Kya Shadi ke Bad Biwi Apne Khawind ka Surname Apne Name me lga Sakti hai?
Kya yah Jo abhi riwaaj me aaya ke akser Auratein Shadi ke bad apne Shauhar ka Name apne namo me lga liya Karti hai kya isse Islam mna karta hai aur kya yah Haram hai?
Kya Ise hm western culture ya European Culture kah kar Haram samajh Lete hai ya Magreebi Tahzeeb ki wajah se Haram samajh Baithte Hai?
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-103"
سوال: کیا شادی کے بعد لڑکی کا سَرنِیم (Surname) بدلا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یعنی عورت شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ کے بجائے اپنے شوہر کا نام لگا سکتی ہے یا نہیں؟
Published Date: 20-10-2018
جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!!
جی ہاں! شادی کے بعد لڑکی کا سَرنِیم (Surname) بدلا جا سکتا ہے، یعنی عورت شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ کے بجائے اپنے شوہر کا نام لگا سکتی ہے، اِس میں کوئی گناہ نہیں ہے، باپ کا یا شوہر کا نام محض شناخت کے لیے ہوتا ہے، لڑکی کی جب تک شادی نہیں ہوتی اس وقت تک اس کی شناخت "" دختر فلاں "" کے ساتھ ہوتی ہے اور شادی کے بعد "" زوجہ فلاں "" کے ساتھ۔ شر عاً "" دختر فلاں "" کہنا بھی صحیح ہے اور ""زوجہ فلاں کہنا بھی ٹھیک ہے،
*دور حاضر میں آن لائن فتوی سے جہاں علوم نبوت کو فائدہ پہنچا ہے وہیں بہت سی غلط فہمیوں کو بھی پھلنے پھولنے ملا ہے. حالانکہ شادی کے بعد شوہر کا نام ساتھ لگانے میں غیروں کی مشابہت نہیں ہے، اس کے باوجود گوگل بابا اسے 'حرام' قرار دے رہے ہیں. کہتے ہیں یہ انگلش کلچر ہے، انگلش کلچر میں نام جیسے، مسز جاوید ، مسز سلیم اور شادی کے بعد شوہر کے نام کیساتھ، جیسے انعم جاوید یا سعدیہ سلیم کا رواج پایا جاتا ہے، اگر یہ انگلش کلچر ہے تو بچوں کی تاریخ پیدائش بھی انگریزی میں نہ لکھا کریں، اور کچھ ناسمجھ یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں باپ کے علاوہ کسی اور کا نام لکھنا حرام ہے، جبکہ وہ حدیث ولدیت بدلنے کے بارے ہے۔
انھیں کون سمجھائے کہ شوہر کا نام اپنے نام کیساتھ لگانا شرعا ممنوع نہیں ہے،
🌷 امہات المؤمنین کے ناموں کیساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ
زوجۃ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا لاحقہ ان کے ناموں کیساتھ لگتاہے کتب احادیث میں اسکی بے شمار مثالیں ہیں ۔ کئی مقامات پر امہات المومنین کو زوجہ الرسول کے نام سے پکارا گیا،
اسی طرح کئی بار صحابیات کے ناموں ساتھ بھی انکے شوہر کے نام لگے،
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو صدقہ کرنے کی نصیحت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) ،
کہا گیاَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ
کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔۔۔!
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1462)
اس حدیث میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارہ میں پوچھا کہ کون سی زینب آئی ہے تو بتانے والے نے بتایا
امرأۃ ابن مسعود ۔۔!
یعنی ابن مسعود کی بیوی ہے ۔ یعنی باپ کے نام کی بجائے اس زینب کے شوہر کا نام ذکر کیا گیا،
اسی کلمہ "امرأۃ ابن مسعود"
کو آج لوگ مسز ابن مسعود کہہ دیں تو کیا عار ہے ؟
بیوی کا اپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تعریف کے باب سے ہے، جس میں وہم یا اختلاط نسب نہیں ہوتا، اور تعریف کا باب بہت وسیع ہے،
تعریف یعنی پہچان کبھی ولاء(آزاد کردہ غلام) سے ہوتی ہے ,
جیسے عکرمہ مولی ابن عباس ،
کبھی حرفت یعنی پیشے سے ہوتی ہے جیسے غزالی،
کبھی یہ پہچان لقب اور کنیت سے ہوتی ہے جیسے أعرج اور ابو محمد أعمش،
کبھی پہچان ماں کی طرف نسبت کر کے ہوتی ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے جیسےاسماعیل ابن علیۃ،
اور کبھی زوجیت کے ساتھ ہوتی ہے۔
🌷جیسا قرآن مجید میں ایک جگہ
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا اِمْرَأَةَ فِرْعَوْنَ
(سورہ تحریم ،آئیت نمبر-11)
’’ امرأۃ فرعون ‘‘
یعنی فرعون کی بیوی وارد ہے۔
حالانکہ عورت مسلمان ہے اور شوہر کافر ہے مگر پھر بھی قرآن میں پہچان کے لیے شوہر کا نام استعمال ہوا،
🌷اسی طرح قرآن میں ہے
"اِمْرَاَۃَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَۃَ لُوْطٍ، کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ"
( التحریم:10)
ترجمہ: امرات ِ نوح و امرات ِ لوط، یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، دونوں ہمارے دو نیک بندوں کے گھروں میں تھیں، بس اُنھوں (بیویوں) نے اُن کے ساتھ خیانت کی، حکم دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ.۔
یعنی اللہ نے کچھ عورتوں کا تعارف اُن کے شوہروں کے نام سے کروایا ہے،
نوٹ:
بعض لوگوں نے بعض احادیث سے جو یہ سمجھ لیا کہ اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ کے نام کے علاوہ کسی دوسرے مثلاً شوہر وغیرہ کا نام لگانا حرام ہے،
تو انکی یہ بات غلط ہے،
کیونکہ اُن احادیث سے مراد یہ ہے کہ "نسبت وہ حرام ہے جس میں بُنَوَّت کے لفظ کے ساتھ غیر باپ کی طرف نسبت کی جائے، یعنی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کا بیٹا بنانا مقصود ہو،
یعنی بیٹا تو ہے زید کا، لیکن منسوب کرتا ہے خالد سے کہ میں خالد کا بیٹا ہوں،
اسی بات سے قرآن مجید میں اللہ تعالى نے بھی بایں طور منع فرمایا ہے:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ان (منہ بولے بیٹوں ) کو انکے (اصل) باپوں کے نام سے پکارو ‘ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں انکے آباء کا علم نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست(یا غلام) ہیں۔
[الأحزاب : 5]
آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ زید کو "زید بن محمد“ کے بجائے "زید بن حارِثہ“ کہا جائے..۔
اور حدیث میں بھی صاف واضح الفاظ ہیں۔۔
🌷فرمان نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔
جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعوی کیا ،یہ جانتے ھؤے بھی کہ وہ اسکا باپ نہیں ہے تو جنت اس پہ حرام ہے،
(صحیح بخاری_باب: جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعوی کیا٬ حدیث نمبر: 6766)
حدیث میں جس کام سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اصل والد کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کرے،
جیسا کہ یہ روایت ہے!
