مرد کے کیے سونا اور زیورات کا جواز
اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ مرد کے لیے سونا تو حرام ہے لیکن کیا چاندی اجازت ہے ؟ تو اس سوال کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مرد کو چاندی یا کتنی چاندی اجازت ہے ، اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ مرد کو کن صورتوں میں چاندی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
مثال کے طور پر چاندی انگوٹھی کی صورت میں مرد کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے فعل سے ثابت ہے ۔ لیکن کیا مرد کو اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ چاندی کو ہاتھ میں بھی پہنے ، چاندی کے کنگنوں اور کڑوں کی صورت میں کلائی میں پہنے ، گلے میں زنجیروں کی صورت استعمال کرے ، کانوں میں چاندی کی بالیاں پہنے ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ عورتوں کے لیے خاص کیا گیا ہے اس لیے مرد پر حرام ہے اور عورت ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں سے مشابہت سے مردوں کو منع کیا گیا ہے۔
بتقاضہ فطرتِ انسانی مرد اپنی مردانگی اور عورتیں اپنی نسوانیت کو برقرار رکھیں۔ یہ مغرب زدہ معاشرے کی ایک سنگین خرابی ہے کہ مرد صفاتِ نسواں اختیار کرتے ہیں' مثلاً عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنا اور انہیں عورتوں کی طرح سنوارا بھی جاتا ہے ' کانوں میں بالیاں اور ہاتھوں میں کڑے پہننا گردن میں لاکٹ پہننا اور داڑھی منڈوانا۔ جبکہ عورتیں مردانہ صفات اختیار کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں' مثلاً بال چھوٹے رکھنا' شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا اور مردوں کے لباس پہننا وغیرہ۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاء وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاء بِالرِّجَالِ (١٣)
''اللہ کے رسولۖ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح آپۖ نے اُن عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔''
اسی طرح آپۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو کہ جنس مخالف کا لباس پہنتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں :
((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ لَعَنَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لُبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةُ تَلْبَسُ لُبْسَةَ الرَّجُلِ)) (١٤)
''اللہ کے رسولۖ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے لباس جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے لباس جیسا لباس پہنتی ہے۔'
⛔ فتوی
۔─━══★◐★══━─
لوہے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننا بعض روایات میں منع آیا ہے اگرچہ روایت میں کلام ہے :(باب ماجاء فی خاتم الحدید سنن ابو دائود ) (صححه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الخاتم باب ماجاء في خاتم الحديد (٤٢٢٥) والنسائي (٥٢١٢-5210)
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:
’’ والحديث يدل علي كراهة لبس خاتم الحديد ’’ (٤/١٤٤)
انگوٹھی میں موتی یا ہیرا وغیرہ جڑوانا بظاہر جائز ہے حدیث میں ہے:
’’ كان خاتم النبي صلي الله عليه وسلم من ورق فصه حبشي ’’(صحيح مسلم كتاب اللباس باب في خاتم الورق قصه حبشي (٥٤٨٧) ابو دائود (٤٢١٦) والمشكاة (٤٣٨٨) (سنن ابی دائود ماجاء فی اتخاد الخاتم )
یعنی '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ حبشی تھا۔''
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اي كان حجرا من بلاد الحبشة او علي لون الحبشة او كان جزعا او عقيقا لان ذلك قد يوتي من بلاد الحبشة ’’ (فتح الباري 10/322)
یعنی '' نگینہ ملک حبشہ کے پتھر یا حبشی رنگ یا منکے یا عقیق پتھر کا تھا کیونکہ اسے ملک حبشہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔''
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
⛔ هل صحيح أنه لا تجوز الصلاة بخواتم وسلاسل النحاس؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ : تانبے اور لوہے کی چین یا انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ؟
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
نہیں یہ بات صحیح نہیں ،اور عورت کیلئے سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اور چاندی اور لوہے کی انگوٹھی پہن کر کسی
کیلئے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس(لوہے کی انگوٹھی ) کی حرمت میں وارد حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے شادی کے خواہش مند ایک شخص کو جس کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا اسے فرمایا تھا کہ جا تلاش کر اگر لوہے کی لوہے انگوٹھی ہی مل جائے (تو مہر میں وہی دے دے )یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کے جواز میں دلیل ہے
(( مکمل حدیث یہ ہے :
ترجمہ :
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کر لو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے
کی انگوٹھی ہی سہی! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔
وأما الحديث الذي فيه أنه رأى على إنسان خاتما من حديد فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟، ورأى آخر عليه خاتم من صفر قال: ما لي أجد منك ريح الأصنام؟ ( أخرجه الترمذي في كتاب اللباس، باب ما جاء في الخاتم الحديد، برقم (1785)، وأبو داود أول كتاب الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحديد، برقم (4223)، والنسائي في المجتبى في كتاب الزينة مقدار ما يجعل في الخاتم من الفضة، برقم (5195)، واللفظ للترمذي)» فهو حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة.
اور وہ حدیث جو سیدنا بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس
نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
یہ حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
اور یہ حدیث سنن ابی داود/ الخاتم ۴ (۴۲۲۳)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۱۹۸)، (تحفة الأشراف : ۱۹۸۲)، و مسند احمد (۵/۳۵۹)
(اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396) ، آداب الزفاف (128)
فتاوی نور علی الدرب / الشیخ ابن باز رحمہ اللہ
⛔ مرد كے ليے پلاٹين كى بنى ہوئى انگوٹھى پہننا
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گیا تو ان كا جواب تھا:
يہ دو شرطوں كے ساتھ مشروط ہے:
پہلى شرط:
اس ميں اسراف اور فضول خرچى نہ ہو، وہ اس طرح كہ مرد اس طرح كا لباس پہننے كا اہل ہى نہ ہو اور وہ اسے پہنے۔
دوسرى شرط:
اس سے فتنہ و خرابى پيدا نہ ہو، مثلا وہ نوجوان ہو اور اس سے لوگوں كو فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہو۔
يہ اس ليے كہ لباس ميں اصل تو اباحت ہى ہے، صرف سونے كى انگوٹھى مرد كے ليے پہننا حرام ہے، اور يہ چيز معروف بھى ہے۔
الشيخ محمد صالح العثيمين
⛔ مرد کے لیے سونا حرام احادیث کی روشنی میں
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
➖ 1 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا ، اور فرمایا تم میں سے کوئی آگ کے انگارے کا قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے ( یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی وغیرہ کو آگ کے انگارے سے تعبیر کیا ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی کو کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے فائدہ حاصل کرو ، تو اس نے کہا ، نہیں ، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا ہے ، میں یہ کبھی بھی نہیں لوں گا ۔ ( صحیح مسلم : 2090 )
➖ 2 سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یلبس حریرا ولا ذھبا ( مسند الامام احمد : 261/5 وسندہ حسن )
” جو ( مرد ) اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ ریشم اور سونا مت پہنے ۔ “
حافظ منذری رحمہ اللہ ( الترغیب ) اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کو ” ثقہ “ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 174/5 )
➖ 3 سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجران سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ تم میرے پاس آئے ہو ، جبکہ آپ کے ہاتھ میں آگ کا انگارا ہے ۔ ( نسائی : 5191 ، مسند الامام احمد : 14/3 وسندہ حسن )
امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اسے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کا راوی ابوالنجیب المصری ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ ( 1669 ) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اس کو ” ثقہ “ قرار دیا ہے ۔ امام ابن یونس المصری کہتے ہیں ۔ کان احد الفقہاءفی ایامہ
➖ 4 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی ( منسوخیت و حرمت سے پہلے ) پہنتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں یہ کبھی بھی نہیں پہنوں گا ، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 5865 ، صحیح مسلم : 53/2091 )
➖ 5 سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں سے منع فرمایا ، ان میں ایک سونے کی انگوٹھی ( وغیرہ ) تھی ۔ ( صحیح بخاری : 5863 )
➖ 6 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے دوست ( مرد ) کو آگ کا کڑا پہنانا پسند کرتا ہے ، چاہئیے کہ وہ اسے سونے کا کڑا پہنائے ۔ جو اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا پسند کرتا ہے ۔ وہ اسے سونے کا طوق ( زنجیر ) پہنائے جو اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا پسند کرتا ہے ، وہ اسے سونے کا کنگن پہنائے ۔ چاندی ہی استعمال کرو ( سونے کی طرف تجاوز مت کرو ) اس کے ساتھ کھیلو ( یعنی جو چیز چاہو بنالو ) ( ابوداود : 4236 ، مسند الامام احمد : 378, 334/2 وسندہ حسن )
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند تو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب : 273/1 )
➖ 7 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ مبارک میں ریشم اور بائیں میں سونا پکڑ کر فرمایا :
ان ھذان حرام علی ذکور امتی
” یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ “ ( ابوداؤد : 4057 ، نسائی : 160/8 ، ابن ماجہ : 3595 ، مسند الامام احمد : 115/1 وسندہ حسن )
حافظ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ نے اپنی ” احکام “ میں اس حدیث کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں :
حدیث حسن رجالہ معروفون
” اس کا راوی ابو افلح کو امام عجلی رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صدوق “ کہا ہے ۔ ( الکاشف : 271/3 )
عبداللہ بن زریر کو امام ابن سعد رحمہ اللہ ، امام عجلی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن خلفون رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ۔ عبدالعزیز بن ابی الصعبہ کو امام ابن حبان نے ” ثقہ “ اور امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے لیس بہ باس معروف کہا ہے ۔ کمامر
➖ 8 مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کھڑے ہو جائیے ، جو بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ، اس کے بارے میں لوگوں کو خبر دیں ، تو انہوں نے کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
” جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔ “
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لاناثھم
” ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ، عورتوں کے لئے حلال ہے ۔ “
( المعرفۃ والتاریخ یعقوب بن سفیان الفسوی : 506/2 ، بیہقی : 276, 75/3 ، شرح معانی الآثار للطحاوی : 251/4 وسندہ حسن )
یحییٰ بن ایوب اور الحسن بن ثوبان دونوں حسن الحدیث میں ، ہشام بن ابی رمیۃ کو امام ابن حبان اور یعقوب بن سفیان نے ثقہ کہا ہے ۔ مسلمہ بن مخلد کوجمہور محدثین نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
➖ 9 سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مردوں ) کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کر دیا ۔ “
( صحیح بخاری : 5864 ، صحیح مسلم : 2089 )
➖ 10 نجاشی ( بادشاہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں کچھ زیور بھیجا ، اس میں سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی ، جس پر حبشی نگینہ جڑا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی سے اعراض برتتے ہوئے لکڑی یا اپنی انگلی سے پکڑا ۔ پھر ( اپنی نواسی ) امامہ بنت زینب کو بلایا اور فرمایا ، بیٹی! یہ پہن لو ۔ “ ( ابوداؤد : 4235 ، ابن ماجہ : 3644 وسندہ حسن )
⏸اس ممانعت کے باوجود بتقاضہ کیفیتِ اضطراری مرد کے لئے سونے کے استعمال کا جواز ملتا ہے ۔ مثلاً سونے کا ناک لگوانا ، دانت یا داڑھ میں سونا بھرنا ، دانتوں کو سونے کی تار سے جوڑنا جائز ہے ۔ جیسا کہ عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
” یوم الکلاب میں ان کی ناک کٹ گئی ، انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی ، جو بدبو دار ہو گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم صادر فرمایا ۔
( مسند الامام احمد : 23/5 ، ابوداؤد : 4232 ، ترمذی : 1770 نسائی : 5164 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن “ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 5462 نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کے راوی عبدالرحمن بن طرفہ کو امام عجلی رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ” ثقہ “ کہا ہے لہٰذا یہ ” حسن الحدیث “ ہے ۔
لیکن واضح رہے کہ بعض لوگ شوقیہ طور پر سونے کا خول چڑھا لیتے ہیں ، یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
مثال کے طور پر چاندی انگوٹھی کی صورت میں مرد کے لیے جائز ہے کیونکہ یہ اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے فعل سے ثابت ہے ۔ لیکن کیا مرد کو اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ چاندی کو ہاتھ میں بھی پہنے ، چاندی کے کنگنوں اور کڑوں کی صورت میں کلائی میں پہنے ، گلے میں زنجیروں کی صورت استعمال کرے ، کانوں میں چاندی کی بالیاں پہنے ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ عورتوں کے لیے خاص کیا گیا ہے اس لیے مرد پر حرام ہے اور عورت ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں سے مشابہت سے مردوں کو منع کیا گیا ہے۔
بتقاضہ فطرتِ انسانی مرد اپنی مردانگی اور عورتیں اپنی نسوانیت کو برقرار رکھیں۔ یہ مغرب زدہ معاشرے کی ایک سنگین خرابی ہے کہ مرد صفاتِ نسواں اختیار کرتے ہیں' مثلاً عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنا اور انہیں عورتوں کی طرح سنوارا بھی جاتا ہے ' کانوں میں بالیاں اور ہاتھوں میں کڑے پہننا گردن میں لاکٹ پہننا اور داڑھی منڈوانا۔ جبکہ عورتیں مردانہ صفات اختیار کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں' مثلاً بال چھوٹے رکھنا' شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا اور مردوں کے لباس پہننا وغیرہ۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاء وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاء بِالرِّجَالِ (١٣)
''اللہ کے رسولۖ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح آپۖ نے اُن عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔''
اسی طرح آپۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو کہ جنس مخالف کا لباس پہنتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں :
((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ لَعَنَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لُبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةُ تَلْبَسُ لُبْسَةَ الرَّجُلِ)) (١٤)
''اللہ کے رسولۖ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے لباس جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے لباس جیسا لباس پہنتی ہے۔'
⛔ فتوی
۔─━══★◐★══━─
لوہے یا پیتل وغیرہ کی انگوٹھی پہننا بعض روایات میں منع آیا ہے اگرچہ روایت میں کلام ہے :(باب ماجاء فی خاتم الحدید سنن ابو دائود ) (صححه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الخاتم باب ماجاء في خاتم الحديد (٤٢٢٥) والنسائي (٥٢١٢-5210)
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:
’’ والحديث يدل علي كراهة لبس خاتم الحديد ’’ (٤/١٤٤)
انگوٹھی میں موتی یا ہیرا وغیرہ جڑوانا بظاہر جائز ہے حدیث میں ہے:
’’ كان خاتم النبي صلي الله عليه وسلم من ورق فصه حبشي ’’(صحيح مسلم كتاب اللباس باب في خاتم الورق قصه حبشي (٥٤٨٧) ابو دائود (٤٢١٦) والمشكاة (٤٣٨٨) (سنن ابی دائود ماجاء فی اتخاد الخاتم )
یعنی '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ حبشی تھا۔''
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ اي كان حجرا من بلاد الحبشة او علي لون الحبشة او كان جزعا او عقيقا لان ذلك قد يوتي من بلاد الحبشة ’’ (فتح الباري 10/322)
یعنی '' نگینہ ملک حبشہ کے پتھر یا حبشی رنگ یا منکے یا عقیق پتھر کا تھا کیونکہ اسے ملک حبشہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔''
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ
⛔ هل صحيح أنه لا تجوز الصلاة بخواتم وسلاسل النحاس؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ : تانبے اور لوہے کی چین یا انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ؟
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
نہیں یہ بات صحیح نہیں ،اور عورت کیلئے سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ،اور چاندی اور لوہے کی انگوٹھی پہن کر کسی
کیلئے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اس(لوہے کی انگوٹھی ) کی حرمت میں وارد حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے شادی کے خواہش مند ایک شخص کو جس کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں تھا اسے فرمایا تھا کہ جا تلاش کر اگر لوہے کی لوہے انگوٹھی ہی مل جائے (تو مہر میں وہی دے دے )یہ حدیث لوہے کی انگوٹھی پہننے کے جواز میں دلیل ہے
(( مکمل حدیث یہ ہے :
ترجمہ :
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دو گے تو تمہارے پاس پہننے کے لیے تہمد بھی نہیں رہے گا۔ کوئی اور چیز تلاش کر لو۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو، ایک لوہے
کی انگوٹھی ہی سہی! اسے وہ بھی نہیں ملی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں! فلاں فلاں سورتیں ہیں، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں۔
وأما الحديث الذي فيه أنه رأى على إنسان خاتما من حديد فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟، ورأى آخر عليه خاتم من صفر قال: ما لي أجد منك ريح الأصنام؟ ( أخرجه الترمذي في كتاب اللباس، باب ما جاء في الخاتم الحديد، برقم (1785)، وأبو داود أول كتاب الخاتم، باب ما جاء في خاتم الحديد، برقم (4223)، والنسائي في المجتبى في كتاب الزينة مقدار ما يجعل في الخاتم من الفضة، برقم (5195)، واللفظ للترمذي)» فهو حديث ضعيف شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة.
اور وہ حدیث جو سیدنا بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس
نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
یہ حدیث ضعیف اور شاذ ہے ،اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
اور یہ حدیث سنن ابی داود/ الخاتم ۴ (۴۲۲۳)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۱۹۸)، (تحفة الأشراف : ۱۹۸۲)، و مسند احمد (۵/۳۵۹)
(اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396) ، آداب الزفاف (128)
فتاوی نور علی الدرب / الشیخ ابن باز رحمہ اللہ
⛔ مرد كے ليے پلاٹين كى بنى ہوئى انگوٹھى پہننا
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گیا تو ان كا جواب تھا:
يہ دو شرطوں كے ساتھ مشروط ہے:
پہلى شرط:
اس ميں اسراف اور فضول خرچى نہ ہو، وہ اس طرح كہ مرد اس طرح كا لباس پہننے كا اہل ہى نہ ہو اور وہ اسے پہنے۔
دوسرى شرط:
اس سے فتنہ و خرابى پيدا نہ ہو، مثلا وہ نوجوان ہو اور اس سے لوگوں كو فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہو۔
يہ اس ليے كہ لباس ميں اصل تو اباحت ہى ہے، صرف سونے كى انگوٹھى مرد كے ليے پہننا حرام ہے، اور يہ چيز معروف بھى ہے۔
الشيخ محمد صالح العثيمين
⛔ مرد کے لیے سونا حرام احادیث کی روشنی میں
۔─━══★◐★══━──━══★◐★══━─
➖ 1 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا ، اور فرمایا تم میں سے کوئی آگ کے انگارے کا قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے ( یعنی مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی وغیرہ کو آگ کے انگارے سے تعبیر کیا ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریف لے جانے کے بعد اس آدمی کو کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے فائدہ حاصل کرو ، تو اس نے کہا ، نہیں ، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا ہے ، میں یہ کبھی بھی نہیں لوں گا ۔ ( صحیح مسلم : 2090 )
➖ 2 سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یلبس حریرا ولا ذھبا ( مسند الامام احمد : 261/5 وسندہ حسن )
” جو ( مرد ) اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ ریشم اور سونا مت پہنے ۔ “
حافظ منذری رحمہ اللہ ( الترغیب ) اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں کو ” ثقہ “ کہا ہے ۔ ( مجمع الزوائد : 174/5 )
➖ 3 سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجران سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ تم میرے پاس آئے ہو ، جبکہ آپ کے ہاتھ میں آگ کا انگارا ہے ۔ ( نسائی : 5191 ، مسند الامام احمد : 14/3 وسندہ حسن )
امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اسے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کا راوی ابوالنجیب المصری ” حسن الحدیث “ ہے ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ ( 1669 ) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 5489 ) نے اس کو ” ثقہ “ قرار دیا ہے ۔ امام ابن یونس المصری کہتے ہیں ۔ کان احد الفقہاءفی ایامہ
➖ 4 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی ( منسوخیت و حرمت سے پہلے ) پہنتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں یہ کبھی بھی نہیں پہنوں گا ، لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۔ “ ( صحیح بخاری : 5865 ، صحیح مسلم : 53/2091 )
➖ 5 سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں سے منع فرمایا ، ان میں ایک سونے کی انگوٹھی ( وغیرہ ) تھی ۔ ( صحیح بخاری : 5863 )
➖ 6 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنے دوست ( مرد ) کو آگ کا کڑا پہنانا پسند کرتا ہے ، چاہئیے کہ وہ اسے سونے کا کڑا پہنائے ۔ جو اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا پسند کرتا ہے ۔ وہ اسے سونے کا طوق ( زنجیر ) پہنائے جو اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا پسند کرتا ہے ، وہ اسے سونے کا کنگن پہنائے ۔ چاندی ہی استعمال کرو ( سونے کی طرف تجاوز مت کرو ) اس کے ساتھ کھیلو ( یعنی جو چیز چاہو بنالو ) ( ابوداود : 4236 ، مسند الامام احمد : 378, 334/2 وسندہ حسن )
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند تو ” صحیح “ کہا ہے ۔ ( الترغیب والترہیب : 273/1 )
➖ 7 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ مبارک میں ریشم اور بائیں میں سونا پکڑ کر فرمایا :
ان ھذان حرام علی ذکور امتی
” یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ “ ( ابوداؤد : 4057 ، نسائی : 160/8 ، ابن ماجہ : 3595 ، مسند الامام احمد : 115/1 وسندہ حسن )
حافظ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ نے اپنی ” احکام “ میں اس حدیث کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں :
حدیث حسن رجالہ معروفون
” اس کا راوی ابو افلح کو امام عجلی رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صدوق “ کہا ہے ۔ ( الکاشف : 271/3 )
عبداللہ بن زریر کو امام ابن سعد رحمہ اللہ ، امام عجلی رحمہ اللہ ، ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن خلفون رحمہ اللہ نے ” ثقہ “ کہا ہے ۔ عبدالعزیز بن ابی الصعبہ کو امام ابن حبان نے ” ثقہ “ اور امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے لیس بہ باس معروف کہا ہے ۔ کمامر
➖ 8 مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کھڑے ہو جائیے ، جو بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ، اس کے بارے میں لوگوں کو خبر دیں ، تو انہوں نے کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
” جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔ “
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لاناثھم
” ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے ، عورتوں کے لئے حلال ہے ۔ “
( المعرفۃ والتاریخ یعقوب بن سفیان الفسوی : 506/2 ، بیہقی : 276, 75/3 ، شرح معانی الآثار للطحاوی : 251/4 وسندہ حسن )
یحییٰ بن ایوب اور الحسن بن ثوبان دونوں حسن الحدیث میں ، ہشام بن ابی رمیۃ کو امام ابن حبان اور یعقوب بن سفیان نے ثقہ کہا ہے ۔ مسلمہ بن مخلد کوجمہور محدثین نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
➖ 9 سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مردوں ) کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کر دیا ۔ “
( صحیح بخاری : 5864 ، صحیح مسلم : 2089 )
➖ 10 نجاشی ( بادشاہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں کچھ زیور بھیجا ، اس میں سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی ، جس پر حبشی نگینہ جڑا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی سے اعراض برتتے ہوئے لکڑی یا اپنی انگلی سے پکڑا ۔ پھر ( اپنی نواسی ) امامہ بنت زینب کو بلایا اور فرمایا ، بیٹی! یہ پہن لو ۔ “ ( ابوداؤد : 4235 ، ابن ماجہ : 3644 وسندہ حسن )
⏸اس ممانعت کے باوجود بتقاضہ کیفیتِ اضطراری مرد کے لئے سونے کے استعمال کا جواز ملتا ہے ۔ مثلاً سونے کا ناک لگوانا ، دانت یا داڑھ میں سونا بھرنا ، دانتوں کو سونے کی تار سے جوڑنا جائز ہے ۔ جیسا کہ عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
” یوم الکلاب میں ان کی ناک کٹ گئی ، انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی ، جو بدبو دار ہو گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سونے کی ناک لگوانے کا حکم صادر فرمایا ۔
( مسند الامام احمد : 23/5 ، ابوداؤد : 4232 ، ترمذی : 1770 نسائی : 5164 ، وسندہ حسن )
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ” حسن “ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 5462 نے ” صحیح “ کہا ہے ۔ اس کے راوی عبدالرحمن بن طرفہ کو امام عجلی رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے ” ثقہ “ کہا ہے لہٰذا یہ ” حسن الحدیث “ ہے ۔
لیکن واضح رہے کہ بعض لوگ شوقیہ طور پر سونے کا خول چڑھا لیتے ہیں ، یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment