find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Jahaiz Lena Haram hai magar Paise wala ladka dekhna Apni Marji.

Kya Shadiyan Nakam hone me Sirf Ladke wale hi zimmedar hai?

کیا جہیز ہی لینا لعنت ہے اور حرام ہے یا لڑکے کی آمدنی دیکھ کر شادی کرنا، گھر گاڑی عالیشان عمارت دیکھنا وہ بھی دلہن کے لیے الگ بالکل الگ ماں باپ سے بھی الگ، لڑکا آزاد خیال والا ہو یعنی مغربی تہذیب پر چلنے والا ہو، پردے کرنا ہے يا نہیں یہ لڑکی کی مرضی، کہا جانا ہے اسکی مرضی... اسکے بارے میں لڑکا کچھ بھی نہیں بولے گا اسکے بعد بھی اگر ذرا سا کچھ ہوا تو اس سارے معاملات کا ذمےدار لڑکا اور اسکا گھر والا ہوگا، فر اسکے بعد پولیس، عدالت اور میڈیا، سوشل میڈیا یہ سب کی نظروں میں لڑکے والے ہی ذمے دار ہوتے، عدالت اور مہیلا آیوگ، فیمینسٹ گروپ لڑکا اور اسکے گھر والے کو سزا دلانے کے لیے دین رات ایک کر دیتے ہیں۔

آج کل جو شادیاں ناکام ہورہی ہے کیا صرف اسکی وجہ جہیز ہی ہے؟
جہیز کے ساتھ ساتھ اور کون سی رسم و رواج بدت ہے؟
خاک سے دور کہیں اور مکاں مانگتی ہے
روح تخلیق سے پہلے کا جہاں مانگتی ہے

بے شک جہیز ایک لعنت ضرور ہے جسکا رد ضروری ہے۔ لیکن آج ہم جہیز ہی نہیں بلکہ برصغیر ہند و پاک میں رائج دیگر شادی بیاہ کی لعنتیں وغیرہ بھی ڈسکس کر لیتے ہیں۔
قارئین کرام! جہیز بلاشبہ ایک لعنت ہے سو فیصد تسلیم۔۔۔۔۔۔ لیکن کوئی صاحب یا صاحبہ بری (با کے فتحہ کے ساتھ) کی تشریح کریں گے۔۔۔۔۔۔؟
حق مہر کے نام پر سکہ رائج الوقت (طے شدہ رقوم) پا کر اضافی سونا لکھوانا۔۔۔۔۔۔
گھر کا مطالبہ کرنا۔۔۔۔۔۔
چار پانچ لاکھ  نقد لکھوانا۔۔۔۔۔۔
دلہا کی حیثیت سے  بڑھ کر جیب خرچ لکھوانا
اور جملہ رشتے داروں کے مہنگے لباس مہنگا  ولیمہ اور بعد از شادی مہنگا ہنیمون پیکج لڑکی کی ڈیمانڈ پر کہاں فٹ آتا ہے۔۔۔۔۔۔؟ اور طلاق کی شرائط کا شرعی اور قانونی جواز کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟
جیسے لڑکا  اگر کسی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے تو تین تولہ سونا یا تین چار یا پانچ لاکھ روپیے کیش دے ور نہ جیل میں بیٹھے۔۔۔۔۔۔ اور آج کل یہ چلن عام مشاہدے میں ہے۔۔۔۔۔۔یعنی شادی جیسے مقدس رشتے میں اول روز سے فساد کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ پھر ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ معاشرہ اتنا غیر متوازن کیوں ہے۔۔۔۔۔۔؟

محترم قارئین!  جہیز چونکہ ایک ٹھوس اور محدود خرچ ہے،  اس لیے صدیوں تک نظر اور ذکر میں رہتا ہے، لیکن جو خرچہ لڑکوں سے کروایا جاتا ہے وہ ہوائی مگر جہیز  دوگنا ہوتا ہے لیکن اس کا  نہ ذکر ہوتا ہے نہ وہ نظر آتا ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔۔۔۔۔۔؟

پھر رسموں کے نام پر سسرالی جو پیسہ بٹورتے ہیں وہ تو کہیں گنتی میں شمار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ دوستو! اگر جوان غریب لڑکیاں گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہے یا بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے تو جو جوان غریب لڑکے گھر بیٹھے بوڑھے ہو رہے ہیں یا بے حیائی کا شکار ہو رہے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔۔۔۔؟

  کیا ہمارا اسلام کسی طرح بھی ان مہنگی اور فضول جملہ رسوم  و رواج کی ہلکی سی بھی اجازت دیتا ہے، جنہیں ہم مہندی جہیز مایوں  مکلاوہ بینڈ باجا ،آتشبازی بارات، جیسا کہ مروجہ رائج ہے جیسے بری اور بید اور شادی کی رسمیں جیسے جوتا چھپائی، راستہ رکوائی، دودھ پلائی، شیشہ دکھائی، پھر سلامی، اور بھاری بھر کم حق مہر۔۔۔۔۔۔ حق مہر کے علاوہ اضافی مال و زر کی ضمانت لکھوانا،
طلاق کی شرائط میں مال و زر لکھوانا، منھ  دکھائی، پرتکلف اور مہنگا ولیمہ، مہنگے مہنگے لہینگے ور شیروانی اور نہ جانے کیا کیا ہے جو دونوں طرف برابر اخراجات کا موجب بنتا ہے۔۔۔۔۔۔  لیکن جب بھی اعتراض اٹھتا ہے یا بات کی جاتی ہے تو یکطرفہ۔۔۔۔۔۔؟

صرف لڑکی اور جہیز کی۔۔۔۔۔۔؟
سیدھی سی بات ہے کہ اول تو دونوں طرف رائج رسوم و رواج اور اخراجات اسراف  کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کی کھال اتارنے میں کسر نہیں چھوڑتے  تو صرف لڑکا اور اس کے گھر کے افراد ہی کیوں زمانے کی لعنتوں کے حقدار ٹھہرے۔۔۔۔۔۔؟
اور کیوں کر لڑکے کی غیرت کو للکارا جائے وہ بھی ایسے سوال کرکے کہ سسر کے دئیے بیڈ پر لیٹ کر غیرت کیسی۔۔۔۔۔۔؟
اگر یہ سوال درست ہے تو پھر لڑکی سے تو ایک ایک منٹ پر سوال پوچھے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ مثلا سناو  یہ سونا لاد کر شرم و غیرت اور خودداری کیسی۔۔۔۔۔۔؟ یہ لاکھوں کا لہنگا کس مد میں۔۔۔۔۔۔؟
یہ گھر میں مالکن بننے کا شوق کیسا۔۔۔۔۔۔؟
  یہ ہنی مون پر ڈھیروں خرچہ کروانے کی جسارت کیسی۔۔۔۔۔۔؟
یہ عید پر تحفے تحائف کی مد میں اپنے گھر والوں پر خرچےکرنے کی ضرورت کیوں۔۔۔۔۔۔؟
اور یہ الگ گھر کی ڈیمانڈ کیسی۔۔۔۔۔۔؟
اور پھر  یہ کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کروں گی کیونکہ یہ فرض نہیں جیسی ہٹ دھرمی کیسی۔۔۔۔۔۔؟  دوسری شادی سے روکنے کی غیر اسلامی جرات کیوں کر۔۔۔۔۔۔؟
  دیکھیں بھائی! میں لڑکوں کا وکیل صفائی نہیں، لیکن بطور ذمہ دار شہری اور ان سب مرحلوں کے شکار عام مسلمان ہندوستانیوں  کی جانب سے یہ سوال اٹھا کر عام لوگوں کو دعوت فکر دے رہا ہوں کہ وہ بغور  جائزہ لے کر سوچیں کہ وہ کیسے اسلام کا مذاق اڑا کر خود مذاق بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان رسوم و رواج، نام نہاد معیارات اور فضول اخراجات نے نکاح جیسے مقدس فریضے کو انتہائی مہنگا بلکہ لگژری  بنا کر رکھ دیا ہے، پھر دوسری تیسری چوتھی شادی اور بیوہ مطلقہ سے نکاح کو شجر ممنوعہ طرح بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے معاشرتی بگاڑ فیشن اور روشن خیالی نے پوری کر دی۔۔۔۔۔
۔ ان حالات میں جب کہ  معاشرہ جنسی بے راہ روی نہیں بلکہ حیوانی کلچر کی طرف گامزن ہے تو کیسے سکون امن اتحاد اور محبت کی فضا قائم ہو۔۔۔۔۔۔؟کیسے زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی روک تھام ممکن ہو۔۔۔۔۔۔؟
جب کہ ہم نے حلال کام کو مشکل اور نا ممکن بنا کر معاشرے کا توازن خود بگاڑا ہے۔۔۔۔۔۔
کیا جہیز ایک لعنت ہے کہہ دینے یا اس کی روک تھام کی بعد جو شادیاں رکی  ہوئی ہیں وہ ہو جائیں گی۔۔۔۔۔؟۔ یا رشتے نہیں ملتے جیسے مسائل  یکدم ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔؟
کیا ہندوانہ رسوم و رواج کے رہتے ہوئے ہم مسلمان نکاح جیسی سنت سے بغیر پریشانی فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟

ذرا سوچئے!  کیا شادی یا خانہ آبادی میں رکاوٹ واحد جہیز ہی ہے۔۔۔۔۔۔؟
کیاصرف لڑکے والے ہی اس زمانے میں  لالچی ہیں۔۔۔۔۔ ؟
چلیں! یہ نکاح، شادی، جہیز اور بری کا ٹن ٹا تو بجتا ہی بعد میں ہے۔۔۔۔۔۔
مگر آپ رشتہ تلاش کرتے وقت کون سی خوبیاں تلاش کرتے ہیں زوجین کی۔۔۔۔۔۔؟ 
اگر لڑکی ہو تو کمسن ہو، حسین و جمیل ہو، سلیقہ شعار ہو، ہنرمند ہو تو کیا کہنے۔۔۔۔۔۔ نوکری پیشہ ہے تو کمال است۔۔۔۔۔۔ بااثر اور طاقتور خاندان کی ہو تو مزے ہی مزے۔۔۔۔۔۔ مالدار ہو تو سونے پہ سہاگہ وغیرہ وغیرہ۔
لڑکا ہوتو وجیہ و  شاندار ہو۔۔۔۔۔۔ 20سے 30 سال کے درمیان۔۔۔۔۔۔ لمبا چوڑا مضبوط جسم رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔ اعلی تعلیم یافتہ ہو۔۔۔۔۔۔ لاکھوں  میں تنخواہ لیتا ہو۔۔۔۔۔۔ یا کامیاب کاروباری ہو۔۔۔۔۔۔ خوب مالدار ہو۔۔۔۔۔۔ذاتی بنگلہ و گاڑی کا مالک ہو۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ قارئین کرام ! اب ذرا خود انصاف کریں کہ ہمارے رشتے کی تلاش سے لے کر شادی تک کون سا مرحلہ ایسا ہوتا ہے جو خالص سنت نبوی اور شرعی احکامات کے مطابق ہو۔۔۔۔۔۔ ہم من حیث القوم کس طرف نکل گئے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
دوستو! بلاشبہ جہیز کی ڈیمانڈ ایک لعنت ہے مگر بری وغیرہ کی چاہت بھی کوئی نیکی اور ثواب کا کام نہیں۔۔۔ اور دیگر رسوم و رواج اور اخراجات کو توجواز ہی نہیں بنتا۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ یہ سب جملہ رسوم و رواج کی بندشیں نا تو شریعت ہیں اور نہ ہی مشرقیت اور نہ ہی اخلاقیات
۔۔۔۔۔ اور قانون کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لہذا  باقی رہ جاتا ہے ہندو ازم۔۔۔۔۔۔جس کی بدولت ہم اس بدعت بلکہ لعنت کا بری طرح شکار ہوکر حلال کو حرام کر بیٹھے ہیں اور اپنے ہاتھ سے زنا جیسی برائی کا بیج بو رہے ہیں۔ پھرجب ان  حرکتوں کی وجہ سے معصوم بچیوں اور بچوں کی زندگی کے چراغ درندوں کے ہاتھوں غل ہوتے ہیں تو پھر دکھ و تکلیف کے بعد الزام تراشیاں۔۔۔۔۔۔ کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔؟

قارئین ! میرا خیال ہے کہ جہیز ایک لعنت نامی تحریک کی بجائے سادہ نکاح کو عام کرو جیسی تحریک کی اشد ضرورت ہے جس میں معیار رشتہ دنیا داری نہیں بلکہ دینداری ہو اور دونوں طرفین کی جانب سے ہوں۔ تھوڑا نہیں پورا سوچیے ہمہ جہت متفکر بن یے۔
(محمد ابراہیم السیف حلیمی بنارسی)

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS