Shariyat ke mutabik Fakir aur miskeen me kya fark hai?
Fakir kaun hai aur miskeen kaun hai?
السلام علیکم
شریعت کے مطابق فقیر اور مسکین میں کیا فرق ہے؟
جواب تحریری
جواب از شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
مسکین وہی فقیر ہوتا ہے کہ جسے مکمل کفایت حاصل نہیں ہوتی، البتہ فقیر اس سے زیادہ شدید حاجت مند ہوتا ہے۔ اور دونوں ہی زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل ہیں جن کا ذکر اس فرمان الہی میں ہے کہ:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا﴾ (التوبۃ: 60)
(صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں ،اور مسکینوں کے لئے ،اور زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے لئے۔۔۔)
جس کی اتنی آمدنی ہو کہ جو اس کے کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے لیے کافی ہو خواہ وقف سے ہو، یا کمائی سے، یا ملازمت سے یا ان جیسے کسی ذریعے سے تو وہ نہ فقیر کہلائے گا نہ ہی مسکین، اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں([1])۔
سوال: ہم پر فقیر اور مسکین کی معرفت میں اشکال ہوگیا ہے، آپ اس کی وضاحت فرمائیں؟
جواب از شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:
فقیر : وہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اس سے فقر یوں چمٹی ہوتی ہے جیسے ”الفقار“ (کمردرد) کسی شخص کو زمین سے چمٹا دیتاہے۔
مسکین: جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کافی نہيں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:
﴿ اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ۔۔۔﴾ (الکہف: 79)
(اور جو کشتی تھی تو وہ مساکین کی تھی۔۔۔)۔
دیکھیں اللہ تعالی نے انہیں مساکین کی صفت دی حالانکہ ان کے پاس کشتی تھی جس پر وہ کام کاج بھی کرتے تھے۔
لہذا مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کافی نہيں پڑتا۔ ہوسکتا ہے وہ نوکری کرتا ہو اور اس کی تنخواہ 5 ہزار ریال ہو، لیکن اس کے ماہانہ خرچے 6 ہزار ریال ہوں، تو اس کی تنخواہ کافی نہ ہوئی، پس وہ مصارف زکوٰۃ میں شامل ہوا (یعنی اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے) ([2])۔
[1] نشر في (جريدة المدينة) العدد 11387 وتاريخ 25/12/1414هـ، وفي جريدة (الرياض) العدد 1093 وتاريخ 4/1/1419هـ، وفي (كتاب الدعوة) ج1 ص 109. (مجموع فتاوى ومقالات ابن باز 14/265)
No comments:
Post a Comment