Kin Halaton me jhoot bolna jayez hai?
Kaun si jagah par Jhoot bola ja sakta hai?
تین جگہوں پر جھوٹ بولنے کے حدود*
الحمد للہ.
تين مقام پر جھوٹ بولنے كى رخصت آئى ہے جيسا كہ ترمذى اور ابو داود كى درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور
لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور صحيح مسلم ميں ام كلثوم بنت عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" جو شخص لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے خير كى بات كہے اور اچھى بات نقل كرے وہ جھوٹا نہيں ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2065 ).
ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگ جسے جھوٹ كہتے ہيں ميں نے انہيں تين جگہوں پر بولنے كى رخصت دى گئى ہے: جنگ ميں، اور لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے، اور آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں "
خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھوٹ بولنے سے مقصود يہ ہے كہ: آپس ميں محبت و مودت اور دائمى الفت پيدا كرنے كے ليے جھوٹ بولنا تا كہ خاندان كا شيرازہ نہ بكھرے.
مثلا خاوند اپنى بيوى سے كہتا ہو: تم تو ميرے ليے بہت قيمتى ہو.
يا پھر كہتا ہو: ميرے ليے تو تجھ سے زيادہ كوئى اور پيارا نہيں ہے.
يا پھر يہ كہے: ميرے ليے تو تم ہى سب عورتوں سے زيادہ خوبصورت ہو، اس طرح كے الفاظ كہے.
اس سے وہ جھوٹ مراد نہيں ہے جس حقوق مارنے كا باعث بنتا ہو، يا پھر واجبات و فرائض سے فرار ہونے كا باعث بنتا ہو.
امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابو سليمان خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان امور ميں بعض اوقات انسان كو زيادہ بات كہنے كى ضرورت پيش آ جاتى ہے، اور سلامتى حاصل كرنے اور ضرر و نقصان كو دور كرنے كے ليے سچائى و صدق سے تجاوز كرنا پڑ جاتا ہے.
بعض حالات ميں تھوڑے اور قليل سے فساد كى اجازت دى گئى ہے، كيونكہ اس سے اصلاح كى اميد ہوتى ہے، چنانچہ دو اشخاص كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا: يعنى ايك شخص كى جانب سے دوسرے شخص كے سامنے اچھى بات كہنا، اور اسے اچھى بات پہنچانا جائز ہے، چاہے اس نے وہ بات اس شخص سے نہ تو سنى ہو اور نہ ہى اس نے كہى ہو اس سے وہ ان دونوں ميں اصلاح كرانا چاہتا ہے.
اور جنگ ميں جھوٹ بولنا يہ ہے كہ: وہ اپنى جانب سے قوت و طاقت ظاہر كرے، اور ايسى بات چيت كرے جس سے اس كے ساتھى اور فوجى طاقتور ہو جائيں، اور اپنے دشمن كے خلاف تدبير كرے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" الحرب خدعۃ "
جنگ دھوكے كا نام ہے "
ديكھيں: شرح السنۃ ( 13 / 119 ).
اور خاوند كا اپنى بيوى كے ساتھ جھوٹ يہ ہے كہ وہ بيوى سے وعدہ كرے اور اسے اميد دلائے، اور اپنے دل ميں موجود محبت سے بھى زيادہ محبت كا اظہار كرے تا كہ ان دونوں كى زندگى صحيح بسر ہو سكے، اور اس طرح وہ بيوى كے اخلاق كى بھى اصلاح كر سكے "
واللہ اعلم.
سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر كسى شخص نے كسى دوسرے شخص سے معذرت كى اور اسے راضى كرنے كے ليے وہ كلام ميں تبديلى كر كے اچھى كلام پيش كرتا ہے تو وہ جھوٹا نہيں كہلائيگا كيونكہ حديث ميں ہے:
" لوگوں كے مابين صلح كرانے والا شخص جھوٹا نہيں ہے"
ان كا كہنا ہے: چنانچہ اس دوسرے شخص كے مابين اصلاح كا ہونا دوسرے لوگوں ميں صلح كرانے سے افضل ہے.
بيان كيا جاتا ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا:
" ميں تمہيں اللہ كى قسم دے كر پوچھتا ہوں كيا تم مجھ سے محبت كرتى ہو ؟
تو بيوى نے جواب ديا: جب تم مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھ رہے ہو تو پھر ميرا جواب يہ ہے كہ ميں تم سے محبت نہيں كرتى.
تو وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور واقعہ بيان كيا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كى بيوى كو بلا كر دريافت كيا:
كيا تم اپنے خاوند سے كہتى ہو كہ ميں تجھ سے محبت نہيں كرتى ؟
اس عورت نے جواب ديا:
اے امير المومين اس نے مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھا تھا تو كيا ميں جھوٹ بولتى ؟
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: ہاں تم جھوٹ بول ديتى، كيونكہ سارے گھر محبت پر قائم نہيں ہيں، ليكن لوگ اسلام اور احساب پر ايك دوسرے سے معاشرت كرتے ہيں " انتہى
صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہا خاوند كا اپنى بيوى سے جھوٹ بولنا اور بيوى كا اپنے خاوند سے جھوٹ بولنا تو اس سے محبت كا اظہار ہے، اور جو چيز لازم نہيں اس كا وعدہ كرنا مراد ہے.
ليكن اپنے ذمہ بيوى يا خاوند كے حقوق كى ادائيگى نہ كرنے ميں دھوكہ دينا، يا پھر خاوند يا بيوى كا حق غصب كرنا بالاجماع حرام ہے "
واللہ تعالى اعلم " انتہى
اور فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:
" اس پر اتفاق ہے كہ خاوند اور بيوى كے حق ميں جھوٹ سے مراد يہ ہے كہ اس ميں نہ تو حق ساقط ہوتا ہو اور نہ ہى كسى دوسرے كا حق غصب ہوتا ہو " انتہى
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اسى طرح خاوند كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنا جس ميں محبت و الفت اور مودت پيدا ہوتى ہو مصلحت ميں سے، مثلا وہ بيوى سے كہے:
تم ميرے ليے بہت قيمتى ہو، اور تم سب عورتوں سے زيادہ ميرے ليے محبوب ہو، چاہے وہ اس ميں جھوٹا بھى ہو ليكن محبت و مودت اور دائمى الفت و پيار پيدا كرنے كے ليے اور پھر مصلحت بھى اس كى متقاضى ہے " انتہى
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 1790 ).
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment