا نہيں بننے دیتے اور اگر کوئی بن جائے تو اسے مانتے نہیں اور اگر وہ کہیں کچھ کارگر کام کرنے لگے تو کسی نہ کسی طرح ہم اس کام کی لا یعنیت ثابت کرکے دم لیتے ہیں ۔شاید اسی لیے ہم وہاں ہیں جہاں کوئی نہیں ہے !!
مجھے جلسے کی صدارت کرنی تھی بلکہ یوں کہیے کہ جلسہ خاکسار کےہی اعزاز میں تھا ۔ جلسے کو کئی علماء اور طلبہ زینت بخش رہے تھے ۔ میری نگاہ ایک نئے نئے فارغ کو تلاش کررہی تھی لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ کچھ دیر نگاہیں مضطرب رہیں ۔ بالآخر منتظم جلسہ سے استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ جناب عالی نے اس نئے فارغ عالم کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ اسے دعوت دی جائے، سبب یہ تھا کہ وہ کہیں سے فارغ نظر نہیں آتا ۔ مطلب یہ کہ جیسے تیسے رہتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں دلچسپی بھی نہیں لیتا وغیرہ ۔ اس وقت تو خیر مجبوری تھی سو خموش رہنا پڑا لیکن کھاتے وقت دسترخوان پر میں نے حضرت سے کہا : جناب! مجھے یہ بتلائیے کہ اس سماج کو ، اس عالم کے والدین کو اور ادارے کو کتنا سال انتظار کرنا پڑا کہ وہ فارغ ہو سکے ؟اسے عالم بنانے کے لیے معاشرے نے ، اہل خانہ نے ، اساتذہ اور ادارے نے کیا کیا قربانی دی ؟ کیا کوئی دوسرا عالم بغیر اتنا وقت گزرے فارغ ہوکر آجائے گا ؟ یعنی ایک اور عالم کے لیے آپ پھر سے بیس سال انتظار کریں گے اور لا قدر اللہ اگر وہ بھی کچھ جیسا تیسا نکل گیا تو آپ کب تک مثالی فارغ کے لیے انتظار کرتے رہیں گے ؟ میرےبھائی ! کہیں سب کچھ ٹھیک درست نہیں ہوتا ۔ فارغ ہو کر آنے والا کوئی فرشتہ نہیں ہوتا ۔ وہ ہمارے ہی معاشرے کا زائیدہ ہوتا ہے ۔ ہم اگر اپنی ساری صلاحیتوں کو اسی طرح درکنا رکریں گے تو صلاحیت آئے گی کہاں سے ؟ آپ بزرگ تھے ۔ آپ کا کام تھا کہ آپ اس نئے فارغ کو اکیلے میں سمجھاتے ، اسے اس کا مقام یاد دلاتے ، اسے تھوڑی اہمیت دیتے ۔ دس لوگوں کے بیچ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اس کی صلاحیت کی تعریف کرتے یوں اس کے اندر احساس ذمہ داری بھی جگ سکتا تھا اور معاشرے کو ایک باصلاحیت عالم بھی مل سکتا تھا ۔ آپ نے ایک مستقبل کے مصلح کو کتنی آسانی سے بگڑ جانے دیا ہے، آپ کو ابھی اس کا احساس نہیں لیکن کل آپ پچھتائیں گے ۔ یہ اس ایک فارغ کا مسئلہ نہیں ۔ اس پورے معاشرے کا مسئلہ ہے ۔ کل کو کوئی اور والدین یہی سوچیں گے کہ جب فارغ ہوکر ایسے ہی ناکارہ لوگ سامنے آتے ہیں تو کیوں جوکھم مول لینے جائیں ۔ آپ بڑے تھے لیکن اس عالم کے سلسلے میں آپ نے بڑپن کا ثبوت نہیں دیا ۔ پتھر تراش کر ہی ہیرا بنایا جاتا ہے ورنہ پتھر تو پتھر ہی ہوتا ہے !!
مقام شکر یہ تھا کہ انہيں خاکسار کی یہ باتیں سمجھ میں آئیں ۔یہ صرف اس ایک منتظم کا معاملہ نہیں ۔ لگ بھگ یہی صورت حال پورے معاشرے کی ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال کے عملہ پر نظر ڈالیے تو سمجھ میں آئے گا کہ قیادت کیا ہوتی ہے اور رسالے کی دنیا میں کوئی رسالہ الہلال کب بنتا ہے ۔ کیسے کیسے مختلف ذہن وخیال کے لوگوں کو انہوں نے جمع کررکھا تھا ۔ کوئی آوارہ مزاج ہے تو کوئی آزاد خیال ۔ کوئی راسخ العقیدہ عالم دین ہے تو کوئی کچھ اور لیکن الہلال کے لیے سب کے اندر خلوص ہے اور مولانا کے لیے سب میں وفاداری ۔
بنانے کا کام ہمیشہ مشکل ہوتا ہے ۔ اجتماعیت کی حفاظت ہمیشہ دشوار رہی ہے لیکن جو کام سب کرلیں وہ کام ہی کیا ۔ آپ بڑے ہیں تو اپنی بڑائی کا ثبوت بھی تو دیجیے ۔ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت ہی کسی کو کامیاب قائد بناتی ہے ۔ مردم شناسی کا جوہر حاصل کیجیے اور صلاحیتوں کو پہنچان کران سے کام لیجیے ۔ انہيں مہميز کیجیے ۔ جارح تنقید اور تنقیص سے آپ اپنے ذہن کےشیطانی حصے کو تو خوش کرسکتے ہیں لیکن کوئی تعمیرنہیں کرسکتے ۔ تخریبی رویوں سے تعمیری سوتے نہیں پھوٹتے ۔ نئے ابھرنے والوں کو بھاؤ دیجیے ، لکھنے والوں کو مقام دیجیے ، اچھی گفتگو کرنے والوں کو بغور سنیے ، اچھی پیش رفت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے اور یوں تعمیر میں اپنی حصہ داری نبھائیے ۔
یاد رکھیے کہ اگر ملت میں اچھی صلاحیتیں پروان چڑھیں گی تو یقینا آپ کا بھی فائدہ ہوگا کہ بہر صورت آپ بھی تو اسی ملت کا حصہ ہیں ۔پسماندگی کے طوق کو گلے سے نکالنا ہے تو صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائیے ۔ نئی صلاحیتوں کو پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہوں تو کیجیے ورنہ کم ازکم اتنا تو ضرور کیجیے کہ ان کے لیے رکاوٹ بننے کی شقاوت اپنے حصے میں نہ لائیے ۔امریکہ اس لیے بھی بڑا ہے کہ اسے صلاحیتوں سے استفاد ہ کرنا آتا ہے اور ہم اس لیے بھی پسماندہ ہیں کہ ہم صلاحیتیں ضائع کرنے میں جواب نہیں رکھتے !!
ثناءاللہ صادق تیمی
پسماندہ اور ترقی پسند قوموں میں بہت زیاد ہ فرق نہيں ہوتا ۔ کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جن سے پسماندگی اور ارتقاء کا راستہ اور منزل طے ہوتی ہے جیسے ترقی پسند قوموں کے یہاں ایک چھوٹی سی خوبی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں انہیں ضائع نہیں جانے دیتے ۔ پسماندہ قومیں اچھی اچھی صلاحیتوں کو ان کی اوقات یاد دلادیتی ہیں ۔ ہم مسلمانوں میں بڑی بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں جیسے ہم کسی کو خود سے بڑا نہيں بننے دیتے اور اگر کوئی بن جائے تو اسے مانتے نہیں اور اگر وہ کہیں کچھ کارگر کام کرنے لگے تو کسی نہ کسی طرح ہم اس کام کی لا یعنیت ثابت کرکے دم لیتے ہیں ۔شاید اسی لیے ہم وہاں ہیں جہاں کوئی نہیں ہے !!
مجھے جلسے کی صدارت کرنی تھی بلکہ یوں کہیے کہ جلسہ خاکسار کےہی اعزاز میں تھا ۔ جلسے کو کئی علماء اور طلبہ زینت بخش رہے تھے ۔ میری نگاہ ایک نئے نئے فارغ کو تلاش کررہی تھی لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ کچھ دیر نگاہیں مضطرب رہیں ۔ بالآخر منتظم جلسہ سے استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ جناب عالی نے اس نئے فارغ عالم کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ اسے دعوت دی جائے، سبب یہ تھا کہ وہ کہیں سے فارغ نظر نہیں آتا ۔ مطلب یہ کہ جیسے تیسے رہتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں دلچسپی بھی نہیں لیتا وغیرہ ۔ اس وقت تو خیر مجبوری تھی سو خموش رہنا پڑا لیکن کھاتے وقت دسترخوان پر میں نے حضرت سے کہا : جناب! مجھے یہ بتلائیے کہ اس سماج کو ، اس عالم کے والدین کو اور ادارے کو کتنا سال انتظار کرنا پڑا کہ وہ فارغ ہو سکے ؟اسے عالم بنانے کے لیے معاشرے نے ، اہل خانہ نے ، اساتذہ اور ادارے نے کیا کیا قربانی دی ؟ کیا کوئی دوسرا عالم بغیر اتنا وقت گزرے فارغ ہوکر آجائے گا ؟ یعنی ایک اور عالم کے لیے آپ پھر سے بیس سال انتظار کریں گے اور لا قدر اللہ اگر وہ بھی کچھ جیسا تیسا نکل گیا تو آپ کب تک مثالی فارغ کے لیے انتظار کرتے رہیں گے ؟ میرےبھائی ! کہیں سب کچھ ٹھیک درست نہیں ہوتا ۔ فارغ ہو کر آنے والا کوئی فرشتہ نہیں ہوتا ۔ وہ ہمارے ہی معاشرے کا زائیدہ ہوتا ہے ۔ ہم اگر اپنی ساری صلاحیتوں کو اسی طرح درکنا رکریں گے تو صلاحیت آئے گی کہاں سے ؟ آپ بزرگ تھے ۔ آپ کا کام تھا کہ آپ اس نئے فارغ کو اکیلے میں سمجھاتے ، اسے اس کا مقام یاد دلاتے ، اسے تھوڑی اہمیت دیتے ۔ دس لوگوں کے بیچ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اس کی صلاحیت کی تعریف کرتے یوں اس کے اندر احساس ذمہ داری بھی جگ سکتا تھا اور معاشرے کو ایک باصلاحیت عالم بھی مل سکتا تھا ۔ آپ نے ایک مستقبل کے مصلح کو کتنی آسانی سے بگڑ جانے دیا ہے، آپ کو ابھی اس کا احساس نہیں لیکن کل آپ پچھتائیں گے ۔ یہ اس ایک فارغ کا مسئلہ نہیں ۔ اس پورے معاشرے کا مسئلہ ہے ۔ کل کو کوئی اور والدین یہی سوچیں گے کہ جب فارغ ہوکر ایسے ہی ناکارہ لوگ سامنے آتے ہیں تو کیوں جوکھم مول لینے جائیں ۔ آپ بڑے تھے لیکن اس عالم کے سلسلے میں آپ نے بڑپن کا ثبوت نہیں دیا ۔ پتھر تراش کر ہی ہیرا بنایا جاتا ہے ورنہ پتھر تو پتھر ہی ہوتا ہے !!
مقام شکر یہ تھا کہ انہيں خاکسار کی یہ باتیں سمجھ میں آئیں ۔یہ صرف اس ایک منتظم کا معاملہ نہیں ۔ لگ بھگ یہی صورت حال پورے معاشرے کی ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال کے عملہ پر نظر ڈالیے تو سمجھ میں آئے گا کہ قیادت کیا ہوتی ہے اور رسالے کی دنیا میں کوئی رسالہ الہلال کب بنتا ہے ۔ کیسے کیسے مختلف ذہن وخیال کے لوگوں کو انہوں نے جمع کررکھا تھا ۔ کوئی آوارہ مزاج ہے تو کوئی آزاد خیال ۔ کوئی راسخ العقیدہ عالم دین ہے تو کوئی کچھ اور لیکن الہلال کے لیے سب کے اندر خلوص ہے اور مولانا کے لیے سب میں وفاداری ۔
بنانے کا کام ہمیشہ مشکل ہوتا ہے ۔ اجتماعیت کی حفاظت ہمیشہ دشوار رہی ہے لیکن جو کام سب کرلیں وہ کام ہی کیا ۔ آپ بڑے ہیں تو اپنی بڑائی کا ثبوت بھی تو دیجیے ۔ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت ہی کسی کو کامیاب قائد بناتی ہے ۔ مردم شناسی کا جوہر حاصل کیجیے اور صلاحیتوں کو پہنچان کران سے کام لیجیے ۔ انہيں مہميز کیجیے ۔ جارح تنقید اور تنقیص سے آپ اپنے ذہن کےشیطانی حصے کو تو خوش کرسکتے ہیں لیکن کوئی تعمیرنہیں کرسکتے ۔ تخریبی رویوں سے تعمیری سوتے نہیں پھوٹتے ۔ نئے ابھرنے والوں کو بھاؤ دیجیے ، لکھنے والوں کو مقام دیجیے ، اچھی گفتگو کرنے والوں کو بغور سنیے ، اچھی پیش رفت کرنے والوں کا ساتھ دیجیے اور یوں تعمیر میں اپنی حصہ داری نبھائیے ۔
یاد رکھیے کہ اگر ملت میں اچھی صلاحیتیں پروان چڑھیں گی تو یقینا آپ کا بھی فائدہ ہوگا کہ بہر صورت آپ بھی تو اسی ملت کا حصہ ہیں ۔پسماندگی کے طوق کو گلے سے نکالنا ہے تو صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائیے ۔ نئی صلاحیتوں کو پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہوں تو کیجیے ورنہ کم ازکم اتنا تو ضرور کیجیے کہ ان کے لیے رکاوٹ بننے کی شقاوت اپنے حصے میں نہ لائیے ۔امریکہ اس لیے بھی بڑا ہے کہ اسے صلاحیتوں سے استفاد ہ کرنا آتا ہے اور ہم اس لیے بھی پسماندہ ہیں کہ ہم صلاحیتیں ضائع کرنے میں جواب نہیں رکھتے !!
No comments:
Post a Comment