Husn Bin Sba ka Nam Husn Bin Sba Kyu rakha gya?
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 03)
Dusro ko Phansane ke liye Aurat ko jaal me Dane ke jaisa kis Tarah istemal kiya jata hai?
Ager Mai Aeisi hoti Jaise Tum kah rahe ho to Abdul Malik ibn-E-Atas jaisa Darwesh Mujhe kabhi Apna nahi bnata...
Jab Husn Bin Sba ne Apne Ustad Abdul Malik ibne Ataas ke yaha Talim Mukamal kar liya.
بدی میں بڑی طاقت ہے حسن!،،، بدی میں کشش ہے، بدی میں لذت ہے، اور بدی میں نشہ ہے، یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے، ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے، تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی.
دوسروں کو پھنسانے کے لیے عورت کو زال میں دانے کے جیسا کیا طرح استعمال کیا جاتا ہے؟
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/3
۔
اگلے دن حسن بن صباح شہر کے قریب سے گذرنے والی ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا ،اس کے دماغ میں اپنے استاد کے سبق گھوم رہے تھے، گزشتہ رات کی طوفانی بارش سے ندی کی کیفیت میں طغیانی تھی ،اور ہر طرف کیچڑ تھا، حسن نے تنہائی میں شہر کے ہنگاموں سے دور کسی جگہ بیٹھ کر نجوم اور سحر کے سبق دہرانے تھے، کیچڑ میں وہ بیٹھنے کے لئے کوئی خشک جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔
کچھ دور جا کر اسے اتنا بڑا پتھر نظر آگیا جس پر وہ آسانی سے بیٹھ سکتا تھا ،وہ افق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا، آنکھیں بند کرلیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اس کے سامنے سورج ہونا چاہیے تھا لیکن سورج نہیں تھا اس کی بجائے ایک رنگ دار کپڑا تھا جو اس کے اور سورج کے درمیان آ گیا ،حسن سُن سا ہو گیا، اس نے ڈرتے ڈرتے اور بہت ہی آہستہ آہستہ نظریں اوپر اٹھائیں اسے ایک بڑا ھی حسین نسوانی چہرہ نظر آیا،،،،،، یہ ایک نوخیز لڑکی کا چہرہ تھا ،ہونٹوں پر ادھ کھلی کلی سی مسکراہٹ تھی، لڑکی اس سے صرف ایک قدم دور کھڑی تھی ۔
حسن ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ کہاں دیکھا ہے؟
اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ سحر کا کرشمہ ہوگا ۔
پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟،،،، لڑکی کی آواز میں ترنم تھا۔
حسن بن صباح نے سر کو ہلایا کہ ہاں وہ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔
اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی تھی۔۔۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
اوہ !،،،،،حسن کو یاد آ گیا ،،،،تم ہو،،،، ایک بات بتاؤ کیا تم حقیقت ہو یا میرے استاد کا تخلیق کیا ہوا تصور ہو جو اس نے حقیقی شکل میں میرے ذہن میں ڈال دیا ہے۔
لو دیکھ لو۔۔۔ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ حسن کے آگے کر کے کہا۔۔۔ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرو کہ میں تصور ہوں یا جیتی جاگتی ایک لڑکی ہوں۔
حسن نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں پر لے کر دبائے، ان کی حرارت محسوس کی ،انکا گداز محسوس کیا۔
تم کون ہو ؟،،،،،حسن نے جھنجھلا کر پوچھا۔۔۔ کیا ہو تم ،اگر تم حقیقت میں لڑکی ہی ہو تو کس کی بیٹی ہو، تم آبرو باختہ لڑکی ہو، جو برہنہ ایک نوجوان مرد کے سامنے بند کمرے میں بیٹھی رہی ہو۔
میری آبرو محفوظ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔اگر میں ایسی ہوتی جیسی تم کہہ رہے ہو تو عبدالملک ابن عطاش جیسا درویش مجھے منہ نہ لگاتا ،میں کنواری ہوں حسن!،،، میری طرف بہت سے ہاتھ بڑھے ہیں، مجھ پر دو جاگیرداروں کے بھی ہاتھ لگے ، میں کسی کے ہاتھ نہیں آئی.
تم کس باپ کی بیٹی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔
میرا باپ گڈریا ہے۔۔۔ اس نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ وہ دیکھو میری بکریاں ۔
حسن نے گردن گھما کر بکریاں دیکھ تو لیں لیکن اس کی دلچسپی لڑکی کے ساتھ تھی۔
تم میرے سامنے برہنہ کس طرح بیٹھ گئی تھی ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔
اس برگزیدہ آدمی نے حکم دیا تھا جسے ہم پیر و مرشد مانتے ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں ان کے حکم کو ٹال نہیں سکتی تھی، انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی تجھ پر ہاتھ ڈالے تو مجھے آواز دینا، انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کیواڑ کے چھوٹے سے سوراخ سے دیکھتے رہیں گے۔
کیا اب بھی تم میرا امتحان لینے آئی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔
نہیں!،،،، لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ اب اپنے دل کی کہنے پر آئی ہوں،،، تمہارے لئے آئی ہوں،،، اور میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں تمہارے ساتھ جسموں کا لین دین کرنے نہیں آئی ،اگر تم قبول کر لو تو اپنے دل میں جگہ دے دو پھر ہم ساری عمر کا ساتھ نبھائیں گے، تم تو بولتے ہی نہیں، کچھ کہو نا۔
لڑکی کا حُسن ایسا تھا کہ حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اسے دل میں جگہ نہیں دے گا ،لیکن اس کے دل پر اسکے استاد کا قبضہ تھا، وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کا دل اپنے اختیار میں نہیں، اس کے ساتھ ہی اسے یہ ڈر تھا کہ یہ بھی امتحان ہے، اس نے اس امتحان میں پورا اترنے کا تہیہ کر لیا۔
وہ پتھر پر بیٹھا تھا لڑکی زمین پر بیٹھ گئی اور ہاتھ اس کے زانو پر رکھ دیے ، پھر اس نے اپنی تھوڑی بھی اس کے ایک زانو پر رکھ دی، لڑکی کے سر پر سیاہ چادر تھی اس میں اسکا گورا چہرہ اور ایک گال پر لہراتے دو تین بال جو ریشم کے تاروں جیسے تھے حسن جیسے نوجوان کو اس لڑکی کے قدموں میں بٹھا سکتے تھے۔
تمہارا نام؟،،،، حسن نے پوچھا۔
فرح !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔نام تو فرحت ہے، گھر والے فرح کہتے ہیں، سہیلیاں فرحی کہتی ہیں، تم بھی فرحی کہو تو مجھے اچھا لگے گا۔
ایک بات بتاؤ۔۔۔ حسن نے پوچھا ۔۔۔تمہیں مجھ میں کیا خوبی نظر آئی ہے کہ جاگیرداروں کو ٹھکرا کر تم میرے پاس چلی آئی ہو ؟
یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جاگیرداروں نے تو میرے باپ کو دولت پیش کی تھی، میرا باپ ہے تو گدڑیا لیکن عزت اور غیرت والا آدمی ہے، ایک بات اور بھی ہے میرے باپ نے امام سے بات کی تھی ۔
امام کون؟
وہ جو تمہارے استاد ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ عبدالملک ابن عطاش انہوں نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو ضائع نہ کر دینا اور دولت کی چمک سے اندھے ہو کر اس کا ہاتھ کسی امیر کبیر کے ہاتھ میں نہ دے دینا، اس لڑکی کی زندگی کا راستہ کوئی اور ھے، میں امام کے گھر جاتی رہتی ہوں انہوں نے مجھے کہا ہے اپنی عصمت کو پاک رکھنا ،اور اپنا جسم صرف اپنے خاوند کو پیش کرنا، میں تمہیں اپنا خاوند بنانا چاہتی ہوں۔
میں نے پوچھا تھا کہ تم نے مجھ میں کیا خوبی دیکھی ہے؟
میں نے کہا تھا کہ یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔تم میں وہ مردانگی ہے جو مجھے اچھی لگی ہے، میں اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی اور تم نے میری طرف دیکھا تک نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بڑے مضبوط مرد ہو ، اور دلوں کی محبت کا مطلب سمجھتے ہو۔
فرحی معصوم سی لڑکی تھی اور ایک گڈریے کی بیٹی تھی، وہ علم اور فلسفی نہیں تھی کہ تجزیہ کرکے بتا سکتی کہ وہ حسن کی محبت میں کیوں گرفتار ہوئی ہے، اس نے ایسے انداز سے حسن کو اپنی محبت اور وفا کا یقین دلایا کہ حسن نے اس کی محبت کو قبول کر لیا۔
فرحی !،،،،حسن نے کہا ۔۔۔تم میرے دل پر غالب آ گئی ہو ، لیکن میں اپنے بزرگ استاد سے اجازت لے کر تمہیں جواب دوں گا ۔
کل یہاں آؤ گے۔۔۔ فرحی نے پوچھا ۔
آ جاؤں گا۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔
فرحی چلی گئی۔
