Biddat Ki Tarif Tafsil Se, Biddat Kya Hai, Biddat Ki Sharayi Haishiyat, Kya Biddat E Hasna Bhi Hoti Hai, Biddat Ki Kismen
Biddat Ki Tarif Tafsil Se, Biddat Kya Hai, Biddat Ki Sharayi Haishiyat, Kya Biddat E Hasna Bhi Hoti Hai, Biddat Ki Kismen
سوال_بدعت کی تعریف اور اسکی شرعی حیثیت تفصیل سے بیان کریں.؟کیا بدعت (حسنہ،اچھی) بھی ہوتی ہے؟ نیز کیا اچھی نیت سے بدعت نکالی جا سکتی ہے؟
الحمدللہ:
*قارئین کرام سے التماس ہے کہ اگر آپ بدعت کے بارے مکمل علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سلسلہ کو ایک دو بار مکمل ضرور پڑھیں۔۔۔مضمون تھوڑا لمبا ہے مگر ان شاءاللہ بدعت کے متعلق آپکے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے*
*بدعت كی لغوی تعریف*
📚علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط۳/۳ میں لکھتے ہیں :
" بدعة بالكسر الحدث فی الدین بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبی ﷺ من الأهواء والأعمال .
بدعت "با" کے کسرہ کے ساتھ :
ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد ایجاد کی جائے , یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات واعمال کی صورت میں پیدا کی جائے ۔
*بدعت کی اصطلاحی تعریف*
📚رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ "
اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا ) نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے،
( سنن نسائی كـتاب صلاة العیدین باب كیف الخطبة_1578)
📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں'' بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ:
'' اللہ کی عبادت اس طریقہ کے ساتھ کی جائے جسے اللہ نے مشروع نہیں کیا۔
جیسے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿ اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ﴾(شوریٰ :۲۱)
'' کیا ان لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کا ایسا طریقہ مقرر کرتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔''
اس کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرنا جس طرح نبی اکرم ﷺ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے نہیں کی،
جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میرے بعد میری اور میرے خلفاء راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور نئے نئے امور سے بچنا۔کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
(ابن ماجہ:۴۷،مجموع الفتاویٰ ابن عثیمین۲ /۲۹۱)
📚شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
''ابتداع و ایجاد کی دو قسمیں ہیں :
1_ عادات میں ابتداع وایجاد جیسے نئی نئی ایجادات ۔ جیسے گاڑی جہاز وغیرہ ،
اور یہ جائز ہے ،اس لئے کہ عادات میں اصل اباحت ہے ۔(یعنی شریعت نے تمام عادات کو حلال قرار دیا ہے جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول کے کسی حکم کے مخالف نہ ہو ۔)
2_دین میں نئی چیز ایجاد کرنا یہ حرام ہے اس لئے کہ دین میں اصل توقیف ہے ۔
(یعنی کسی بات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے بغیر دین قرار دینا حرام ہے ۔)
*دین میں بدعت کی دو قسمیں ہیں*
اولاً :۔ایسی بدعت جن کا تعلق قول و اعتقاد سے ہے جیسے جہمیہ ،معتزلہ ،رافضہ اور تمام گمراہ فرقوں کے اقوال واعتقادات ۔
ثانیاً :عبادت میں بدعت ،جیسے اللہ کی عبادت غیر مشروع طریقہ سے کرنا اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔
پہلی قسم :
نفس عبادت ہی بدعت ہو جیسے کوئی ایسی عبادت ایجاد کر لی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد اور اصل نہ ہو ۔مثلاً غیر مشروع روزہ یا غیر مشروع عیدیں جیسے عید میلاد النبی وغیرہ ۔
دوسری قسم :
جو مشروع عبادت میں زیادتی کی شکل میں ہو جیسے ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت زیادہ کردے ۔
تیسری قسم :
جو عبادت کی ادائیگی کے طریقوں میں ہو یعنی اسے غیر شرعی طریقے پر ادا کرے ،جیسے مشروع اذکار و دعائیں اجتماعی آواز اور خوش الحانی سے ادا کرنا ،
مزید دیکھیں!
(بدعت، تعریف، اقسام اور احکام:4تا6)
📚علامہ ابو اسحاق الشاطبییوں بدعت کی وضاحت کرتے ہیں:
”فالبدعة عبارة عن طریقة فی الدین مخترعة تضاہی الشریعة یقصد بالسلوک علیہا المبالغة فی التعبد لله سبحانہ“۔
بدعت دین میں ایسا ایجاد کیا ہوا طریقہ ہے، جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس پر عمل کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو“
(الاعتصام،الباب الاول فی تعریف البدع:۱/۷۳،ط:دار الفکر)
📚حافظ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”المراد بالبدعة ما احدث ممالا اصل لہ فی الشریعة یدل علیہ وما کان لہ من الشرع یدل علیہ فلیس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة“
بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو اور وہ اس پر دال ہو تو وہ شرعاً بدعت نہیں ہے ،اگرچہ لغة وہ بدعت ہے۔
(جامع العلوم والحکم، :۱۴۲۳)
*خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایسا نظریہ، طریقہ یا عمل ایجاد کرنا، یا اس پر عمل کرنا بدعت ہے جو آپﷺ سے نہ قولاً نہ فعلاً، نہ دلالتاَ، نہ اشارتاََ ثابت ہو، جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطور ضد وعناد اختیار نہ کرے،بلکہ اسے ایک اچھی بات اور ثواب سمجھ کر اختیار کرے، وہ چیز کسی دینی مقصد کے حصول کے ذریعے یا وسیلے کے طور پر ایجاد نہ کی گئی ہو، بلکہ خود اسی کو دین کی بات اور نیکی سمجھ کر کیا جائے*
__________&________
*بدعت کی تردید قرآن میں*
📚اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِینࣰاۚ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کر لیا ہے
(سورہ المائدہ آئیت نمبر-3)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل ہے، اسلام میں زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہو سکتے ہیں، ان سب کے لئے کچھ اصول، قوانین اور ضابطے بیان کرکے انسانوں کو نئے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔
دوسری جگہ پر اللہ فرماتے ہیں
📚لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِی رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةࣱ،
تمہارے لئے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے
(سورہ الاحزاب،آئیت نمبر-21)
معلوم ہوا کہ زندگی گزارنے کا ہر ہر گوشہ اور ہر ہر شعبہ اگر اسوہٴ رسول کے مطابق ہوگا تو وہ دین ہے اور اگر کوئی شخص عبادت ونیکی اور ثواب کا کوئی ایسا کام کرے گا جس کا وجودو ثبوت نہ آنحضرت ﷺسے ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے ہے تو وہ بدعت ہے۔
ایک اور جگہ پر اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے :
📚وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَیرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ
اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی) ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
(سورہ القصص:50)
________&_________
*بدعت سرا سر گمراہی کا سبب ہے جسکی احادیث میں پر زور مذمت بیان کی گئی ہے*
آپ ﷺنے شرک کے بعد جس طرح بدعت اور بدعتی کی مذمت فرمائی ہے، شاید ہی کسی اور چیز کی ایسی مذمت فرمائی ہو، وجہ یہی ہے کہ بدعت سے دین کا اصلی حلیہ اور صحیح نقشہ بدل جاتا ہے،
📚عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ .
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4607)
📚رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْی هَدْی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ "
یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے , اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا ) نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے،
( سنن نسائی كـتاب صلاة العیدین باب كیف الخطبة_1578)
📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :"من أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیسَ فِیهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے وہ چیز مردود ہے ۔
(صحیح البخاری كتاب الصلح باب إذا اصطلحوا على جور فالصلح مردود_2697)
📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیسَ عَلَیهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ کام(نیکی) مردود ہے،
(صحیح مسلم كتاب الأقضیة باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور_1718)
📚امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رض کو رسول اللہ ﷺ نے ایک صحیفہ لکھوایا جس میں مدینہ کے بارہ میں یہ درج تھا :
"مَنْ أَحْدَثَ فِیهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَیهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ "
جس نے اس (مدینہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالى , فرشتوں , اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔ اس سے کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی
(صحیح البخاری كتاب الحج باب حرم المدینة_1870)
بدعت جہاں بھی ہو وہ بدعت ہے، ہاں مدینہ طیبہ میں اس کا گناہ زیادہ ہے، اس لئے کہ وہ منبع رشد وہدایت ہے،
📚حضرت ابراہیم بن میسرہ
حضور کریمﷺ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں:
مَن وَقَّر صاحبَ بدعةٍ؛ فقد أعان على هَدْمِ الإسلامِ
جس نے بدعتی کی توقیر کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی،
(الجامع الصغیر، رقم الحدیث:۲۸۰۹)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، تخريج مشكاة المصابيح ١٨٧ • حسن)
📚حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ
اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-50)
🚫یہ حدیث سندا ضعیف ہے، دو راوی اسکی سند میں مجہول ہیں، ابو زید اور ابو مغیرہ
(دیکھیں سلسلہ الاحادیث الضعیفہ-1492)
۔
📚حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
”إنَّ اللهَ حجب التوبةَ عن كلِّ صاحبِ بدعةٍ حتى يدَعَ بدعتَه
اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے،
(المنذري الترغيب والترهيب ١/٦٦ • إسناده حسن)
(الألباني صحيح الترغيب ٥٤ • صحيح)
*اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ بدعت ایسی قبیح ، بری اور منحوس چیز ہے کہ انسان کے دل میں فطری طور پر جو نورانیت اور صلاحیت ہوتی ہے، بدعت اس کو بھی ختم کردیتی ہے اور اس کی نحوست کا یہ اثر ہوتا ہے کہ توبہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی ۔ اور عقلی طور پر بھی یہ بات بالکل درست ہے ،اس لئے کہ جب بدعتی بدعت کو کار ثواب سمجھ کر کرتا ہے تو اس سے وہ توبہ کیوں کرے گا؟ توبہ تو گناہوں سے کی جاتی ہے ،نہ کہ نیکیوں سے*
_______&______________
*یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدعت اور اہل بدعت سے انتہائی نفرت تھی*
📚حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاوہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہے، جسے امام دارمی نے نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ کی مسجد میں سحری کے وقت دائرہ بنا کر کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ سو سو مرتبہ پڑھ رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا تھا:
فَقَال فعدوا مِنْ سَیِّاٰتِکُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ۔ او مفتحی باب ضلالۃ
’’تم اپنی ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ افسوس ہے تم پر اے امت محمد تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ بکثرت حیات ہیں، ابھی تو رسول اللہﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور ان کے برتن بھی نہیں ٹوٹے کیا تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو،
(سنن الدارمي | الْمُقَدِّمَةُ | بَابٌ : فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ. حدیث نمبر-210) إسناده جید
📚أنَّ رجلًا أتى ابنَ عمرَ، فقال: إِنَّ فلانًا يقرأُ عليكَ السلامَ، فقال: إِنَّه بلَغَني أنه قدْأحدَثَ، فإِنْ كان قدْ أحدَثَ؛ فلا تُقْرِهُ مني السلامَ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس ایک شخص کسی کا سلام لایا تو آپ نے فرمایا:
مجھے سلام بھیجنے والے کی شکایت پہنچی ہے کہ اس نے کوئی بدعت اختیار کی ہے، اگر واقعی اس نے ایسا کیا ہے تو میرا سلام اس کو نہ دینا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2152)
(الألباني تخريج مشكاة المصابيح112 حسن)
📚حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ،
” إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ. قَالَ : وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ فِي الْإِسْلَامِ
(بیٹے) بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ اسلام میں بدعت کا مخالف ہو
(مسند احمد حدیث نمبر-16787)حسن
(سنن ترمذی حدیث نمبر-244)
📚حضرت حسانؓ فرماتے ہیں:
”مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا، ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں اور قیامت تک (بغیر توبہ) اسے اس کی طرف نہیں لوٹاتے ہیں،
(سنن الدارمي | الْمُقَدِّمَةُ | بَابٌ : اتِّبَاعُ السُّنَّةِ.حدیث نمبر-99)
📚سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ (اچھی بدعت)" ہی کیوں نہ سمجھیں،
(السنة للمروزی، ص ۲۹ ؛ وسنده صحیح)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان اقوال و واقعات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ وہ بدعت اور بدعت کرنے والوں سے کس قدر نفرت کرتے تھے،
___________&__________
📚شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
بدعتیں کفر کی ڈاک ہیں اور یہ دین میں ایک ایسی زیادتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا۔بدعت کبیرہ گناہ سے زیادہ بری چیز ہے اور شیطان کبیرہ گناہ کی نسبت بدعت سے زیادہ خوش ہوتا ہے اس لیے کہ گناہ گار گناہ کرتے ہوئے جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے وہ اس سے توبہ کر سکتا ہے اور بدعتی بدعت کرتے وقت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ دینی چیز ہے جس سے اللہ کاقرب حاصل کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ اس سے توبہ نہیں کرتا ۔بدعتیں سنتوں کا خاتمہ کر دیتی ہیں اور بدعتیوں کے نزدیک سنت اور اہل سنت مبغوض و ناپسندیدہ ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بدعت اللہ سے دور کر کے اس کے غضب و عتاب کو لازم کرتی ہے اور دلوں کی کجی اور خرابی کا سبب بنتی ہے۔ (بدعت ،تعریف ،اقسام اور احکام:ص۳۵)
📚بدعت شیخ عبد القادر جیلانی کی نظر میں، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق تصنیف غنیة ا لطالبین سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں،
وہ لکھتے ہیں!
بدعت:
ہوشیار اور دانا مومن کے لیے بہتر ہے کہ آیات اور احادیث کے ظاہری معنوں کے مطابق ان پر عمل کرے اور تابعدار رہے، نئی نئی باتیں نہ نکالے، نہ اپنی طرف سے کمی بیشی یا تاویلیں کرے۔ ایسا نہ ہو بدعت اور گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہو جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پیروی کرو بدعت اختیار نہ کرو۔ یہی تمہارے لیے کافی ہے۔۔۔۔۔۔انتہی!
(غنیة الطالبین/ ص۔185-186 )
مطبوعہ نعمانی آفسٹ پریس دہلی 6، ناشر فرید بک ڈپو جامع مسجد دہلی 6)
________&___________
*بدعات کی پہچان*
ہمارے معاشرے میں رائج بدعات کی فہرست طویل ہے اور جہالت کی وجہ سے طویل تر ہورہی ہے، اعتقادی بدعات تو کفر کی سرحد کے قریب کردیتی ہیں ،جب کہ عملی بدعات گناہ کبیرہ ہیں۔ ان سب بدعات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے ،البتہ بدعت کی چند علامات کاذکر کرنا مقصود ہے۔
علامت:1
بدعت ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہے جب کہ سنت ہر جگہ اور ہرزمانے میں یکساں رہتی ہے۔
علامت:2
جو عبادتیں انفرادی طورپر ثابت ہوں، ان کو اجتماعی طور پر کرنا بدعت ہے،
📚حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عروة بن زبیر رض کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عائشہ کے حجرے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں، ہم نے حضرت ابن عمر رض سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”بدعت“ ہے۔
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْحَجُّ. | بَابٌ : بَيَانُ عَدَدِ عُمَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَمَانِهِنَّ_حدیث نمبر :1255)
📚امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ چاشت کی نماز جو اکیلے اکیلے ، فرداً فرداً پڑھی جاتی ہے اس کو اجتماعی طور سے باجماعت پڑھنا بدعت ہے نہ کہ اصل چاشت کی نماز بدعت ہے ،کیونکہ چاشت کی نمازتو احادیث سے ثابت ہے۔
(شرح النووی:۱/۴۰۹)
موجودہ دور میں اس کی مثال سنتوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا التزام ہے، یہ یقینا بدعت ہے، کیونکہ حضور کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس موقع پر دعائیں مانگنا تو ثابت ہے لیکن اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر۔اسی طرح شب قدر اور دوسری مبارک راتوں میں عبادت کرنا بہت بڑی سعادت ہے اور اس کا اہتمام بھی کرنا چاہئے لیکن چند سالوں سے کچھ علاقوں میں مساجد میں صلوٰة التسبیح کو باجماعت ادا کرنے کا رواج شروع ہوگیا ہے جو یقینا قابل ترک ہے، کیونکہ صلوٰة التسبیح کا تو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے انفرادی طورپر پڑھنا ثابت ہے نہ کہ باجماعت ۔اگر باجماعت پڑھنے میں کوئی خیر ہوتی تو ایک دفعہ تو آپ بھی پڑھتے، کیونکہ آپ سب سے زیادہ علم بھی رکھنے والے تھے اور نیکی کے حریص بھی تھے۔
علامت:3
جو سنت آہستہ کرنی ثابت ہو اس کو زور سے ادا کرنا بدعت ہے۔
مثلاً: درود شریف پڑھنے کی بہت سی روایات میں ترغیب آئی ہے اور مختلف مقداروں پر بڑے بڑے اجر کا وعدہ مخبر صادق نے بتایا ہے، لیکن اس کے پڑھنے کا سنت طریقہ انفرادی اور آہستہ آواز میں ہے نہ کہ بلند آواز سے۔
📚علامہ شامی رحمۃ اللہ اس سلسلے میں ایک بہت اہم واقعہ نقل کرتے ہیں:
”صح عن ابن مسعودؓ انہ اخرج جماعة من المسجد یہللون ویصلون علی النبیﷺجہراً وقال لہم ما اراکم الا مبتدعین“۔ (رد المحتار:۵/۲۸۱)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعودرض سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک جماعت کو مسجد سے محض اس لئے نکال دیا تھا کہ وہ بلند آواز سے ”لا الہ الا اللہ“ اور درود شریف پڑھتے تھے، آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں بدعتی ہی سمجھتا ہوں“
اسی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جن جن مواقع میں بلند آواز سے ذکر اور دعاء ثابت ہے ،وہاں بلند آواز سے ہی ذکر اور دعاء کرنے سے شریعت کی منشا ٴپوری ہوگی اور جہاں بلند آواز سے دعاء اور ذکر کرنا ثابت نہیں ہے وہاں آہستہ دعاء اور ذکر ہی بہتر اور افضل ہے۔ حضرات صحابہ اور تابعین کا عمل عمومی طور پر آہستہ آواز سے ذکر پر رہا ہے اور یہی مسلک حضرات ائمہ اربعہ کا ہے۔
علامت:4
شریعت میں کسی نیک عمل کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہ ہو تو ایسے عمل کو خاص اوقات کے ساتھ خاص کرکے اہتمام والتزام سے ادا کرنا بدعت ہوگا،
📚اسی وجہ سے امام شاطبی فرماتے ہیں:
”ومنہا التزام الکیفیات المعینة والہیئأت المعینة کالذکر بہیئة الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم ولادة النبی عیداً“۔(الاعتصام :۱/۳۹)
ترجمہ:
اور بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ اعمال میں مخصوص کیفیات اور ہیئات کا التزام کیا جائے، جیسے اجتماعی طور پر ایک آواز سے زور سے ذکر کرنا اور یوم ولادت نبی کو عید قرار دینا یا عید منانا“۔
📚اور علامہ شامی فرماتے ہیں:
”وقد صرح بعض علماء نا وغیرہم بکراہة المصافحة المعتادة عقب الصلوٰات مع ان المصافحة سنة وما ذاک الا بکونہا لم توثر فی خصوص ہذا الموضع فالمواظبة علیہا فیہ توہم العوام بانہا سنة فیہ“
(رد المحتار:۲/۲۳۵)
ترجمہ:․․․علمائے کرام نے نمازوں کے بعد مصافحہ کی عادت بنانے کو صاف طور پر مکروہ فرمایاہے ،باوجود یہ کہ مصافحہ کرنا سنت عمل ہے، اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ خاص اس موقع پر (یعنی نمازوں کے بعد) مصافحہ کرنا حضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے“۔
مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کے لئے ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرناسنت ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے ،اسی طرح اگر کسی سے اتفاقاً نمازوں کے بعد مسجد میں ملاقات ہوجاتی ہے تو اس موقع پر بھی مصافحہ کرنا باعث رضائے الٰہی ہوگا، لیکن بعض دیار میں جو رواج بن گیا ہے کہ جماعت کی نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،گوکہ نماز سے پہلے امام صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی ہو، یہ بدعت ہے۔ اسی طرح نماز کے بعد بعض لوگ خصوصیت اور اہتمام سے اپنے دائیں اور بائیں طرف کے مقتدیوں سے مصافحہ کرنے کی عادت بنالیتے ہیں،یہ بھی بدعت ہے۔
علامت:5
کوئی جائز یا نیک عمل اس طرح سے کیا جائے کہ عبادت پر زیادتی کا خیال ہونے لگے، مثلاً: میت کے لئے دعا مانگنا باعثِ ثواب ہے مگر نمازِ جنازہ کے بعد مکروہ ہے۔
📚حضرت ملاعلی قاری حنفی فرماتے ہیں:
”ولایدعو للمیت بعد صلوٰة الجنازة لانہ یشبہ الزیادة فی صلاة الجنازة“۔
(مرقاة المفاتیح:۴/۱۷۰)
ترجمہ:․․․”دعاء نہیں مانگیں گے میت کے لئے نمازِجنازہ کے بعد اس لئے کہ اس سے نماز ِ جنازہ پر زیادتی کا شبہ ہوتا ہے“۔
یہ چند ایک مثالیں تھیں بدعات کے بارے جبکہ حقیقت میں بدعات اس قدر زیادہ ہو چکی ہیں کہ انکو شمار کرنا ہی مشکل ہے،
📚شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فالسعید من تمسک بما کان علیہ من السلف واجتنب عن ما احدث۔“
(فتح الباری:۳/۲۱۳)
ترجمہ:
سعادت مندی اس پر موقوف ہے کہ سلفِ صالحین کے طریقے کو اپنایا جائے اور بعد میں آنے والوں نے جو بدعات نکالی ہیں، ان سے بچاجائے“
_________&_________
*اچھی اور بری بدعت کی تقسیم اور چند شبہات کا ازالہ*
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :
1۔ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت
2۔ بدعت سیئہ یعنی بری بدعت
ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔
ان شاءاللہ
📒پہلا شبہ :
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا :
’’ نِعْمَ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ ‘‘-
یہ کتنی اچھی بدعت ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2010)
📖شبہ کا ازالہ:
عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے پہلے ہی سنت تھا :
📚 صاحب شریعت ﷺ خود نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ - إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا - غُفِرَ لَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ".
’’ جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-37)
📚اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں با جماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ نے اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کر دیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔
(ملاحظہ ہو صحیح بخاری 729٫2790)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی،اور وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے اس کے فرض کر دیئے جانے کا اندیشہ ختم ہو گیا، تو عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کر دیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہو گیا۔
٭ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
📚اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ۔
تم تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا،
(مسند احمد،حدیث نمبر_17142)
(ابوداؤد- حدیث نمبر_4607)
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں اسے با جماعت کیوں نہیں ادا کیا گیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ
٭ ابوبکر ؓ کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذا آپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔
٭ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکاة وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر ؓ کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑ چکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہو چکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی
٭ا گر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کر لیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :
کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة
’’ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
_____&_______
📒دوسرا شبہ:
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔
📚عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَئ۔
’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو‘‘۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1017)
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع (ایجاد کرنے) اور ابتدع (بلا مثال سابق شروع کرنے)کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے،
📚بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا ". وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ : مِنْ دَمِهَا ؛ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا.
’’ جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا ،اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا‘‘۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-7321)
اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجاد کرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا:
مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ یا بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ یا مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ
’’ جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا‘‘
📖شبہ کا ازالہ:
مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہو گی،
1۔ حدیث کی مراد اس کے سبب ورود سے واضح ہو گی۔
چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :
📚’’ جریر بن عبد اللہ ؓ نے فرمایا کہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقر و فاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان و اقامت کہی،پھر آپ نے صلاة پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی :
’’ یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔‘‘ الآیة اور ’’ اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ‘‘۔
اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا: اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ سَنَّ فِْي الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم_1017)
اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر و بھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کر دار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کر چکے ہوں۔
2۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع و ایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔
سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے :
الف۔
گناہ و معصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔
ب۔
دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔
اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہو گی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔ (الموافقات٢٣٢٣)
_______&______
📒تیسرا شبہ :
بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:
📚عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ؓ أَنَّ النَّبَِّ ﷺ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔
(سنن ترمذی_2677)
’’ بلال بن حارث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو الله اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو ‘‘۔
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جو الله اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔
📖ازالہ:
🚫مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک و مجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے،
(دیکھیں:
(صحیح و ضعیف سنن ترمذی البانی،حدیث نمبر-2677)
_________&_______
📒چوتھا شبہ :
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
’’ مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن‘‘
(مسند احمد،حدیث نمبر-3600)
’’ جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے‘‘۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔
📖شبہ کا ازالہ:
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کر دیں۔
📚عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: ِ
آنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيئ
ترجمہ:
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کر لیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے‘‘
(مسند احمد حدیث نمبر-3600) حسن
یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پر بدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:
1۔ اس حدیث میں کسی عمل/بدعت کی طرف اشارہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مسلمان اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے جو اپنے اعمال اور اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک اچھا ہے،
2_یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔
3۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہو گا،
4۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم و جاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم و جاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:
اول:
یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہو گا۔
’’ سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْي النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة‘‘۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4597)
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے‘‘
تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کو اچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہو گا۔۔۔؟
دوم :
اس کا تقاضہ یہ ہو گا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعودؓ کی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چور دروازہ کھول دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعودرض کی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔
_________&______
📒پانچواں شبہ :
سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے،
📖ازالہ :
معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے الله اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔
جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا،مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا،
📚جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ‘‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر-3004)
’’ میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے‘‘۔
البتہ جہاں تک مصحف کو دو دفتوں کے درمیان قرآن مجید کے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیا کیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہو گیا۔ چنانچہ ابوبکرؓ نے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمانؓ نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا اور تمام صحابہؒ کا اس بات پر اجماع ہو گیا۔
جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔
بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔
یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہو چکا ہے۔
__________&__________
📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا بدعت حسنہ جائز ہے؟
تو انکا جواب تھا کہ،
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بار بار تكرار كے ساتھ ہر خطبہ جمعہ اور عيد كے خطبہ ميں يہ بيان فرمايا كرتے تھے:
" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "
اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
اس حديث ميں شاہد " ہر گمراہى آگ ميں " ہے.
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:
" اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 ).
تو جب ہر بدعت گمراہى ہے تو اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے كہ اسلام ميں كوئى بدعت حسنہ بھى ہے، اللہ كى قسم يہ تو صريحا اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كےفرمان و فيصلہ كے مخالف ہے.
2 - اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ بتايا ہے كہ جس نے بھى دين ميں كوئى نيا كام اور بدعت ايجاد كى تو اس كا عمل تباہ اور مردود ہے، اسے اللہ تعالى قبول نہيں فرمائيگا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى بمع فتح البارى حديث نمبر ( 2697 ).
تو پھر اس كے بعد كسى شخص كے ليے بدعت كو جائز كہنا اور اس پر عمل كرنا كس طرح جائز ہو سكتا ہے.
3 - بدعتى شخص جو دين ميں كوئى ايسا كام اضافہ كرتا ہے جو دين ميں نہ تھا اس كے اس فعل سے كئى ايك برائياں لازم آتى ہيں جو ايك ايك بڑھ كر ہيں. مثلا:
- دين كے ناقص ہونے كا الزام، اور يہ كہ اللہ نے اس كى تكميل نہيں كى، اور اس ميں زيادتى كى مجال ہے حالانكہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متصادم ہے:
آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں،
- يہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ہى دين ناقص تھا حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا اور اس نے آ كر تكميل كى.
- اس بدعت كے اقرار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دو قسم كے امور كى تہمت لازم آتى ہيں:
يا تو وہ اس بدعت حسنہ سے جاہل تھے.
يا پھر انہيں علم تھا ليكن انہوں نے اپنى امت سے چھپائى اور اس كى تبليغ نہ كى ( نعوذ باللہ باللہ من ذلك ).
- اس بدعت كا اجر نہ تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پا سكے اور نہ ہى صحابہ كرام حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا تا كہ اس اجر كو حاصل كر سكے، حالانكہ اسے تو يہ كہنا چاہيے تھا كہ: اگر يہ بھلائى اور خير كا كام ہوتا تو وہ صحابہ كرام اس كى طرف سبقت لے جاتے.
- بدعت حسنہ كا دروازہ كھولنے سے دين ميں تغير و تبدل اور خواہشات و رائى كا دروازہ كھولنے كا باعت بنے گا، كيونكہ ہر بدعتى شخص يہ كہےگا ميں نے جو كام كيا ہے وہ اچھا اور حسن ہے، تو ہم كسى رائے كو اپنائيں اور كس كے پيچھے چليں ؟
- بدعات پر عمل كرنے سے كئى سنتوں كو ترك كرنے كا باعث ٹھرے گا، اور يہ حقيقت ہے واقعات اس كے شاہد ہيں: جب بھى كوئى بدعت ايجاد ہوتى ہے تو اس كے مقابلہ ميں ايك سنت مٹ جاتى ہے، ليكن اس كے برعكس صحيح ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ہر قسم كى ظاہر اور باطنى گمراہى اور فتنوں سے محفوظ ركھے.
واللہ اعلم
(https://islamqa.info/ur/answers/864/بدعت-حسنہ)
_______&____________
*بدعتی قیامت کے دن حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے*
📚عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ آلہ وسلم قال ( إنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ أبداً لَیَرِدُنّ عَليّ أقواماً أعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فأقولُ إِنَّھُم مِنی، فَیُقال، إِنکَ لا تدری ما أحدَثُوا بَعدَکَ، قَأقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ) و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً، و أسحقہُ أبعَدُہُ۔(صحیح البُخاری/حدیث 6583، 6584/کتاب الرقاق/ باب فی الحوض،)
(صحیح مسلم / حدیث 2290، 2291 /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ۔ )
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3167)
ترجمہ:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان (کچھ پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا آپ نہیں جانتے کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیئے، تو میں کہوں گا دُور ہوں دُور ہوں، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی )) اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا۔ ۔ سُحقاً یعنی دُور ہونا،
محترم قارئین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ دِین میں نئے کام کرنے والوں کو حوضِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہٹوائیں گے، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی "بدعتِ حسنہ " کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے۔ ’’’ غور فرمائیے‘‘‘ بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی، یا یوں کہیئے، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اور سیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ مَن أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد۔‘‘(صحیح البخُاری / حدیث ٢٦٩٧/کتاب الصلح /باب ٥)
جِس نے ہمارے اِس کام ( یعنی دِین ) میں ایسا نیا کام بنایا جو اِس میں نہیں ہے تو وہ کام رد ہے۔
غور فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہر وہ کام مردود قرار دِیا گیا ہے جو دِین میں نہیں ہے،
کچھ لوگ کہتے ہیں۔ ۔
جو کام دِین میں سے نہیں وہ بدعت ہو سکتا ہے، اور فلان فلان کام تو دِین میں سے ہیں، اور ان کے اس فلسفے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا یہ فرمان رد کرتا ہے کہ "جو اِس (یعنی دِین) میں نہیں ہے "، پس ایسا کوئی بھی کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک دین میں نہیں تھا وہ دین نہیں ہو سکتا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام جو خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرف سے جاری نہیں کیا گیا وہ بھی دینی نکتہ نظر سے قابل اتباع نہیں ہے۔
مثلاً اپنی خود ساختہ عبادات، دُعائیں، ذکر اذکار، چلہ کشیاں، اور ان کے خاص کیفیات، اوقات اور عدد وغیرہ مقرر کرنا، خصوصی یاد گیری کی محافل سجانا اور دن منانے، وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں یہ مذکورہ بالا کام "دِین میں سے " تو ہیں، لیکن جب یہ کام ایسے طور طریقوں پر کیے جائیں جو "دِین میں "نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مذکورہ بالا حُکم لاگو ہوتا ہے۔
بہت توجہ اور تحمل سے سمجھنے کی بات ہے کہ "دِین میں سے ہونا "اور "دِین میں ہونا "دو مختلف کیفیات ہیں، کِسی کام ( قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، عقیدہ، اور معاملات کے نمٹانے کے احکام وغیرہ )کا دِین میں سے ہونا، یعنی اُس کام کی اصل دِین میں "جائز "ہونا ہے،
اور کِسی کام کا دِین میں ہونا، اُس کام کو کرنے کی کیفیت کا دِین میں ثابت ہونا ہے،
مَن گھڑت، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں، اللہ کی عِبادت، دُعا، ذِکر و اذکار، عید، صلاۃ و سلام، یہ سب دِین میں تو ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ "اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے ؟؟؟"
قُرآن کی آیات کی اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا، ، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی کو کافر و مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی آراء و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں، وہ یقیناً دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے،
محترم قارئین ؛
مجھے اُمید ہے کہ اب تک آپ یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ دین میں ہر بدعت، محض بدعت ہے، اور اس میں کہیں سے بھی اچھی یا بری بدعت نکالنے کی گنجائش نہیں، پس ایسا ہر کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے تک، اور پھر خلافت راشدہ کے اختتام تک دین میں نہیں تھا وہ دین میں نہیں ہو سکتا،
ایسا کوئی بھی کام کرنے والا، کروانے والا اللہ کے ثواب نہیں پائے، بلکہ ایسے کسی بھی کام کو دِین سمجھ کر کرنے والے پر عتاب ضرور ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اور صریح أحکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے،
----------&------------
*کیا اچھی نیت سے بدعت نکالی جا سکتی ہے؟*
کچھ بھائیوں کے ذہن میں آنے والا ایک خیال جس کا اظہار بعض دفعہ زبان سے بھی ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں لیکن وہ انہیں اچھی نیت سے کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:
انما الاعمال بالنیات
’’اعمال نیتوں سے ہیں‘‘
ان کے استدلال اور باتوں کے بارے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے میں کہتا ہوں:
جو مسلمان حق کو پانا چاہتا ہے، حق کی معرفت کا طلبگار ہے اور حق پر عمل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت نبوی کی تمام نصوص کو سامنے رکھے نہ یہ کہ بعض کو اختیار کرے اور بعض کو ترک کر دے۔ یہی طریقہ ہے حق سے قریب اور خطا سے دور ہونے کا۔
اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ’اعمال نیتوں سے ہیں‘، ان دو شرائط میں سے ایک ہے جن پر عبادت کے درست ہونے اور اسکی قبولیت کا دارومدار ہے۔
پہلی یہ کہ جو عمل بھی کیا جائے وہ سچے دل سے خالصتًا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، اس میں غیراللہ کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔
دوسری یہ کہ وہ عمل سنت کے موافق ہو۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
📚من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد(صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور )
"جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ کام مردود ہے"
ان دو عظیم الشان حدیثوں میں دین کے اصول و فروع، ظاہر اور باطن بلکہ پورا دین داخل ہے۔ پہلی حدیث یعنی ’اعمال نیتوں سے ہیں‘ اعمال کے باطن کی اصلاح کرتی ہے اور دوسری حدیث ’جس نے کوئی بھی ایسا عمل کیا۔ ۔ ۔ ‘ اعمال کی ظاہری صورت کے لیے میزان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی متابعت اور پیروی ہر قول و عمل کے ظاہر و باطن کو جانچنے کا پیمانہ ہیں۔ جس نے اعمال کو اللہ کے لیے خالص کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی اتباع کی تو اس کا عمل مقبول ہے اور جس نے ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو چھوڑا تو اس کا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے۔
📚اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:
" لیبلوکم ایکم احسن عملا"
(سورۃ الملک آیت 2)
’تا کہ اللہ آزمائے کہ تم میں سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے‘
📚فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
’اچھے عمل سے مراد یہ ہے کہ وہ خالص ہو اور درست ہو۔ عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہ ہو گا اور درست ہو لیکن خالص نہ ہو تو بھی قبولیت نہ پا سکے گا۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ اسے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے اور درست ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سنت نبوی کے مطابق ہو‘
(ابونعیم فی حلیۃ الاولیاء8/95، تفسیر بغوی 5/ 419، علم اصول البدع للشیخ علی بن حسن ص 61)
تابعین اور تبع تابعین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ
’ ہر چھوٹے بڑے عمل کے لیے دو دیوان نشر کیے جاتے ہیں (یعنی اس کی قبولیت کو دو پیمانوں سے ناپا جاتا ہے) پہلا یہ کہ “عمل کس لیے کیا‘ اور دوسرا یہ کہ ’عمل کس طرح کیا‘۔
’عمل کس لیے کیا‘ کا مطلب ہے کہ اس کے پیچھے کیا نیت، محرک اور باعث تھا۔ دنیا کے فوائد سمیٹنے، لوگوں سے تعریف سننے اور ان کی تنقید سے بچنے وغیرہ کے لیے کیا یا اللہ کی عبادت، اللہ کی محبت میں اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کیا۔
’کس طرح کیا‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کے مطابق تھا یا اپنی مرضی اور فہم سے نکالا گیا۔
📚اِمام الشاطبی رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب "الأعتصام "میں ابن ماجشون سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے اِمام مالک علیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ
’’ جِس نے اِسلام میں نیا کام گھڑا اور ( اُس کام کو ) اچھی بدعت سمجھا تو گویا اُس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’ الیَومَ اَ کمَلت لَکُم دِینکُم ‘‘آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مُکمل کر دِیا ) لہذا جو اُس دِن ( یعنی جِس دِن آیت نازل ہوئی ) دین نہیں تھا وہ آج دِین نہیں ہو سکتا "
جیسا کہ
📚سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ (اچھی بدعت)" ہی کیوں نہ سمجھیں،
(السنة للمروزی، ص ۲۹ ؛ وسنده صحیح)
📚اِمام البیہقی نے اپنی "سنن الکبری "میں صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا کہ "سعید بن المُسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر طلوع ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑہتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع اور سجدے کرتا ہے تو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے اِس کام سے منع کیا۔
اُس آدمی نے کہا:
یا ابَا مُحَمَّدٍ یُعَذِّبُنِی اللَّہ ُ عَلٰی الصَّلَاۃِ
اے ابا محمد کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا ؟ :
تو سعید رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دِیا :
"لَا وَلَکِن یُعَذِّبُکَ اللہ بِخِلَافِ السُّنَّة"
'' نہیں لیکن تمہیں سُنّت کی خِلاف ورزی پر عذاب دے گا "
(سنن البیہقی الکبریٰ / حدیث٤٢٣٤ /کتاب الصلاۃ /باب ٥٩٣ من لم یصل بعد الفجر الا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض،) کی آخری روایت،
اِمام الالبانی نے "اِرواء الغلیل جلد 2، صفحہ 234 " میں اِس روایت کو صحیح قرار دِیا،
قارئین کرام،
یہ میرا فتویٰ نہیں، اور نا ہی دو چار سو سال پہلے بنے ہوئے کسی "فرقے "کا فتویٰ ہے،بلکہ ایک عظیم تابعی کا فتویٰ ہے، اِس پر غور فرمائیے، اور بار بار فرمائیے۔
سنن ترمذی میں ایک اور حدیث آتی ہے کہ
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: ”جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے“۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں ( زیادہ ہونے کی وجہ سے ) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر دوسری قربانی کرو“،(تمہاری قربانی نہیں ہوئی)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1508)
اس حدیث میں واضح الفاظ ہیں کہ عمل کرنے والا صحابی ہے، اور نیت بھی اچھی ہے کہ جلدی لوگوں کو گوشت کھلاؤ گا،مگر اسکا یہ عمل قبول نا ہوا کیونکہ سنت کے مطابق نہیں تھا،
خلاصہ کلام یہ کہ نیک نیتی سے کیا گیا ہر کام قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو۔ اور نیک نیتی اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب عمل بذات خود درست ہو۔
*دعا ہے کہ رب کریم ہمیں امام الانبیاء، سید الرسل، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ،احمد مجتبی ﷺکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہر طرح کی بدعات سے بچائے*
آمین یا رب العالمین
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
الحمدللہ:
*قارئین کرام سے التماس ہے کہ اگر آپ بدعت کے بارے مکمل علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سلسلہ کو ایک دو بار مکمل ضرور پڑھیں۔۔۔مضمون تھوڑا لمبا ہے مگر ان شاءاللہ بدعت کے متعلق آپکے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے*
*بدعت كی لغوی تعریف*
📚علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط۳/۳ میں لکھتے ہیں :
" بدعة بالكسر الحدث فی الدین بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبی ﷺ من الأهواء والأعمال .
بدعت "با" کے کسرہ کے ساتھ :
ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد ایجاد کی جائے , یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات واعمال کی صورت میں پیدا کی جائے ۔
*بدعت کی اصطلاحی تعریف*
📚رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ "
اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا ) نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے،
( سنن نسائی كـتاب صلاة العیدین باب كیف الخطبة_1578)
📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں'' بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ:
'' اللہ کی عبادت اس طریقہ کے ساتھ کی جائے جسے اللہ نے مشروع نہیں کیا۔
جیسے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
﴿ اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ﴾(شوریٰ :۲۱)
'' کیا ان لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کا ایسا طریقہ مقرر کرتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔''
اس کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرنا جس طرح نبی اکرم ﷺ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے نہیں کی،
جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میرے بعد میری اور میرے خلفاء راشدین مھدیین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور نئے نئے امور سے بچنا۔کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
(ابن ماجہ:۴۷،مجموع الفتاویٰ ابن عثیمین۲ /۲۹۱)
📚شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
''ابتداع و ایجاد کی دو قسمیں ہیں :
1_ عادات میں ابتداع وایجاد جیسے نئی نئی ایجادات ۔ جیسے گاڑی جہاز وغیرہ ،
اور یہ جائز ہے ،اس لئے کہ عادات میں اصل اباحت ہے ۔(یعنی شریعت نے تمام عادات کو حلال قرار دیا ہے جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول کے کسی حکم کے مخالف نہ ہو ۔)
2_دین میں نئی چیز ایجاد کرنا یہ حرام ہے اس لئے کہ دین میں اصل توقیف ہے ۔
(یعنی کسی بات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے بغیر دین قرار دینا حرام ہے ۔)
*دین میں بدعت کی دو قسمیں ہیں*
اولاً :۔ایسی بدعت جن کا تعلق قول و اعتقاد سے ہے جیسے جہمیہ ،معتزلہ ،رافضہ اور تمام گمراہ فرقوں کے اقوال واعتقادات ۔
ثانیاً :عبادت میں بدعت ،جیسے اللہ کی عبادت غیر مشروع طریقہ سے کرنا اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔
پہلی قسم :
نفس عبادت ہی بدعت ہو جیسے کوئی ایسی عبادت ایجاد کر لی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد اور اصل نہ ہو ۔مثلاً غیر مشروع روزہ یا غیر مشروع عیدیں جیسے عید میلاد النبی وغیرہ ۔
دوسری قسم :
جو مشروع عبادت میں زیادتی کی شکل میں ہو جیسے ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت زیادہ کردے ۔
تیسری قسم :
جو عبادت کی ادائیگی کے طریقوں میں ہو یعنی اسے غیر شرعی طریقے پر ادا کرے ،جیسے مشروع اذکار و دعائیں اجتماعی آواز اور خوش الحانی سے ادا کرنا ،
مزید دیکھیں!
(بدعت، تعریف، اقسام اور احکام:4تا6)
📚علامہ ابو اسحاق الشاطبییوں بدعت کی وضاحت کرتے ہیں:
”فالبدعة عبارة عن طریقة فی الدین مخترعة تضاہی الشریعة یقصد بالسلوک علیہا المبالغة فی التعبد لله سبحانہ“۔
بدعت دین میں ایسا ایجاد کیا ہوا طریقہ ہے، جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس پر عمل کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو“
(الاعتصام،الباب الاول فی تعریف البدع:۱/۷۳،ط:دار الفکر)
📚حافظ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”المراد بالبدعة ما احدث ممالا اصل لہ فی الشریعة یدل علیہ وما کان لہ من الشرع یدل علیہ فلیس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة“
بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو اور وہ اس پر دال ہو تو وہ شرعاً بدعت نہیں ہے ،اگرچہ لغة وہ بدعت ہے۔
(جامع العلوم والحکم، :۱۴۲۳)
*خلاصہ یہ ہے کہ کوئی ایسا نظریہ، طریقہ یا عمل ایجاد کرنا، یا اس پر عمل کرنا بدعت ہے جو آپﷺ سے نہ قولاً نہ فعلاً، نہ دلالتاَ، نہ اشارتاََ ثابت ہو، جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطور ضد وعناد اختیار نہ کرے،بلکہ اسے ایک اچھی بات اور ثواب سمجھ کر اختیار کرے، وہ چیز کسی دینی مقصد کے حصول کے ذریعے یا وسیلے کے طور پر ایجاد نہ کی گئی ہو، بلکہ خود اسی کو دین کی بات اور نیکی سمجھ کر کیا جائے*
__________&________
*بدعت کی تردید قرآن میں*
📚اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِینࣰاۚ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کر لیا ہے
(سورہ المائدہ آئیت نمبر-3)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل ہے، اسلام میں زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہو سکتے ہیں، ان سب کے لئے کچھ اصول، قوانین اور ضابطے بیان کرکے انسانوں کو نئے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔
دوسری جگہ پر اللہ فرماتے ہیں
📚لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِی رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةࣱ،
تمہارے لئے اللہ کے رسول (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے
(سورہ الاحزاب،آئیت نمبر-21)
معلوم ہوا کہ زندگی گزارنے کا ہر ہر گوشہ اور ہر ہر شعبہ اگر اسوہٴ رسول کے مطابق ہوگا تو وہ دین ہے اور اگر کوئی شخص عبادت ونیکی اور ثواب کا کوئی ایسا کام کرے گا جس کا وجودو ثبوت نہ آنحضرت ﷺسے ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے ہے تو وہ بدعت ہے۔
ایک اور جگہ پر اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا ہے :
📚وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَیرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ
اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی) ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
(سورہ القصص:50)
________&_________
*بدعت سرا سر گمراہی کا سبب ہے جسکی احادیث میں پر زور مذمت بیان کی گئی ہے*
آپ ﷺنے شرک کے بعد جس طرح بدعت اور بدعتی کی مذمت فرمائی ہے، شاید ہی کسی اور چیز کی ایسی مذمت فرمائی ہو، وجہ یہی ہے کہ بدعت سے دین کا اصلی حلیہ اور صحیح نقشہ بدل جاتا ہے،
📚عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ .
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4607)
📚رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
" إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِیثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْی هَدْی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ "
یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ہے, اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے , اور کاموں میں سے بد ترین کام اس (اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی شریعت ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں , اور ہر (ایسا ) نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے والی) ہے،
( سنن نسائی كـتاب صلاة العیدین باب كیف الخطبة_1578)
📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :"من أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیسَ فِیهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے وہ چیز مردود ہے ۔
(صحیح البخاری كتاب الصلح باب إذا اصطلحوا على جور فالصلح مردود_2697)
📚ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیسَ عَلَیهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ کام(نیکی) مردود ہے،
(صحیح مسلم كتاب الأقضیة باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور_1718)
📚امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رض کو رسول اللہ ﷺ نے ایک صحیفہ لکھوایا جس میں مدینہ کے بارہ میں یہ درج تھا :
"مَنْ أَحْدَثَ فِیهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَیهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ "
جس نے اس (مدینہ) میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالى , فرشتوں , اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔ اس سے کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول نہیں کی جائے گی
(صحیح البخاری كتاب الحج باب حرم المدینة_1870)
بدعت جہاں بھی ہو وہ بدعت ہے، ہاں مدینہ طیبہ میں اس کا گناہ زیادہ ہے، اس لئے کہ وہ منبع رشد وہدایت ہے،
📚حضرت ابراہیم بن میسرہ
حضور کریمﷺ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں:
مَن وَقَّر صاحبَ بدعةٍ؛ فقد أعان على هَدْمِ الإسلامِ
جس نے بدعتی کی توقیر کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی،
(الجامع الصغیر، رقم الحدیث:۲۸۰۹)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، تخريج مشكاة المصابيح ١٨٧ • حسن)
📚حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ
اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-50)
🚫یہ حدیث سندا ضعیف ہے، دو راوی اسکی سند میں مجہول ہیں، ابو زید اور ابو مغیرہ
(دیکھیں سلسلہ الاحادیث الضعیفہ-1492)
۔
📚حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
”إنَّ اللهَ حجب التوبةَ عن كلِّ صاحبِ بدعةٍ حتى يدَعَ بدعتَه
اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے،
(المنذري الترغيب والترهيب ١/٦٦ • إسناده حسن)
(الألباني صحيح الترغيب ٥٤ • صحيح)
*اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ بدعت ایسی قبیح ، بری اور منحوس چیز ہے کہ انسان کے دل میں فطری طور پر جو نورانیت اور صلاحیت ہوتی ہے، بدعت اس کو بھی ختم کردیتی ہے اور اس کی نحوست کا یہ اثر ہوتا ہے کہ توبہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی ۔ اور عقلی طور پر بھی یہ بات بالکل درست ہے ،اس لئے کہ جب بدعتی بدعت کو کار ثواب سمجھ کر کرتا ہے تو اس سے وہ توبہ کیوں کرے گا؟ توبہ تو گناہوں سے کی جاتی ہے ،نہ کہ نیکیوں سے*
_______&______________
*یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدعت اور اہل بدعت سے انتہائی نفرت تھی*
📚حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاوہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہے، جسے امام دارمی نے نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ کی مسجد میں سحری کے وقت دائرہ بنا کر کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ سو سو مرتبہ پڑھ رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا تھا:
فَقَال فعدوا مِنْ سَیِّاٰتِکُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ۔ او مفتحی باب ضلالۃ
’’تم اپنی ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ افسوس ہے تم پر اے امت محمد تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ بکثرت حیات ہیں، ابھی تو رسول اللہﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور ان کے برتن بھی نہیں ٹوٹے کیا تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو،
(سنن الدارمي | الْمُقَدِّمَةُ | بَابٌ : فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ. حدیث نمبر-210) إسناده جید
📚أنَّ رجلًا أتى ابنَ عمرَ، فقال: إِنَّ فلانًا يقرأُ عليكَ السلامَ، فقال: إِنَّه بلَغَني أنه قدْأحدَثَ، فإِنْ كان قدْ أحدَثَ؛ فلا تُقْرِهُ مني السلامَ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس ایک شخص کسی کا سلام لایا تو آپ نے فرمایا:
مجھے سلام بھیجنے والے کی شکایت پہنچی ہے کہ اس نے کوئی بدعت اختیار کی ہے، اگر واقعی اس نے ایسا کیا ہے تو میرا سلام اس کو نہ دینا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2152)
(الألباني تخريج مشكاة المصابيح112 حسن)
📚حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ،
” إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ. قَالَ : وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ فِي الْإِسْلَامِ
(بیٹے) بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ اسلام میں بدعت کا مخالف ہو
(مسند احمد حدیث نمبر-16787)حسن
(سنن ترمذی حدیث نمبر-244)
📚حضرت حسانؓ فرماتے ہیں:
”مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا، ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں اور قیامت تک (بغیر توبہ) اسے اس کی طرف نہیں لوٹاتے ہیں،
(سنن الدارمي | الْمُقَدِّمَةُ | بَابٌ : اتِّبَاعُ السُّنَّةِ.حدیث نمبر-99)
📚سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ (اچھی بدعت)" ہی کیوں نہ سمجھیں،
(السنة للمروزی، ص ۲۹ ؛ وسنده صحیح)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان اقوال و واقعات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ وہ بدعت اور بدعت کرنے والوں سے کس قدر نفرت کرتے تھے،
___________&__________
📚شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
بدعتیں کفر کی ڈاک ہیں اور یہ دین میں ایک ایسی زیادتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہیں کیا۔بدعت کبیرہ گناہ سے زیادہ بری چیز ہے اور شیطان کبیرہ گناہ کی نسبت بدعت سے زیادہ خوش ہوتا ہے اس لیے کہ گناہ گار گناہ کرتے ہوئے جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے وہ اس سے توبہ کر سکتا ہے اور بدعتی بدعت کرتے وقت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ دینی چیز ہے جس سے اللہ کاقرب حاصل کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ اس سے توبہ نہیں کرتا ۔بدعتیں سنتوں کا خاتمہ کر دیتی ہیں اور بدعتیوں کے نزدیک سنت اور اہل سنت مبغوض و ناپسندیدہ ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بدعت اللہ سے دور کر کے اس کے غضب و عتاب کو لازم کرتی ہے اور دلوں کی کجی اور خرابی کا سبب بنتی ہے۔ (بدعت ،تعریف ،اقسام اور احکام:ص۳۵)
📚بدعت شیخ عبد القادر جیلانی کی نظر میں، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق تصنیف غنیة ا لطالبین سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں،
وہ لکھتے ہیں!
بدعت:
ہوشیار اور دانا مومن کے لیے بہتر ہے کہ آیات اور احادیث کے ظاہری معنوں کے مطابق ان پر عمل کرے اور تابعدار رہے، نئی نئی باتیں نہ نکالے، نہ اپنی طرف سے کمی بیشی یا تاویلیں کرے۔ ایسا نہ ہو بدعت اور گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہو جائے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پیروی کرو بدعت اختیار نہ کرو۔ یہی تمہارے لیے کافی ہے۔۔۔۔۔۔انتہی!
(غنیة الطالبین/ ص۔185-186 )
مطبوعہ نعمانی آفسٹ پریس دہلی 6، ناشر فرید بک ڈپو جامع مسجد دہلی 6)
________&___________
*بدعات کی پہچان*
ہمارے معاشرے میں رائج بدعات کی فہرست طویل ہے اور جہالت کی وجہ سے طویل تر ہورہی ہے، اعتقادی بدعات تو کفر کی سرحد کے قریب کردیتی ہیں ،جب کہ عملی بدعات گناہ کبیرہ ہیں۔ ان سب بدعات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے ،البتہ بدعت کی چند علامات کاذکر کرنا مقصود ہے۔
علامت:1
بدعت ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہے جب کہ سنت ہر جگہ اور ہرزمانے میں یکساں رہتی ہے۔
علامت:2
جو عبادتیں انفرادی طورپر ثابت ہوں، ان کو اجتماعی طور پر کرنا بدعت ہے،
📚حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عروة بن زبیر رض کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عائشہ کے حجرے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں، ہم نے حضرت ابن عمر رض سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”بدعت“ ہے۔
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْحَجُّ. | بَابٌ : بَيَانُ عَدَدِ عُمَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَمَانِهِنَّ_حدیث نمبر :1255)
📚امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ چاشت کی نماز جو اکیلے اکیلے ، فرداً فرداً پڑھی جاتی ہے اس کو اجتماعی طور سے باجماعت پڑھنا بدعت ہے نہ کہ اصل چاشت کی نماز بدعت ہے ،کیونکہ چاشت کی نمازتو احادیث سے ثابت ہے۔
(شرح النووی:۱/۴۰۹)
موجودہ دور میں اس کی مثال سنتوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا التزام ہے، یہ یقینا بدعت ہے، کیونکہ حضور کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس موقع پر دعائیں مانگنا تو ثابت ہے لیکن اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر۔اسی طرح شب قدر اور دوسری مبارک راتوں میں عبادت کرنا بہت بڑی سعادت ہے اور اس کا اہتمام بھی کرنا چاہئے لیکن چند سالوں سے کچھ علاقوں میں مساجد میں صلوٰة التسبیح کو باجماعت ادا کرنے کا رواج شروع ہوگیا ہے جو یقینا قابل ترک ہے، کیونکہ صلوٰة التسبیح کا تو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے انفرادی طورپر پڑھنا ثابت ہے نہ کہ باجماعت ۔اگر باجماعت پڑھنے میں کوئی خیر ہوتی تو ایک دفعہ تو آپ بھی پڑھتے، کیونکہ آپ سب سے زیادہ علم بھی رکھنے والے تھے اور نیکی کے حریص بھی تھے۔
علامت:3
جو سنت آہستہ کرنی ثابت ہو اس کو زور سے ادا کرنا بدعت ہے۔
مثلاً: درود شریف پڑھنے کی بہت سی روایات میں ترغیب آئی ہے اور مختلف مقداروں پر بڑے بڑے اجر کا وعدہ مخبر صادق نے بتایا ہے، لیکن اس کے پڑھنے کا سنت طریقہ انفرادی اور آہستہ آواز میں ہے نہ کہ بلند آواز سے۔
📚علامہ شامی رحمۃ اللہ اس سلسلے میں ایک بہت اہم واقعہ نقل کرتے ہیں:
”صح عن ابن مسعودؓ انہ اخرج جماعة من المسجد یہللون ویصلون علی النبیﷺجہراً وقال لہم ما اراکم الا مبتدعین“۔ (رد المحتار:۵/۲۸۱)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعودرض سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک جماعت کو مسجد سے محض اس لئے نکال دیا تھا کہ وہ بلند آواز سے ”لا الہ الا اللہ“ اور درود شریف پڑھتے تھے، آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں بدعتی ہی سمجھتا ہوں“
اسی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جن جن مواقع میں بلند آواز سے ذکر اور دعاء ثابت ہے ،وہاں بلند آواز سے ہی ذکر اور دعاء کرنے سے شریعت کی منشا ٴپوری ہوگی اور جہاں بلند آواز سے دعاء اور ذکر کرنا ثابت نہیں ہے وہاں آہستہ دعاء اور ذکر ہی بہتر اور افضل ہے۔ حضرات صحابہ اور تابعین کا عمل عمومی طور پر آہستہ آواز سے ذکر پر رہا ہے اور یہی مسلک حضرات ائمہ اربعہ کا ہے۔
علامت:4
شریعت میں کسی نیک عمل کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہ ہو تو ایسے عمل کو خاص اوقات کے ساتھ خاص کرکے اہتمام والتزام سے ادا کرنا بدعت ہوگا،
📚اسی وجہ سے امام شاطبی فرماتے ہیں:
”ومنہا التزام الکیفیات المعینة والہیئأت المعینة کالذکر بہیئة الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم ولادة النبی عیداً“۔(الاعتصام :۱/۳۹)
ترجمہ:
اور بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ اعمال میں مخصوص کیفیات اور ہیئات کا التزام کیا جائے، جیسے اجتماعی طور پر ایک آواز سے زور سے ذکر کرنا اور یوم ولادت نبی کو عید قرار دینا یا عید منانا“۔
📚اور علامہ شامی فرماتے ہیں:
”وقد صرح بعض علماء نا وغیرہم بکراہة المصافحة المعتادة عقب الصلوٰات مع ان المصافحة سنة وما ذاک الا بکونہا لم توثر فی خصوص ہذا الموضع فالمواظبة علیہا فیہ توہم العوام بانہا سنة فیہ“
(رد المحتار:۲/۲۳۵)
ترجمہ:․․․علمائے کرام نے نمازوں کے بعد مصافحہ کی عادت بنانے کو صاف طور پر مکروہ فرمایاہے ،باوجود یہ کہ مصافحہ کرنا سنت عمل ہے، اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ خاص اس موقع پر (یعنی نمازوں کے بعد) مصافحہ کرنا حضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے“۔
مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کے لئے ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرناسنت ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے ،اسی طرح اگر کسی سے اتفاقاً نمازوں کے بعد مسجد میں ملاقات ہوجاتی ہے تو اس موقع پر بھی مصافحہ کرنا باعث رضائے الٰہی ہوگا، لیکن بعض دیار میں جو رواج بن گیا ہے کہ جماعت کی نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،گوکہ نماز سے پہلے امام صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی ہو، یہ بدعت ہے۔ اسی طرح نماز کے بعد بعض لوگ خصوصیت اور اہتمام سے اپنے دائیں اور بائیں طرف کے مقتدیوں سے مصافحہ کرنے کی عادت بنالیتے ہیں،یہ بھی بدعت ہے۔
علامت:5
کوئی جائز یا نیک عمل اس طرح سے کیا جائے کہ عبادت پر زیادتی کا خیال ہونے لگے، مثلاً: میت کے لئے دعا مانگنا باعثِ ثواب ہے مگر نمازِ جنازہ کے بعد مکروہ ہے۔
📚حضرت ملاعلی قاری حنفی فرماتے ہیں:
”ولایدعو للمیت بعد صلوٰة الجنازة لانہ یشبہ الزیادة فی صلاة الجنازة“۔
(مرقاة المفاتیح:۴/۱۷۰)
ترجمہ:․․․”دعاء نہیں مانگیں گے میت کے لئے نمازِجنازہ کے بعد اس لئے کہ اس سے نماز ِ جنازہ پر زیادتی کا شبہ ہوتا ہے“۔
یہ چند ایک مثالیں تھیں بدعات کے بارے جبکہ حقیقت میں بدعات اس قدر زیادہ ہو چکی ہیں کہ انکو شمار کرنا ہی مشکل ہے،
📚شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فالسعید من تمسک بما کان علیہ من السلف واجتنب عن ما احدث۔“
(فتح الباری:۳/۲۱۳)
ترجمہ:
سعادت مندی اس پر موقوف ہے کہ سلفِ صالحین کے طریقے کو اپنایا جائے اور بعد میں آنے والوں نے جو بدعات نکالی ہیں، ان سے بچاجائے“
_________&_________
*اچھی اور بری بدعت کی تقسیم اور چند شبہات کا ازالہ*
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :
1۔ بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت
2۔ بدعت سیئہ یعنی بری بدعت
ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔
ان شاءاللہ
📒پہلا شبہ :
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا :
’’ نِعْمَ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ ‘‘-
یہ کتنی اچھی بدعت ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2010)
📖شبہ کا ازالہ:
عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے پہلے ہی سنت تھا :
📚 صاحب شریعت ﷺ خود نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ - إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا - غُفِرَ لَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ".
’’ جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-37)
📚اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں با جماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ نے اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کر دیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔
(ملاحظہ ہو صحیح بخاری 729٫2790)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی،اور وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے اس کے فرض کر دیئے جانے کا اندیشہ ختم ہو گیا، تو عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کر دیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہو گیا۔
٭ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
📚اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ۔
تم تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا،
(مسند احمد،حدیث نمبر_17142)
(ابوداؤد- حدیث نمبر_4607)
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں اسے با جماعت کیوں نہیں ادا کیا گیا؟ تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ
٭ ابوبکر ؓ کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذا آپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔
٭ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکاة وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر ؓ کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑ چکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہو چکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی
٭ا گر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کر لیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :
کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة
’’ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
_____&_______
📒دوسرا شبہ:
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔
📚عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَئ۔
’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو‘‘۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1017)
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع (ایجاد کرنے) اور ابتدع (بلا مثال سابق شروع کرنے)کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے،
📚بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا ". وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ : مِنْ دَمِهَا ؛ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا.
’’ جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا ،اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا‘‘۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-7321)
اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجاد کرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا:
مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ یا بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ یا مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ
’’ جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا‘‘
📖شبہ کا ازالہ:
مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہو گی،
1۔ حدیث کی مراد اس کے سبب ورود سے واضح ہو گی۔
چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :
📚’’ جریر بن عبد اللہ ؓ نے فرمایا کہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقر و فاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان و اقامت کہی،پھر آپ نے صلاة پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی :
’’ یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔‘‘ الآیة اور ’’ اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ‘‘۔
اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا: اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ سَنَّ فِْي الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم_1017)
اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر و بھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کر دار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کر چکے ہوں۔
2۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع و ایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔
سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے :
الف۔
گناہ و معصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔
ب۔
دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔
اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہو گی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔ (الموافقات٢٣٢٣)
_______&______
📒تیسرا شبہ :
بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:
📚عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ؓ أَنَّ النَّبَِّ ﷺ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔
(سنن ترمذی_2677)
’’ بلال بن حارث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو الله اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو ‘‘۔
اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جو الله اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔
📖ازالہ:
🚫مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک و مجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے،
(دیکھیں:
(صحیح و ضعیف سنن ترمذی البانی،حدیث نمبر-2677)
_________&_______
📒چوتھا شبہ :
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :
’’ مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن‘‘
(مسند احمد،حدیث نمبر-3600)
’’ جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے‘‘۔
وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔
📖شبہ کا ازالہ:
مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کر دیں۔
📚عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: ِ
آنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيئ
ترجمہ:
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کر لیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے‘‘
(مسند احمد حدیث نمبر-3600) حسن
یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پر بدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:
1۔ اس حدیث میں کسی عمل/بدعت کی طرف اشارہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مسلمان اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے جو اپنے اعمال اور اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک اچھا ہے،
2_یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔
3۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہو گا،
4۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم و جاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم و جاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:
اول:
یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہو گا۔
’’ سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْي النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة‘‘۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4597)
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے‘‘
تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کو اچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہو گا۔۔۔؟
دوم :
اس کا تقاضہ یہ ہو گا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعودؓ کی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چور دروازہ کھول دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعودرض کی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔
_________&______
📒پانچواں شبہ :
سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے،
📖ازالہ :
معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے الله اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔
جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا،مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا،
📚جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ‘‘
(صحیح مسلم حدیث نمبر-3004)
’’ میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے‘‘۔
البتہ جہاں تک مصحف کو دو دفتوں کے درمیان قرآن مجید کے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیا کیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہو گیا۔ چنانچہ ابوبکرؓ نے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمانؓ نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیا اور تمام صحابہؒ کا اس بات پر اجماع ہو گیا۔
جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔
بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔
یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہو چکا ہے۔
__________&__________
📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا بدعت حسنہ جائز ہے؟
تو انکا جواب تھا کہ،
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بار بار تكرار كے ساتھ ہر خطبہ جمعہ اور عيد كے خطبہ ميں يہ بيان فرمايا كرتے تھے:
" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "
اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
اس حديث ميں شاہد " ہر گمراہى آگ ميں " ہے.
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:
" اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 ).
تو جب ہر بدعت گمراہى ہے تو اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے كہ اسلام ميں كوئى بدعت حسنہ بھى ہے، اللہ كى قسم يہ تو صريحا اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كےفرمان و فيصلہ كے مخالف ہے.
2 - اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ بتايا ہے كہ جس نے بھى دين ميں كوئى نيا كام اور بدعت ايجاد كى تو اس كا عمل تباہ اور مردود ہے، اسے اللہ تعالى قبول نہيں فرمائيگا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى بمع فتح البارى حديث نمبر ( 2697 ).
تو پھر اس كے بعد كسى شخص كے ليے بدعت كو جائز كہنا اور اس پر عمل كرنا كس طرح جائز ہو سكتا ہے.
3 - بدعتى شخص جو دين ميں كوئى ايسا كام اضافہ كرتا ہے جو دين ميں نہ تھا اس كے اس فعل سے كئى ايك برائياں لازم آتى ہيں جو ايك ايك بڑھ كر ہيں. مثلا:
- دين كے ناقص ہونے كا الزام، اور يہ كہ اللہ نے اس كى تكميل نہيں كى، اور اس ميں زيادتى كى مجال ہے حالانكہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متصادم ہے:
آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں،
- يہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ہى دين ناقص تھا حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا اور اس نے آ كر تكميل كى.
- اس بدعت كے اقرار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دو قسم كے امور كى تہمت لازم آتى ہيں:
يا تو وہ اس بدعت حسنہ سے جاہل تھے.
يا پھر انہيں علم تھا ليكن انہوں نے اپنى امت سے چھپائى اور اس كى تبليغ نہ كى ( نعوذ باللہ باللہ من ذلك ).
- اس بدعت كا اجر نہ تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پا سكے اور نہ ہى صحابہ كرام حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا تا كہ اس اجر كو حاصل كر سكے، حالانكہ اسے تو يہ كہنا چاہيے تھا كہ: اگر يہ بھلائى اور خير كا كام ہوتا تو وہ صحابہ كرام اس كى طرف سبقت لے جاتے.
- بدعت حسنہ كا دروازہ كھولنے سے دين ميں تغير و تبدل اور خواہشات و رائى كا دروازہ كھولنے كا باعت بنے گا، كيونكہ ہر بدعتى شخص يہ كہےگا ميں نے جو كام كيا ہے وہ اچھا اور حسن ہے، تو ہم كسى رائے كو اپنائيں اور كس كے پيچھے چليں ؟
- بدعات پر عمل كرنے سے كئى سنتوں كو ترك كرنے كا باعث ٹھرے گا، اور يہ حقيقت ہے واقعات اس كے شاہد ہيں: جب بھى كوئى بدعت ايجاد ہوتى ہے تو اس كے مقابلہ ميں ايك سنت مٹ جاتى ہے، ليكن اس كے برعكس صحيح ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ہر قسم كى ظاہر اور باطنى گمراہى اور فتنوں سے محفوظ ركھے.
واللہ اعلم
(https://islamqa.info/ur/answers/864/بدعت-حسنہ)
_______&____________
*بدعتی قیامت کے دن حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے*
📚عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ آلہ وسلم قال ( إنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ أبداً لَیَرِدُنّ عَليّ أقواماً أعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فأقولُ إِنَّھُم مِنی، فَیُقال، إِنکَ لا تدری ما أحدَثُوا بَعدَکَ، قَأقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ) و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً، و أسحقہُ أبعَدُہُ۔(صحیح البُخاری/حدیث 6583، 6584/کتاب الرقاق/ باب فی الحوض،)
(صحیح مسلم / حدیث 2290، 2291 /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ۔ )
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3167)
ترجمہ:
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان (کچھ پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا آپ نہیں جانتے کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیئے، تو میں کہوں گا دُور ہوں دُور ہوں، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی )) اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا۔ ۔ سُحقاً یعنی دُور ہونا،
محترم قارئین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ دِین میں نئے کام کرنے والوں کو حوضِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہٹوائیں گے، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی "بدعتِ حسنہ " کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے۔ ’’’ غور فرمائیے‘‘‘ بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی، یا یوں کہیئے، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اور سیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ مَن أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد۔‘‘(صحیح البخُاری / حدیث ٢٦٩٧/کتاب الصلح /باب ٥)
جِس نے ہمارے اِس کام ( یعنی دِین ) میں ایسا نیا کام بنایا جو اِس میں نہیں ہے تو وہ کام رد ہے۔
غور فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہر وہ کام مردود قرار دِیا گیا ہے جو دِین میں نہیں ہے،
کچھ لوگ کہتے ہیں۔ ۔
جو کام دِین میں سے نہیں وہ بدعت ہو سکتا ہے، اور فلان فلان کام تو دِین میں سے ہیں، اور ان کے اس فلسفے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا یہ فرمان رد کرتا ہے کہ "جو اِس (یعنی دِین) میں نہیں ہے "، پس ایسا کوئی بھی کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک دین میں نہیں تھا وہ دین نہیں ہو سکتا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام جو خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرف سے جاری نہیں کیا گیا وہ بھی دینی نکتہ نظر سے قابل اتباع نہیں ہے۔
مثلاً اپنی خود ساختہ عبادات، دُعائیں، ذکر اذکار، چلہ کشیاں، اور ان کے خاص کیفیات، اوقات اور عدد وغیرہ مقرر کرنا، خصوصی یاد گیری کی محافل سجانا اور دن منانے، وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں یہ مذکورہ بالا کام "دِین میں سے " تو ہیں، لیکن جب یہ کام ایسے طور طریقوں پر کیے جائیں جو "دِین میں "نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مذکورہ بالا حُکم لاگو ہوتا ہے۔
بہت توجہ اور تحمل سے سمجھنے کی بات ہے کہ "دِین میں سے ہونا "اور "دِین میں ہونا "دو مختلف کیفیات ہیں، کِسی کام ( قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، عقیدہ، اور معاملات کے نمٹانے کے احکام وغیرہ )کا دِین میں سے ہونا، یعنی اُس کام کی اصل دِین میں "جائز "ہونا ہے،
اور کِسی کام کا دِین میں ہونا، اُس کام کو کرنے کی کیفیت کا دِین میں ثابت ہونا ہے،
مَن گھڑت، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں، اللہ کی عِبادت، دُعا، ذِکر و اذکار، عید، صلاۃ و سلام، یہ سب دِین میں تو ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ "اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے ؟؟؟"
قُرآن کی آیات کی اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا، ، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی کو کافر و مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی آراء و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں، وہ یقیناً دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے،
محترم قارئین ؛
مجھے اُمید ہے کہ اب تک آپ یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ دین میں ہر بدعت، محض بدعت ہے، اور اس میں کہیں سے بھی اچھی یا بری بدعت نکالنے کی گنجائش نہیں، پس ایسا ہر کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے تک، اور پھر خلافت راشدہ کے اختتام تک دین میں نہیں تھا وہ دین میں نہیں ہو سکتا،
ایسا کوئی بھی کام کرنے والا، کروانے والا اللہ کے ثواب نہیں پائے، بلکہ ایسے کسی بھی کام کو دِین سمجھ کر کرنے والے پر عتاب ضرور ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اور صریح أحکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے،
----------&------------
*کیا اچھی نیت سے بدعت نکالی جا سکتی ہے؟*
کچھ بھائیوں کے ذہن میں آنے والا ایک خیال جس کا اظہار بعض دفعہ زبان سے بھی ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں لیکن وہ انہیں اچھی نیت سے کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:
انما الاعمال بالنیات
’’اعمال نیتوں سے ہیں‘‘
ان کے استدلال اور باتوں کے بارے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے میں کہتا ہوں:
جو مسلمان حق کو پانا چاہتا ہے، حق کی معرفت کا طلبگار ہے اور حق پر عمل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت نبوی کی تمام نصوص کو سامنے رکھے نہ یہ کہ بعض کو اختیار کرے اور بعض کو ترک کر دے۔ یہی طریقہ ہے حق سے قریب اور خطا سے دور ہونے کا۔
اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ’اعمال نیتوں سے ہیں‘، ان دو شرائط میں سے ایک ہے جن پر عبادت کے درست ہونے اور اسکی قبولیت کا دارومدار ہے۔
پہلی یہ کہ جو عمل بھی کیا جائے وہ سچے دل سے خالصتًا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، اس میں غیراللہ کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔
دوسری یہ کہ وہ عمل سنت کے موافق ہو۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
📚من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد(صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور )
"جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ کام مردود ہے"
ان دو عظیم الشان حدیثوں میں دین کے اصول و فروع، ظاہر اور باطن بلکہ پورا دین داخل ہے۔ پہلی حدیث یعنی ’اعمال نیتوں سے ہیں‘ اعمال کے باطن کی اصلاح کرتی ہے اور دوسری حدیث ’جس نے کوئی بھی ایسا عمل کیا۔ ۔ ۔ ‘ اعمال کی ظاہری صورت کے لیے میزان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی متابعت اور پیروی ہر قول و عمل کے ظاہر و باطن کو جانچنے کا پیمانہ ہیں۔ جس نے اعمال کو اللہ کے لیے خالص کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی اتباع کی تو اس کا عمل مقبول ہے اور جس نے ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو چھوڑا تو اس کا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے۔
📚اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:
" لیبلوکم ایکم احسن عملا"
(سورۃ الملک آیت 2)
’تا کہ اللہ آزمائے کہ تم میں سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے‘
📚فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
’اچھے عمل سے مراد یہ ہے کہ وہ خالص ہو اور درست ہو۔ عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہ ہو گا اور درست ہو لیکن خالص نہ ہو تو بھی قبولیت نہ پا سکے گا۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ اسے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے اور درست ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سنت نبوی کے مطابق ہو‘
(ابونعیم فی حلیۃ الاولیاء8/95، تفسیر بغوی 5/ 419، علم اصول البدع للشیخ علی بن حسن ص 61)
تابعین اور تبع تابعین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ
’ ہر چھوٹے بڑے عمل کے لیے دو دیوان نشر کیے جاتے ہیں (یعنی اس کی قبولیت کو دو پیمانوں سے ناپا جاتا ہے) پہلا یہ کہ “عمل کس لیے کیا‘ اور دوسرا یہ کہ ’عمل کس طرح کیا‘۔
’عمل کس لیے کیا‘ کا مطلب ہے کہ اس کے پیچھے کیا نیت، محرک اور باعث تھا۔ دنیا کے فوائد سمیٹنے، لوگوں سے تعریف سننے اور ان کی تنقید سے بچنے وغیرہ کے لیے کیا یا اللہ کی عبادت، اللہ کی محبت میں اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کیا۔
’کس طرح کیا‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کے مطابق تھا یا اپنی مرضی اور فہم سے نکالا گیا۔
📚اِمام الشاطبی رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب "الأعتصام "میں ابن ماجشون سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے اِمام مالک علیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ
’’ جِس نے اِسلام میں نیا کام گھڑا اور ( اُس کام کو ) اچھی بدعت سمجھا تو گویا اُس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’ الیَومَ اَ کمَلت لَکُم دِینکُم ‘‘آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مُکمل کر دِیا ) لہذا جو اُس دِن ( یعنی جِس دِن آیت نازل ہوئی ) دین نہیں تھا وہ آج دِین نہیں ہو سکتا "
جیسا کہ
📚سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة"
'ہر بد عت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے "حسنہ (اچھی بدعت)" ہی کیوں نہ سمجھیں،
(السنة للمروزی، ص ۲۹ ؛ وسنده صحیح)
📚اِمام البیہقی نے اپنی "سنن الکبری "میں صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا کہ "سعید بن المُسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر طلوع ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑہتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع اور سجدے کرتا ہے تو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے اِس کام سے منع کیا۔
اُس آدمی نے کہا:
یا ابَا مُحَمَّدٍ یُعَذِّبُنِی اللَّہ ُ عَلٰی الصَّلَاۃِ
اے ابا محمد کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا ؟ :
تو سعید رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دِیا :
"لَا وَلَکِن یُعَذِّبُکَ اللہ بِخِلَافِ السُّنَّة"
'' نہیں لیکن تمہیں سُنّت کی خِلاف ورزی پر عذاب دے گا "
(سنن البیہقی الکبریٰ / حدیث٤٢٣٤ /کتاب الصلاۃ /باب ٥٩٣ من لم یصل بعد الفجر الا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض،) کی آخری روایت،
اِمام الالبانی نے "اِرواء الغلیل جلد 2، صفحہ 234 " میں اِس روایت کو صحیح قرار دِیا،
قارئین کرام،
یہ میرا فتویٰ نہیں، اور نا ہی دو چار سو سال پہلے بنے ہوئے کسی "فرقے "کا فتویٰ ہے،بلکہ ایک عظیم تابعی کا فتویٰ ہے، اِس پر غور فرمائیے، اور بار بار فرمائیے۔
سنن ترمذی میں ایک اور حدیث آتی ہے کہ
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: ”جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے“۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں ( زیادہ ہونے کی وجہ سے ) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر دوسری قربانی کرو“،(تمہاری قربانی نہیں ہوئی)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1508)
اس حدیث میں واضح الفاظ ہیں کہ عمل کرنے والا صحابی ہے، اور نیت بھی اچھی ہے کہ جلدی لوگوں کو گوشت کھلاؤ گا،مگر اسکا یہ عمل قبول نا ہوا کیونکہ سنت کے مطابق نہیں تھا،
خلاصہ کلام یہ کہ نیک نیتی سے کیا گیا ہر کام قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو۔ اور نیک نیتی اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب عمل بذات خود درست ہو۔
*دعا ہے کہ رب کریم ہمیں امام الانبیاء، سید الرسل، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ،احمد مجتبی ﷺکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہر طرح کی بدعات سے بچائے*
آمین یا رب العالمین
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
No comments:
Post a Comment