Duniya me Koi kam chhota nahi hota bas kam karne ka tarika chhota hota hai.
Kabul ( Capital of Afghanistan ) ke ek Professor ki kahani unki Jubani.
Kabhi bhi kisi insan ko Zindagi ke utar chadhaw se nahi ghabrana chahiye.
Ek Gareeb PHD kiye hue aadami ki kahani jinhone Halat ke Samane hathiyar nahi dale.
کابل کے ایک پروفیسر کی کہانی ان کی زبانی
*پشتو سے ترجمہ*
،،،،،،،،#زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گھبرانا نہیں ہے#،،،،،...
پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا ، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی ،
واپس کابل آیا ، سوچ رہا تھا اتنا سارا پڑھ لیا ہے اب تو صدر کے بعد سب سے بڑی کرسی مجھے ملے گی !
کافی عرصہ نوکری کیلئے دفتروں کی خاک چھانی ، نوکری نہیں ملی ۔کچھ تو کرنا تھا اس لئے ایک کار سروس سٹیشن کھولا ، رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا مگر میں اپنے اپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہوجائے گا ۔سروس سٹیشن بہت خستہ حال تھا ۔شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا ، کابل کی یخ بستہ اور تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتیں اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے ۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی راحت محسوس ہوتی تھی ۔
آئے روز خوبصورت کاریں لاتے اور مجھ سے دھلاتے تھے اگرچہ میرے ساتھ اور بھی لوگ کام کرتے تھے مگر ان کی کاریں ہمیشہ میں خود صاف کرتا تھا ۔
سخت سردی کا موسم تھا ۔ کابل کی یخ بستہ ہوائیں جسم کے آر پار گزرتی تھیں۔ میں پلاسٹک والی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا ۔چچا زاد آئے گاڑی کھڑی کی اور صفائی کا کہا
گاڑی اندر سے پوری طرح گوبر ، گھاس سے بھری پڑی تھی ۔
خدا جانے مگر میرا گمان یہ تھا کہ یہ انھوں بےخود ہی جان بوجھ کے گندی کی ہے تاکہ میں صاف کروں اور وہ دیکھ کر سکون پائیں!
میرے ساتھ کام کرنے والے گاڑی کی طرف لپکے ، میں نے انھیں منع کیا،مطلب یہ تھا کہ اب چچا زاد بھائی ہے وہ تو صرف اس لئے آئے ہیں کہ مجھے صفائی کرتے ہوئے دیکھیں ۔ میں نے بھائی کو بٹھایا اور ان کیلئے چاہے کا آرڈر دیا ۔
اور خود گاڑی کو واش کرنے لگا ۔
کام بہت سخت تھا ، میری آنکھیں بھر آئیں ۔مگر کام کرتا رہا اور ان کی گندی گاڑی صاف کی ۔
چچا زاد بھائی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے باہر آئے اور کہا اچھی طرح صاف کرنا ! اگر سچ پوچھئے تو بہت ہی کھٹن حالت تھی مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کی امیدوں پر پانی پھیروں
کچھ دنوں بعد ۔۔۔۔۔میں نے
کار اچھی طرح دھوئی ، کار کا مالک کافی مضطرب تھا ، میں نے سوچا شائد گاڑی اچھی طرح صاف نہیں ہوئی ہے ، میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے اپ اتنے پریشان کیوں ؟ انھوں نے کہا میں طالب علم ہوں اور میرا امتحان ہے
عجیب بات یہ تھی کہ وہ معاشیات کا طالب علم تھا اور دوسری طرف میں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
میں نے پوچھا کس مضمون کا پرچہ ہے ؟
انھوں نے کہا “ اکاونٹنگ”
میں نے کہا تم سامنے اس روم میں جاؤ میں آتا ہوں
میں نے انھیں چھ ماہ کا سبق پندرہ منٹ میں سمجھا دیا !
کہا وہ گاڑی اپ نے دھوئی ؟
میں نے کہا ہاں جی ! زندگی ہے کام تو کرنا ہے نا !
میں نے انھیں اپنی پڑھائی کے بارے میں بتایا
وہ حیران تھا !
اب وہ ضد کرنے لگا کہ اپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا ، ہماری یونیورسٹی کے وی سی میرے دوست ہیں
میں ان سے بات کرتا ہوں وہ اپ کو ضرور نوکری دیں گے۔
میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو انھوں نے میرے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر استفسار کیا کوئی اور کپڑے نہیں ہے اپ کے پاس ؟
میں نے کہا نہیں ، مجھے پتہ ہے نوکری کسی نے دینی نہیں یہ تو بس اپ ضد کررہے ہیں اس لئے تمہارے ساتھ جانے لگا ہوں
گیلے کپڑے زیب تن کئے ہوئے میں وی سی آفس کے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا ۔آفس میں قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا مگر میرا دل نہیں کررہا تھا کہ اس پر بیٹھوں
وی سی مجھے مستری سمجھا ، میں نے ایک کپڑا لیا صوفے پر رکھا اور بیٹھ گیا ۔
طالب علم نے میری کہانی انھیں سنائی ۔ انھوں نے تمسخرانہ نظروں سے مجھے گھورا ۔
جان چھڑانے کی خاطر انھوں نے کہا تم ڈیمو کیلئے تیاری کرو ہم تمہیں کال کریں گے ۔
میں نے کہا میں ابھی بھی ڈیمو کیلئے تیار ہوں !
انھیں میرا یہ انداز اچھا نہیں لگا مگر پھر بھی انھوں نے فون اُٹھایا ، سب ٹیچرز کو اس کلاس روم میں بلاؤ ۔ کہو ڈیمو ہے !
انھوں نے مجھے ایک مارکر پکڑایا میں نے دو مارکر اور مانگے ۔
کلاس پوری طرح بھری تھی ۔میں نے سلام کیا ۔ میرے کپڑے دیکھ کر تمام طلبہ مسکرا رہے تھے ۔ حکم ہوا اپ ڈیمو شروع کریں
میں نے کہا کس موضوع پر لیکچر دوں ؟
کہا اپ کی مرضی !
میں نے معاشیات کے دس موضوعات بورڈ پر لکھے
میری خوبصورت لکھائی بورڈ پر کافی بھلی دکھائی دے رہی تھی ،۔
میں نے کہا اس میں کونسے موضوع پر بات کروں
انھوں نے دوسرے نمبر والا ٹاپک چنا
میں نے اس موضوع کو مزید کلاسفیائی کیا ۔پھر ان کی طرف دیکھ کر کہا اب ان میں کونسا موضوع ٹھیک رہے گا
پورا بورڈ بھر دیا ۔دو ساتھ جوڑے ہوئے بورڈ بھر گئے ۔
اچانک تالیاں بجنے لگیں ۔میں نے مڑ کے پیچھے دیکھا پوری کلاس کھڑی تھی اور تالیاں بجارہی تھی اور ان کے سامنے میں ، میلے کپڑوں میں کھڑا تھا ۔
وی سی نے کہا ! ہاں بھائی بتاؤ کتنی تنخوا لو گے ؟
اور مجھے نوکری مل گی
میں نے مشین کی طرح کام کیا ۔ماہ کے آخر میں مجھے یونیورسٹی بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ کے ساتھ اچھی خاصی تنخوا ملی ۔ سب سے زیادہ تنخوا اس یونیورسٹی میں پچاس ہزار افغانی تھی ۔ پر مجھے ایک لاکھ بیس ہزار پر رکھ لیا گیا ۔اس کے بعد امریکہ یونیورسٹی ، فنانس منسٹری ، بین الاقوامی کانفرنسوں اور دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے مواقع ملے ۔ میری سروس سٹیشن کا ایک سال کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور میں نے تیس ممالک دیکھ لیے ۔ میں آج بھی اپنے چچازادوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا ہوں
وہ بھی میرا بہت احترام کرتے ہیں اور نام کے ساتھ “صاحب” ضرور کہتے ہیں
میں خدا سے خوش ہوں ۔
زندگی کے سامنے کبھی ہتھیار مت ڈالیں ۔زندگی کے بہت سارے جہت ہیں ہمیشہ آنے والے کل کیلئے پرامید رہیں ۔ کبھی کوئی کام کرتے ہوئے شرماتے نہیں
(زندگی میں کوئی کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا ، البتہ کام کے طریقے چھوٹے اور بڑے ضرور ہوتے ہیں)
اگر کام چھوٹے بڑے ہوتے تو سرکار دوجہاں فخر دوعالم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بکریاں نہ چراتے اور خود جھاڑو صفائی نہ فرماتے
No comments:
Post a Comment