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ابو مسلم رازی رے کا حاکم تھا، رے ایران کا بہت بڑا شہر تھا، تجارتی مرکز تھا اور اتنا زیادہ پھیل گیا تھا کہ اس کی وسعت صوبے جیسی ہو گئی تھی، اتنی وسیع و عریض شہر کے لیے بڑے ہی دانشمند اور قابل حاکم کی ضرورت تھی، ابو مسلم رازی میں یہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔
بعض تاریخوں میں اسے رے کا سلطان لکھا گیا ہے، یہ صحیح نہیں، البتہ یہ صحیح ہے کہ اسے تقریباً سلطان کے اختیارات حاصل تھے ،یعنی وہ سلطان سے اجازت لیے بغیر انتہائی اہم فیصلے کر سکتا تھا، کٹر اہلسنت والجماعت تھا۔
داستان گو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ حسن بن صباح کی زندگی بڑی ہی پراسرار تھی، جنت بنانے تک اس کی زیادہ تر سرگرمیاں زمین دوز رہی ہیں، وہ کس طرح ایسی شخصیت بنا کہ اس کے پیروکاروں کا حلقہ پھیلتا ہی چلا گیا ، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قلمبند کرنا آسان نہیں، یہ اس کی پس پردہ جدوجہد تھی جس میں مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثلا کسی واقعے میں بعض نے لکھا کہ اس وقت حسن کی عمر اتنی تھی، لیکن بعض نے کچھ اور ہی عمر لکھی، بعض شخصیات اور کرداروں کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
ہماری تاریخ کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی جڑ پکڑ چکی ہے، تاریخ ہر فرقہ کے تاریخ نویسوں نے لکھی، جس سے تاریخ کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ لکھنے والوں نے اپنے اپنے فرقے کے نظریات مفادات اور تعصبات کو سامنے رکھا اور واقعات کو مسخ کر ڈالا۔
جب ایک ہی واقعہ مختلف تاریخوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے تو ہمیں تمام تر پس منظر کو غور سے دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا ، یہ امر کتنا افسوسناک ہے کہ مسلمانوں نے فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنی تاریخ کو بھی فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ رات کا پہلا پہر تھا حسن بن صباح اپنے استاد عبد الملک ابن عطاش کے یہاں بیٹھا تھا ،اور اسے سنا رہا تھا کہ فرحی اسے ملی تھی، اور اس نے کیا کہا تھا۔
ایسی ہی ایک لڑکی نے تیری زندگی میں داخل ہونا تھا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔لیکن ابھی تیری شادی نہیں ہوگی، اس نے کہہ دیا ہے کہ وہ تجھے چاہتی ہے تو وہ تجھے ہی چاہتی رہے گی ،کوئی اس کے آگے دولت کے ڈھیر لگا دے گا تو وہ قبول نہیں کرے گی، وہ ہمیشہ تیری رہے گی۔
لیکن محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔کوئی شاہی جاگیر دار اسے اغوا نہ کرلے۔
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اسے کوئ ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ،میں نے اس کے گرد حصار کھینچ دیا ہے، کوئی شخص کتنا ہی جابر اور کتنا ہی بڑا حاکم کیوں نہ ہو فرحی کو بری نیت سے پھانسنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔
میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے میرا امتحان لینے کے لئے اسے میرے پاس بھیجا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا ۔۔۔یہ کوئی امتحان نہ تھا، لیکن یہ بات دماغ میں رکھ لے حسن!،،، خوبصورت عورت مرد کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتی ہے، میں تجھے یہ سبق دے چکا ہوں، فرحی جیسی حسین لڑکی تجھ پر اپنا نشہ طاری کر کے تیری کھال بھی اتار سکتی ہے، آگے چل کر میں تجھے بتاؤں گا کہ دوسروں کو پھانسنے کے لیے عورت کو جال میں دانے کے طور پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
تو کیا میں فرحی سے مل سکتا ہوں۔
ہاں !،،،،ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ تو اسے مل سکتا ہے، تو اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کر سکتا ہے، اور تیرا امتحان ہوگا کہ تو گناہ سے دامن بچا کر رکھنے کے قابل ہو جائے۔
کیا آپ مجھے پارسہ بنائیں گے ؟
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ ابھی ایسے سوال مت پوچھو، میں ابھی تجھے اندر اور باہر سے مضبوط کر رہا ہوں،،،اب تو اپنے گھر چلا جا، میں تجھے پھر کہتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں تجھے کیسی تعلیم اور کیسی تربیت دے رہا ہوں،،،، میں آج تجھے کوئی اور سبق نہیں دوں گا، کچھ لوگ آرہے ہیں۔
حسن بن صباح اپنے استاد کے گھر سے نکل رہا تھا کہ چار آدمی حویلی میں داخل ہوئے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
عبدالملک ابن عطاش ان ہی آدمیوں کے انتظار میں تھا۔
کیا یہی وہ لڑکا ہے جسے آپ تیار کر رہے ہیں؟،،،،،،
ایک آدمی نے پوچھا ۔۔۔ہم نے اسے باہر نکلتے دیکھا ہے۔
ہاں!،،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ یہی ہے۔
کیا یہ ہمارے محاذ اور مقصد کے لئے تیار ہو جائے گا؟،،،، اسی آدمی نے پوچھا۔
مجھے پوری امید ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ اس نوجوان میں جس کا نام حسن بن صباح ہے میں نے ایسے جوہر دیکھے ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی آدمی میں پائے جاتے ہیں، ایسی صلاحیتوں اور ایسے اوصاف والا انسان اللہ کا برگزیدہ اور لوگوں کا مرشد بنتا ہے، یا مجسم ابلیس بن جاتا ہے، دونوں صورتوں میں وہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتا ہے، مقبولیت بھی ایسی کہ اس کے مرید اور معتقد اس کے اشاروں پر ناچتے بلکہ اس کے اشارے پر جان تک قربان کر دیتے ہیں۔
یہ لڑکا کس طرف جاتا نظر آتا ہے؟
میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ اس میں ابلیسی اوصاف کچھ زیادہ ہیں، اگر یہ اس راستے پر چل نکلا تو بھی ہمارے لئے سود مند رہے گا ،میرے قبضے میں ہی میں اس کو روحانی تقویت دے رہا ہوں۔
کیا ہمیں تبلیغ کا کام تیز نہیں کر دینا چاہئے؟
تبلیغ تو ہو رہی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ہم یہ کام آزادی سے نہیں کر سکتے کیوں کہ حکومت اہلسنت کی ہے اور آبادی کی اکثریت بھی سنی ہے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہماری تبلیغ دیہات میں زیادہ ہونی چاہیے، وہاں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے۔
ہم نے دیہاتی علاقوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے شروع کر دیئے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔
صرف تبلیغ کافی نہیں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ حکومت اپنے ہاتھ میں آنی چاہیے، حکومت ہاتھ آجائے تو ہم سنی مسلک کو آسانی سے ختم کرکے لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ اصل اسلام ہمارے پاس ہے،،،،، لیکن حکومت آسانی سے ہاتھ نہیں آئے گی ہمیں مصر کے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنی پڑے گی۔
میں ایک شک میں پڑ گیا ہوں۔۔۔ ایک اور بولا۔۔۔ مصر کے حکمران تو عبیدی ہی ہیں، لیکن سنا ہے وہ باطنی ہیں۔
نہیں !،،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔وہ پکے اسماعیلی ہیں، اور وہ ہماری مدد کو ضرور آئیں گے، میں انہیں سلجوقی سلطنت پر حملے کے لئے اکساؤں گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ادھر ہمارے لوگ تیار ہوں، لیکن یہ تیاری پوشیدہ رہے، مصری حملہ آور آئیں اور ہمارے لوگ ہتھیار بند ہوکر ان سے جا ملیں، اتنی تیاری کے لیے بہت وقت چاہیے۔
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 03)
Dusro ko Phansane ke liye Aurat ko jaal me Dane ke jaisa kis Tarah istemal kiya jata hai?
Ager Mai Aeisi hoti Jaise Tum kah rahe ho to Abdul Malik ibn-E-Atas jaisa Darwesh Mujhe kabhi Apna nahi bnata...
Jab Husn Bin Sba ne Apne Ustad Abdul Malik ibne Ataas ke yaha Talim Mukamal kar liya.
بدی میں بڑی طاقت ہے حسن!،،، بدی میں کشش ہے، بدی میں لذت ہے، اور بدی میں نشہ ہے، یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے، ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے، تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی.
دوسروں کو پھنسانے کے لیے عورت کو زال میں دانے کے جیسا کیا طرح استعمال کیا جاتا ہے؟
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/3
۔
اگلے دن حسن بن صباح شہر کے قریب سے گذرنے والی ندی کے کنارے ٹہل رہا تھا ،اس کے دماغ میں اپنے استاد کے سبق گھوم رہے تھے، گزشتہ رات کی طوفانی بارش سے ندی کی کیفیت میں طغیانی تھی ،اور ہر طرف کیچڑ تھا، حسن نے تنہائی میں شہر کے ہنگاموں سے دور کسی جگہ بیٹھ کر نجوم اور سحر کے سبق دہرانے تھے، کیچڑ میں وہ بیٹھنے کے لئے کوئی خشک جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔
کچھ دور جا کر اسے اتنا بڑا پتھر نظر آگیا جس پر وہ آسانی سے بیٹھ سکتا تھا ،وہ افق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا، آنکھیں بند کرلیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اس کے سامنے سورج ہونا چاہیے تھا لیکن سورج نہیں تھا اس کی بجائے ایک رنگ دار کپڑا تھا جو اس کے اور سورج کے درمیان آ گیا ،حسن سُن سا ہو گیا، اس نے ڈرتے ڈرتے اور بہت ہی آہستہ آہستہ نظریں اوپر اٹھائیں اسے ایک بڑا ھی حسین نسوانی چہرہ نظر آیا،،،،،، یہ ایک نوخیز لڑکی کا چہرہ تھا ،ہونٹوں پر ادھ کھلی کلی سی مسکراہٹ تھی، لڑکی اس سے صرف ایک قدم دور کھڑی تھی ۔
حسن ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ کہاں دیکھا ہے؟
اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ سحر کا کرشمہ ہوگا ۔
پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو؟،،،، لڑکی کی آواز میں ترنم تھا۔
حسن بن صباح نے سر کو ہلایا کہ ہاں وہ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔
اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی تھی۔۔۔ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
اوہ !،،،،،حسن کو یاد آ گیا ،،،،تم ہو،،،، ایک بات بتاؤ کیا تم حقیقت ہو یا میرے استاد کا تخلیق کیا ہوا تصور ہو جو اس نے حقیقی شکل میں میرے ذہن میں ڈال دیا ہے۔
لو دیکھ لو۔۔۔ لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ حسن کے آگے کر کے کہا۔۔۔ میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرو کہ میں تصور ہوں یا جیتی جاگتی ایک لڑکی ہوں۔
حسن نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں پر لے کر دبائے، ان کی حرارت محسوس کی ،انکا گداز محسوس کیا۔
تم کون ہو ؟،،،،،حسن نے جھنجھلا کر پوچھا۔۔۔ کیا ہو تم ،اگر تم حقیقت میں لڑکی ہی ہو تو کس کی بیٹی ہو، تم آبرو باختہ لڑکی ہو، جو برہنہ ایک نوجوان مرد کے سامنے بند کمرے میں بیٹھی رہی ہو۔
میری آبرو محفوظ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔اگر میں ایسی ہوتی جیسی تم کہہ رہے ہو تو عبدالملک ابن عطاش جیسا درویش مجھے منہ نہ لگاتا ،میں کنواری ہوں حسن!،،، میری طرف بہت سے ہاتھ بڑھے ہیں، مجھ پر دو جاگیرداروں کے بھی ہاتھ لگے ، میں کسی کے ہاتھ نہیں آئی.
تم کس باپ کی بیٹی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔
میرا باپ گڈریا ہے۔۔۔ اس نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ وہ دیکھو میری بکریاں ۔
حسن نے گردن گھما کر بکریاں دیکھ تو لیں لیکن اس کی دلچسپی لڑکی کے ساتھ تھی۔
تم میرے سامنے برہنہ کس طرح بیٹھ گئی تھی ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔
اس برگزیدہ آدمی نے حکم دیا تھا جسے ہم پیر و مرشد مانتے ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں ان کے حکم کو ٹال نہیں سکتی تھی، انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی تجھ پر ہاتھ ڈالے تو مجھے آواز دینا، انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کیواڑ کے چھوٹے سے سوراخ سے دیکھتے رہیں گے۔
کیا اب بھی تم میرا امتحان لینے آئی ہو؟،،،، حسن نے پوچھا۔
نہیں!،،،، لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ اب اپنے دل کی کہنے پر آئی ہوں،،، تمہارے لئے آئی ہوں،،، اور میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں تمہارے ساتھ جسموں کا لین دین کرنے نہیں آئی ،اگر تم قبول کر لو تو اپنے دل میں جگہ دے دو پھر ہم ساری عمر کا ساتھ نبھائیں گے، تم تو بولتے ہی نہیں، کچھ کہو نا۔
لڑکی کا حُسن ایسا تھا کہ حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اسے دل میں جگہ نہیں دے گا ،لیکن اس کے دل پر اسکے استاد کا قبضہ تھا، وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کا دل اپنے اختیار میں نہیں، اس کے ساتھ ہی اسے یہ ڈر تھا کہ یہ بھی امتحان ہے، اس نے اس امتحان میں پورا اترنے کا تہیہ کر لیا۔
وہ پتھر پر بیٹھا تھا لڑکی زمین پر بیٹھ گئی اور ہاتھ اس کے زانو پر رکھ دیے ، پھر اس نے اپنی تھوڑی بھی اس کے ایک زانو پر رکھ دی، لڑکی کے سر پر سیاہ چادر تھی اس میں اسکا گورا چہرہ اور ایک گال پر لہراتے دو تین بال جو ریشم کے تاروں جیسے تھے حسن جیسے نوجوان کو اس لڑکی کے قدموں میں بٹھا سکتے تھے۔
تمہارا نام؟،،،، حسن نے پوچھا۔
فرح !،،،،لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔نام تو فرحت ہے، گھر والے فرح کہتے ہیں، سہیلیاں فرحی کہتی ہیں، تم بھی فرحی کہو تو مجھے اچھا لگے گا۔
ایک بات بتاؤ۔۔۔ حسن نے پوچھا ۔۔۔تمہیں مجھ میں کیا خوبی نظر آئی ہے کہ جاگیرداروں کو ٹھکرا کر تم میرے پاس چلی آئی ہو ؟
یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جاگیرداروں نے تو میرے باپ کو دولت پیش کی تھی، میرا باپ ہے تو گدڑیا لیکن عزت اور غیرت والا آدمی ہے، ایک بات اور بھی ہے میرے باپ نے امام سے بات کی تھی ۔
امام کون؟
وہ جو تمہارے استاد ہیں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ عبدالملک ابن عطاش انہوں نے کہا تھا کہ اس لڑکی کو ضائع نہ کر دینا اور دولت کی چمک سے اندھے ہو کر اس کا ہاتھ کسی امیر کبیر کے ہاتھ میں نہ دے دینا، اس لڑکی کی زندگی کا راستہ کوئی اور ھے، میں امام کے گھر جاتی رہتی ہوں انہوں نے مجھے کہا ہے اپنی عصمت کو پاک رکھنا ،اور اپنا جسم صرف اپنے خاوند کو پیش کرنا، میں تمہیں اپنا خاوند بنانا چاہتی ہوں۔
میں نے پوچھا تھا کہ تم نے مجھ میں کیا خوبی دیکھی ہے؟
میں نے کہا تھا کہ یہ میرے دل کا معاملہ ہے۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔تم میں وہ مردانگی ہے جو مجھے اچھی لگی ہے، میں اتنی دیر تمہارے سامنے برہنہ بیٹھی رہی اور تم نے میری طرف دیکھا تک نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بڑے مضبوط مرد ہو ، اور دلوں کی محبت کا مطلب سمجھتے ہو۔
فرحی معصوم سی لڑکی تھی اور ایک گڈریے کی بیٹی تھی، وہ علم اور فلسفی نہیں تھی کہ تجزیہ کرکے بتا سکتی کہ وہ حسن کی محبت میں کیوں گرفتار ہوئی ہے، اس نے ایسے انداز سے حسن کو اپنی محبت اور وفا کا یقین دلایا کہ حسن نے اس کی محبت کو قبول کر لیا۔
فرحی !،،،،حسن نے کہا ۔۔۔تم میرے دل پر غالب آ گئی ہو ، لیکن میں اپنے بزرگ استاد سے اجازت لے کر تمہیں جواب دوں گا ۔
کل یہاں آؤ گے۔۔۔ فرحی نے پوچھا ۔
آ جاؤں گا۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔
فرحی چلی گئی۔
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ابو مسلم رازی رے کا حاکم تھا، رے ایران کا بہت بڑا شہر تھا، تجارتی مرکز تھا اور اتنا زیادہ پھیل گیا تھا کہ اس کی وسعت صوبے جیسی ہو گئی تھی، اتنی وسیع و عریض شہر کے لیے بڑے ہی دانشمند اور قابل حاکم کی ضرورت تھی، ابو مسلم رازی میں یہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔
بعض تاریخوں میں اسے رے کا سلطان لکھا گیا ہے، یہ صحیح نہیں، البتہ یہ صحیح ہے کہ اسے تقریباً سلطان کے اختیارات حاصل تھے ،یعنی وہ سلطان سے اجازت لیے بغیر انتہائی اہم فیصلے کر سکتا تھا، کٹر اہلسنت والجماعت تھا۔
داستان گو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ حسن بن صباح کی زندگی بڑی ہی پراسرار تھی، جنت بنانے تک اس کی زیادہ تر سرگرمیاں زمین دوز رہی ہیں، وہ کس طرح ایسی شخصیت بنا کہ اس کے پیروکاروں کا حلقہ پھیلتا ہی چلا گیا ، یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قلمبند کرنا آسان نہیں، یہ اس کی پس پردہ جدوجہد تھی جس میں مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثلا کسی واقعے میں بعض نے لکھا کہ اس وقت حسن کی عمر اتنی تھی، لیکن بعض نے کچھ اور ہی عمر لکھی، بعض شخصیات اور کرداروں کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
ہماری تاریخ کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی جڑ پکڑ چکی ہے، تاریخ ہر فرقہ کے تاریخ نویسوں نے لکھی، جس سے تاریخ کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ لکھنے والوں نے اپنے اپنے فرقے کے نظریات مفادات اور تعصبات کو سامنے رکھا اور واقعات کو مسخ کر ڈالا۔
جب ایک ہی واقعہ مختلف تاریخوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے تو ہمیں تمام تر پس منظر کو غور سے دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا ، یہ امر کتنا افسوسناک ہے کہ مسلمانوں نے فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنی تاریخ کو بھی فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ رات کا پہلا پہر تھا حسن بن صباح اپنے استاد عبد الملک ابن عطاش کے یہاں بیٹھا تھا ،اور اسے سنا رہا تھا کہ فرحی اسے ملی تھی، اور اس نے کیا کہا تھا۔
ایسی ہی ایک لڑکی نے تیری زندگی میں داخل ہونا تھا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔لیکن ابھی تیری شادی نہیں ہوگی، اس نے کہہ دیا ہے کہ وہ تجھے چاہتی ہے تو وہ تجھے ہی چاہتی رہے گی ،کوئی اس کے آگے دولت کے ڈھیر لگا دے گا تو وہ قبول نہیں کرے گی، وہ ہمیشہ تیری رہے گی۔
لیکن محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔کوئی شاہی جاگیر دار اسے اغوا نہ کرلے۔
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اسے کوئ ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ،میں نے اس کے گرد حصار کھینچ دیا ہے، کوئی شخص کتنا ہی جابر اور کتنا ہی بڑا حاکم کیوں نہ ہو فرحی کو بری نیت سے پھانسنے کی کوشش کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔
میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے میرا امتحان لینے کے لئے اسے میرے پاس بھیجا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا ۔۔۔یہ کوئی امتحان نہ تھا، لیکن یہ بات دماغ میں رکھ لے حسن!،،، خوبصورت عورت مرد کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتی ہے، میں تجھے یہ سبق دے چکا ہوں، فرحی جیسی حسین لڑکی تجھ پر اپنا نشہ طاری کر کے تیری کھال بھی اتار سکتی ہے، آگے چل کر میں تجھے بتاؤں گا کہ دوسروں کو پھانسنے کے لیے عورت کو جال میں دانے کے طور پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
تو کیا میں فرحی سے مل سکتا ہوں۔
ہاں !،،،،ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ تو اسے مل سکتا ہے، تو اس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کر سکتا ہے، اور تیرا امتحان ہوگا کہ تو گناہ سے دامن بچا کر رکھنے کے قابل ہو جائے۔
کیا آپ مجھے پارسہ بنائیں گے ؟
نہیں!،،،، ابن عطاش نے کہا۔۔۔ ابھی ایسے سوال مت پوچھو، میں ابھی تجھے اندر اور باہر سے مضبوط کر رہا ہوں،،،اب تو اپنے گھر چلا جا، میں تجھے پھر کہتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتانا کہ میں تجھے کیسی تعلیم اور کیسی تربیت دے رہا ہوں،،،، میں آج تجھے کوئی اور سبق نہیں دوں گا، کچھ لوگ آرہے ہیں۔
حسن بن صباح اپنے استاد کے گھر سے نکل رہا تھا کہ چار آدمی حویلی میں داخل ہوئے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
عبدالملک ابن عطاش ان ہی آدمیوں کے انتظار میں تھا۔
کیا یہی وہ لڑکا ہے جسے آپ تیار کر رہے ہیں؟،،،،،،
ایک آدمی نے پوچھا ۔۔۔ہم نے اسے باہر نکلتے دیکھا ہے۔
ہاں!،،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ یہی ہے۔
کیا یہ ہمارے محاذ اور مقصد کے لئے تیار ہو جائے گا؟،،،، اسی آدمی نے پوچھا۔
مجھے پوری امید ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ اس نوجوان میں جس کا نام حسن بن صباح ہے میں نے ایسے جوہر دیکھے ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی آدمی میں پائے جاتے ہیں، ایسی صلاحیتوں اور ایسے اوصاف والا انسان اللہ کا برگزیدہ اور لوگوں کا مرشد بنتا ہے، یا مجسم ابلیس بن جاتا ہے، دونوں صورتوں میں وہ لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتا ہے، مقبولیت بھی ایسی کہ اس کے مرید اور معتقد اس کے اشاروں پر ناچتے بلکہ اس کے اشارے پر جان تک قربان کر دیتے ہیں۔
یہ لڑکا کس طرف جاتا نظر آتا ہے؟
میں ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ اس میں ابلیسی اوصاف کچھ زیادہ ہیں، اگر یہ اس راستے پر چل نکلا تو بھی ہمارے لئے سود مند رہے گا ،میرے قبضے میں ہی میں اس کو روحانی تقویت دے رہا ہوں۔
کیا ہمیں تبلیغ کا کام تیز نہیں کر دینا چاہئے؟
تبلیغ تو ہو رہی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ہم یہ کام آزادی سے نہیں کر سکتے کیوں کہ حکومت اہلسنت کی ہے اور آبادی کی اکثریت بھی سنی ہے، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہماری تبلیغ دیہات میں زیادہ ہونی چاہیے، وہاں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے۔
ہم نے دیہاتی علاقوں میں اپنے عقیدے کی تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے شروع کر دیئے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔
صرف تبلیغ کافی نہیں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ حکومت اپنے ہاتھ میں آنی چاہیے، حکومت ہاتھ آجائے تو ہم سنی مسلک کو آسانی سے ختم کرکے لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ اصل اسلام ہمارے پاس ہے،،،،، لیکن حکومت آسانی سے ہاتھ نہیں آئے گی ہمیں مصر کے عبیدیوں کی مدد حاصل کرنی پڑے گی۔
میں ایک شک میں پڑ گیا ہوں۔۔۔ ایک اور بولا۔۔۔ مصر کے حکمران تو عبیدی ہی ہیں، لیکن سنا ہے وہ باطنی ہیں۔
نہیں !،،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔وہ پکے اسماعیلی ہیں، اور وہ ہماری مدد کو ضرور آئیں گے، میں انہیں سلجوقی سلطنت پر حملے کے لئے اکساؤں گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ادھر ہمارے لوگ تیار ہوں، لیکن یہ تیاری پوشیدہ رہے، مصری حملہ آور آئیں اور ہمارے لوگ ہتھیار بند ہوکر ان سے جا ملیں، اتنی تیاری کے لیے بہت وقت چاہیے۔
اسی شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کے پاس دو سپہ سالار بیٹھے تھے، دو آدمی اور بھی تھے جو فوجی نہیں لگتے تھے یہ دونوں جاسوسی اور مخبری کے محکمے کے حاکم تھے۔
،،،،، اپنے مخبروں کو اور تیز کرو۔۔۔ ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ شہر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فتح کیا تھا، اور آتش پرست ایرانیوں کو اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، سلطنت کسریٰ کے تابوت میں آخری کیل یہیں ٹھونکی گئی تھی، ان اولین مجاہدین نے یہاں اسلام کا نور پھیلایا تھا، ان کی قبروں کے کہیں نشان نہیں ملتے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ یہیں دفن ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جانیں قربان کیں تھیں، ان کی روحیں یہی ہے ہمیں دیکھ رہی ہیں، اور یقینا بے چین ہوں گی کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہو گیا ہے کہ فرقوں میں بٹ گئی ہے۔
میرے رفیقو!،،،، میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا اور یہ بات معمولی سے دماغ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ملت میں اتحاد تھا تو مجاہدین تھوڑی سی تعداد میں دنیا کی اس وقت کی دو سب سے بڑی جنگی طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ فارس کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ،مگر آج وہی ملت فرقوں میں بٹ کر خانہ جنگی کے خطرے میں آن پڑی ہے، اس کا فائدہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے دشمنوں کو پہنچے گا۔
ہمیں مصر کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔۔۔ جاسوسی نظام کے ایک حاکم نے کہا ۔۔۔وہاں کے حکمران اسماعیلی کہلاتے ہیں، لیکن ہماری اطلاع یہ ہے کہ وہ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسماعیلیوں کو بد نام کر رہے ہیں، خطرہ یہ ہے کہ وہ اسماعیلیوں کو دھوکے میں اپنے ساتھ ملا کر ہم پر حملہ کر سکتے ہیں۔
ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔آپ کے جاسوسوں کی تمام اطلاعات میرے سامنے ہیں، مصر میں اپنے جاسوسوں کا موجود رہنا بہت ضروری ہے، اور یہاں اس شہر کے ہر گھر اور ہر فرد پر نظر رکھیں، اسلام کی وحدت کو پیش نظر رکھیں، قران کے اس فرمان کو اپنی حکومت کا بنیادی اصول بنائیں کہ امت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک جماعت ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آخری نبی تھے، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، یہ فرقے بعد میں پیدا ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں، یہ نبیوں نے نہیں عام قسم کے انسانوں نے بنائے ہیں اور یہ اسلام کے منافی ہیں، جس کے ہم پیروکار ہیں اصل اسلام وہ ہے جو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم چھوڑ گئے تھے ،یہاں کسی کے متعلق پتہ چلے کہ وہ فرقہ بندی کو ہوا دے رہا ہے تو مجھے اطلاع دو میں اسے ساری عمر کے لیے قید خانے میں ڈال دوں گا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
وقت گزرتا چلا گیا عبدالملک ابن عطاش نے حسن بن صباح کی تربیت جاری رکھی، حسن بھی بڑا خوبصورت جوان نکلا، عیاری اور فریب کارانہ اداکاری میں تو اس نے مہارت حاصل کر لی، فرحی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں، فرحی غیر معمولی طور پر دلیر لڑکی نکلی ،جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے ابن عطاش کی حوصلہ افزائی حاصل تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ابن عطاش کی مرید تھی اور اس کی ہر بات کو فرحی آسمان سے اتری ہوئی بات سمجھتی تھی، ابن عطاش نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی زندگی کا ساتھی حسن بن صباح ہے۔
حسن بن صباح پر پہلے جو خوف سا طاری رہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا ،اسے ابن عطاش نے کئی بار آدھی رات کے وقت قبرستان میں بھیجا تھا، ہر بار وہ حسن کو مردے کی کوئی نہ کوئی ہڈی لانے کو کہتا تھا، یا قبرستان میں بیٹھ کر کوئی عمل کرنا ہوتا تھا۔
ایک رات حسن قبرستان میں دو پرانی قبروں کے درمیان بیٹھا کوئی عمل کر رہا تھا ،اس رات بھی چاند پورا تھا وہ اپنے عمل میں محو تھا کہ اس کے قریب سی سی کی آوازیں اٹھیں، اس نے ذہن کو ایک مقام پر کرنے اور دنیا سے لاتعلق ہو جانے کی اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ اسے جیسے یہ آواز سنائی ہی نہ دی ہو، اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔
اس نے اپنے عمل کے مطابق آنکھیں کھولیں تو وہ چونک پڑا اس سے صرف دو قدم کے فاصلے پر اس کے سامنے سیاہ کالا ایک ناگ پھن پھیلائے ہوئے سی سی کر رہا تھا ، استاد نے اسے بتا رکھا تھا کہ قبرستان میں سانپ ہوتے ہیں، اگر کبھی سانپ سے آمنا سامنا ہو جائے تو وہ بے حس ہو جائے کوئی حرکت نہ کرے، اس سے سانپ کو یہ تاثر ملے گا کہ یہ کوئی بے جان چیز ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں، پھر سانپ چلا جائے گا۔
حسن بن صباح نے ناگ کو دیکھا تو پتھر مار کر اسے بھگانے کی بجائے بیٹھا رہا اور انگلی تک نہ ہلائی، ناگ اسے دیکھتا رہا اور اس کا پھن دائیں بائیں جھولتا رہا ،حسن نے ننگی تلوار زمین میں گاڑ رکھی تھی، اس نے تلوار کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا، اس کے دل میں خوف آنے لگا لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھے۔
ناگ ذرا سا آگے آیا، حسن کے لیے اپنے آپ پر قابو پانا محال ہو گیا، اس کے لئے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ اٹھ کر بھاگ جائے دوسری یہ کہ تیزی سے زمین سے تلوار اکھاڑے اور ناگ کو مارے، لیکن ناگ نے اپنا پھن لپیٹا اور پیچھے کو مڑ کر چلا گیا ، حسن نے اپنا عمل مکمل کیا اور گھر چلا گیا۔
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلی صبح عبدالملک ابن عطاش کے یہاں گیا، پہلے اسے بتایا کہ اس نے عمل مکمل کرلیا ہے، پھر بتایا کہ ایک ناگ اس کے سامنے آگیا تھا، اس نے تفصیل سے سنایا کہ ناگ کس طرح آیا اور کس طرح گیا۔
سانپ سانپ کو نہیں ڈسا کرتا ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میری بات سمجھو میں تجھے اسی مقام پر لانا چاہتا تھا، تو اپنی منزل کے آدھے راستے تک پہنچ گیا ہے، اب منزل تک تجھے کوئی اور پہنچائے گا ،میری استادی یہاں پر ختم ہو جاتی ہے۔
تو کیا مجھے کوئی اور استاد ڈھونڈنا پڑے گا؟،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔یا آپ مجھے کسی کے پاس بھیجیں گے۔
اس سوال کا جواب تجھے خواب میں ملے گا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔گزشتہ رات کا عمل جو تجھ سے کروایا ہے وہ کوئی معمولی عمل نہیں، ناگ کا تمہارے پاس آنا اور تجھے ڈسے بغیر چلے جانا، اس عمل کی کامیابی کا ثبوت ہے، اگر تو بھاگ آتا یا ناگ تجھے ڈس لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تو نے عمل صحیح نہیں کیا، یا عمل کسی اور وجہ سے ناکام ہو گیا ہے، پانچ سات دنوں کے اندر تو خواب میں کچھ دیکھے گا، وہ ایک راستہ ہوگا جو بہت ہی دشوار گزار ہو سکتا ہے اور بالکل آسان بھی۔
میری دعا ہے کہ تجھے راستہ دشوار نظر آئے، سکھ دکھوں میں سے گزر کر ہی ملتا ہے، دولت آسانی سے ہاتھ آجائے تو انسان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے خون پسینہ بہا کر اور محنت مشقت سے اپنی ہڈیاں تڑوا کر اکٹھا کیا جائے تو انسان اسکی قدر کرتا ہے، اگر گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے نہ ہوں تو اس پھول کی قدر و قیمت ختم ہوجائے،،،،،،
گزشتہ رات کے عمل نے تیرے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑ دیا ہے کہ تو ایک خواب دیکھے گا کہ تو کہیں جا رہا ہوگا ، اس راستے کو ذہن میں محفوظ کرلینا، جونہی ہی آنکھ کھلے کاغذ قلم لے کر یہ راستہ اور اس کے اشارے کاغذ پر اتار لینا، ہو سکتا ہے خواب میں تمہیں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی نظر آئے، ایک غار بھی نظر آئے گا اسے ذہن میں محفوظ کر لینا۔
محترم اتالیق!،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ خدائی اشارہ ہوگا؟
عبد الملک ابن عطاش نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر کچھ بھی نہ بولا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے شاگرد کے اس سوال کا جواب نہ دینا چاہتا ہو، اس نے آخر سر اٹھایا اور نظریں اپنے شاگرد کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔
اگر یہ کوئی راز کی بات ہے تو نہ بتائیں محترم اتالیق !،،،،حسن نے کہا۔
ہاں حسن!،،،،، نا بتاتا اس نے کہا ۔۔۔بات راز کی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ یہ راز بھی تجھے دے دوں، تو اس قابل ہو گیا ہے کہ ہر راز کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ سکتا ہے،،،،
میں نے آج تک تجھے جو سبق دیا ہے، اور جو عمل کروائے ہیں اور گزشتہ رات کا جو عمل تھا یہ خدائی عمل نہیں یہ ابلیسی عمل ہے، اس سے تجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے،،،،،،،،کیا تو آپ نے اپنے روحانی سکون محسوس نہیں کر رہا؟
ہاں محترم اتالیق !،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں آپ کو بتانا یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے آپ میں ایسا سکون محسوس کرتا ہوں جیسے میں فضاء میں اڑ رہا ہوں، اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میرے وجود میں ایک طاقت آگئی ہے جو چٹانوں کے بھی جگر چاک کر سکتی ہے۔
میں تجھے بتاتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تیرے اندر ایسے اوصاف غالب تھے جو ایسے ہی عملیات سے تجھے سکون اور طاقت دے سکتے تھے، یہ سب ابلیسی عملیات ہیں جنہیں اسلام نے گناہ قرار دیا ہے، یہ علم فرعونوں کے زمانے میں بھی تھا اور پھر اس علم کو یہودیوں نے اپنا لیا اور اس میں شہرت حاصل کی،،،،،، تو نے ایک بار کہا تھا کہ تو فرعون بننا چاہتا ہے، میں نے تیرے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ تو اس غار تک پہنچے گا جو تجھے خواب میں نظر آئے گا ، وہاں تیرا یہ علم مکمل ہوجائے گا، اب یہ مت سوچ کے یہ علم خدائی ہے یا ابلیسی۔
یہ سحر کا علم تھا جسے آجکل کالا جادو کہا جاتا ہے، ابن عطاش اس علم میں جتنی دسترس رکھتا تھا وہ اس نے حسن کے دماغ میں ڈال دیا تھا، اس دوران وہ حسن کو علم نجوم بھی پڑھاتا رہا تھا، تیسرے چوتھے دن حسن بن صباح ایک کاغذ اٹھائے اپنے استاد کے یہاں دوڑا گیا اور کاغذ اس کے آگے رکھ کر کہا کہ میں نے خواب میں یہ راستہ دیکھا ہے، اس نے یہ بھی کہا کہ یہ راستہ اگر خواب جیسا ہی ہے تو بہت ہی خوفناک ہے، وہاں تک زندہ پہنچنا مشکوک نظر آتا ہے۔
میں جانتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اگر تو نے یہ سفر بخیر و خوبی کرلیا تو سمجھ لے کے تو نے ساری دنیا فتح کر لی ہے، کل اس وقت نکل جا جب تجھے فجر کی اذان سنائی دے۔
اگلے روز جب سورج افق سے ابھرا تو شہر سے کوسوں دور دو گھوڑے جارہے تھے، ایک پر حسن بن صباح سوار تھا اور دوسرے گھوڑے پر فرحی سوار تھی ،گذشتہ رات جب وہ فرحی سے ملا تو اس نے فرحی کو بتایا کہ وہ کس سفر پر روانہ ہو رہا ہے، فرحی نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی، حسن نے اسے روکنے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن فرحی نہ مانی، وہ تو اس کے پیچھے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔
میری زندگی تمہارے ساتھ ہے حسن!،،،، فرحی نے کہا تھا میں پیچھے رہ گئی تو کسی جاگیردار یا کسی امیر وزیر کے ہاتھ چڑھ جاؤں گی، امام عبدالملک کب تک میری حفاظت کریں گے ،تم جس سفر پر جا رہے ہو یہ بڑا خطرناک ہے، معلوم نہیں زندہ لوٹ سکو گے یا نہیں، میں تمہارے ساتھ جینا اور تمہارے ساتھ مرنا چاہتی ہوں، اگر تم ساتھ نہیں لے چلو گے تو میں تمہارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گی، اس شہر میں نہیں رہوں گی۔
حسن بن صباح اتنا مجبور ہو گیا کہ وہ فرحی کو روک نہ سکا، حسن تو اپنے گھر والوں کو بتا کر گھر سے نکلا تھا اسے اس کے باپ نے خود ہی عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا، لیکن فرحی گھر والوں کو بتائے بغیر نکلی تھی، وہ اس وقت جاگ اٹھی تھی جب گھر والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے، گھوڑا اس کے ایک بھائی کا تھا ،وہ اندھیرے میں ہی گھر سے نکل آئی تھی، وہ جس قدر خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ مضبوط حوصلے والی تھی، حسن ابھی شہر سے تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ فرحی اس سے جا ملی۔
حسن کے ذہن میں خواب کی باریک سے باریک تفصیل بھی محفوظ تھی اور اس کے پاس کاغذ بھی تھا جس پر اس نے اشارے لکھے تھے ،اگر یہ کوئی سیدھا راستہ ہوتا تو وہ بہت ہی دور نکل گئے ہوتے، لیکن یہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، جنگل تھا کہیں بنجر علاقہ تھا، اور پھر پتھریلا علاقہ شروع ہوگیا ، پہلے ایک ندی آئی جو اتنی گہری نہیں تھی ان کے گھوڑے اس میں سے گزر گئے، لیکن آگے جو ندی آئی وہ خاصی گہری تھی اور پانی کا بہاؤ بھی خاصا تیز تھا، حسن نے راستے والا کاغذ ایک ہاتھ میں لے کر ہاتھ اونچا کر لیا تھا کہ یہ بھیگ نا جائے اور انہوں نے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے ،چونکہ بہاؤ تیز تھا اس لیے گھوڑے سیدھے جانے کی بجائے بہاؤ کے ساتھ بہتے گئے اور خاصی دور جا کر کنارے پر چڑھے۔
حسن نے ذہن پر زور دیا اور دیکھنے لگا کے وہ نشانیاں کہاں ہیں جو اسے خواب میں نظر آئی تھیں، اس نے کاغذ سے بھی مدد لی اور آگے بڑھنے لگا، آگے علاقہ چٹانی تھا اونچی نیچی چٹانیں بے آب و گیاہ تھیں، ان میں بعض نوکیلی اور بعض اوپر سے چپٹی تھیں، بعض کا رنگ سلیٹی اور بعض کوئلے کی طرح سیاہ تھیں، حسن دو چٹانوں کے درمیان چلا گیا، تھوڑی ہی دور جا کر یہ راستہ ایک طرف کو جاتا تھا ،وہ ادھر موڑا تو اسے بائیں کو مڑنا پڑا، اس طرح اسے چٹانوں نے کبھی دائیں کبھی بائیں اتنا زیادہ موڑا کہ وہ بھول ہی گیا کہ اسے کس سمت جانا ہے اور وہ ان بھول بھلیوں میں کس طرف سے داخل ہوا تھا۔
اس نے سورج سے سمت معلوم کرلی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا ایک ہی جگہ پر گھوم رہا ہے یا پیچھے کو جارہا ہے، سورج اپنے روزمرہ سفر پر چلا جا رہا تھا، اور افق سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ حسن پریشان ہو گیا اسے شام گہری ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا تھا ،اس نے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرلی۔
معلوم ہوتا ہے تم خواب والا راستہ بھول گئے ہو۔۔۔ فرحی نے کہا۔
میں خواب میں بھی اسی طرح ان بھول بھلیوں میں گھومتا رہا تھا۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ راستہ مل جائے گا۔
ان چٹانی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے اسے ایک ایسی چٹان نظر آئی جو اوپر سے آگے کو جھکی ہوئی تھی ،یہ قدرت کا ایک شاہکار تھا، یہ بغیر ستونوں کے برآمدے جیسی تھی، وہاں پہنچ کر حسن نے گھوڑا روک لیا اور فرحی سے کہا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔
دونوں گھوڑوں سے اتر آئے اور برآمدے کی چھت جیسی چٹان کے نیچے بیٹھ گئے، یہ کوئی غار تو نہیں تھا لیکن چٹان اندر سے ایک وسیع کھوہ جیسی ہو گئی تھی، اس کا فرش زمین کی سطح سے ڈیڑھ گز نیچے تھا، حسن تو بیٹھ گیا لیکن فرحی کھوہ میں دیکھنے لگی، اس نے یہ بھی کہا کہ رات گزارنی پڑی تو یہی گزاریں گے، اس کے ساتھ ہی اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی ۔
حسن تیزی سے اٹھا اور فرحی تک پہنچا۔
نیچے دیکھو حسن ۔۔۔فرحی نے کہا۔
حسن نے نیچے دیکھا انسانی ہڈیوں کے دو پنجر پڑے تھے، ان کے کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، ہڈیاں بالکل خشک ہو چکی تھیں، ایک پنجر مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا، عورت کی نشانی بڑی صاف تھی اس کے لمبے لمبے بال کھوپڑی کے قریب ہی پڑے تھے، دونوں اس پوزیشن میں نہیں تھے جس طرح لاش کو قبر میں سیدھا رکھا جاتا ہے۔
حسن کود کر نیچے چلا گیا ،اس نے مرد کی پسلیوں میں دیکھا وہاں ایک خنجر پڑا ہوا تھا، جن دو پسلیوں کے درمیان یہ خنجر پھنسا ہوا تھا وہاں سے دونوں پسلیاں تھوڑی تھوڑی کٹی ہوئی تھیں، ایک تلوار دونوں ڈھانچوں کے قریب پڑی تھی۔
معلوم نہیں یہ کون تھے۔۔۔ فرحی نے کہا۔
کوئی ہم جیسے ہی ہونگے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لیکن یہ کچھ اور معاملہ معلوم ہوتا ہے، اس آدمی کو سینے میں خنجر مار کر مارا گیا تھا، ہو سکتا ہے عورت کو اس تلوار سے مارا گیا ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری طرح ان بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہوں اور یہاں رات گزارنے کے لیے رک گئے ہوں ، میرا خیال ہے کہ یہ بھوک اور پیاس سے مرے تھے، ان کے پاس پانی نہیں تھا، ہوتا تو یہاں مشکیزہ پڑا ہوتا۔
حسن !،،،،،فرحی نے کہا ۔۔۔میں کبھی ڈری نہیں، لیکن میں دل پر خوف کی گرفت محسوس کر رہی ہوں، ہم یہاں نہیں رکیں گے۔
پھر ہمیں یہاں سے جلدی چل پڑنا چاہیے۔۔۔ حسن نے کہا۔
دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دو چٹانوں کے درمیان چلنے لگے، یہ تنگ سا راستہ انہیں ایسی جگہ لے گیا جہاں چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ذرا کھلا میدان تھا ،تین اطراف چٹانیں تھیں چوتھی طرف کی چٹان کے درمیان تھوڑا سا راستہ تھا، حسن اس طرف ہو لیا ۔
دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلے جا رہے تھے، جب دونوں اس تنگ سے راستے کے قریب گئے تو دونوں گھوڑے اپنے آپ ہی رک گئے، پہلے وہ کچھ بے چینی سے ادھر ادھر ہونے لگے، پھر دونوں گھوڑے کانپنے لگے انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگائی باگیں جھٹکیں لیکن گھوڑے کانپتے رہے اور آگے بڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔
وہ دیکھو فرحی!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ گھوڑے آگے نہیں بڑھیں گے۔
<=======۔=========>
جاری ہے بقیہ قسط۔4۔میں پڑھیں
<=========۔=======>
،،،،، اپنے مخبروں کو اور تیز کرو۔۔۔ ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ شہر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فتح کیا تھا، اور آتش پرست ایرانیوں کو اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا، سلطنت کسریٰ کے تابوت میں آخری کیل یہیں ٹھونکی گئی تھی، ان اولین مجاہدین نے یہاں اسلام کا نور پھیلایا تھا، ان کی قبروں کے کہیں نشان نہیں ملتے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ یہیں دفن ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جانیں قربان کیں تھیں، ان کی روحیں یہی ہے ہمیں دیکھ رہی ہیں، اور یقینا بے چین ہوں گی کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہو گیا ہے کہ فرقوں میں بٹ گئی ہے۔
میرے رفیقو!،،،، میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا اور یہ بات معمولی سے دماغ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ملت میں اتحاد تھا تو مجاہدین تھوڑی سی تعداد میں دنیا کی اس وقت کی دو سب سے بڑی جنگی طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ فارس کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ،مگر آج وہی ملت فرقوں میں بٹ کر خانہ جنگی کے خطرے میں آن پڑی ہے، اس کا فائدہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے دشمنوں کو پہنچے گا۔
ہمیں مصر کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔۔۔ جاسوسی نظام کے ایک حاکم نے کہا ۔۔۔وہاں کے حکمران اسماعیلی کہلاتے ہیں، لیکن ہماری اطلاع یہ ہے کہ وہ فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسماعیلیوں کو بد نام کر رہے ہیں، خطرہ یہ ہے کہ وہ اسماعیلیوں کو دھوکے میں اپنے ساتھ ملا کر ہم پر حملہ کر سکتے ہیں۔
ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔آپ کے جاسوسوں کی تمام اطلاعات میرے سامنے ہیں، مصر میں اپنے جاسوسوں کا موجود رہنا بہت ضروری ہے، اور یہاں اس شہر کے ہر گھر اور ہر فرد پر نظر رکھیں، اسلام کی وحدت کو پیش نظر رکھیں، قران کے اس فرمان کو اپنی حکومت کا بنیادی اصول بنائیں کہ امت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک جماعت ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آخری نبی تھے، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، یہ فرقے بعد میں پیدا ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں، یہ نبیوں نے نہیں عام قسم کے انسانوں نے بنائے ہیں اور یہ اسلام کے منافی ہیں، جس کے ہم پیروکار ہیں اصل اسلام وہ ہے جو اللہ کے آخری رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم چھوڑ گئے تھے ،یہاں کسی کے متعلق پتہ چلے کہ وہ فرقہ بندی کو ہوا دے رہا ہے تو مجھے اطلاع دو میں اسے ساری عمر کے لیے قید خانے میں ڈال دوں گا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
وقت گزرتا چلا گیا عبدالملک ابن عطاش نے حسن بن صباح کی تربیت جاری رکھی، حسن بھی بڑا خوبصورت جوان نکلا، عیاری اور فریب کارانہ اداکاری میں تو اس نے مہارت حاصل کر لی، فرحی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں، فرحی غیر معمولی طور پر دلیر لڑکی نکلی ،جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے ابن عطاش کی حوصلہ افزائی حاصل تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ ابن عطاش کی مرید تھی اور اس کی ہر بات کو فرحی آسمان سے اتری ہوئی بات سمجھتی تھی، ابن عطاش نے اسے کہہ دیا تھا کہ اس کی زندگی کا ساتھی حسن بن صباح ہے۔
حسن بن صباح پر پہلے جو خوف سا طاری رہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا ،اسے ابن عطاش نے کئی بار آدھی رات کے وقت قبرستان میں بھیجا تھا، ہر بار وہ حسن کو مردے کی کوئی نہ کوئی ہڈی لانے کو کہتا تھا، یا قبرستان میں بیٹھ کر کوئی عمل کرنا ہوتا تھا۔
ایک رات حسن قبرستان میں دو پرانی قبروں کے درمیان بیٹھا کوئی عمل کر رہا تھا ،اس رات بھی چاند پورا تھا وہ اپنے عمل میں محو تھا کہ اس کے قریب سی سی کی آوازیں اٹھیں، اس نے ذہن کو ایک مقام پر کرنے اور دنیا سے لاتعلق ہو جانے کی اس قدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ اسے جیسے یہ آواز سنائی ہی نہ دی ہو، اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔
اس نے اپنے عمل کے مطابق آنکھیں کھولیں تو وہ چونک پڑا اس سے صرف دو قدم کے فاصلے پر اس کے سامنے سیاہ کالا ایک ناگ پھن پھیلائے ہوئے سی سی کر رہا تھا ، استاد نے اسے بتا رکھا تھا کہ قبرستان میں سانپ ہوتے ہیں، اگر کبھی سانپ سے آمنا سامنا ہو جائے تو وہ بے حس ہو جائے کوئی حرکت نہ کرے، اس سے سانپ کو یہ تاثر ملے گا کہ یہ کوئی بے جان چیز ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں، پھر سانپ چلا جائے گا۔
حسن بن صباح نے ناگ کو دیکھا تو پتھر مار کر اسے بھگانے کی بجائے بیٹھا رہا اور انگلی تک نہ ہلائی، ناگ اسے دیکھتا رہا اور اس کا پھن دائیں بائیں جھولتا رہا ،حسن نے ننگی تلوار زمین میں گاڑ رکھی تھی، اس نے تلوار کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا، اس کے دل میں خوف آنے لگا لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھے۔
ناگ ذرا سا آگے آیا، حسن کے لیے اپنے آپ پر قابو پانا محال ہو گیا، اس کے لئے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ اٹھ کر بھاگ جائے دوسری یہ کہ تیزی سے زمین سے تلوار اکھاڑے اور ناگ کو مارے، لیکن ناگ نے اپنا پھن لپیٹا اور پیچھے کو مڑ کر چلا گیا ، حسن نے اپنا عمل مکمل کیا اور گھر چلا گیا۔
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
اگلی صبح عبدالملک ابن عطاش کے یہاں گیا، پہلے اسے بتایا کہ اس نے عمل مکمل کرلیا ہے، پھر بتایا کہ ایک ناگ اس کے سامنے آگیا تھا، اس نے تفصیل سے سنایا کہ ناگ کس طرح آیا اور کس طرح گیا۔
سانپ سانپ کو نہیں ڈسا کرتا ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میری بات سمجھو میں تجھے اسی مقام پر لانا چاہتا تھا، تو اپنی منزل کے آدھے راستے تک پہنچ گیا ہے، اب منزل تک تجھے کوئی اور پہنچائے گا ،میری استادی یہاں پر ختم ہو جاتی ہے۔
تو کیا مجھے کوئی اور استاد ڈھونڈنا پڑے گا؟،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔یا آپ مجھے کسی کے پاس بھیجیں گے۔
اس سوال کا جواب تجھے خواب میں ملے گا۔۔۔ ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔گزشتہ رات کا عمل جو تجھ سے کروایا ہے وہ کوئی معمولی عمل نہیں، ناگ کا تمہارے پاس آنا اور تجھے ڈسے بغیر چلے جانا، اس عمل کی کامیابی کا ثبوت ہے، اگر تو بھاگ آتا یا ناگ تجھے ڈس لیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تو نے عمل صحیح نہیں کیا، یا عمل کسی اور وجہ سے ناکام ہو گیا ہے، پانچ سات دنوں کے اندر تو خواب میں کچھ دیکھے گا، وہ ایک راستہ ہوگا جو بہت ہی دشوار گزار ہو سکتا ہے اور بالکل آسان بھی۔
میری دعا ہے کہ تجھے راستہ دشوار نظر آئے، سکھ دکھوں میں سے گزر کر ہی ملتا ہے، دولت آسانی سے ہاتھ آجائے تو انسان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے خون پسینہ بہا کر اور محنت مشقت سے اپنی ہڈیاں تڑوا کر اکٹھا کیا جائے تو انسان اسکی قدر کرتا ہے، اگر گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے نہ ہوں تو اس پھول کی قدر و قیمت ختم ہوجائے،،،،،،
گزشتہ رات کے عمل نے تیرے دل و دماغ پر ایسا اثر چھوڑ دیا ہے کہ تو ایک خواب دیکھے گا کہ تو کہیں جا رہا ہوگا ، اس راستے کو ذہن میں محفوظ کرلینا، جونہی ہی آنکھ کھلے کاغذ قلم لے کر یہ راستہ اور اس کے اشارے کاغذ پر اتار لینا، ہو سکتا ہے خواب میں تمہیں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی نظر آئے، ایک غار بھی نظر آئے گا اسے ذہن میں محفوظ کر لینا۔
محترم اتالیق!،،،، حسن نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ خدائی اشارہ ہوگا؟
عبد الملک ابن عطاش نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر کچھ بھی نہ بولا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے شاگرد کے اس سوال کا جواب نہ دینا چاہتا ہو، اس نے آخر سر اٹھایا اور نظریں اپنے شاگرد کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔
اگر یہ کوئی راز کی بات ہے تو نہ بتائیں محترم اتالیق !،،،،حسن نے کہا۔
ہاں حسن!،،،،، نا بتاتا اس نے کہا ۔۔۔بات راز کی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ یہ راز بھی تجھے دے دوں، تو اس قابل ہو گیا ہے کہ ہر راز کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ سکتا ہے،،،،
میں نے آج تک تجھے جو سبق دیا ہے، اور جو عمل کروائے ہیں اور گزشتہ رات کا جو عمل تھا یہ خدائی عمل نہیں یہ ابلیسی عمل ہے، اس سے تجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے،،،،،،،،کیا تو آپ نے اپنے روحانی سکون محسوس نہیں کر رہا؟
ہاں محترم اتالیق !،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں آپ کو بتانا یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے آپ میں ایسا سکون محسوس کرتا ہوں جیسے میں فضاء میں اڑ رہا ہوں، اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میرے وجود میں ایک طاقت آگئی ہے جو چٹانوں کے بھی جگر چاک کر سکتی ہے۔
میں تجھے بتاتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تیرے اندر ایسے اوصاف غالب تھے جو ایسے ہی عملیات سے تجھے سکون اور طاقت دے سکتے تھے، یہ سب ابلیسی عملیات ہیں جنہیں اسلام نے گناہ قرار دیا ہے، یہ علم فرعونوں کے زمانے میں بھی تھا اور پھر اس علم کو یہودیوں نے اپنا لیا اور اس میں شہرت حاصل کی،،،،،، تو نے ایک بار کہا تھا کہ تو فرعون بننا چاہتا ہے، میں نے تیرے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ تو اس غار تک پہنچے گا جو تجھے خواب میں نظر آئے گا ، وہاں تیرا یہ علم مکمل ہوجائے گا، اب یہ مت سوچ کے یہ علم خدائی ہے یا ابلیسی۔
یہ سحر کا علم تھا جسے آجکل کالا جادو کہا جاتا ہے، ابن عطاش اس علم میں جتنی دسترس رکھتا تھا وہ اس نے حسن کے دماغ میں ڈال دیا تھا، اس دوران وہ حسن کو علم نجوم بھی پڑھاتا رہا تھا، تیسرے چوتھے دن حسن بن صباح ایک کاغذ اٹھائے اپنے استاد کے یہاں دوڑا گیا اور کاغذ اس کے آگے رکھ کر کہا کہ میں نے خواب میں یہ راستہ دیکھا ہے، اس نے یہ بھی کہا کہ یہ راستہ اگر خواب جیسا ہی ہے تو بہت ہی خوفناک ہے، وہاں تک زندہ پہنچنا مشکوک نظر آتا ہے۔
میں جانتا ہوں۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اگر تو نے یہ سفر بخیر و خوبی کرلیا تو سمجھ لے کے تو نے ساری دنیا فتح کر لی ہے، کل اس وقت نکل جا جب تجھے فجر کی اذان سنائی دے۔
اگلے روز جب سورج افق سے ابھرا تو شہر سے کوسوں دور دو گھوڑے جارہے تھے، ایک پر حسن بن صباح سوار تھا اور دوسرے گھوڑے پر فرحی سوار تھی ،گذشتہ رات جب وہ فرحی سے ملا تو اس نے فرحی کو بتایا کہ وہ کس سفر پر روانہ ہو رہا ہے، فرحی نے کہا کہ وہ بھی ساتھ جائے گی، حسن نے اسے روکنے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن فرحی نہ مانی، وہ تو اس کے پیچھے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔
میری زندگی تمہارے ساتھ ہے حسن!،،،، فرحی نے کہا تھا میں پیچھے رہ گئی تو کسی جاگیردار یا کسی امیر وزیر کے ہاتھ چڑھ جاؤں گی، امام عبدالملک کب تک میری حفاظت کریں گے ،تم جس سفر پر جا رہے ہو یہ بڑا خطرناک ہے، معلوم نہیں زندہ لوٹ سکو گے یا نہیں، میں تمہارے ساتھ جینا اور تمہارے ساتھ مرنا چاہتی ہوں، اگر تم ساتھ نہیں لے چلو گے تو میں تمہارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گی، اس شہر میں نہیں رہوں گی۔
حسن بن صباح اتنا مجبور ہو گیا کہ وہ فرحی کو روک نہ سکا، حسن تو اپنے گھر والوں کو بتا کر گھر سے نکلا تھا اسے اس کے باپ نے خود ہی عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا، لیکن فرحی گھر والوں کو بتائے بغیر نکلی تھی، وہ اس وقت جاگ اٹھی تھی جب گھر والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے، گھوڑا اس کے ایک بھائی کا تھا ،وہ اندھیرے میں ہی گھر سے نکل آئی تھی، وہ جس قدر خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ مضبوط حوصلے والی تھی، حسن ابھی شہر سے تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ فرحی اس سے جا ملی۔
حسن کے ذہن میں خواب کی باریک سے باریک تفصیل بھی محفوظ تھی اور اس کے پاس کاغذ بھی تھا جس پر اس نے اشارے لکھے تھے ،اگر یہ کوئی سیدھا راستہ ہوتا تو وہ بہت ہی دور نکل گئے ہوتے، لیکن یہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا، جنگل تھا کہیں بنجر علاقہ تھا، اور پھر پتھریلا علاقہ شروع ہوگیا ، پہلے ایک ندی آئی جو اتنی گہری نہیں تھی ان کے گھوڑے اس میں سے گزر گئے، لیکن آگے جو ندی آئی وہ خاصی گہری تھی اور پانی کا بہاؤ بھی خاصا تیز تھا، حسن نے راستے والا کاغذ ایک ہاتھ میں لے کر ہاتھ اونچا کر لیا تھا کہ یہ بھیگ نا جائے اور انہوں نے گھوڑے ندی میں ڈال دیئے ،چونکہ بہاؤ تیز تھا اس لیے گھوڑے سیدھے جانے کی بجائے بہاؤ کے ساتھ بہتے گئے اور خاصی دور جا کر کنارے پر چڑھے۔
حسن نے ذہن پر زور دیا اور دیکھنے لگا کے وہ نشانیاں کہاں ہیں جو اسے خواب میں نظر آئی تھیں، اس نے کاغذ سے بھی مدد لی اور آگے بڑھنے لگا، آگے علاقہ چٹانی تھا اونچی نیچی چٹانیں بے آب و گیاہ تھیں، ان میں بعض نوکیلی اور بعض اوپر سے چپٹی تھیں، بعض کا رنگ سلیٹی اور بعض کوئلے کی طرح سیاہ تھیں، حسن دو چٹانوں کے درمیان چلا گیا، تھوڑی ہی دور جا کر یہ راستہ ایک طرف کو جاتا تھا ،وہ ادھر موڑا تو اسے بائیں کو مڑنا پڑا، اس طرح اسے چٹانوں نے کبھی دائیں کبھی بائیں اتنا زیادہ موڑا کہ وہ بھول ہی گیا کہ اسے کس سمت جانا ہے اور وہ ان بھول بھلیوں میں کس طرف سے داخل ہوا تھا۔
اس نے سورج سے سمت معلوم کرلی لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا ایک ہی جگہ پر گھوم رہا ہے یا پیچھے کو جارہا ہے، سورج اپنے روزمرہ سفر پر چلا جا رہا تھا، اور افق سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ حسن پریشان ہو گیا اسے شام گہری ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا تھا ،اس نے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرلی۔
معلوم ہوتا ہے تم خواب والا راستہ بھول گئے ہو۔۔۔ فرحی نے کہا۔
میں خواب میں بھی اسی طرح ان بھول بھلیوں میں گھومتا رہا تھا۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ راستہ مل جائے گا۔
ان چٹانی بھول بھلیوں میں گھومتے پھرتے اسے ایک ایسی چٹان نظر آئی جو اوپر سے آگے کو جھکی ہوئی تھی ،یہ قدرت کا ایک شاہکار تھا، یہ بغیر ستونوں کے برآمدے جیسی تھی، وہاں پہنچ کر حسن نے گھوڑا روک لیا اور فرحی سے کہا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔
دونوں گھوڑوں سے اتر آئے اور برآمدے کی چھت جیسی چٹان کے نیچے بیٹھ گئے، یہ کوئی غار تو نہیں تھا لیکن چٹان اندر سے ایک وسیع کھوہ جیسی ہو گئی تھی، اس کا فرش زمین کی سطح سے ڈیڑھ گز نیچے تھا، حسن تو بیٹھ گیا لیکن فرحی کھوہ میں دیکھنے لگی، اس نے یہ بھی کہا کہ رات گزارنی پڑی تو یہی گزاریں گے، اس کے ساتھ ہی اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی ۔
حسن تیزی سے اٹھا اور فرحی تک پہنچا۔
نیچے دیکھو حسن ۔۔۔فرحی نے کہا۔
حسن نے نیچے دیکھا انسانی ہڈیوں کے دو پنجر پڑے تھے، ان کے کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے، ہڈیاں بالکل خشک ہو چکی تھیں، ایک پنجر مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا، عورت کی نشانی بڑی صاف تھی اس کے لمبے لمبے بال کھوپڑی کے قریب ہی پڑے تھے، دونوں اس پوزیشن میں نہیں تھے جس طرح لاش کو قبر میں سیدھا رکھا جاتا ہے۔
حسن کود کر نیچے چلا گیا ،اس نے مرد کی پسلیوں میں دیکھا وہاں ایک خنجر پڑا ہوا تھا، جن دو پسلیوں کے درمیان یہ خنجر پھنسا ہوا تھا وہاں سے دونوں پسلیاں تھوڑی تھوڑی کٹی ہوئی تھیں، ایک تلوار دونوں ڈھانچوں کے قریب پڑی تھی۔
معلوم نہیں یہ کون تھے۔۔۔ فرحی نے کہا۔
کوئی ہم جیسے ہی ہونگے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لیکن یہ کچھ اور معاملہ معلوم ہوتا ہے، اس آدمی کو سینے میں خنجر مار کر مارا گیا تھا، ہو سکتا ہے عورت کو اس تلوار سے مارا گیا ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری طرح ان بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہوں اور یہاں رات گزارنے کے لیے رک گئے ہوں ، میرا خیال ہے کہ یہ بھوک اور پیاس سے مرے تھے، ان کے پاس پانی نہیں تھا، ہوتا تو یہاں مشکیزہ پڑا ہوتا۔
حسن !،،،،،فرحی نے کہا ۔۔۔میں کبھی ڈری نہیں، لیکن میں دل پر خوف کی گرفت محسوس کر رہی ہوں، ہم یہاں نہیں رکیں گے۔
پھر ہمیں یہاں سے جلدی چل پڑنا چاہیے۔۔۔ حسن نے کہا۔
دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دو چٹانوں کے درمیان چلنے لگے، یہ تنگ سا راستہ انہیں ایسی جگہ لے گیا جہاں چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں اور ذرا کھلا میدان تھا ،تین اطراف چٹانیں تھیں چوتھی طرف کی چٹان کے درمیان تھوڑا سا راستہ تھا، حسن اس طرف ہو لیا ۔
دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلے جا رہے تھے، جب دونوں اس تنگ سے راستے کے قریب گئے تو دونوں گھوڑے اپنے آپ ہی رک گئے، پہلے وہ کچھ بے چینی سے ادھر ادھر ہونے لگے، پھر دونوں گھوڑے کانپنے لگے انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگائی باگیں جھٹکیں لیکن گھوڑے کانپتے رہے اور آگے بڑھنے کی بجائے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔
وہ دیکھو فرحی!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ گھوڑے آگے نہیں بڑھیں گے۔
<=======۔=========>
جاری ہے بقیہ قسط۔4۔میں پڑھیں
<=========۔=======>
No comments:
Post a Comment