Musalmanon ka Andalas Pe Hukumat kaise hua?
<فاتح اندلس>
طارق بِِن زِیاد
تحریر: صادق حسين
قسط نمبر 38 Part
_________
طارق کی بحالی_____تمام مسلمان اور سارے عیسائی طارق کو کو اندلس کا فاتح سمجھتے اور جانتے تھے اور انہوں نے وہ خواب بھی سن لیا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح اندلس کی بشارت دی تھی-"
ایک تو طارق نیک طینت تهے دوسرے بہادر تھے تیسرے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فتح کی بشارت دی تھی چوتھے انہوں نے اندلس کا کثیر حصہ فتح کر لیا تھا-
اس لیے تمام مسلمان ان سے محبت کرتے اور ان کی عزت کرتے تھے -
ان کے قید کر دئیے جانے سے تمام مسلمانوں کو بہت رنج و افسوس تھا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ موسیٰ کو فضول حسد نہیں بلکہ وہ بھی نیک طبیعت اور شریف النفس تهے -
اس لئے عوام یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے طارق کو اس لئے قید کیا کہ وہ ان سے جل گئے ہیں بلکہ کسی مصلحت سے ایسا کیا گیا ہے اسی لیے سب ہی خاموش تھے -
یوں تو ہر مسلمان کو اس بات کا رنج تھا مگر سب سے زیادہ صدمہ راحیل کو تها -
وہ بہت زیادہ بے چین تھی اور سوچتی تھی کہ کیا کرے کس طرح انہیں رہائی دلائے.
ایک روز وہ اس کمرے میں گئ جہاں طارق قید تهے -
چونکہ موسیٰ نے اس سے کسی کو ملنے کی ممانعت نہیں کی تھی اس لیے ہر شخص جب چاہے اس سے مل سکتا تھا -
محافظ کوئی روک ٹوک نہیں کرتے تھے چنانچہ جب راحیل نے پوچھا تو انہیں بھی جانے کی اجازت مل گئی.
راحیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دیکها کہ فاتح اعظم جس کی بہادری نے تمام اندلس کے عیسائیوں کو مرعوب کر رکها ہے جس کی تلوار نے اسپین میں دھوم مچا دی ہے جس کی جرات بہادری کا ہر طرف چرچا ہے دست و پا بستہ ایک چٹائی پر سر جھکائے بیٹھا ہے ۔
اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے طارق کو اور طارق نے اس کی طرف دیکھا -
دونوں کی نگاہوں میں افسوس حسرت اور غم کی جھلک تھی -
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد راحیل بڑهی اور اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا شیر دل فاتح___"
فرط غم سے اس کی آواز بهرا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہ سکی طارق بولے.
نیک دل دوشیزہ تم کیوں اس غم خانہ میں آئیں؟ "
راحیل : آپ کو دیکھنے اور باتیں کرنے کے لیے طارق: تمہاری ہمدردی کا شکریہ!
راحیل: مجھے رنج و قلق ہے کہ بلا وجہ امیر موسیٰ نے آپ کو قید کر دیا ہے ۔
طارق: اس میں امیر موسیٰ کا قصور نہیں ہے -
راحیل : اور کس کا ہے؟ "
طارق : میرے مقدر کا.
راحیل : میں تو سمجھتی ہوں امیر نے آپ کی شہرت سے جل کر آپ کو قید کیا ہے؟
طارق : نہیں یہ بات نہیں ہے میرے خیال میں مجھ سے کوئی خطا کوئی غلطی کوئی غرور سر زد ہو گیا تھا اور اللہ نے اس کی پاداش میں مجھے سزا دی ہے.
راحیل : گویا آپ کو امیر کی طرف سے کوئی رنج نہیں ہے -
طارق : بالکل بھی نہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے حسد نہیں کر سکتا نہ بے جا رنج رکهہ سکتا ہے.
راحیل : آپ جانتے ہیں کہ مسلمان آپ کے خیر خواہ ہیں!
طارق : خوب جانتا ہوں.
راحیل: اگر آپ چاہیں تو وہ آپ کو آزاد کروا سکتے ہیں.
طارق نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے -
راحیل : کیوں؟ "
طارق : اس لیے کہ امیر کے خلاف ورزی ایک مسلمان کبھی نہیں کرتا.
راحیل : تو یہ کہیے کہ ان کو آپ سے ہمدردی نہیں ہے -
طارق : یہ بھی نہیں ہو سکتا.
راحیل : اچھا آپ رہا ہونا چاہتے ہیں؟
طارق : ضرور چاہتا ہوں -
راحیل : تو میں محافظوں کی خوشامد کرتی ہوں یقین ہے کہ وہ آپ کو رہا کر دیں گے اور پھر آپ میرے ساتھ چلنا ہم دونوں پہاڑ کے کسی حصہ پر رہا کریں گے دنیا اور دنیا والوں سے الگ.
طارق : میں تمہارا مشکور ہوں مگر اس طرح رہا ہونا نہیں چاہتا.
راحیل : اور کس طرح چاہتے ہیں؟
طارق : امیر خود مجھے رہا کریں.
راحیل : ایسا کبھی نہیں کریں گے وہ
طارق: میرا خیال ہے وہ عنقریب مجھے رہا کر دیں گے -
راحیل : اچھا تو میں ان سے کچھ عرض کروں؟
طارق : ہاں کوئی مضائقہ نہیں ہے.
راحیل : کسی بات کی تکلیف تو نہیں آپ کو؟
طارق : نہیں.
راحیل اچھا تو میں اب اجازت چاہوں گی اللہ حافظ.
طارق: فی امان اللہ.
راحیل وہاں سے چلی گئی اور دوسرے روز امیر موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئی.
موسیٰ کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ رازرق نے راحیل کو زبردستی پکڑوا یا تها اور وہ تہہ خانے میں چلی گئی تھی -
نیز یہ بھی اس نے طارق کو خاندان گاتهہ کے پچیس بادشاہوں کے تاجوں کا پتہ بھی دیا تھا اور یہ بھی کہ اسے طارق سے ہمدردی ہے.
لہذا جب موسٰی کے پاس پہنچی تو سلام کر کے بیٹھ گئی تو امیر نے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آ کر دریافت کیا کہ وہ کس لیے آئی ہے.
راحیل : میں طارق کے متعلق کچھ عرض کرنے آئی ہوں.
موسیٰ جو بھی کہنا ہے بیٹی بلا تکلف کہو.
راحیل : آپ جانتے ہیں کہ طارق بے لوث انسان ہیں مسلمانوں کے ہمدرد ہیں حکومت اسلام کے خیرخواہ ہیں.
موسیٰ : خوب جانتا ہوں.
راحیل اور آپ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انہوں نے بے نظیر جرات سے اندلس کو فتح کیا ہے -
موسیٰ: خوب واقف ہوں.
راحیل: کیا ان کی بہادری خیر خواہی کا یہی صلہ ہونا چاہیے کہ انہیں قید کر دیا جائے؟
موسیٰ: میری بھولی بیٹی میں نے اسے اس لئے قید کیا ہے کہ اس نے جوش شجاعت کے زعم میں میرے حکم کی نافرمانی کی.
راحیل : مجھے معلوم ہے لیکن اس نافرمانی میں مصلحت تهی.
موسیٰ یہ درست ہے لیکن اس کے ہاتھ میں بارہ ہزار مسلمانوں کی باگ دوڑ تهی اگر خدانخواستہ کسی مسلمان کو نقصان پہنچ جاتا تو دین و دنیا میں جواب دہ میں تها -
راحیل : لیکن اگر کبھی مسلمانوں کو شکست ہوتی تو وہ کبھی آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرتے.
موسیٰ: یہ سچ ہے اچھا تم کیا چاہتی ہو؟
راحیل: میں چاہتی ہوں آپ اسے رہا کر دیں.
موسیٰ:میں نے خود طے کر لیا ہے کہ میں انہیں جلدی رہا کر دوں گا.
راحیل : آپ کی بڑی مہربانی ہوگی.
موسیٰ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا.
اس کی داڑھی اور چہرہ گرد آلود ہو رہے تھے - اس نے آتے ہی موسیٰ کو سلام کیا موسیٰ نے جواب دے کر اور پوچھا کیا تم خلیفہ کے حضور سے آ رہے ہو؟
آنے والا؛: جی ہاں!
موسیٰ کوئی فرمان لائے ہو؟
اجنبی نے کہا اعلی حضرت نے اپنے ہاتھ سے یہ فرمان لکھ کر دیا ہے ۔
یہ کہتے ہی اس نے اپنی عبا میں سے ایک خریطہ نکالا اور موسیٰ کو پیش کیا.
موسیٰ نے اسے چوم کر کھولا اور پڑهنا شروع کر دیا اس میں لکھا تھا -
از جناب بندہ خدا خالد بن ولید عبد المالک خلیفہ مملکت اسلامیہ بجانب موسیٰ بن نصیر والی بلاد اسلامیہ مغرب حمد و ثنا کے بعد معلوم ہو کہ میں نے نیز تمام مسلمانوں نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل سے اندلس میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ہے اور وہاں سے بدکاری اور اصنام پرستی کی بنیاد اکھاڑ کر رکھ دی ہے اور توحید پرستی کی بنیاد ڈالی ہے.
طارق نے جو کیا باہم مشورے اور جوش جہاد سے لبریز ہو کر کیا وہ سزا کا نہیں انعام کا حق دار ہے، وہ مخلص مجاہد اور مسلمانوں کی حکومت اسلامیہ کا خیر خواہ ہے، اسے فوری عزت و احترام کے ساتھ رہا کر کے اس سے معافی مانگو.
میں نے اسے اندلس کا وائسرائے مقرر کر دیا ہے تم اسے ذمہ داری دے دو اور اس کی عزت افزائی کرو.
میں ان تمام مسلمانوں کا مشکور ہوں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ نے انہیں جوش و قوت عطا فرمائی اور اپنے حفظ و امان میں رکها.
تمام مسلمانوں کو میرا سلام کہہ دینا.
موسیٰ اس فرمان کو پڑھ کر مسکرائے وہ اٹھے اور انہوں نے کہا بیٹی راحیل میرے ساتھ آو-"
راحیل بھی اٹھ کھڑی ہوئی دونوں چل کر صحن میں آئے.
موسیٰ نے وہاں فرش کرا کے تمام مسلمانوں اور فوجی افسروں کو بلوا لیا.
جب سب آ گئے تو انہوں نے طارق کو طلب کیا جس وقت طارق وہاں آ گئے تو انہوں نے کھڑے ہو کر کہا -
مسلمانو میں نے طارق کو اس لئے قید کیا تھا کہ میرے خیال میں انہیں فقط فتح کے جوش میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا.
کیونکہ ممکن تھا کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچ جاتا.
حاشا اس میں میرے نفس یا حسد کا کوئی دخل نہیں تھا -
آج خلیفہ المسلمین کا فرمان آیا ہے میں سناتا ہوں. انہوں نے فرمان پڑهہ کر سنایا سنانے کے بعد طارق سے معافی مانگی.
اور کہا فاتح اعظم میں تم سے معافی چاہتا ہوں اللہ کے لئے مجھے معاف کر دیں.
اب دونوں اٹهہ کر بغلگیر ہو گئے اور سب نے طارق کو وائسرائے بننے کی مبارک باد دی.
طارق کو قید کر دئیے جانے کی وجہ سے جس قدر لوگوں کو
موسیٰ نے انہیں محل میں ایک کمرہ میں قید کیا تھا جب وہ رہا ہوئے تو اسی کمرے میں رہنے لگے.
ان کی تقدیر نے انہیں کچھ نہ کچھ بنا دیا تھا. وہ بربر کے رہنے والے تھے -
موسیٰ نے اس ملک پر لشکر کشی کی وہ اپنے ملک کی حمایت میں مسلمانوں سے نہایت بہادری اور بڑی دلیری سے لڑے لیکن گرفتار ہو گئے اور موسیٰ کے پاس بطور غلام کے رہنے لگے.
کچھ عرصہ کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور موسیٰ نے ان کو آزاد کر کے فوج میں افسر بنا دیا.
چونکہ وہ ہونہار اور ہوشیار تهے اس لیے ترقی کرتے کرتے طانجہ کے گورنر ہو گئے -
جب اندلس کی مہم در پیش ہوئی تو موسیٰ نے انہیں اس مہم پر روانہ کیا اور انہوں نے خداداد ذہانت کی بدولت اندلس کو فتح کر لیا-"
مگر اللہ کو آزمائش منظور تھی لہذا موسیٰ نے انہیں قید کر دیا طارق اگر معمولی ظرف کا مالک ہوتا تو مسلمانوں سے ناراض ہو کر مرتد ہو جاتا مگر وہ سچے مسلمان تھے نہ وہ کسی سے خفا ہوئے اور نہ ہی اللہ سے کوئی شکایت کی بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا.
چنانچہ اللہ نے انہیں اندلس کا وائسرائے بنا دیا.
وہ عصر کی نماز پڑھ کر آئے اور کمرے کے باہر فرش پر بیٹھ گئے ابهی ان کو بیٹھے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ راحیل آ گئی وہ اس وقت بیش قیمت پوشاک پہنے ہوئے تھی مسکراتی ہوئی اس کے قریب بیٹھ گئی.
اندلس کے حاکم کو ہمارا سلام-"
طارق نے چونک کر اسے دیکھا اس کا چہرہ خوشی کے احساس سے دمک رہا تھا آنکھوں میں چمک اور لبوں پر تبسم تھا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی.
آو میری محسنہ بیٹھ جاو.
راحیل محسنہ یہ کیا کہہ دیا آپ نے مجھے؟
راحیل ایک تو تهی ہی خوبصورت دوسرا قیمتی لباس اور زیورات پہنے ہوئے اور تیسرا کپڑوں پر خوشبو لگا رکهی تهی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہے.
طارق اس حور کو دیکھنے میں اس قدر محو تهے کہ انہوں نے سنا ہی نہیں کہ اس رشک قمر نے کیا کہا ہے؟ "
راحیل نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد بولی کیا دیکھ رہے ہیں.
طارق چونک گئے اور کہا اللہ کی قدرت کا کرشمہ.
راحیل شوخی سے مسکرا دی اور ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگی مگر یہاں کون سا کرشمہ ہے؟ ".
طارق شاید میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے تم جیسی قمر رخسار سامنے ہو تو ہوش کہاں رہتی ہے.
راحیل شرما گئی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں فرط حیا سے جھک گئیں.
اس کا سر جھک گیا اور وہ فرش کو دیکھنے لگی. شرم و حیا نے اس کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا.
طارق نے کہا بے مثال حسینہ میں تمہارا مشکور ہوں! "
راحیل کو پهر شوخی سوجھ گئی اٹهلاتے ہوئے بولی کیوں؟ "
اس لئے کہ قید کے وقت تم نے مجھ سے ہمدردی کی راحیل بے ساختہ بولی ہمدردی؟ ہمدردی کیسی"-
طارق نے کہا ہاں کیوں کی تم نے میرے ساتھ ہمدردی.
راحیل انسانیت کے ناطے.
طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا صرف انسانیت کے ناطے؟ "
راحیل : اور کیا سمجھا آپ نے.
طارق : میں نے سمجھا آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہے.
راحیل : چونک کر محبت__؟"
طارق : محبت بهری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہاں مگر افسوس میرا خیال غلط تھا .
راحیل : آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ "
طارق : ہاں میں اقرار کرتا ہوں-
راحیل : یہ محبت باقی رہے گی؟
طارق ان شاءالله.
راحیل : آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں؟
طارق اس قابل؟
تمہاری اولین نگاہ نے میرے رگ رگ میں تمہاری محبت پیدا کر دی ہے.
راحیل کا چہرہ مسرت سے جگمگا اٹھا. اور اس نے کہا خداوند کریم کا شکر ہے.
طارق : کس چیز کے لیے
راحیل اس بات پر کہ آپ ایک یہود لڑکی سے محبت کرتے ہیں
طارق کیا تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہوں؟
راحیل جی ہاں.
اس کا سر پهر جھک گیا اور وہ شرم سے پسینہ پسینہ ہو گئی.
طارق کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ آواز سی آئی انہوں نے نگاہ اٹها کر دیکھا.
انہیں نائلہ اور بلقیس آتی ہوئی نظر آئیں.
غالباً قارئین کو یاد ہو گا کہ نائلہ موسیٰ کے ساتھ اور بلقیس اسمٰعیل اور مغیث الرومی کے ہمراہ آئی تهیں اور طلیطلہ میں موجود تهیں راحیل انہیں خوب جانتی تھی لیکن طارق نے ان کو پہلے نہیں دیکھا تھا.
نائلہ نے طارق کے سامنے بیٹھ کر کہا میں آپ کو رہائی کی مبارکباد پیش کرتی ہوں.
بلقیس نے قدرے شوخی سے کہا اور میں بھی.
طارق نے دونوں کا شکریہ ادا کیا.
طارق نے خلیفہ سمیت تمام مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس روز سے وہ بھی امید اندلس مشہور ہو گئے تھے -
طارق کی قید اور رہائی پر تفصیلا اس لیے روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ دوسروں کو پتہ چل سکے کہ طارق کی قید میں موسیٰ کی کوئی بری نیت یا حسد نہیں تها.
اب راحیل نے طارق کی ایک ادا سے سر اٹھا کر دیکھا اور کہا میں ان دونوں کا تعارف کرواتی ہوں.
: یہ اندلس کی ملکہ نائلہ شاہ رازرق کی بیوی ہے اور یہ قرطبہ کے مشہور تاجر امامن کی بیٹی بلقیس ہے.
طارق میں سمجھ گیا یہ خوش نما طوق والی حسینہ.
راحیل ہاں ساری دنیا میں یہ اسی نام سے مشہور ہے.
طارق اور یہ وہ ہیں جن کی رہائی کے لیے اسمٰعیل گئے تھے.
جی ہاں یہ وہی ہے اور پھر وہی قید ہو گئے تھے.
طارق انہوں نے اسمٰعیل کو کہا چھوڑا.
بلقیس وہ طلیطلہ میں موجود ہیں.
طارق نے کہا آپ طلیطلہ کیسے پہنچ گئیں بلقیس نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شرما کر سر جھکا لیا. نائلہ نے کہا اسمٰعیل کی محبت انہیں یہاں کھینچ لائی ہے.
طارق نے قدرے متبسم ہو کر کہا. خوب سنا تھا آپ مریڈا چلی گئی ہیں تو یہاں کیسے؟
اب شرمانے کی باری نائلہ کی تهی بلقیس نے جلدی سے کہا اسے عبدالعزیز کی الفت یہاں لائی ہے.
طارق تو یہی کہئے کہ. ..
راحیل نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا بس خاموش رہیں ورنہ یہ دونوں ہمیں زچ کر دیں گی.
نائلہ نے ہنستے ہوئے کہا-
خوب تم اندلس کے وائسرائے پر حکومت کرنا شروع کر چکی ہو.
راحیل نے طارق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سن لیا آپ نے؟ "
بلقیس نے ہنس کر کہا کیا یہ اونچا سنتے ہیں!
اب آفتاب غروب ہو گیا تھا اور مغرب کی اذان ہونے لگی تھی طارق نے اٹھتے ہوئے کہا - "
اذان ہو رہی ہے میں نماز پڑھ آؤں.
نائلہ بہتر ہے -
طارق مہربانی کر کے راحیل کو پریشان نہ کرنا.
نائلہ اور بلقیس دونوں بے ساختہ ہنس پڑیں.
اللہ اللہ کس قدر خیال ہے آپ کا اس کو.
طارق مسکراتے ہوئے چلے گئے اور یہ تینوں باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں____فریبی عیسائی____________
فریبی عیسائی_____عبدالعزیز اسونیا کا انتظام کر کے عربی سرفروشوں کو ہمراہ لے کر طلیطلہ کی جانب روانہ ہوئے-
اسونیا صوبہ مرشیا میں واقع تھا -
وہ اس صوبے پر عمل اور دخل کرتے بڑھنے لگے، جس بستی جس شہر سے گزرے لوگوں نے ان کی اطاعت کی اس طرح اسلامی قلمرو وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی.
عبدالعزیز زرا تیزی سے طلیطلہ کی جانب بڑھے چلے جا رہے تھے -
وہ اس وقت پہاڑی دروں اور گھاٹیوں کو طے کر رہے تھے -
ایک روز جب کہ وہ ایک درہ سے نکلے تو انہوں نے چند عیسائی سواروں کو دیکھا جو ایک چٹان پر کھڑے تھے جونہی ان سواروں نے مسلمانوں کو دیکھا وہ ڈر کر بھاگ گئے-
عبدالعزیز نے چند شیران اسلام کو ان کے پیچھے بهیج دیا یہ چٹان پر چڑھ کر دور تک ان کے پیچھے بھاگتے چلے گئے مگر ان کا پتہ نہ چلا وہ کسی چٹان یا میں ایسے چھپے کہ باوجود کوشش کے ان کا سراغ نہ ملا.
آخر مسلمان واپس لوٹ آئے اور عبد العزیز کو ساری بات بتائی جسے سن کر عبد العزیز نے کہا لگتا ہے ان پہاڑوں میں عیسائیوں کا کوئی لشکر چھپا ہوا ہے اس لیے ہمیں احتیاط کرنی چاہئے تمام مسلمان اپنی حفاظت کا خیال رکھیں.
مسلمان ہوشیار ہو گئے اور نہایت احتیاط سے حفاظت کرنے لگے -
شام کے وقت انہیں ایک عیسائی نظر آیا مسلمانوں نے اسے پکڑ کر عبد العزیز کے حوالے کر دیا.
عبد العزیز نے ایک مترجم کے ذریعے اس سے گفتگو کی.
عبدالعزیز: تم کون ہو؟
عیسائی:ایک عیسائی.
عبدالعزیز: کہاں رہتے ہو؟
عیسائی: شہر اوڑ بولا میں
عبدالعزیز: وہ شہر یہاں سے کتنی دور ہے؟
عیسائی قریب ہی ہے.
عبدالعزیز قلعہ کا حاکم کون ہے؟
عیسائی :تدمیر
عبدالعزیز کو معلوم ہو چکا تھا کہ طارق کی سب سے پہلی لڑائی تدمیر سے ہوئی تھی اور وہ یہ کہ وہ اسمٰعیل کو گرفتار کر کے لے گیا تھا انہوں نے دریافت کیا ۔
کیا تدمیر قلعہ میں ہے؟عیسائی جی نہیں
عبدالعزیز اور کہاں ہے؟
عیسائی اسی پہاڑ پر ہے.
عبدالعزیز شاید لشکر بھی اس کے ساتھ ہے.
عیسائی جی ہاں!
عبد العزیز کیا اس کا ارادہ ہم سے لڑنے کا ہے؟
عیسائی وہ سامنے آ کر لڑنا نہیں چاہتا.
عبدالعزیز اور کیا ؟
وہ چاہتا ہے کہ یا تو آپ کے لشکر کو پہاڑوں اور گھاٹیوں دروں میں الجھا کر اچانک حملہ کر دے. ......
عبدالعزیز نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا یا پھر شب خون مارے؟
عیسائی جی ہاں!
عبد العزیز خوب اس کے ساتھ لشکر کتنا ہے؟
عیسائی تین چار ہزار کے قریب ہے-
عبدالعزیز شاید وہ ہمارے لشکر کے کہیں قریب ہی چھپا ہوا ہے؟
عیسائی جی بلکہ وہ آپ کے لشکر کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے.
عبدالعزیز میں تمہارا بہت مشکور ہوں کہ تم نے مجھے ان باتوں سے آگاہ کیا.
عیسائی کیا حضور آپ مجھے امان دیتے ہیں؟
عبد العزیز جی ہاں دیتا ہوں پناہ تمہیں اور تمہارے عزیز و اقارب کو بھی.
عیسائی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اس صلہ رحمی پر.
عبدالعزیز تم کیا چاہتے ہو؟
عیسائی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس راستے پر آپ جا رہے ہیں یہ بہت خطرناک ہے.
عبدالعزیز کیا خطرہ ہے اس میں.
عیسائی یہ راستہ تنگ چٹانوں میں سے گزرے گا جس کے دونوں طرف اونچی چٹانیں ہیں -
عبدالعزیز چٹانیں ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟
عیسائی تدمیر اپنا لشکر لے کر چٹان پر چڑھ جائے گا اور بھاری پتھر گرا گرا کر آپ کے لشکر کو کچل ڈالے گا -
عبدالعزیز تو کیا اس کے علاوہ بھی کوئی راستہ ہے؟
عیسائی جی ہاں!
عبد العزیز تم جانتے ہو؟
عیسائی جی ہاں مجھے معلوم ہے.
عبدالعزیز اچھا تو مہربانی کر کے مجھے اس راستے پر لے چلو.
عیسائی آئیے.
عیسائی آگے چلا اور عبد العزیز تمام لشکر کے ساتھ اس کے پیچھے.
یہ پہاڑ جس پر وہ چل رہے تھے نہایت دشوار گزار تها -
درے تنگ اور راستے نا ہموار تهے ایک وہ راستہ جس پر اسلامی لشکر چلتا رہا تھا قدرے کشادہ تھا اور ایک یہ راستہ جس پر لشکر اب روانہ ہوا تھا تنگ ہوتا جاتا تھا اور اس قدر نا ہموار کہ اس سے گھوڑوں کا گزرنا ممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا پھر بھی یہ بہادر جوان بڑھتے چلے جا رہے تھے -
عبدالعزیز کا خیال تھا کہ آگے جا کر راستہ ہموار ہو جائے گا مگر جوں جوں آگے بڑھتے رہے راستہ مزید تنگ اور ناقابل سفر ہوتا گیا یہ دیکھ کر عبد العزیز کو شک ہوا انہوں نے عیسائی سے کہا-
یہ راستہ تو انتہائی دشوار گزار اور تنگ ہوتا جاتا ہے ۔
عیسائی کچھ دور چلنے کے بعد کشادہ درہ آ جائے گا -
عبدالعزیز اچھا میں چند سواروں کو بهیج کر دیکھ لوں تاکہ. .......
عیسائی نے قطع کلامی کرتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں ہے
ضرورت ہے عبد العزیز نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ مجھے تم پر شک ہو گیا ہے.
عیسائی زرد پڑ گیا عبد العزیز اس کی حالت سے اور بھی کھٹک گئے-
انہوں نے کہا - "
تمہاری صورت دیکھ کر اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم ہمیں دھوکہ دے کر اس طرف لائے ہو سنو اگر حقیقت میں تم نے ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے تو تمہارا آخری وقت بھی قریب آ گیا ہے اور تم خود ہی اپنے مکر کے جال میں پھنس گئے ہو.
عیسائی لرز گیا-
مگر فوراً ہی سنبھالا اور اس نے اپنے خوف کو چالاکی کے پردہ میں چھپا کر کہا - "
اطمینان رکھئے ایسا کچھ نہیں ہے میں آپ کو دھوکہ نہیں دے رہا-
عبدالعزیز اچھا میں اپنا اطمینان کر لوں!
عیسائی اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے -
عبدالعزیز مگر یہ میرا فرض ہے-
میں اب اپنے لشکر کو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑهاوں گا -
اور چند سواروں کو حکم دیا کہ آگے جا کر راستہ چیک کر کے آو.
جونہی سوار آگے بڑھے تو عیسائی نے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی. .
عبدالعزیز نے اسے فوراً حراست میں لے لیا جب مسلمانوں نے اسے حراست میں لے کر غضب آلود نگاہوں سے دیکھا تو وہ سہم گیا اسے اپنی موت قریب نظر آئی.
اس نے عاجزی کے لہجے میں کہا رحم شریف سپہ سالار رحم-"
عبد العزیز نے اسے گھورتے ہوئے کہا کیا تم اسے ماننے ہو کہ ہمیں دھوکہ دے رہے ہو؟
عیسائی جی ہاں میں اقرار کرتا ہوں آہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ عیسائی تدمیر نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں آپ لوگوں کو ورغلا کر ادھر لے آؤں تو وہ مجھے شہر اور بولا کا محافظ بنا دے گا.
یہ سن کر عبد العزیز کو بہت غصہ آیا اس نے کہا مکار عیسائیوں تم نے یہ نہ سوچا کہ مسلمانوں کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.
عیسائی یہی میری کم عقلی ہے میں اس کے لیے آپ سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں.
ابهی عبدالعزیز نے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ سوار واپس آ گئے جو راستہ دیکھنے گئے تھے انہوں نے کہا کہ راستہ انتہائی دشوار گزار اور اس کے اوپر عیسائی پهر رہے ہیں -
عیسائی نے کہا حضور میں ایک قریب کا راستہ جانتا ہوں جو پہاڑ کے دامن میں جا نکلتا ہے.
عبدالعزیز نے غصے سے گھورتے ہوئے کیا اب بھی ہم تمہارا اعتبار کریں گے -
عیسائی حضور میں اب کے سچ بول رہا ہوں فریب نہیں دے رہا.
عبدالعزیز اچھا چلو!
عیسائی مسلمانوں کو لے کر چٹان پر چڑھ گیا یہ چٹان اگرچہ انتہائی بلند تهی لیکن اس پر دھاری دار ڈھال تهی جس سے انسانی سے چڑھا جا سکتا تھا!
چنانچہ تمام لشکر چٹان پر چڑھ گیا اس کے دوسری طرف انہوں نے عیسائی لشکر کو پہاڑ پر بکھرے ہوئے دیکھا-
عیسائی مسلمانوں کو دیکھتے ہی نہایت پهرتی سے دوڑ کر پتهروں اور چٹانوں کے پیچھے غائب ہو گئے -
اب یہ لوگ دوسری طرف اترے اور کھلے میدان میں جا پہنچے.
کچھ دور چل کر دن چھپ گیا مسلمانوں نے مغرب کی نماز پڑهی اور خیمے نصب کر کے کهانا تیار کرنے لگے عشاء کی نماز پڑھ کر انہوں نے کهانا کهانا اور کچھ مسلمانوں کو پہرے پر مقرر کر کے اللہ جانے کتنی دیر سوتے رہے کہ دفعتاً انہوں نے آوازیں سنیں__
النفیر النفیر یا انصار
یعنی اے دین کے مدد گاروں چلو چلو! !!
_____ایک اور فتح_______
_________
ایک اور فتح____اس وقت صبح صادق ہو گئ تھی -
آج بادلوں کے غول آسمان پر تیر رہے تھے اور ہوا بھی زرا تیز چل رہی تھی -
کالی گھٹا کی وجہ سے اندھیرا زیادہ پھیلا ہوا تھا -
مسلمانوں نے فوراً سوار ہونا شروع کر دیا، جس وقت مسلمان گھوڑوں پر سوار ہوئے انہوں نے گھوڑوں کے سموں کی آواز سنی جو مسلمان پہرے پر تهے وہ عبدالعزیز کے پاس آئے اور کہا کہ عیسائی آ گئے ہیں، اور یہ معلوم نہیں کہ کتنے ہیں-"
عبدالعزیز نے کہا اللہ پر نظر رکھو وہی مدد کرے گا! "
گھوڑوں کے سموں کی آوازیں قریب تر آتی جا رہی تھیں _
ہوا لہک رہی تھی اور تیز جھونکوں کی وجہ سے مسلمان عباؤں کے چوڑے چوڑے دامن اور عماموں کے پلے لہرا رہے تھے -
بادلوں کے دل کے دل امڈے چلے آ رہے تھے -
کبھی کبھی بجلی بھی چمک جاتی تھی - اب مسلمانوں نے بھی آواز کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا -
ابهی تهوڑی ہی دور بڑھے تھے کہ عیسائیوں کا لشکر سامنے آ گیا-"
سب سے آگے تدمیر تھا اس نے لشکر کو حملہ کرنے کا اشارہ کیا-
عیسائیوں نے تلواریں نکال لیں.
مسلمانوں نے بھی شمشیریں کھینچ لیں اور دونوں لشکر جوش و غضب سے بهر کر بڑھے اور ایک دوسرے سے ٹکرا گئے.
نہایت زور کی ٹکر شروع ہوئی، تلواریں تڑپ کر اٹھیں اور انسانی زندگیوں کا خاتمہ کرنے لگیں.
جنگ شروع ہو گئی-
خاموش فضا گونج اٹھی-
شور و غل بلند ہونے لگا مار ڈهاڑ ہونے لگی-
سر کٹ کٹ کر تن سے جدا ہونے لگے.
چونکہ اب آفتاب نکلنے کے قریب تها اس لئے کچھ اجالا پھیل گیا تھا اور لڑنے والے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے -
عیسائیوں کا لشکر بہت زیادہ تھا اور مسلمان صرف پونے دو ہزار کے قریب اور عیسائی چار ہزار سے بھی زیادہ تهے -
وہ مسلمانوں کو کم سمجھ کر انہیں ختم کرنے کی طمع کرنے لگے تھے -
اور اسی وجہ سے وہ نہایت جوش میں آ آ کر حملے کر رہے تھے -
مسلمان بھی غیظ و غضب سے ہوئے جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے ان کے حملوں کی شان یہ بتا رہی تھی کہ وہ عیسائیوں کی کوئی ہستی ہی نہیں سمجھتے تھے اور اس فکر میں تهے کہ جلد از جلد ان کا خاتمہ کر کے میدان کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیں.
چونکہ فریقین جوش و خروش میں بھرے ہوئے تھے اس لیے نہایت خون ریز جنگ کر رہے تھے -
تلواریں اپنا کام کر رہی تھیں متخاصمین کٹ کٹ کر گر رہے تھے موت روحیں قبض کرتی پهر رہی تھی -
سر گیندوں کی طرح اچھل اچھل کر گر رہے تھے اور جو عضو کٹ کر گرتا تھا گھوڑے اسے روند کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے -
لڑائی کی آگ برابر پھیل رہی تھی تمام صفیں درہم برہم ہو گئیں مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائیوں مسلمانوں میں گھس گئے اور جو جہاں پہنچ گیا وہیں پر لڑنے لگا.
جہاں تک نظر جاتی تلواروں کا کھیت نظر آ رہا تھا خون میں ڈوبی ہوئی تلواریں جلد جلد اٹهہ رہیں تھی -
عیسائی مسلمانوں کو اور مسلمان عیسائیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے -
ہر عیسائی بڑے جوش و خروش سے لڑ رہا تھا ایسی بہادری سے کہ اب تک کہ اندلس کے کسی عیسائی نے ایسی بہادری نہیں دکھائی تھی -
انہوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھ لئے اور جان دینے اور لینے کی کوشش کرنے لگے -
نہایت خون ریز جنگ ہو رہی تھی خون کے فوارے ابل رہے تھے اگرچہ عیسائی شور مچانے کے عادی تھے مگر خاموشی سے لڑ رہے تھے البتہ کبھی کبھی قومی نعرے بھی لگاتے.
زخمی چلا رہے تھے اور مرنے والے درد ناک آہیں بھر بهر کے مر رہے تھے -
ان کی فضا گونج رہی تھی -
اس وقت ہوا اور بھی تیز ہو گئی تھی اور سیاہ بادل امڈے چلے آ رہے تھے -
تدمیر پہاڑ عیسائیوں کو لے کر آیا تھا.
یہ لوگ میدانی علاقوں کے عیسائیوں کی طرح آرام طلب اور تن پرور نہ تهے بلکہ بڑی نہایت جفاکش اور مستعد تهے -
یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کا مقابلہ ہی کر رہے تھے بلکہ بڑی دلیری اور جواں مردی سے لڑ رہے تھے -
اگرچہ وہ قتل ہو رہے تھے مگر مسلمانوں کو بھی شہید کر رہے تھے.
مسلمانوں کا خیال تھا کہ عام عیسائیوں کی طرح وہ ان کا خاتمہ بھی جلد ہی کر دیں گے پر ان کو لڑتے دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہے تھے -
عبدالعزیز ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں ڈھال لیے علم کو بازو کے نیچے دبائے نہایت پهرتی بڑی دلیری اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے -
ان کی تلوار غضب کی کاٹ کر رہی تھی جس ڈھال پر پڑتی تھی اسے پھاڑ ڈالتی تهی جس کے زرہ بکتر پر گرتی اسے کاٹ دیتی تھی -
عبدالعزیز کا خیال تھا کہ تمام مسلمان اسی کے جیسے جوش و خروش سے لڑ رہے ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو کچھ زیادہ جوش و خروش سے لڑتے نہ پایا تو بلند آواز میں کہا -
مسلمانو! !یہ کیا دون ہمتی ہے؟
کیوں جوش و غضب سے بهر کر حملہ نہیں کر رہے؟ ؟
کیوں جنگ کو طول دے رہے ہو؟
بڑهو غضب ناک ہو کر اور انہیں ختم کر دو.
یہ مختصر سی تقریر کر کے انہوں نے اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگایا اور پورے جوش سے حملہ کر دیا -
ہر مسلمان غضب ناک شیر کی طرح عیسائیوں پر جا گرا-
چونکہ مسلمانوں کا یہ حملہ نہایت ہی سخت ہوا اور عیسائیوں کی کثیر تعداد لقمہ اجل بن گئی.
اب عیسائیوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہو گیا اور وہ اپنی جان بچانے کی فکر میں لگ گئے.
عبدالعزیز نے پهر کہا! !!!!
مسلمانو!
صرف ایک اور حملہ آور دشمن کا خاتمہ ہو جائے گا.
دلیرو آگے بڑهو اور صرف ایک ہی حملہ میں ان کا کام تمام کر دو-"
مسلمانوں نے پهر سنبھل کر پورے جوش سے حملہ کر دیا پھر ان کی تلواریں بلند ہوئیں اور پھر سروں کو تن سے جدا کرنے کے لیے عیسائیوں کے سروں پر جھکیں. .
عیسائی بھی ڈٹ گئے اور انہوں نے حملہ اپنی ڈھالوں پر روکا مگر بہت ساری ڈھالیں کٹ گئیں اور ان کے سر اڑ گئے اور بہت سے شدید طور پر مجروح ہو کر گر پڑے اور ایسے گرے کہ اٹھنا نصیب نہ ہوا-
بہت سارے عیسائی بچنے کے لیے گھوڑوں سے نیچے کود گئے اور گھوڑوں کے سموں نے انہیں کچل ڈالا-
عیسائی گھبرا گئے تھے -
اس قدر کہ اب ان میں لڑنے کی سکت باقی نہ رہی انہیں ان ہر طرف موت نظر آنے لگی مگر اب بھی ان کا سردار لڑ رہا تھا اس لیے وہ بھی جوں توں کھڑے حملے روک رہے تھے -
مسلمانوں نے تقریباً تین ہزار عیسائیوں کو مار ڈالا تھا اور ان کی لاشیں جہاں تہاں پڑی دنیا کی بے ثباتی کا فسانہ زبان حال سے بیان کر رہی تهیں، چونکہ زمین سخت تهی اس لیے خون اس کے اندر جذب نہیں ہوتا تھااور زمین خون سے لا لہ زار بن گئی تھی -
مسلمانوں نے جوش میں آ کر ایک حملہ آور کیا یہ حملہ پہلے دونوں حملوں سے زیادہ سخت تها -
ایسا سخت کہ عیسائی ککڑی کی طرح کٹ کٹ کر گر نے لگے.
ان کی لاشوں کے انبار لگ گئے اور خون کے پرنالے بہنے لگے-
مسلمانوں نے گویا تہیہ کر لیا تھا کہ ایک ایک عیسائی کو چن چن کر مار ڈالیں گے.
آخر نوبت یہاں تک آ گئی کہ صرف دو سو عیسائی باقی رہ گئے اور وہ بھی سر پر پاوں رکهہ کر بے تحاشا بھاگے اور تدمیر بهی بھاگا-
مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور دو سو میں سے سو کو مار ڈالا.
اب بچے کهیچے عیسائی پہاڑ پر چڑھ گئے اور چٹانوں پر چڑھ کر دروں میں گھس کر غائب ہو گئے -
مسلمان واپس آ گئے کچھ مردہ عیسائیوں کے گھوڑوں کو پکڑنے لگے اور کچھ ہتھیار جمع کرنے لگے -
یہ میدان جہاں یہ جنگ ہوئی" لوکترا" کے نام سے مشہور تھا -
یہ میدان انتہائی خون ریز جنگ ہو نے کی وجہ سے تاریخی میدان ہو گیا اور آج تک تاریخوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے-
مسلمانوں نے بہت جلد تمام گھوڑے پکڑ لئے وہی عیسائی جس نے انہیں دھوکہ دے کر تنگ درے میں لے جانے کی کوشش کی تھی رہبر ثابت ہوا-
وہ چند پیچیدہ چٹانوں کے درمیان سے نکال کر انہیں قلعہ اوڑھ بولا کہ سامنے لے گیا.
عبدالعزیز کو معلوم ہو چکا تھا کہ تدمیر قلعہ کے اندر داخل ہو گیا ہے اور اس نے مقابلہ کی تیاری شروع کر دی ہے سو انہوں نے جاتے ہی قلعہ کا محاصرہ کر لیا مگر صرف اس خیال سے کہ شاید مسلمان صبح کی لڑائی سے تهک گئے ہوں گے اس روز جنگ ملتوی کر دی اور مسلمان قلعہ کے چاروں طرف خیمے نصب کر کے آرام کرنے لگے -_____تدمیر کی چالاکی_____
No comments:
Post a Comment