Namaj Ham Sab Ko kaise Padhni Chahiye?
Namaj Me uthne Ka Masnoon Tarika?
Namaj Me jalsa Kise kahte hai hai aur yah Kaise kiya jata hai?
نماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ
تحریر: شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظه الله
سنت طریقہ ہی کیوں؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَأَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} (البقرۃ 2 : 43)
’’نماز قائم کرو۔‘‘
یہ ایک اجمالی حکم ہے۔ اس کی تفصیل کیا ہے؟ نماز کس طرح قائم ہو گی؟ اس اجمال کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ گرامی میں موجود ہے :
’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي‘ ۔
’’نماز ایسے پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 88/1، ح : 631)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ لَا یُعْبَدُ إِلَّا بِمَا شَرَعَہٗ عَلٰی أَلْسِنَۃِ رُسُلِہٖ، فَإِنَّ الْعِبَادَۃَ حَقُّہٗ عَلٰی عِبَادِہٖ، وَحَقُّہٗ الَّذِي أَحَقَّہٗ ہُوَ، وَرَضِيَ بِہٖ، وَشَرَعَہٗ ۔
’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔ عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے، جو اس نے خود مقرر کیا ہو، اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔‘‘
(إعلام الموقّعین عن ربّ العالمین : 344/1)
معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی، جب اسے سنت طریقے سے سر انجام دیا جائے۔ سنت کا علم صرف ــ’’صحیح‘‘حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہالت اور عناد کی بنا پر ’’صحیحــ‘‘ احادیث کو چھوڑ کر ’’ضعیف‘‘ روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔
چونکہ نماز بھی ایک عبادت، بلکہ ایسا ستون ہے، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد کیسے اٹھیں؟
نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے۔اس جلسہ کے بعد اور درمیانے تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔
اس اٹھنے کا سنت طریقہ جاننا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؛
دلیل نمبر 1 : مشہور تابعی، امام، ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
عَنْ أَبِي قِلَابَۃَ، قَالَ : جَائَ نَا مَالِکُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ، فَصَلّٰی بِنَا فِي مَسْجِدِنَا ہٰذَا، فَقَالَ : إِنِّي لَـأُصَلِّي بِکُمْ، وَمَا أُرِیدُ الصَّلاَۃَ، وَلٰکِنْ أُرِیدُ أَنْ أُرِیَکُمْ کَیْفَ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّي، قَالَ أَیُّوبُ : فَقُلْتُ لِأَبِي قِلاَبَۃَ : وَکَیْفَ کَانَتْ صَلاَتُہٗ؟ قَالَ : مِثْلَ صَلاَۃِ شَیْخِنَا ہٰذَا ــــیَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلِمَۃَــــ قَالَ أَیُّوبُ : وَکَانَ ذٰلِکَ الشَّیْخُ یُتِمُّ التَّکْبِیرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ عَنِ السَّجْدَۃِ الثَّانِیَۃِ جَلَسَ وَاعْتَمَدَ عَلَی الْـأَرْضِ، ثُمَّ قَامَ ۔
’’ابو قلابہ (تابعی) نے بتایا :ہمارے پاس سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تشریف لائے ،ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : میں تمہارے سامنے نماز پڑھنے لگا ہوں، حالانکہ نماز پڑھنا میرا مقصد نہیں۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی نماز کیسی تھی؟ انہوں نے بتایا: ہمارے شیخ عمر و بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے، تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹِک جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 824)
امام محمد بن ادریس،شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ)فرماتے ہیں :
وَبِہٰذَا نَأْخُذُ، فَنَأْمُرُ مَنْ قَامَ مِنْ سُجُودٍ، أَوْ جُلُوسٍ فِي الصَّلَاۃِ أَنْ یَّعْتَمِدَ عَلَی الْـأَرْضِ بِیَدَیْہِ مَعًا، اتِّبَاعًا لِّلسُّنَّۃِ، فَإِنَّ ذٰلِکَ أَشْبَہُ لِلتَّوَاضُعِ، وَأَعْوَنُ لِلْمُصَلِّي عَلَی الصَّلَاۃِ، وَأَحْرٰی أَنْ لَّا یَنْقَلِبَ، وَلَا یَکَادُ یَنْقَلِبُ، وَأَيُّ قِیَامٍ قَامَہٗ سِوٰی ہٰذَا کَرِہْتُہٗ لَہٗ ۔
’’ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے) اٹھے،اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تَر ہے، نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔‘‘
(کتاب الأمّ : 101/1)
اس حدیث پر سید الفقہائ، امیر المومنین فی الحدیث، امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (256-194ھ) نے یہ باب قائم فرمایا ہے :
بَابٌ ؛ کَیْفَ یَعْتَمِدُ عَلَی الْـأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَۃِ ۔
’’اس بات کا بیان کہ نمازی (پہلی اور تیسری) رکعت سے اٹھتے ہوئے زمین کا سہارا کیسے لے گا۔‘‘
شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ (852-773ھ) امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَالْغَرَضُ مِنْہُ ہُنَا ذِکْرُ الِاعْتِمَادِ عَلَی الْـأَرْضِ عِنْدَ الْقِیَامِ مِنَ السُّجُودِ أَوِ الْجُلُوسِ ۔
’’امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ سجدے اور تشہد سے اٹھتے ہوئے ہاتھوں کو زمین پر ٹیکنا چاہیے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 303/2)
دلیل نمبر 2 : ازرق بن قیس تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یَنْہَضُ فِي الصَّلَاۃِ، وَیَعْتَمِدُ عَلٰی یَدَیْہِ ۔
’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز میں اٹھتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 394/1، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 3 : خالد بن مہران حذا بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ أَبَا قِلَابَۃَ وَالْحَسَنَ یَعْتَمِدَانِ عَلٰی أَیْدِیَہُمَا فِي الصَّلَاۃِ ۔
’’میں نے ابو قلابہ اور حسن بصری کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت)اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 395/1، وسندہٗ صحیحٌ إن صحّ سماع عبادۃ بن العوّام من خالد)
گھٹنوں کے بل اٹھنے کا طریقہ !
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں دو سجدوں اور تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے گھٹنوں کے بل اٹھنا چاہیے۔آئیے اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں؛
روایت نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلٰی یَدَیْہِ إِذَا نَہَضَ فِي الصَّلَاۃِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 147/2، سنن أبي داوٗد : 992)
تبصرہ :
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ’’شاذ‘‘ہے۔ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں محمد بن عبد الملک غزال کو غلطی لگی ہے۔ اس نے کئی ثقہ و اوثق راویوں کی مخالفت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔
اسی لیے حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘اور ’’شاذ‘‘قرار دیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَہٰذَا خَطَأٌ لِّمُخَالَفَتِہٖ سَائِرَ الرُّوَاۃِ، وَکَیْفَ یَکُونُ صَحِیحًا؟
’’یہ غلطی ہے، کیونکہ اس بیان میں محمد بن عبد الملک نے باقی تمام راویوں کی مخالفت کی ہے۔یہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
(معرفۃ السنن والآثار : 43/3)
اس بات پر کئی قوی شواہد موجود ہیں کہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک غزال کو وہم ہوا ہے،ملاحظہ فرمائیں ؛
1 امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے امام احمد بن حنبل،احمد بن محمد بن شبویہ، محمد بن رافع،محمد بن سہل عسکر،حسن بن مہدی اور احمد بن یوسف سلمی نے یہ روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے :
نَہَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاۃِ أَنْ یَّعْتَمِدَ عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے۔‘‘
2 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک حدیث یوں بیان کی ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی رَجُلًا، وَہُوَ جَالِسٌ، مُعْتَمِدًا عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی فِي الصَّلَاۃِ، وَقَالَ : ’إِنَّہَا صَلَاۃُ الْیَہُودِ‘ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگاکر بیٹھنے سے منع کیا اور فرمایا:یہ تو یہود کی نماز ہے۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 272/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 136/2، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری و مسلم۔کی شرط پر صحیح‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
3 نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رَاٰی عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلًا یُّصَلِّي، سَاقِطًا عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، مُتَّکِئًا عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی، فَقَالَ : لَا تُصَلِّ ہٰکَذَا، إِنَّمَا یَجْلِسُ ہٰکَذَا الَّذِینَ یُعَذَّبُونَ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائی ہوئی تھی۔انہوں نے اسے فرمایا : ایسے نماز نہ پڑھو۔اس طرح تو وہ لوگ بیٹھتے ہیں،جن کو سزا دی جا رہی ہو۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 136/2، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ان بیانات سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن عبد الملک نے مذکورہ روایت بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے،لہٰذا ثقہ و اوثق راویوں کی بیان کردہ صحیح حدیث ہی قابل عمل ہے،نہ کہ ایک راوی کا وہم۔
روایت نمبر 2 : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، وَإِذَا نَہَضَ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ ۔
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ جب سجدہ کرتے،تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور جب اٹھتے، تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 828، سنن النسائي : 1090، سنن الترمذي : 268، وصحّحہٗ، سنن ابن ماجہ : 883، وصحّحہ ابن خزیمۃ : 629، وابن حبّان : 1909)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں شریک بن عبد اللہ قاضی’’مدلس‘‘ راوی ہیں، انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔(السنن الکبرٰی : 100/2)
روایت نمبر 3 : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :
وَإِذَا نَہَضَ؛ نَہَضَ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَاعْتَمَدَ عَلٰی فَخِذَیْہِ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اٹھتے، تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں کا سہارا لیتے تھے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 736، 839)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے راوی عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
حَدِیثٌ ضَعِیفٌ، لِأَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ بْنَ وَائِلٍ؛ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ شَیئًا، وَلَمْ یُدْرِکْہُ ۔
’’یہ حدیث ضعیف ہے،کیونکہ محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کوئی بھی حدیث نہیں سنی،نہ ہی اس کی اپنے والد سے (سن شعور میں)ملاقات ہے۔‘‘
(المجموع شرح المہذّب : 446/3)
اس کی ایک متابعت بھی موجود ہے۔(سنن أبي داوٗد : 839، مراسیل أبي داوٗد : 42)
لیکن یہ روایت بھی دو وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے :
1 کلیب بن شہاب تابعی ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ ’’مرسل‘‘ہے اور ’’مرسل‘‘ روایت ’’ضعیف‘‘ہی کی ایک قسم ہے۔
2 شقیق،ابو لیث راوی ’’مجہول‘‘ہے۔
اسے امام طحاوی حنفی(شرح معانی الآثار : 255/1)،حافظ ذہبی(میزان الاعتدال : 279/2)اور حافظ ابن حجر(تقریب التہذیب : 2819) رحمہم اللہ نے ’’مجہول‘‘قرار دیا ہے۔
لہٰذا اس متابعت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
روایت نمبر 4 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِي الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوبَۃِ؛ إِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِي الرَّکْعَتَیْنَ الْـأُولَیَیْنِ، أَنْ لَّا یَعْتَمِدَ بِیَدَیْہِ عَلَی الْـأَرْضِ، إِلَّا أَنْ یَّکُونَ شَیْخًا کَبِیرًا لَّا یَسْتَطِیعُ ۔
’’یہ سنت طریقہ ہے کہ فرض نماز میں جب آدمی پہلی دو رکعتوں کے بعد اٹھے، تو زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے۔سوائے اس صورت کے کہ وہ بوڑھا ہواور اس طرح اٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 394/1، 395)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی عبد الرحمن بن اسحاق کوفی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 198، فتح الباري : 523/13)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
وَہُوَ ضَعِیفٌ بِالِاتِّفَاقِ ۔
’’اس راوی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 173/1)
یہ ’’منکر الحدیث‘‘راوی ہے،لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے۔
روایت نمبر 5 : ابراہیم بن یزید نخعی تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
إِنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ ذٰلِکَ إِلَّا أَنْ یَّکُونَ شَیْخًا کَبِیرًا أَوْ مَرِیضًا ۔
’’وہ بوڑھے یا مریض کے علاوہ ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 395/1)
تبصرہ :
اس قول کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ ہشیم بن بشیر واسطی ’’مدلس‘‘ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ویسے بھی یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح و صریح فرمانِ گرامی اور صحابی ٔ رسول ،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قیمتی عمل کے خلاف ہے،لہٰذا ناقابل التفات ہے ۔
الحاصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جلسہ استراحت یا تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر اٹھتے تھے۔صحابی ٔ رسول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔ پھر سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی اسے نبوی طریقہ قرار دیا ہے۔تابعین کرام نے ان سے یہ سنت سیکھ کر آگے منتقل کی۔سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوقلابہ رحمہ اللہ بھی اسی سنت کے قائل و فاعل تھے۔ائمہ حدیث نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہی سمجھا،سمجھایا ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment