Surah fatiha ko ummul kitab kyu kahte hai?
Surah fatiha ki fazilat.
: Assalamalaikum Warahmatullahi Wabarkatuh
Mera ek sawal ye hai ki
Sawal: Surah fatiha ko um mul kitab kaun kahte hai?
Aur surah fatiha ki fazeelt bhi bata den.
*باب : سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔۔ فضائل آمین*
الحمد لله...
اس سورت کا سب سے زیادہ مشہور نام فاتحۃ الکتاب یا الفاتحہ ہے۔ فاتحہ ابتدا اور شروع کو کہتے ہیں ‘چونکہ ترتیب خطی میں یہ سورت قرآن مجید کے ابتداءمیں ہے اسلئے اس کا نام فاتحہ رکھا گیا۔ فاتحہ کا معنی کھولنے والی کے بھی ہیں۔ چونکہ یہ سورت قرآن مجیدکے علوم بے پایاں کی چابی ہے ‘اس لئے بھی اسے فاتحہ کہا گیا۔ اس سورت کے اور بھی کئی نام ہیں مثلا ام الکتاب اور ام القرآن چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ سمیت ام الکتاب لانہ یبدا بکتابتھا فی المصاحف ویبدا بقراءتھا فی الصلوۃ سورہ فاتحہ کا نام ام الکتاب اس لئے رکھا گیا ہے کہ قرآن شریف کی کتابت کی ابتداءاسی سے ہوتی ہے اور نماز میں قرات بھی اسی سے شروع ہوتی ہے۔ ام القرآن اسے اس لئے بھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی اصل اور جملہ مقاصد قرآن پر مشتمل ہے۔ سارے قرآن شریفہ کا خلاصہ ہے یا یوں کہئے کہ سارا قرآن شریف اسی کی تفسیر ہے۔ اس سورہ شریفہ کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے یعنی ایسی سات آیات جو بار بار دہرائی جاتی ہیں چونکہ سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں اور اسے نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے اس لئے خوداللہ پاک نے قرآن شریف کی آیت شریفہ ( ولقد آتینا ک سبعا من المثانی و القرآن العظیم ) ( الحجر : 87 ) میں اس کا نام السبع المثانی اور القرآن العظیم رکھا ہے یعنی اے نبی! ہم نے آپ کو ایک ایسی سورت دی ہے جس میں سات آیات ہیں ( جو بار بار پڑھی جاتی ہیں ) اور جو عظمت و ثواب کی بڑائی کے لحاظ سے سارے قرآن شریف کے برابر ہے۔ چنانچہ امام رازی فرماتے ہیں کہ یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس سے دس ہزار مسائل نکلتے ہیں ( تفسیر کبیر )
اس سورہ شریفہ کا نام ” الصلاۃ “ بھی ہے چنانچہ بروایت حضرت ابوہریرہ حدیث میں مذکور ہے کہ قسمت الصلاۃبینی وبین عبدی نصفین و لعبدی ما سال فاذا قال العبد الحمد للہ رب العا لمین قال اللہ حمدنی عبدی الحدیث ( مسلم ) یعنی اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے درمیان اور اپنے بندے کے درمیان نصفانصف تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گاجو اس نے مانگا۔ پس جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب بندہ الرحمن الرحیم کہتا ہے تو جواب میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑی ثنا بیان کی اور جب بندہ مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑی شان بیان کی اور جب بندہ ایاک نعبدو ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اس آیت کا نصف میرے لئے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور جو میرے بندے نے مانگا وہ اسے ملے گا آخر تک۔ اس حدیث میں نہایت صراحت کے ساتھ ” الصلاۃ “ سے سورہ فاتحہ کو مراد لیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ نماز کی مکمل روح سورہ فاتحہ کے اندر مضمر ہے۔
حمد و ثنا ‘عہد و دعا یادآخرت و صراط مستقیم کی طلب ‘گمراہ فرقوں پر نشان دہی یہ تمام چیزیں اس سورہ شریفہ میں آگئی ہیں اور یہ تمام چیزیں نہ صرف نماز بلکہ پورے اسلام کی اور تمام قرآن کی روح ہیں۔ اس سورت شریف کو ” الصلوۃ “ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ صحت نماز کی بنیاد اسی سورۃ شریفہ کی قرات پر موقوف ہے اور نماز کی ہر ایک رکعت میں خواہ نماز فرض ہو یا سنت یا نفل ‘امام و مقتدی سب کے لئے اس سورہ شریفہ کا پڑھنا فرض ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہے۔ عن عبادۃ بن الصامت قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لا صلوۃ لمن لم یقرابفاتحۃ الکتاب امام او غیر امام رواہ البیہقی فی الکتاب القراءۃ حضرت عبادہ بن صامت نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ امام ہو یا مقتدی اس کی نماز نہیں ہوتی۔ ( تفسیر کے لئے قرآن شریف ثنائی ترجمہ کا ضمیمہ رضی اللہ عنہ 208والا مطالعہ کرو )
حضرت پیران پیر سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فان قراتھا فریضۃ وھی رکن تبطل الصلوۃ بترکھا ( غنیہ الطالبین ‘ رضی اللہ عنہ : 853 ) نماز میں اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ‘تمام قرآن میں سے صرف اسی صورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔ اتنے اوصاف والی قرآن کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ اس سورت کے ناموں میں سے سورہ الحمد اور سورۃ الحمدللہ رب العالمین بھی ہے۔ ( بخاری و دار قطنی ) اس لئے کہ اس میں اصولی طور پر خدائے تعالی کی تمام محامد مہمہ مذکور ہیں اور اس کو الشفاء و الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ سنن دارمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے ( دارمی ‘ رضی اللہ عنہ 430 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابی نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی ( بخاری ) ان ناموں کے علاوہ اور بھی اس سورۃ شریفہ کے کئی ایک نام ہیں مثلاالکنز ( خزانہ ) الاساس بنیادی سورہ الکافیہ ( کافی وافی ) الشافیہ ( ہر بیماری کے لئے شفاء ) الوافیہ ( کافی وافی ) الشکر ( شکر ) الدعاء ( دعا ) تعلیم المسئلہ اللہ سے سوال کرنے کے آداب سکھانے والی سورت ) المنا جاۃ ( اللہ سے دعا ) التفویض ( جس میںبندہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ) اور بھی اس کے کئی ایک نام مذکور ہیں یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اعطیت فاتحۃالکتاب من تحت العرش ( الحصن ) یعنی یہ وہ سورت ہے جسے میں عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دیا گیا ہوں جس کی مثال کوئی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن میں یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے عطاہوئی ( دارمی، رضی اللہ عنہ : 430 ) ایسا ہی بخاری شریف کتاب التفسیر میں مروی ہے۔
سنن ابن ماجہ ومسند احمد ومستدرک حاکم میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت میرے بیٹے کو تکلیف ہے۔ آپ نے پو چھا کہ کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا کہ اسے آسیب ہے۔ آپ نے فرمایا، اسے میرے پاس لے آؤ چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور اس پر سورۃ فاتحہ اور دیگر آیات سے دم کیا تو وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا گویا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔ ( حصن حصین، رضی اللہ عنہ : 171 )
خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے بطور دم کے استعمال کی جاسکتی ہے اور یقینا اس سے شفاحاصل ہوتی ہے مگر اعتقاد راسخ شرط اول ہے کہ بغیر اعتقاد صحیح وایمان باللہ کے کچھ بھی حاصل نہیں نیز اس سورۃ شریفہ میں اللہ ہی کی عبادت بندگی کرنے اور ہر قسم کی مدد اللہ ہی سے چاہنے کے بارے میں جو تعلیم دی گئی ہے اس پر بھی عمل وعقیدہ ضروری ہے۔ جو لوگ اللہ پاک کے ساتھ عبادت میں پیروں ، فقیروں، زندہ مردہ بزرگوں ، نبیوں ، رسولوں یا دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرتے ہیں وہ سب اس سورہ شریفہ کی روشنی میں حقیقی طور پر اللہ وحدہ ، لاشریک لہ، کے ماننے والے اس پر ایمان وعقیدہ رکھنے والے نہیں قرار دئیے جاسکتے ، سچے ایمان والوں کا سچے دل سے اللہ کے سامنے یہ عہد ہونا چاہئے۔ ایاک نعبد وایاک نستعین یعنی اے اللہ ! ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ سچ کہا ہے
غیروں سے مدد مانگنی گر تجھ کو چاہئے
ایا ک نستعین زباں پر نہ لائیے
صراط مستقیم جس کا ذکر اس سورہ شریفہ میں کرتے ہوئے اس پر چلنے کی دعا ہر مومن مسلمان کو سکھلائی گئی ہے وہ عقائدحقہ اوراعمال صالحہ کے مجموعہ کا نام ہے جن کا رکن اعظم صرف خدائے واحد کو اپنا رب ومالک وپر وردگار جاننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ذکر کیا کہ انہوں نے بحکم خدابنی اسرائیل سے کہا تھا۔ ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذاصراط مستقیم یعنی بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے صرف اسی اکیلے کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ سورہ یسٓ شریف میں ہے۔ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم یعنی میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے، اسی طرح توحید الٰہی پر جمے رہنے اور شرک نہ کرنے، ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے، اولاد کو قتل نہ کرنے، ظاہر ی اور باطنی خواہش کے قریب تک نہ پھٹکنے، ناحق خون نہ کرنے ، ناپ تول کو پورا کرنے، یتیموں کے مال میں بے جاتصرف نہ کرنے عدل وانصاف کی بات کہنے اور عہد کے پورے کرنے کی تاکید شدید کے بعد فرمایا وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل ( الآیہ ) یعنی یہی میری سیدھی راہ ہے جس کی پیروی کرنی ہو گی۔ یہی ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ پاک کے انعامات کی بارش ہوئی جس سے انبیاءوصدیقین وشہداءوصالحین مراد ہیں۔ دین الٰہی میں جس کے ارکان اوپر بیان ہوئے کمی وزیادتی کرنے والوں کو مغضوب وضالین کہاگیاہے یہودی ونصاری ٰاسی لئے مغضوب وضالین قرار پائے کہ انہوں نے دین الٰہی میں کمی وبیشی کرکے سچے دین کا حلیہ بدل کر رکھ دیا پس صراط مستقیم پر چلنے کی اور اس پر قائم رہنے کی دعا کرنااور دین میں کمی بیشی کرنے والوں کی راہ سے بچے رہنے کی دعا مانگنا اس سورہ شریفہ کا یہی خلاصہ ہے۔
سورۃ فاتحہ کے ختم پر جہری نمازوں میں جہر سے یعنی بلند آواز سے اور سری نمازوں میں آہستہ آمین کہنا سنت رسول ہے۔ آمین ایسا مبارک لفظ ہے کہ ملت ابراہیمی کی ہر سہ شاخوں میں یعنی یہود ونصاریٰ اور اہل اسلام میںدعا کے موقع پر اس کا پکا رنا پایا جاتا ہے اور یہ عبادت گزارلوگوں میں قدیمی دستورہے آمین کا لفظ عبرانی الاصل ہے اس کا مطلب یہ کہ یا اللہ! جو دعاکی گئی ہے اسے قبول کرلے۔
احادیث صحیحہ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ جہری نمازوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد لفظ آمین کو زور سے کہا کرتے تھے۔ بعض روایا ت میں یہاں تک ہے کہ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بہت سے تابعین ، تبع تابعین، محدثین، ائمہ دین ، مجتہدین آمین بالجہر کے قائل وعامل ہیں۔ مگر تعجب ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس آمین بالجہر ہی کو وجہ نزاع بنا کر اہل اسلام میں پھوٹ ڈال رکھی ہے اور زیادہ تعجب ان علماءپر ہے جو حقیقت حال سے واقف ہونے کے باوجود جبکہ حضرت امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، حضرت اما م مالک رحمۃ اللہ علیہم سب ہی آمین بالجہر کے قائل ہیں اپنے ماننے والوں کو آمین بالجہر کی نفرت سے نہیں رو کتے حالانکہ یہ چڑنا سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نفرت کرنا ہے اور سنت رسول سے نفرت کرنا خود رسول پاک علیہ السلام سے نفرت کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں من رغب عن سنتی فلیس منی ( مشکٰوۃ ) یعنی جو میری سنت سے نفرت کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں یوں تو آمین بالجہر کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں مگر ہم صرف ایک ہی حدیث درج کرتے ہیں جس کی صحت پر دنیا جہان کے سارے محدثین کا اتفاق ہے۔ حضرت امام رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ بخاری، حضرت امام مسلم ، امام شافعی، امام داؤد ، امام ترمذی ، امام نسائی ، اما م بیہقی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین سب ہی نے طرق متعددہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاامن الامام فامنوا فانہ من وافق تامینہ تامین الملائکۃ غفر لہ ماتقدم من ذنبہ قال ابن شھاب وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اٰمین ( مؤطاامام مالک )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو پس حقیقت یہ ہے کہ جس کی آمین کو فرشتوں کی آمین سے موافقت ہوگئی اس کے پہلے گناہ بخش دیئے گئے۔ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی آمین نہ سنے تو اسے اس کا علم نہیں ہوسکتا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کی آمین کو امام کی آمین سے وابستہ فرمایا ہے پس ظاہر ہوا کہ یہا ں امام اور مقتدی ہر دو کو آمین بالجہر ہی کے لئے ارشاد ہورہا ہے۔ ایک حدیث اور ملاحظہ ہو:
عن وائل ابن حجر قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قرا غیر المغضو ب علیہم ولا الضالین وقال اٰمین ومد بھا صوتہ ( رواہ الترمذی )
یعنی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ نے جب غیر الغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا تو آپ نے اس کے ختم پر آمین کہی اور اپنی آواز کو لفظ آمین کے ساتھ کھینچا۔ ( تلخیص الحبیر : 1 رضی اللہ عنہ : 89 ) میں رفع بھا صوتہ بھی آیا ہے یعنی آمین کے ساتھ آواز بلند کیا۔
خلاصہ یہ کہ آمین بالجہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے آپ کی سنت پر عمل کر ناباعث خیر وبرکت ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنا دونوں جہان میں ذلت ورسوائی کا موجب ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو سنت رسول پر زندہ رکھے اور اسی پر موت نصیب فرمائے آمین
مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک
جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
No comments:
Post a Comment