🌷سیدنا واثلہ بن الاَسْقَع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ
بڑے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور (کا بیٹا ہونے) کا دعوى کرے۔ (صحیح بخاری:حدیث نمبر-3509)
البتہ اپنے نام کے ساتھ والد کے سوا کسی کا نام لگانا یا اسکی طرف نسبت کرنا اس انداز سے ہو جس سے ولدیت تبدیل نہ ہو ‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
🌷خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے داد کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ» میں نبی ہوں‘ اس میں کوئی جھوٹ نہیں.. . میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں،
(صحیح البخاری:حدیث نمبر- 2864)
🌷اسی طرح سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ ،
الاسود بن عبد یغوث الزہری کے زیر پرورش تھے‘ جس بناء پر وہ مقداد بن الاسود مشہور ہوگئے حالانکہ انکے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ بن مالک البہرانی الکندی تھا۔ چونکہ انکی ولدیت معروف تھی کہ یہ کس کے بیٹے ہیں ‘ سو اسلام نے مقداد بن الاسود کہنے یا کہلانے پر کوئی نکیر نہیں کی۔ یاد رہے کہ یہ بدری صحابی ہیں‘ اور چھٹے مسلمان ہیں۔ انکی وفات مدینہ سے قریب جرف نامی جگہ پر 33 ہجری کو ہوئی۔
____________________________
تو پتہ چلا کے ولدیت تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی بھی مرد یا عورت اپنے نام کے ساتھ پہچان کیلئے کسی کا بھی نام لگا سکتے ہیں، کیونکہ خاوند کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا کوئی عیب نہیں‘ اصل عیب اور ممنوع اور حرام کام اپنے والد کے سوا کسی اور کو اپنا باپ قرار دے لینا ہے۔
اور پھر ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے نام عموما باپ کے نام سے خالی ہوتے ہیں مثلا " مریم بی بی‘ ثمینہ کوثر‘ زبیدہ خاتون" وغیرہ اور شادی کے بعد اپنے نام کا دوسرا حصہ ختم کرکے وہ اسکی جگہ خاوند کا نام لگا لیتی ہیں جیسے " مریم رشید‘ ثمینہ طالب‘ زبیدہ ارشد" وغیرہ۔
تو اس سے کسی قسم کا اشتباہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ عورت کو جاننے والے سبھی جانتے ہیں کہ اسکے نام کا دوسرا حصہ اسکے خاوند کا نام ہے جو کہ اس نے خاوند کی محبت میں اپنے نام کے ساتھ ملا لیا ہے۔
بعض لڑکیوں کے نام ابتداء میں والد کے نام کے لاحقہ پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے " حمنہ اسلم‘ عائشہ اختر‘ آمنہ آصف" ان ناموں میں اسلم ‘ اختر‘ آصف انکے والد کا نام ہوتا ہے اور شادی کے بعد وہ اس کی جگہ اپنے خاوند کا نام لگا لیتی ہیں جیسے "حمنہ اشرف‘ عائشہ افضل‘ آمنہ اکرم" وغیرہ۔ تو یہ بھی انکے جاننے والوں سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکے خاوندوں کے نام ہیں۔
اور اس طرح کرنا ولدیت تبدیل کرنا نہیں بلکہ نام تبدیل کرنا کہلاتا ہے۔ اور نام عمر کے کسی بھی حصہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس بارہ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مناسب موقعوں پر مختلف لوگوں کے نام تبدیل فرمائے ہیں۔
اور اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانے کو مغربی معاشرہ کی روایت قرار دینا سراسر نا انصافی ہے۔ کیونکہ اہل مغرب کی روایت میاں بیوی والی نہیں بلکہ انکی روایت تو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ والی ہے۔ جنکی دوستیاں صرف شہوت رانی کے لیے ہوتی ہیں یا کسی اور مطلب کی حدتک۔۔۔!
(واللہ تعالی اعلم باالصواب)
الفرقان اسلامک میسج سروس
No comments:
Post a Comment