Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 08)
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/8
۔
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا، اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں۔
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے۔۔۔ سلطان ملک۔شاہ نے کہا ۔۔۔تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے، مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے، ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے، تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں ،میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ،ورنہ یہ سرکش اور باغی ہو جائیں گے۔
سلطان عالی مقام!،،،،، سپہ سالار نے کہا۔۔۔ میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے، مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے، شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے، احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے۔
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا، اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں، پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
گستاخی معاف سلطان محترم !،،،،،کوتوال نے کہا ۔۔۔کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے، لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے ،مجھے کچھ ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں۔
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے۔۔۔ سپہ سالار نے کہا ۔۔۔احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا، لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہو، وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو۔
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا۔
میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں۔۔۔ کوتوال نے کہا ۔۔۔ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا، بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا۔ بھیج دو !،،،،،ملک شاہ نے کہا ۔۔۔اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا ،میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا۔
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا ،اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی، عراقی عرب تھا ،خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی، جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش، ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا ،عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی، شہسوار تھا، تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا ۔
ابن الہادی !،،،،کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا۔۔۔ یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو، اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے، لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ،شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟ کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟،،،، یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا ۔
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے۔۔۔ کوتوال نے اسے بتایا۔۔۔ وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا، میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی !
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے، آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے، پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا، کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا۔
محترم استاد !،،،،ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں۔
نہیں حسن!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے،۔۔۔۔،احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا ۔۔۔کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد !،،،،،حسن نے کہا۔۔۔میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے، بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے،،،،،، میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا،،،،، اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے، اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟،،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔۔۔۔ ناچ گانا کراؤ گے ؟،،،جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے، پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ جشن تو ہم منائیں گے، لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے، وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، تیراندازی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے، اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے، ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا، یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا، کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے، جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے۔
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی ،پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے، جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے۔
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی ،لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے، شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی، گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا۔
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا، سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن عطاش کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ،ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں تھی ۔
میرے مرشد !،،،،،حسن بن صباح نے احمد سے کہا۔۔۔ یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن !،،،،،احمد نے کہا۔۔۔ ہمارا کام آسان تو نہیں ،ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے، تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں ،اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی، ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں، ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے، تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے۔
تفریح استاد محترم!،،،،، حسن نے کہا۔۔۔ انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے، انسان حقیقت کا مفرور ہے، لذت چاہتا ہے، آپ استاد ہیں، آفتاب ہیں آپ ، میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں، مجھے آپ کا سبق یاد ہے، ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے، اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں، زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے، اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
انہیں یہ خدا ہم دیں گے۔۔۔ احمد نے کہا ۔۔۔انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے۔
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی، باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی، شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا ،جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے، یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی، اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا ،اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا، برچھی بردار، سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے، ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا، روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔
اچانک دو نقارے بجنے لگے ،ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں، اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا، اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا، اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا، کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں، وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا۔
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو، یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے، احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے، جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں۔
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں، گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ ۔
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا۔
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے ،جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا ،اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے، پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے، ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا ،یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے، اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے۔
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے، پہلے تیر انداز کو بلایا گیا، پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا، تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا، لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا، تیرانداز نے بڑی پھرتی سے ترکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا، تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا۔
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا ،میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا ۔
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا ،اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے، لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا ،اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ،ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا۔
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا، اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے، لوگوں نے شور و غل بلند کیا ،تیر اوپر جاتے اور گرتے صاف نظر آتے تھے، یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ،ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا۔
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا، احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا ،اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا۔ تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی، کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو۔
یہ تیر انداز کون ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا ۔۔۔سامنے آؤ۔۔۔ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا۔
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا ،اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی۔
کیا نام ہے تمہارا؟،،،، احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا ۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟ کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے۔۔۔ تیر انداز نے جواب دیا۔۔۔ بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں، یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا، لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا، اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں، میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں۔
اجازت ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے، وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا ،یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا، آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا ۔
آفرین !،،،،،احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا۔۔۔ میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا، شاہ در ہی تمہاری منزل ہے۔
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے، یحیٰی نے بلند آواز سے کہا،،،، اور اس نے گھوڑے کو روک لیا۔
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا، تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے، یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا،
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا ،اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا ،اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا، وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا ،اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی، گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا ،یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا ،اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی، اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا ۔
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا ،وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے، انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا ،اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا ،اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بن عطاش سے ہو گیا ،موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا۔
*=÷÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا، اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے، کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا ،یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا۔
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے حسن سے کہا۔۔۔ ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔
پوچھ لیں۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لگتا تو مسلمان ہے، معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا، یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا، میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر ہو رہے تھے، لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی، وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا، پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔شاید میں بھٹک گیا ہوں۔
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟،،،، احمد بن عطاش میں کہا ۔۔۔مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے، کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
رک جاؤں گا ۔۔۔یحییٰ نے جواب دیا۔۔۔ اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا ،لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو، یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا ،تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے ۔
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟،،،، یحییٰ نے پوچھا۔
یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا ،اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے۔
اپنی فوج!،،،،، احمد بن عطاش نے چونک کر کہا ۔۔۔میں اپنی فوج نہیں بناسکتا ،میں تو یہاں کا والی ہوں، فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے، میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں، تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے، گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے، اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے، تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو۔
میں مسلمان ہوں!،،،، یحییٰ نے کہا۔۔۔ لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں، سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گڑھ لیا ہے، کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں، میں تو مرد میدان تھا، آپ نے دیکھ ہی لیا، لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا ،میری روح تشنہ اور بے چین ہے۔
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا، حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا۔
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے، یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بٹھا لیں، اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی۔
اے بھٹکے ہوئے مسافر !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مرد میدان ہو، تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے، اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ،ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے، کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے۔
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا بپا کر رکھا تھا ،میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے، دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا، احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے، اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے۔
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا ،شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے، احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا، گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دھلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے، کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں ،یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے ،اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں۔
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں ،اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا، اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے۔
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے، اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو۔۔۔ احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا ۔۔۔تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے ،شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا، آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی ۔
مسلسل سفر میں ہوں ۔۔۔۔یحییٰ نے کہا۔۔۔ آپ نے ٹھیک جانا ہے، میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں، ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے، اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے۔۔۔
ہوجائے گا ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اسے یہیں لے آؤ۔
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا، سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا۔
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا، یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا ،وہ تو شاہانہ کمرہ تھا، یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا۔
اب بتاؤ حسن !،،،،احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا۔۔۔ اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ،ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا، ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے، یہ ہمیں کر ہی لینے پڑیں گے، اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے، اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو ،یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے، اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا۔
ہاں استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آدمی تو کام کا لگتا ہے ،لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں، جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے، یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے، احتیاط لازمی ہے۔
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی۔ اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا، اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا، ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا، اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اب بات کرو یحییٰ !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ کیا وہم ہے، کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟۔۔۔ یحییٰ نے پوچھا۔۔۔ کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے ،اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟،،، خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے، حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو، حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی، یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا ،اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے، لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو ،حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی۔
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے۔۔۔ حسن کہہ رہا تھا ۔۔۔نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے، اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں، کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی ،کسی نے خدا کو عورت بنا دیا، کسی نے شیر ،کسی نے سانپ، اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا۔
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ!،،،، خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے، اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے، یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو، یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے، لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے، تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو، انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے۔
قابل تعظیم بزرگ!،،،، یحییٰ نے التجا کی۔۔۔ مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں۔
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں، تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو ،خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے، تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے، انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے، میں عالم ہوں تم عامل ہو، خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے، یہاں سے جانے کی نہ سوچنا ۔
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا، وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا ،اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا۔
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا ،اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟،تو وہ کیا جواب دے، اور وہ سیدھا سادھا بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے، جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،اسے احمد نے بلایا تھا ،وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں، چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت ،وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں، یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا۔
یحییٰ !،،،،احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے، اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو، یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے، خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں۔
ہر حکم بجا لاؤں گا۔۔۔ یحییٰ نے کہا ۔۔۔ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے۔
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو۔۔۔ احمد نے کہا۔۔۔ یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں، یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی، ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے، پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے، میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا۔
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو، ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے۔
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے، اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا ،وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا، یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی، پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا، کمانیں بہت سخت تھیں، لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے، یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو۔
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے ،وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے، وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے، بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے۔
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے، ایک تھی فرح، جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی، دوسری زرّیں تھی، جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا ،طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی۔
زریں غیرمعمولی طورپر حسین اور نوجوان لڑکی تھی، احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے، یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا ،اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی، اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی، اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے۔
زرین نے اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی، اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے، احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے، وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں۔۔۔۔ احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا ۔۔۔تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی، تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا، تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا، اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو، اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی ،اس کے جذبات کے ساتھ کھیلو اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو، اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو، اور اس کا خون چوستی رہو۔
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا ،لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا ،بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا، اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے، ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا ،اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا۔
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں!،،،، اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا۔۔۔ کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے۔
کیوں نہیں چاہوں گی۔۔۔ زریں نے کہا تھا۔
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں ۔۔۔اسے کہا گیا تھا۔۔۔ ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں، لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤ گی ،یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا ،،،،،،تم نے یہ ہیرا بننا ہے، تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے، لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے۔
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت، کتنا زبردست جادو اور طلسم ہے۔ حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے، حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے، اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے، عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے۔
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا ،اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا ،کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا ،بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا، پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا۔
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی، وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی، اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا، کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا ،چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے، یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی ،کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی، زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی، لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا، سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا ،وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا ،اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی، باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے، لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا، وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے۔
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شام گہری ہو چکی تھی، یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا ،اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی، جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی ،یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا ،وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا۔
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔تم برا تو نہ جانو گے۔
برا کیوں جانوں گا زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی،،،،،،،یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا،،،، تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو ،تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو۔
میرے پاس بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا۔۔۔ یہاں،،، میرے قریب بیٹھو۔
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا ،زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا۔
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ!،،،،، زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا۔۔۔ میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے، میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی ،میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے، بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو ،کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو۔
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے ۔
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔میں تمہیں صاف بتا دوں کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں!،،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں، جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟،،، ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو،،،،، میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا۔
وہ تم دیکھ لوگے۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔
میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے، لیکن میں خاموش رہا ،میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے، صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو۔
یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔۔۔ میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی۔
اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا۔
<========۔========>
جاری ہے بقیہ قسط۔9۔میں پڑھیں
<=====۔===========>
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/8
۔
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا، اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں۔
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے۔۔۔ سلطان ملک۔شاہ نے کہا ۔۔۔تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے، مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے، ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے، تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں ،میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ،ورنہ یہ سرکش اور باغی ہو جائیں گے۔
سلطان عالی مقام!،،،،، سپہ سالار نے کہا۔۔۔ میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے، مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے، شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے، احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے۔
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا، اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں، پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
گستاخی معاف سلطان محترم !،،،،،کوتوال نے کہا ۔۔۔کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے، لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے ،مجھے کچھ ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں۔
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے۔۔۔ سپہ سالار نے کہا ۔۔۔احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا، لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہو، وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو۔
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا۔
میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں۔۔۔ کوتوال نے کہا ۔۔۔ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا، بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا۔ بھیج دو !،،،،،ملک شاہ نے کہا ۔۔۔اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا ،میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا۔
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا ،اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی، عراقی عرب تھا ،خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی، جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش، ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا ،عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی، شہسوار تھا، تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا ۔
ابن الہادی !،،،،کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا۔۔۔ یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو، اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے، لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ،شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟ کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟،،،، یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا ۔
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے۔۔۔ کوتوال نے اسے بتایا۔۔۔ وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا، میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی !
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے، آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے، پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا، کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا۔
محترم استاد !،،،،ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں۔
نہیں حسن!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے،۔۔۔۔،احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا ۔۔۔کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد !،،،،،حسن نے کہا۔۔۔میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے، بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے،،،،،، میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا،،،،، اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے، اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟،،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔۔۔۔ ناچ گانا کراؤ گے ؟،،،جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے، پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ جشن تو ہم منائیں گے، لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے، وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، تیراندازی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے، اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے، ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا، یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا، کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے، جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے۔
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی ،پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے، جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے۔
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی ،لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے، شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی، گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا۔
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا، سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن عطاش کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ،ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں تھی ۔
میرے مرشد !،،،،،حسن بن صباح نے احمد سے کہا۔۔۔ یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن !،،،،،احمد نے کہا۔۔۔ ہمارا کام آسان تو نہیں ،ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے، تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں ،اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی، ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں، ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے، تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے۔
تفریح استاد محترم!،،،،، حسن نے کہا۔۔۔ انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے، انسان حقیقت کا مفرور ہے، لذت چاہتا ہے، آپ استاد ہیں، آفتاب ہیں آپ ، میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں، مجھے آپ کا سبق یاد ہے، ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے، اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں، زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے، اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
انہیں یہ خدا ہم دیں گے۔۔۔ احمد نے کہا ۔۔۔انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے۔
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی، باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی، شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا ،جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے، یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی، اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا ،اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا، برچھی بردار، سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے، ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا، روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔
اچانک دو نقارے بجنے لگے ،ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں، اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا، اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا، اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا، کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں، وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا۔
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو، یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے، احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے، جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں۔
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں، گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ ۔
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا۔
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے ،جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا ،اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے، پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے، ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا ،یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے، اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے۔
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے، پہلے تیر انداز کو بلایا گیا، پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا، تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا، لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا، تیرانداز نے بڑی پھرتی سے ترکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا، تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا۔
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا ،میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا ۔
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا ،اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے، لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا ،اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ،ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا۔
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا، اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے، لوگوں نے شور و غل بلند کیا ،تیر اوپر جاتے اور گرتے صاف نظر آتے تھے، یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ،ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا۔
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا، احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا ،اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا۔ تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی، کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو۔
یہ تیر انداز کون ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا ۔۔۔سامنے آؤ۔۔۔ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا۔
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا ،اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی۔
کیا نام ہے تمہارا؟،،،، احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا ۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟ کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے۔۔۔ تیر انداز نے جواب دیا۔۔۔ بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں، یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا، لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا، اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں، میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں۔
اجازت ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے، وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا ،یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا، آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا ۔
آفرین !،،،،،احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا۔۔۔ میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا، شاہ در ہی تمہاری منزل ہے۔
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے، یحیٰی نے بلند آواز سے کہا،،،، اور اس نے گھوڑے کو روک لیا۔
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا، تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے، یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا،
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا ،اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا ،اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا، وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا ،اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی، گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا ،یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا ،اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی، اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا ۔
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا ،وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے، انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا ،اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا ،اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بن عطاش سے ہو گیا ،موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا۔
*=÷÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا، اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے، کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا ،یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا۔
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے حسن سے کہا۔۔۔ ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔
پوچھ لیں۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لگتا تو مسلمان ہے، معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا، یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا، میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر ہو رہے تھے، لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی، وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا، پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔شاید میں بھٹک گیا ہوں۔
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟،،،، احمد بن عطاش میں کہا ۔۔۔مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے، کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
رک جاؤں گا ۔۔۔یحییٰ نے جواب دیا۔۔۔ اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا ،لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو، یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا ،تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے ۔
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟،،،، یحییٰ نے پوچھا۔
یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا ،اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے۔
اپنی فوج!،،،،، احمد بن عطاش نے چونک کر کہا ۔۔۔میں اپنی فوج نہیں بناسکتا ،میں تو یہاں کا والی ہوں، فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے، میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں، تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے، گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے، اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے، تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو۔
میں مسلمان ہوں!،،،، یحییٰ نے کہا۔۔۔ لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں، سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گڑھ لیا ہے، کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں، میں تو مرد میدان تھا، آپ نے دیکھ ہی لیا، لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا ،میری روح تشنہ اور بے چین ہے۔
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا، حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا۔
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے، یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بٹھا لیں، اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی۔
اے بھٹکے ہوئے مسافر !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مرد میدان ہو، تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے، اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ،ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے، کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے۔
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا بپا کر رکھا تھا ،میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے، دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا، احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے، اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے۔
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا ،شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے، احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا، گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دھلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے، کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں ،یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے ،اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں۔
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں ،اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا، اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے۔
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے، اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو۔۔۔ احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا ۔۔۔تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے ،شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا، آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی ۔
مسلسل سفر میں ہوں ۔۔۔۔یحییٰ نے کہا۔۔۔ آپ نے ٹھیک جانا ہے، میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں، ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے، اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے۔۔۔
ہوجائے گا ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اسے یہیں لے آؤ۔
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا، سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا۔
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا، یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا ،وہ تو شاہانہ کمرہ تھا، یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا۔
اب بتاؤ حسن !،،،،احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا۔۔۔ اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ،ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا، ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے، یہ ہمیں کر ہی لینے پڑیں گے، اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے، اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو ،یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے، اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا۔
ہاں استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آدمی تو کام کا لگتا ہے ،لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں، جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے، یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے، احتیاط لازمی ہے۔
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی۔ اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا، اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا، ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا، اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اب بات کرو یحییٰ !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ کیا وہم ہے، کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟۔۔۔ یحییٰ نے پوچھا۔۔۔ کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے ،اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟،،، خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے، حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو، حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی، یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا ،اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے، لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو ،حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی۔
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے۔۔۔ حسن کہہ رہا تھا ۔۔۔نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے، اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں، کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی ،کسی نے خدا کو عورت بنا دیا، کسی نے شیر ،کسی نے سانپ، اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا۔
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ!،،،، خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے، اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے، یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو، یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے، لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے، تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو، انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے۔
قابل تعظیم بزرگ!،،،، یحییٰ نے التجا کی۔۔۔ مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں۔
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں، تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو ،خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے، تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے، انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے، میں عالم ہوں تم عامل ہو، خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے، یہاں سے جانے کی نہ سوچنا ۔
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا، وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا ،اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا۔
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا ،اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟،تو وہ کیا جواب دے، اور وہ سیدھا سادھا بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے، جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،اسے احمد نے بلایا تھا ،وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں، چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت ،وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں، یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا۔
یحییٰ !،،،،احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے، اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو، یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے، خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں۔
ہر حکم بجا لاؤں گا۔۔۔ یحییٰ نے کہا ۔۔۔ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے۔
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو۔۔۔ احمد نے کہا۔۔۔ یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں، یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی، ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے، پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے، میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا۔
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو، ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے۔
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے، اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا ،وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا، یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی، پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا، کمانیں بہت سخت تھیں، لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے، یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو۔
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے ،وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے، وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے، بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے۔
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے، ایک تھی فرح، جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی، دوسری زرّیں تھی، جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا ،طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی۔
زریں غیرمعمولی طورپر حسین اور نوجوان لڑکی تھی، احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے، یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا ،اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی، اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی، اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے۔
زرین نے اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی، اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے، احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے، وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں۔۔۔۔ احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا ۔۔۔تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی، تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا، تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا، اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو، اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی ،اس کے جذبات کے ساتھ کھیلو اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو، اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو، اور اس کا خون چوستی رہو۔
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا ،لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا ،بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا، اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے، ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا ،اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا۔
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں!،،،، اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا۔۔۔ کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے۔
کیوں نہیں چاہوں گی۔۔۔ زریں نے کہا تھا۔
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں ۔۔۔اسے کہا گیا تھا۔۔۔ ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں، لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤ گی ،یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا ،،،،،،تم نے یہ ہیرا بننا ہے، تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے، لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے۔
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت، کتنا زبردست جادو اور طلسم ہے۔ حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے، حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے، اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے، عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے۔
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا ،اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا ،کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا ،بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا، پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا۔
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی، وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی، اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا، کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا ،چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے، یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی ،کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی، زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی، لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا، سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا ،وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا ،اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی، باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے، لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا، وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے۔
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شام گہری ہو چکی تھی، یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا ،اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی، جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی ،یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا ،وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا۔
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔تم برا تو نہ جانو گے۔
برا کیوں جانوں گا زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی،،،،،،،یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا،،،، تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو ،تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو۔
میرے پاس بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا۔۔۔ یہاں،،، میرے قریب بیٹھو۔
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا ،زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا۔
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ!،،،،، زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا۔۔۔ میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے، میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی ،میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے، بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو ،کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو۔
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے ۔
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔میں تمہیں صاف بتا دوں کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں!،،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں، جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟،،، ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو،،،،، میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا۔
وہ تم دیکھ لوگے۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔
میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے، لیکن میں خاموش رہا ،میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے، صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو۔
یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔۔۔ میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی۔
اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا۔
<========۔========>
جاری ہے بقیہ قسط۔9۔میں پڑھیں
<=====۔===========>
No comments:
Post a Comment