Kya Masjid Me Koi Kafir Dakhil Ho Sakta Hai
واضح رہے کہ سوائے بیت الحرام کے اسلام میں کسی غیر مسلم کو مسجد میں داخلے سے منع نہیں کیا گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غیر مسلم وفود مسجد میں ہی ٹھہرتے تھے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی غیر مسلم آُپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کو آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوتے ، تو وہ مسجد میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتا تھا۔
چنانچہ ہمیں متعصبانہ رویہ اختیار کرنا لائق نہیں کہ کسی غیر مسلم کو بغرض ناگزیر جائز وجوہات کے باعث مسجد میں داخل ہونے سے روک دیں ۔ جہاں تک مسجد کے تقدس کا معاملہ ہے تو مسجد کا تقدس ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے چاہے وہ مسلم کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے ، اللہ کے گھروں میں پاکیزگی اور قرآن و شریعت کے دائرے کو مدعوکار رکھتے ہوئے داخل ہونا چاہیے
اور یہ بھی جان لیجیے کہ شریعت میں دعوت دین کے لیے کافر سے حسن ظن رکھنے کا حکم ہے ۔ چناچہ اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لیے کسی کافر کو مسجد میں داخل کرنا ، اور رکھنا جائز ہے ۔ اسی طرح مسلمان امام ، یا قاضی سے اپنے فیصلے کروانے کے لیے کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے ۔ نیز مسلمان امام ، یا قاضی ، یا حاکم سے ملاقات کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے ۔
لیکن اس بات کی ہر حال میں احتیاط کی جانی چاہیے کہ وہ کافر اپنے کفر کی نجاست کے ساتھ کسی ایسی حالت میں نہ ہوں جس حالت میں مسلمان کو بھی مسجد میں داخل ہونے کی، یا وہاں رکنے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں، یعنی جنابت یا حیض کی حالت میں نہ ہوں ۔
اس سلسلے میں علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتوی ملاحظہ فرمائیے⏬
مسلمانوں کے لئےکسی بھی کافرکو مسجد حرام یا اس کے آس پاس کےعلاقہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا.
’’اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔
التوبه، 9 : 28
جہاں تک دوسری مساجد کا تعلق ہے ۔ تو کچھـ فقہاء امت نے جائز بتایا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور کچھـ ائمہ کا کہنا ہے کہ جائز نہیں ہے، یہ لوگ دیگر مساجد کو مسجد حرام پر قیاس کرتے ہیں۔
اور صحیح بات یہ ہے کہ: شرعی مصلحتوں کے پیش نظر یا ضرورت پڑنے پرغیرمسلموں کا داخل ہونا جائز ہے: مثلا اسلام کی دعوت اور پیغام سننے یا مسجد کا پانی پینے یا اس جیسی مصلحتوں کے پیش نظرجائز ہے، اور اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال الحنفی کو اسلام لانے سے قبل مسجد میں باندھا تھا، اسی طرح ثقیف کا وفد اور نجران کے عیسائیوں کا وفد مسلمان ہونے سے قبل مسجد نبوی میں ٹهہرايا گیا تھا، کیونکہ اس میں بہت سار ےفوائد مضمر تھے، مثلا یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اور آپ کی وعظ ونصیحت سنتے، نمازیوں اور قراء حضرات کو قرآن پڑھتے دیکھتےوغیرہ وغیرہ بہت سے فوائد ہیں، جو مسجد میں ٹہرنے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/فتوی نمبر:2922
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
لیکن اس بات کی ہر حال میں احتیاط کی جانی چاہیے کہ وہ کافر اپنے کفر کی نجاست کے ساتھ کسی ایسی حالت میں نہ ہوں جس حالت میں مسلمان کو بھی مسجد میں داخل ہونے کی، یا وہاں رکنے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں، یعنی جنابت یا حیض کی حالت میں نہ ہوں ۔
اس سلسلے میں علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتوی ملاحظہ فرمائیے⏬
مسلمانوں کے لئےکسی بھی کافرکو مسجد حرام یا اس کے آس پاس کےعلاقہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا.
’’اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔
التوبه، 9 : 28
جہاں تک دوسری مساجد کا تعلق ہے ۔ تو کچھـ فقہاء امت نے جائز بتایا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور کچھـ ائمہ کا کہنا ہے کہ جائز نہیں ہے، یہ لوگ دیگر مساجد کو مسجد حرام پر قیاس کرتے ہیں۔
اور صحیح بات یہ ہے کہ: شرعی مصلحتوں کے پیش نظر یا ضرورت پڑنے پرغیرمسلموں کا داخل ہونا جائز ہے: مثلا اسلام کی دعوت اور پیغام سننے یا مسجد کا پانی پینے یا اس جیسی مصلحتوں کے پیش نظرجائز ہے، اور اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال الحنفی کو اسلام لانے سے قبل مسجد میں باندھا تھا، اسی طرح ثقیف کا وفد اور نجران کے عیسائیوں کا وفد مسلمان ہونے سے قبل مسجد نبوی میں ٹهہرايا گیا تھا، کیونکہ اس میں بہت سار ےفوائد مضمر تھے، مثلا یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ اور آپ کی وعظ ونصیحت سنتے، نمازیوں اور قراء حضرات کو قرآن پڑھتے دیکھتےوغیرہ وغیرہ بہت سے فوائد ہیں، جو مسجد میں ٹہرنے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی/فتوی نمبر:2922
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
No comments:
Post a Comment